سرورِ کونین کی فصاحت: ایک اہم علمی دستاویز

سرورِ کونین کی فصاحت: ایک اہم علمی دستاویز

وزیر احمد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی

مولانا شمس الحسن صدیقی المعروف شمس بریلوی [۱۹۱۹ء_۱۹۹۷ء] کا شمار ماضی قریب کے ممتاز اور جید عالم دین میں ہوتا ہے۔ تحقیق و جستجو اور علم و ادب کی متعدد پنگھٹوں سے سیراب ہونے کے بعد علمی دنیا میں جو قندیل آپ نے روشن کیا تھا، اس کی تابندہ شعائیں آج تک اسی چمک دمک کے ساتھ قائم ہیں اور جویان علم و فضل اس کی دودھیا چاندنی میں اپنے لیے خطوطِ راہ کی تعیین کر رہے ہیں۔ مختلف تراجم و اہم کتابوں پر آپ کے بصیرت افروز و بسیط مقدمات نے کافی شہرتیں بٹوری ہیں، یہی وجہ ہے کہ اہل علم و دانش کے یہاں آپ کا علمی و فکری قد آج بھی خوب بلند ہے اور تمام بیش بہا مقدماتی تحریروں، کتابوں اور تراجمی گل دستوں نے بازار علم و ادب میں اپنی عظمت و رفعت کا زبردست خراج وصول کیا ہے۔
علامہ شمس بریلوی جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک پڑھا لکھا اور علم دوست خاندان تھا۔ روہیل کھنڈ اور بریلی شریف کے مشاہیر علما میں شمس بریلوی کے والد ماجد، دادا، پردادا اور تایا جان مولوی ریاض الدین صدیقی بریلوی کا شمار ہوتا ہے۔ آپ نے برطانوی بھارت میں رہ کر ہی اپنی زندگی کا نصف حصہ تعلیمی سرگرمیوں میں گزارا اور آخر کار ۱۹۵۶ء/ میں پاکستان کو اپنا مسکن بنا لیا اور یہیں متعدد علمی اداروں سے وابستگی اختیار کرکے دینی و ملی اور علمی و ادبی کارنامہ انجام دینے لگے ، کچھ سالوں تک آپ "ایجوکیشنل پریس” سے وابستہ رہے اور پھر آخر عمر میں "مدینہ پبلشنگ کمپنی” کراچی سے جڑ گیے۔ مدینہ پبلشنگ سے وابستگی کے درمیان ہی آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کرنے کے علاوہ اہم کتابوں پر قیمتی مقدمات تحریر کرکے انھیں از سر نو شایع کروانے کا کام اعلیٰ پیمانے پر انجام دیا۔ اس ضمن میں مقدمۂ کشف المحجوب، مقدمۂ خصائص الکبریٰ، مقدمۂ فوائد الفوائد، مقدمۂ مدارج النبوۃ و مقدمۂ مکاشفۃ القلوب وغیرہ کافی اہم ہیں اور آپ کے ان تحقیقی و تصنیفی کاموں کو دیکھ کر ہی حکومت پاکستان نے ۱۹۹۵ء/ میں "ستارۂ امتیاز” سے بھی سرفراز کیا‌۔
آج جس طرح کا علمی گل دستہ راقم الحروف کے لیے تسلی قلب و نظر کا سامان بنا ہوا ہے، وہ علامہ شمس بریلوی کی ہی ایک یادگار و اہم تصنیف ہے۔ کلام و بیانِ رسول ﷺ کی خصوصیات و کمالات کو بیان کرنے والی ۳۶۶/ صفحات پہ مشتمل یہ کتاب شمس بریلوی کی جہد مسلسل اور سعی بلیغ کا بہترین ثمرہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب” سرور کونین کی فصاحت” باعتبار درون و بیرون اہل ذوق قارئین کے لیے بلا شبہ ایک نادر و نایاب تحفہ ہے۔ صاحب کتاب نے جس دقت نظری سے اسے سجایا اور رطب و یابس سے پاک و صاف کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ذوقِ قارئین کی تطہیر و تنقیہ کا بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ مصنف موصوف کی محنت و مشقت اور اس گل دستے کی اہمیت کا آپ درست اندازہ کتاب ہذا میں موجود اس اقتباس سے لگائیں۔ آپ لکھتے ہیں:
"مجھے اس موضوع کے تحت کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک طویل داستان ہے۔ صرف اتنا عرض کروں گا کہ خط عربی اور عربی زبان کے منابع و مصادر کے سلسلہ میں بڑی کاوش کرنا پڑی، میں نے صاحب قرآن کی فصاحت و بلاغت کو ملل قدیمہ کی تاریخ سے شروع کیا ہے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ نزولِ قرآن سے پہلے اقوام عرب کن مراحل سے گزریں اور کن کن خطوں میں آباد ہوئیں۔ ان کی معاشرتی حالت کیا تھی، ایام العرب فی الجاہلیہ، ان کی معاشرتی زندگی میں کس طرح کار فرما تھے۔ قرآن حکیم کے نزول سے پہلے ان کے ادب اور فنون کس منزل پر تھے، شاعری ان کے مذاق پر کس طرح چھائی رہتی تھی، ان کی فصاحت و بلاغت کس منزل پر تھی۔ قرآن حکیم کے سامنے اپنی زبان دانی پر ناز کرنے والے اپنی زبان کیوں نہ کھول سکے، قرآن حکیم کے وجوہ اعجاز کیا تھے۔ حدیث رسول ﷺ چوں کہ بیانِ قرآن ہے اس لیے قرآنی خصوصیات سے اس کو بہت کچھ حصہ ملا ہے، ان تمام عنوانات پر اختصار کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ صاحب قرآن ﷺ کی فصاحت و بلاغت کا کیا مقام تھا۔ آپ کے ارشادات گرامی، آپ کے جوامع الکلم، آپ کے ضرب الامثال، مکتوباتِ گرامی اور خطبات والا کی بلند پائیگی کا کیا عالم تھا، آپ کو فن شاعری کیوں نہیں سکھایا گیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ایک اچھوتی بحث اور نیا موضوع ہے، ان تمام مباحث پر میں نے اپنے مبلغ علم کے بقدر کھل کر لکھا ہے”۔[ص: ۱۶،۱۷]
یقیناً آقا کریم ﷺ کی ذات بابرکات پر بے شمار مصنفین، مولفین اور مترجمین نے قلم اٹھا کر اپنی اپنی استطاعت بھر گل ریزیاں کرنے کا کام کیا ہے، اس ضمن میں صرف قوم مسلم کی ہی تخصیص نہیں ہے بل کہ غیر مسلموں اور دیار مغرب کے مستشرقین نے بھی قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے، مگر ان مغربی مستشرقین میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے سیرت نگاری کے باب میں حزم و احتیاط سے کام نہ لے کر خیانت و ناانصافی کو راہ دینے کا کام کیا ہے۔ راست بازی سے صاف دامن چرا لینے کے ضمن میں ہی ولیم میور کی بلند ہونے والی کج فکری کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے سر سید نے اس کی بروقت گرفت کی اور دلائل و براہین کی روشنی میں مسکت جواب دیا۔
بر صغیر ہند و پاک میں بھی سیرت النبی ﷺ پہ سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی، علامہ عنایت رسول چریا کوٹی، قاضی سلیمان منصور پوری، شیخ علی متقی جون پوری اور علامہ عنایت کاکوروی وغیرہ وہی علمی ماہتاب ہیں جنھوں نے سیرت کے باب میں اہم یادگار چھوڑی ہیں۔ یقیناً آقا کریم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو اتنا تاب ناک ہے کہ اس پہ آپ دفتر کے دفتر سیاہ کرتے چلے جائیں، مگر حق ادا نہ کر سکیں گے۔ پیارے آقا ﷺ کی روشن حیات کی مختلف خصوصیات و کمالات پر ابتدا ہی سے اہل عقل و خرد نے خوب لکھا ہے اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔۔۔مگر فصاحت و بلاغت کی کسوٹی پر آپ ﷺ کے ارشادات و فرامین کو جانچنے و پرکھنے کا عمل خال خال ہی ملتا ہے۔ خالق کائنات نے فصاحت‌ِ کلام کی جس خوبی و کمال سے حضور ﷺ کو سرفراز فرمایا تھا، وہ بھی دیگر معجزات کی بھیڑ میں ایک عظیم معجزہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی یہ زبان دانی دیکھ کر خطہ عرب کے بلغا اور فصحا دم بخود ہو کر رہ گیے تھے۔
مصنف موصوف نے کتاب ہذا کی ترتیب میں جس طرح ضروری تانے بانے سے اسے باندھنے کا کام کیا ہے اس سے ایک عام قاری کے لیے بھی افہام و تفہیم کی راہیں مسدود ہونے کی بجائے واشگاف و درخشندہ ہو جاتی ہیں اور مضمون کی اہمیت دو چند ہوئے بغیر نہیں رہ پاتی‌۔ قدیم اقوام عرب کی تاریخ، مختلف قبائل کی زبانیں قرآن کریم میں، عربی زبان کا سرچشمہ، سامی نسل کا اقوام عرب سے رشتہ، شعراے عصر جاہلیت کے کلام میں قرآنی الفاظ کی جستجو اور عربی خط کے مصادر و منابع پہ گفتگو کا تار چھیڑنے کے ساتھ خط ہیرو، خط غلیفی، دیموطیقی،منیخی،پہلوی، عبرانی، اوسطائی، عمرانی اور خط کوفی وغیرہ کے اعلی نمونے بھی پیش کر دئے گیے ہیں۔ قدیم اقوام عرب سے شناسائی کے مختلف ذرائع جیسے: شعراے جاہلیت کے اشعار، نسابین کے بیان شدہ نسب ہاے قبائل، ملک یمن و دوسرے تاریخی شہروں میں پاے جانے والے کتبات و ویران عمارتیں اور قرآن کریم میں مذکور قوموں کے حالات و واقعات پر بھی اچھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ یہ ساری چیزیں پڑھنے اور سمجھنے کے بعد سرور کونین ﷺ کی فصاحتِ کلام و بیان کے اعلیٰ نمونے کھل کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ درمیان گفتگو یہ حقیقت بھی روشن ہوتی چلی جاتی ہے کہ پہلے پہل انسانوں نے اپنی سفر حیات کا پہیا ترقی و تہذیب کی راہ پر کیسے ڈالا اور دنیا کے سامنے اپنی ذکاوت و دانائی کے کیسے کیسے ثبوت پیش کیے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب آدمی دور حجری میں اپنی زندگی کاٹتا تھا، یعنی اینٹ پتھروں کا زمانہ۔ وہ پتھروں پر ہی اپنی یادداشتیں اور سفر حیات میں درپیش خوشی و غم کے تمام لمحات ایک ایک کر کے بقید تحریر کر لیتا، پھر "دور فلزی” کی ابتدا ہوئی اور آخر کار ایک دن اس نے تہذیب و تمدن اور تعمیر و ترقی کے دامن کو چھو لیا۔
عرب مورخین نے تاریخ عرب کو جس طرح تین طبقات یعنی عرب بائدہ، عرب عاربہ اور عرب مستعربہ میں تقسیم کیا ہے، اس پر بھی اچھی روشنی ڈالنے کے ساتھ مصنف موصوف نے ملکہ سبا اور قوم حمیری وغیرہ پر بھی اظہار خیال فرمایا ہے۔ عنوان "عربی زبان کا سرچشمہ” کے تحت تاریخی حوالوں کی روشنی میں یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ امم بائدہ[ امم سامیہ اول] کی زبان "آرامی” ہی تھی۔ ص: ۷۴ تا ۸۷/ پہ قرآن مجید میں موجود درجن بھر سے زائد قبائل عرب کی لغات کے الفاظ کی ایک ہلکی سی جھلک بطور تمثیل پیش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی لگے ہاتھوں خط عربی کے مصادر و منابع پر ایک نفیس بحث کا آغاز کیا گیا ہے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دورِ نزولِ قرآن میں اہل عرب، فصاحت و بلاغت کے اس اعلیٰ مقام پر پہنچ چکے تھے کہ جس کی نظیر اس دنیا میں موجود نہیں تھی‌۔ وہ ہمیشہ اپنی زبان کی آراستگی کے دھن میں لگے رہتے تھے۔ ان کی تمام تر ادبی خدمات کا محور یہی تھا کہ جہاں تک ممکن ہو شعر اور لغتِ عرب کی ترویج میں مشغول رہا جائے۔ وہ زبان و بیان کی تہذیب میں بہت آگے نکل گیے تھے اور کسی کو خاطر میں لانا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے علاوہ سب کو "عجمیت” سے یاد کرتے۔۔۔مگر جب آقا کریم ﷺ نے اپنی خدا داد علمی لیاقت و صلاحیت کا جوہر بکھیرنا شروع فرمایا تو فصیحان عرب کی زبانیں گنگ اور ان کے روشن چراغ گل ہو گیے، وہ علمی طنطنے جس کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا، فصاحتِ رسول ﷺ کے سامنے ماند پڑ گیا۔ مصنف موصوف نے انھی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے خطبات، خطوط، اقوال اور فرامین کی روشنی میں جو فرحت بخش تجزیہ پیش کیا ہے وہ آپ کی اخاذ طبیعت کی طرف واضح طور پہ اشارہ کرتی ہے۔ یقیناً یہ ایک ایسا علمی موضوع ہے جو مصنف سے بصیرت و بصارت، وسعت مطالعہ اور ژرف نگاہی کا بھرپور مطالبہ کرتا ہے اور علامہ شمس بریلوی نے اس اہم موضوع پہ اپنا کمالِ ہنر بڑی چابک دستی سے استعمال کر لیا ہے۔ اللہ وحدہٗ لاشریک نے خود آقا کریم ﷺ سے متعلق قرآن مجید میں ” و علمک مالم تکن تعلم” اور "و ما ینطق عن الھوی” جیسا عظیم کلمہ طیبہ ارشاد فرمایا ہے، مگر کسی مصنف کا عرب کے اس ماحول میں اتر کر ، جب کہ وہ اپنی فصاحت و بلاغت پہ نازاں اور اور ان کے سروں میں دن و رات بہتر سے بہتر کی طرف مائل بہ ترقی ہونے کا امنگ و حوصلہ جوشیں مار رہا ہوں، ایک امی لقب پانے والے نبی کی زبان دانی اور دلائل کی معیت میں ان کے کلام میں موجود بلاغت و فصاحت کے اسرار و رموز کو سلیس اردو زبان کے ساتھ صفحہ قرطاس پہ ثبت کر لے جانا، واقعتاً اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔
قرآن کریم جس طرح فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ منزل پر فائز ہے اسی طرح احادیث رسول ﷺ بھی بلاغت و فصاحت کی ساری خوبیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو، جب کہ خود آقا کریم ﷺ نے اپنے آپ کو "انا افصح العرب” سے ملقب فرمایا ہے۔ ایک موقع پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ:” یا رسول اللہ ﷺ آپ مختلف قبائل کے وفود سے ان کی اپنی ہی زبان میں کیسے گفتگو فرما لیتے ہیں جب کہ آپ نے کبھی بھی ان کے قبیلے میں قدم نہیں رکھا اور نہ ہی آپ نے کسی سے سیکھا؟”۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”انا افصح العرب”۔ واقعی! حدیث رسول کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت بہتر طور پر سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ کا کلام مختصر ہوتا مگر اس میں معانی و مفاہیم کی وسیع دنیا آباد ہوتی اور سمجھنے والا اس کی گہرائیوں میں گم ہو جاتا۔ صرف اس حدیث پاک کہ: ” ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم تر ان میں یہ ہے کہ راستہ سے اذیت رساں چیز کا ہٹا دینا اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے” کے تحت علامہ ابن حجر عسقلانی نے "بضع و سبعون” شعبہ کی جو ایمان افروز توضیح کی ہے مصنف کتاب نے اسے من و عن نقل کر دیا ہے تا کہ مضمون کی حقیقت نصف النہار کی طرح تاباں ہو جائے۔
سرور کونین ﷺ کے فصاحت آگیں ارشادات کی اہمیت خوب بلند و بالا ہے۔ وہ ہماری منزلی، معاشرتی اور تمدنی زندگی کی کامیابی و کامرانی کا دستور العمل اور حیات آخرت و احکام دین کا بہترین سرمایہ ہیں۔ علامہ شمس بریلوی نے ان تمام جزئیات پر آسان اردو زبان میں بڑی اچھی روشنی ڈالی ہے۔ دعوتِ اسلام کے سلسلے میں آقا کریم ﷺ نے مختلف بادشاہوں کے نام جو خطوط ارسال فرماے تھے، وہ بلا شبہ فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہیں، ساتھ ہی آخر کتاب میں اس عقدے کا بہترین حل بھی پیش کر دیا ہے کہ آپ ﷺ کو شعر گوئی کی تعلیم کیوں نہیں دی گئی، جب کہ اس وقت خود اہل عرب، شعر گوئی کو ایک باکمال ہنر تصور کرتے، شعرا پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے، مختلف قبائل کے اہم شعرا کے کلام خانہ کعبہ کی دیوار سے لٹکائے جاتے اور اس کی سب سے واضح مثال "سبع معلقات” کا وجود ہے۔
زیر نظر کتاب مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اس لیے بھی مزید دوبالا ہو جاتی ہے کہ اس میں موضوع اور اس کے تمام مواد و متعلقات کو حسین پیرائے میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ! کہیں کہیں مصنف موصوف کی باتیں دلائل و شواہد سے عاری نظر آتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے انھوں نے نظریں چرا کر محض دعویٰ کے دوش پہ آگے بڑھنے کا کام کیا ہے، جس کی وجہ سے لفظی پیچ و خم کے طنطنے تو ملتے ہیں مگر مصنف موصوف کی علمی و نظری جڑیں مضبوط ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں! من جملہ اسے ہم ایک کام یاب کوشش کہہ سکتے ہیں اور دور حاضر میں تو اس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ معترضین اسلام و قرآن کو یہ آئینہ دکھانے کا کام کر سکتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ کتاب اور صاحبِ کتاب سے متعلق اتنی طویل گفتگو ہو جانے کے باوجود اب مزید کسی تعارفی کلمات کی حاجت نہیں رہ جاتی ہے۔ اس لیے اہل ذوق قارئین میں سے جو بھی اسے اپنی آنکھوں کی زینت بنانا چاہتے ہیں وہ امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف، کتب خانہ امجدیہ، دہلی اور رضا اکیڈمی ممبئی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
___________
wazirmisbahi87@gmail.com
وزیر احمد مصباحی کی یہ نگارش بھی پڑھیں :بغاوت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے