سید محمد اشرف کے افسانہ روگ کا تجزیاتی مطالعہ

سید محمد اشرف کے افسانہ روگ کا تجزیاتی مطالعہ

نثارانجم

افسانہ روگ مطالعاتی حسن سے مزیں افسانہ ہے۔ زبان کیا ہے قلقلاتی ہوئی مینا یا پھر کہ آبشار۔۔ایک روانی ہے جو کلائمکس تک طاری ہے۔
یہاں افسانے میں ٹوٹے دانت والے ہاتھی، سنسان جنگل خوف کے استعارے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ جس کا بیان تہذیبی کثافت کے تناظر میں مطالعہ حسن کے ساتھ ہوا ہے۔ افسانے میں ایک سرد دسمبر کی رات ایک کار میں سوار چند افراد ٹوٹے دانت والے ہاتھیوں کی گھیرا بندی میں پھنس جاتے ہیں۔ ہاتھیوں کے نرغے میں پھنس جانے والے افراد کی نفسیاتی کیفیت کو جزیات نگاری کے ساتھ اور تمثیلی اظہار میں بیان کیا گیا ہے۔
سید محمد اشرف کے افسانے انسان، معاشرہ، تہذیب کے باطن میں چھپے وحشی حیوانوں کو اجاگر کرتے ہیں۔یہاں افسانہ نگار تہذیبی کثافت کے باطنی اندھیرے جنگل میں کسی رینجر کی طرح ہاتھ میں بندوق، کارتوس ٹارچ اور دیا سلائی کے ساتھ اس تہذیبی کثافت والے الاؤ میں مستعد ملتے ہیں. سید اشرف صاحب کی فکر کا یہ سیریز لکڑ بگھے کے رونے اور چپ ہونے کے درمیان ٹوٹے دانت والے ہاتھی کی وحشت سے تھراتی زندگی کا فسانہ ہے اور افسانہ نگار اس نفسیاتی کیفیت کا نوحہ گر بھی ہے۔ ان کے افسانوں میں علامتی کردار کی طرح رول پلے کرنے والے یہ حیوان ہیں۔ دراصل یہ انسان تہذیب کی بے راہ روی کی علامت کے طور پر نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنے آستینوں میں فطرت حیوانی کے صفاتی بت چھپا رکھے ہیں اور باطن میں خوف کا جنگل ہے جہاں یہ ٹوٹے دانت والے درندے دندناتے پھر رہے ہیں۔ جانوروں کے کردار کے علاوہ ان کے یہاں ایسے کئی کامیاب افسانے بھی ہیں جن میں کثافت تہذیب، خوف، ہجرت، غم اور کرب بھی شدت احساس کے ساتھ ملتا ہے. فکشن میں سید محمد اشرف کے افسانوں کی معنوی اہمیت صرف حیوانوں اور ایک مخصوص عہد کے تفہیم کے پیرایۂ میں ہی نہیں بلکہ أج کی تہذیبی کثافت سے relate کرکے دیکھ سکتے ہیں لیکن افسانے کا موضوع debate able اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے افسانے کی طرح treat کرنے کی ضرورت ہے۔
 افسانہ روگ کی تخلیق کرنے والے دماغ کے کینوس پر ان تہذیبی کثافتوں کے مشاہدات مرتسم ہیں۔ یہاں انھوں نے گھپ جنگل میں کار کے اندر پھنسے بیٹھے افراد کی نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ جہاں خوف سے زندگی اپنے اطراف window pane تان دیتی ہے۔ wiper stick باہر کے منظر کو اپنی خاموشی اور بےعملی سے اور گہرا کر رہا ہے۔ تہذیبی کثا فت اپنی سانسیں اندر اتار لیتی ہے۔ خوف کے تحت کار میں بیٹھے افراد اپنی آواز کا گلا بھی گھونٹ دیتے ہیں تاکہ آواز اس بند جگہ سے باہر نہ جائے جہاں گھپ اندھیرے میں ٹوٹے دانت والے ہاتھی سونڈ اٹھائے گھیرا بنائے کھڑے ہیں۔ کار میں بیٹھے افراد خوف کے تزکیہ کے لیے وہ خود کو  تھپکی بھی دے لیتے ہیں۔
کار میں بیٹھا راوی دوسروں سے نظریں ملائے بغیر نئی نسل کی بند مٹھی کو چپکے سے کھول کر دیکھ اور سر جھکا کر اکتفا کرلینے میں ہی سلامتی محسوس کرتا ہے۔
سید محمد اشرف کے افسانوں میں ہجرت کے غم کا ناسٹیلیجک کرب بھی ہے، تہذیب و معاشرہ و تمدن کی خستگی بھی اور بدلتی ہوئی انسانی قدروں کا نوحہ بھی ہے. وہ آلودہ ہوتی ہوئی صالح گنگا جمنی تہذیب کے نوحہ گر بھی ہیں۔
سید محمد اشرف اپنے افسانوں میں فکر کے کاندھے پر stethoscope اور pulse bit apparatus کے ساتھ ملتے ہیں۔ افسانہ نگار تہذیب و تمدن کے intensive care unit میں اپنے عہد کے فرد اور زوال آمادہ معاشرے کی اکھڑتی سانسوں پر ٹنگی ڈرینکر اپراٹس کے سامنے ایک نباض معاشرہ کی حیثیت سے نظر اتے ہیں۔
سید اشرف کے افسانوں کی بنت، کردار، ماحول اور موضوع کی خاصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں ایک perfectionist کی طرح obsession ہے۔ ان کے کینوس فکر پر جب کوئی موضوع اپنے وجود کی لکیریں خود کھینچ لیتا ہے، سید صاحب ایسے رنگ افکار بنانے میں پورے انہماک سے جٹ جا تے ہیں جو کردار، زبان اور ماحول اور پیشکش کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ یہاں عصری حقیقتوں کی اس ڈارک شیڈس کو بھی علامتی استعارے اور تمثیلی پرت میں بڑی ندرت کے ساتھ برتتے ہیں. ہاتھیوں کی فوج سے گھری ہوئی گاڑی کے اندر وہ لکڑ بگھا بھی ہے جو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دو نالی بندوق لیے بیٹھا ہے اور خوف تقسیم کررہا ہے. گاڑی میں ان لوگوں کو معلوم ہے کہ باہر ہاتھیوں کا گھیرا ہے۔ گو کہ باہر اندھیرےکا اژدہا  ممکنہ روشنی کو نگل کر اندھیرے کو اور دبیز کررہا ہے۔ تہذیبی کثافت کی یہ  بے راہ و روی اور بے سکونی روگ کے منظر نامے میں تمثیلی اشارے اور علامت میں مل جاتے ہیں۔ افسانہ ”روگ“ پہلی قرات میں ایک جنگل کی مہم کی طرح لگتا ہے جس میں خوف کی شکار جنگل سے جڑی آبادی کو ہاتھی کے قہر سے بچانے کے لیے رینجر مستعد ملتا ہے اور رینجر کی جدوجہد کی روداد کی طرح لگتا ہے۔ لیکن اس سفر کے دوران کرداروں کے درمیان مکالموں میں ادھورے رہ جانے والے بین السطور کے ان کہے جملے اصل کہانی کو ساتھ لیے چلتے رہتے ہیں۔ افسانے کے منظر نامے میں جزئیات نگاری اتنے عمیق اور باریک ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے سید محمد اشرف ٹاور آف سرچ کی اونچائی پر کھڑے تھری ڈی کیمرے سے fauna and flaura کے ساتھ جنگل کے ماحول میں pouching seeding  اور sericulture کی نگرانی کے ساتھ ہاتھیوں کے غول کی پناہ میں چھپے اس چھوٹے سے ہاتھی کے بچے کا بھی نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ اس کے ٹوٹے دانتوں والے سے پیدا ہونے والے نفسیاتی خوف کی ہر زوایہ سے  اچھی طرح سے اسکیچ بھی کرتے ہیں۔۔
اس افسانوی سفر کے دوران خوف کے لمحہ بہ لمحہ بڑھتے سایے کو ایک اندھیری رات میں ایک حسین عورت اور اس کے بھانجے راجو، دس ہزار روپے، رمیش، جنگل کا سناٹا پن، دسمبر کی سرد رات، ٹوٹے دانت والے ہاتھی، گاڑی کے شیشے پر جما کہرا، وائپر، گہرے ہوتے اندھیرے، کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔ خوف کے اس ایپی سوڈ کو ایک نئی صبح کی پہلی کرن تک ایک مکمل سکوت اور احتیاط کے ساتھ ٹالنے کی کو شش افسانے میں جاری ہے۔
افسانے کے کلا ئمکس میں بچے کی مٹھی میں بند خوف کی کیتھرائسس کے وہ وظائف ہیں جو اس کے رفع کرنے کی تدبیر کے لیے ایک talisman کی طرح اس کی مٹھی کی گرفت میں ہے اور ایک نفسیاتی حربے کی طرح آ گئے ہیں۔ وہ یا تو وہ دیا سلائی ہے جس میں تیلی نہیں ہے یا پھر وہ ایک تعویذ ہے ایک حفاظتی حالہ ہے جو اسے ورثے میں ملا ہے۔
افسانہ نگار نے یہاں ایک خوف زدہ ماحول کی عکاسی ماہر نفسیات کی طرح کی ہے اور کار کے باہر کے مناظر کو کار کے اندر بیٹھے افراد پر غالب آتے خوف کو پیش کیا ہے۔
قاری کو بھی ایسا محسوس ہوتا ہے گاڑی ایک جھٹکے سے رُک گئی ہے. 
لائٹ بجھ گئی ہے اور سامنے روگ کھڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔!!!
قاری بھی خوف کی اس ٹھنڈی ٹھنڈی لہروں کو اپنی پشت اور شانوں اور کمر کے پاس لہراتا محسوس کرتا ہے۔
رائفل کی سیفٹی آن ہے۔۔۔۔ !!!
عقل کو چرکے لگاتا لپکتا ہوا خوف!!!
سڑک کی داہنی سمت سے۔۔۔۔۔۔ شاید بائیں طرف آرہا تھا، یا شاید سامنے سے آرہا تھا ۔ ۔۔۔۔۔روگ!!!
لائٹ آن۔۔۔۔۔۔ ۔ بالکل گاڑی کے پاس ۔۔۔! “
قاری نے بھی پیچھے مُڑ کر دیکھا، تاریک سڑک پر کچھ تھا۔
سب کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔
خوف کے سایے کا کھیل اندر ذہن میں، گاڑی میں، زندگی میں کیمکل امبائلینس ڈر کی پسی ہوئی بجلیاں گھول رہا ہے۔ کیا واقعی باہر روگ کھڑا ہے یا یہ اندر کا وہ ڈری ہوئی نفسیات ہے جو معاشرے کے لاشعور میں خلق کررہا ہے۔ یا پھر یہ خوف کا واہمہ ہے. 
ایک سوال ہے جو بچے کی بند مٹھی اور نئی صبح تک قائم ہےاور اس صبح کا انتظار ہے جب اندھیرا چھٹے روشنی ہو اور جب شجر امن لہلہا اٹھے اور بکھرتی ہوئی گنگا جمنی تہذیب کی شیرازہ بندی ہوجاۓ۔ امن کلچر کی شیرازہ بندی کرنے والے اور نئی صبح کے متلاشی افسانہ نگار کو مبارک باد. 

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں : غیاث الرحمان کے افسانہ منڈاوالی کا تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے