کتاب :اردو کی چند اہم ادبی داستانیں

کتاب :اردو کی چند اہم ادبی داستانیں

طلبا ء کو لیلائے امتحان کے گیسو سنوارنے میں مدد کرے گی صبا نوشاد کی یہ کتاب
زائرحسین ثالثی، جعفرآباد
zayerhusainsalsi@gmail.com
داستان ایسی رومانی کہانی کو کہتے ہیں جس میں خیالی واقعات کا بیان ،مافوق الفطرت عناصر کی تحیر خیزی ،حسن و عشق کی رنگینی، واقعات و حادثات کی بہتات وپیچیدگی اور بیان کی لطافت ہو اور اس کا مقصد اپنے قاری کو فرحت ومسرت کا سامان فراہم کرنا ہو۔اگرناول کو زندگی کا آئینہ کہا گیا ہے تو داستانوں میں بھی پوری زندگی کی فلم دیکھی جا سکتی ہے۔قوموں کے عروج و زوال کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کا حسین سنگم داستانوں نے ہی پیش کیا۔
سیکڑوں داستانوں کے درمیان بہت سی داستانوں کی کہانیاں زبان زد خاص وعام آج بھی ہیں۔جن میں الف لیلہ ،داستان امیر حمزہ،حاتم طائی کا قصہ، باغ و بہار، فسانۂ عجائب، بیتال پچیسی، وغیرہ وغیرہ۔
موجودہ دور میں جب کہ ایک جانب بے دردی کے ساتھ مواد کو کاپی پیسٹ کیا جا رہا ہے تو وہیں کچھ ایسے نوجوان قلم کار بھی ہیں جو اب بھی نئے خواب کی تحقیق و تلاش میں لگے رہتے ہیں۔انھی میں ایک نام صبا نوشادؔ کا بھی ہے۔
۲۰۲۰ ء جاتے جاتے اگر ہم سے کچھ اہم ادیبوں شاعروں کو اپنے ساتھ لیتا گیا تو نئی کلیوں نے بھی چٹکنا سیکھا۔کچھ تحریریں شرم و حیا کی چادر میں لپٹ گئیں تو کچھ تحریں عاشقوں کی چاہت میں پردۂ حسن ہٹا کر بے قرار ہو کر نکل پڑیں۔کچھ کتابوں نے دم توڑ دیا تو کچھ کتابوں نے جنم بھی لیا۔
ایک حسین دوشیزہ کی طرح ادب کے داستانی ایوانوں کی سیرو سیاحت کرتے ہوئے صبا نوشاد کی تحریریں اپنے الجھے گیسو سنوارتی،سنگار کرتی جلوۂ حسن بکھیرتی ہیں تو’’اردو کی چند اہم داستانیں ایک مطالعہ ‘‘ کاروپ لیتی ہیں۔
یہ کوئی بے جا تعریف نہیں۔ یہ کتاب اگر دعویٰ کرتی ہے کہ یہ یو جی سی نیٹ کے طلبا ء کو لیلائے امتحان کے گیسو سنوارنے میں مدد کرے گی تو اس میں شامل تمام داستانیں اپنے خدو خا ل ابھار کر اس کی دلیل بھی دیتی ہیں۔
ایک سال کی محنت لگن اور وہ بھی ایسے گھٹن کے ماحول میں جب موجودہ دور کے انسانوں نے اپنے آپ کو بند پنجرے میں محفوظ سمجھا تو پرندوں کو آزاد کرکے خود کو قید کر لیا۔ایسے ماحول میں صبا نوشاد کا قلم کن کن دشوار گزار راہوں پر سفر کرتا رہا،کتنی مشکلیں آئی ہوں گی، کتنی ٹھوکریں لگی ہوں گی،کتنے آنسو لفظوں سے لپٹ لپٹ کر رو رو کر بکھر گئے ہوں گے۔اس کا اندازہ نہ میں لگا سکتا ہوں نہ آپ ۔ یہ تو صبا نوشاد ہی بتاسکتی ہیں۔لیکن شایداب وہ بھی نہیں ۔کیوں کہ جب انسان کو مشکل راہوں سے گزر کر منزل ملتی ہے تو وہ سفر کی تھکان بھول جاتا ہے۔ شاید کہ کچھ ایسا ہی صبا نوشاد کے لئے بھی ہو۔لیکن راستے میں لگی ہوئی ٹھوکروں کے زخم تو جلد مندمل نہیں ہو پاتے۔
ایک صنف نازک کے لئے جس کواس کتاب کو سجانے سنوارنے کے ساتھ ساتھ والدین کے فرائض، بھائی بہنوں کی الفتیں تو کبھی اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو قلم کو پکڑا کر کاغذ کے صفحات پر نقش و نگار بنانا ہوا تو کبھی چولھے میں آگ جلا کر گرم گرم توے پر انھی ہاتھوں کی انگلیوں سے زندگی کا ساز پیدا کرنا ہوا۔اتنی سب ذمہ داری کے ساتھ صبا نوشاد کا اس الجھن کے ماحول میں جب زندگی کے ساتھ ساتھ تہذیبیں بھی بکھر رہی ہوں، اس کتاب کے لئے مختلف سمندروں سے ہیرے جواہر تلاش کرکے یکجا کرنا یقینا آب حیات کی تلاش ہی ہے۔
کتاب میں وہی داستانیں شامل کی گئی ہیں جو یو۔جی۔ سی۔ نیٹ کے نئے نصاب میں شامل ہیں۔ جن میں ملاّ وجہی کی ’’سب رس‘‘ ، فضل علی فضلی کی ’’کربل کتھا‘‘،میر محمد تقی خیال کی ’’بوستان خیال‘‘ ،میر امّن کی ’’باغ و بہا‘‘،انشا ؔ کی ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ ، رجب علی بیگ سرور کی ’’فسانۂ عجائب‘‘۔
آغاز میں پروفیسر صغیر ابراہیم کا مضمون ’’ داستانوں کے عروج و زوال کی کہانی‘‘اس کتاب کے لئے سونے پر سہاگا ہے۔اس کا مقدمہ خودصبا نوشاد نے لکھاہے۔کتاب اردو کے داستانوی ادب میں ایک اضافہ ہے۔
داستانوں کی تلخیص اس انداز سے کی ہے کہ پڑھنے والا طالب علم کہیں تشنگی محسوس نہیں کر سکتا۔داستانوں سے متعلق چھوٹے چھوٹے جملے آب حیات کی تلاش میں معاون ہیں. پھر اس کے بعد داستانوں کے اقتباس آب حیات تک پہنچا بھی دیتے ہیں۔
صبا نوشاد موجودہ دور میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔اور ’’ انیس رفیع‘‘پر اپنے تحقیقی کام انجام د ے رہی ہیں۔
صبا نوشادکے اس داستانوی ایوان کواگر ہم سب ایک طالب علم ، ایک ہم دم ، یا ان کے تعلق کی نظر سے دیکھیں گے توشاید کہ ہماری نظر وہ گل بوٹے نہ تلاش کر سکے جو سال بھر کی تحقیق و تلاش کے بعد بنائے گئے ہیں۔
داستانوں سے متعلق ۲۰۲۰ء میں اتنی زیادہ معلومات اوراتنے کم صفحات میں مجھے کسی اور کتاب میں دیکھنے کو نہیں مل سکی۔یقینا کتاب کے صفحات کو صرف سیاہی سے ہی کالا نہیں کیا گیا ہے بل کہ بہت تحقیق و تلاش کے بعد اسے سجایا سنوارا گیاہے۔
ایسا نہیں کہ صبا نوشاد نے کتاب مجھے فری بھیجی اور میں نے قلم اٹھایا دوچار جملے شان داری کے لئے لکھ دئے ۔جب آپ کتاب کو ضرورت کی نیت سے خرید کر پڑھیں گے تب آپ کو اس کتاب کے لئے بہائے گئے خون پسینے کی خوشبو محسوس ہوگی۔
اس کتاب کو اپنی ضرورت سمجھ کر پڑھیے پھر اندازہ لگائیے کہ میرا دعویٰ صرف مبالغہ آرائی ہی نہیں اس تمام مضمون کی دلیل بھی ہے۔
چھوٹا بھائی ہوتے ہوئے بڑی بہن کے کتنے لفظی ارمان جن کو ابھی مکمل ہونا ہے اور ان شااللہ ہوگا بھی ان کو دعاؤںسے زیادہ اور کیا دے سکتا ہوں۔تعریف کیا کروں چھوٹا بڑے کی تعریف کرے تو لوگ مبالغہ مانتے ہیں۔ ابھی تو مجھے خود ہی ان سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔
پھر بھی اس کتاب کے لئے مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا انھیں سلامت رکھے. انھیں مزید لکھنے کی توفیق عطا کرے۔ورنہ پھر اپنے اس چھوٹے بھائی کو اپنی پیاری باتوں کی خوشبوؤں سے کون معطر کرے گا.
آمین
زائر حسین ثالثی جعفرآباد


Zayer Husain Salsi s/o Alhaj Mohammad Jafar Sahab
Mohallah:- Jafrabad (Badi Masjid) Post:- Jalalpur,
District:- Ambedkar Nagar, State:- U.P.
Pin Code:- 224149(INDIA)
Mobile:- 9795135631,8127767258
E-mail:- zayerhusainsalsi@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے