شاعری کیا ہے؟

شاعری کیا ہے؟

اشہرؔاشرف
عموماً جب ہم ادب کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد تحریری یا کتابی ادب سے ہوتی ہے جو یا تو نثر میں تحریر کیا جاتا ہے یا پھر نظم میں۔ یاد رہے ہر کلامِ موزون کو نظم کہتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ہر موزوں کلام کو شعر کہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم ہر موزوں کلام کو شعر نہیں کہہ سکتے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے شعر کی تعریف کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو ہم اپنے مشاہدات تجربات اور احساسات و جذبات کو تخیل کی بھٹی میں اتار کر مخصوص سانچے ( بحر) میں ڈال کر الفاظ کا خوب صورت جامہ پہنا کر موثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کبھی کبھار حادثات اور واقعات تخلیق کار کے قلب و ذہن پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ بے ساختہ اور بلا تردد اس کے منہ سے اشعار رواں ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شعر صرف الفاظ کے جوڑ کا نام نہیں یا فقط دو مصرعے باہم مربوط کرنے سے ایک مکمل شعر نہیں بنتا ہے۔ شعر کا سب سے اہم عنصر تخیل کو بروے کار لاکر حقیقت کی عکاسی کرنا اور خوش خیالی کو موثر انداز میں پیش کرنا ہے۔ خیال کی موثر اور مناسب پیش کش میں موزونیت اور انتخابِ الفاظ میں توازن ہونا لازمی ہے۔ ایک تخلیق کار کے پاس جس قدر الفاظ کا ذخیرہ ہوگا اور جتنی زیادہ اسے الفاظ کی نشست و برخاست میں مہارت حاصل ہوگی اس قدر شعر میں جمالیاتی عنصر قائم ہوگا ۔ شعر میں طرز اور انداز بیان ہی جمالیات کو وجود بخشتا ہے اور بلند خیالی مقصدیت کا عنصر قائم کرتی ہے۔ اس طرح یہ دو خوبیاں شعر کو آفاقی فن پارہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
جب ہم کلاسکی شعرا کی بات کرتے ہیں تو ان کے کلام میں مذکورہ دونوں چیزوں کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کا بیش تر کلام آج بھی انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات کی عکاسی کرنے میں کام یاب نظر آتا ہے یا حسب ضرورت کسی بھی صورت حال کی ترجمانی کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ صداقت ہے کہ شعر میں جس قدر سہل و آسان زبان کا استعمال کیا جائے گا شعر اتنا ہی پراثر ہوگا لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ شعر میں سستے اور بے ڈھنگ الفاظ کا استعمال کیا جائے جو ایک طرف شعر کو نثر کے قریب کردے اور دوسری جانب شعر کی پیش کش کو اتنا کم زور کہ شعریات کا خون ہو جائے۔ کلاسیکی شعرا کے کلام میں اکثر علم صنائع و بدایع کا بھرپور اور برجستہ استعمال ملتا ہے جن میں خوب صورت تشبہات ، نادر استعاروں اور صنعت تکرار کا خاص ذکر ہے ۔ علمِ صنعت شاعری کا وہ جز ہے جو ایک شعر میں جمالیاتی پہلو کو تقویت پہنچاتا ہے۔ الغرض شعر الفاظ کا ایسا فقرہ موزوں ہے جسے سن کر ہر شخص پکار اٹھے کہ__
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
( غالب)
شاعری کی مشرقی و مغربی ناقدین اور شعرا نے مختلف تعریفیں کی ہیں۔ خواجہ الطاف حسین حالی کے خیال میں شاعری فقط دل چسپی اور تسکنِ قلب کا سامان نہیں بل کہ وہ شاعری کو مقصدیت کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنا حالی کے دور میں وقت کا تقاضہ تھا لیکن شاعری سے ہمہ وقت پیمبری کا کام لیا جانا ممکن نہیں ہے۔ ہاں اگر شعر میں پیغام ہو لیکن شعریات یا شعر کا حسن متاثر نہیں ہوتا ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے۔ ہر دور میں ادب کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور یہ تقاضے خطوں اور علاقوں کے ماحول و معاشرے کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ شاعری سے انسانی اخلاق و کردار کی اصلاح لینا ہی مقصد بنانا میرے نزدیک درست نہیں ہے۔ شاعری جہاں انسانی جذبات و احساسات کا اظہار خیال ہے وہیں یہ انسان کی ذہنی اختراع اور اپج بھی ہے ۔اس لئے کسی شاعر کو کسی خاص نظریے کا پابند کرنا انصاف نہیں ہوگا کیوں کہ ہر انسان کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے نظریے کو تشکیل دے۔ حالی شاعر کے لیے کچھ شرطیں رکھتے ہیں ۔وہ شاعر کے لئے تخیل کو لازمی عنصر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تخیل ہی ہے جو ایک شاعر کو غیر شاعر سے الگ کرتا ہے۔تخیل انسان کا وجدانی عمل ہے یا یوں کہیے کہ پیدائشی خوبی ہے۔ مزید لکھتے ہیں یہ قوت جس قدر اعلی درجہ کی ہوگی اسی قدر شاعری اعلی درجہ کی ہوگی۔یہ وہ خوبی ہے جو ایک شاعر ماں کے پیٹ سے اپنے ساتھ لے کر نکلتا ہے ۔یہ خوبی اکتساب سے حاصل نہیں ہوسکتی۔علامہ شبلی اسی تخیل power of imagination کو اختراعی صلاحتوں کا نام دیتے ہیں۔ حالی نے جہاں مطالعہ کائنات کو شاعر کے لئے اہم گردانا ہے وہیں ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حالی نے ایسا کیوں کر کہا ہے۔ ہر تخلیق اسی کائنات کے کسی نہ کسی شعبہ سے تعلق رکھتی ہے اور کہیں نہ کہیں ہر تخلیق کار کو تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے مواد ( موضوع ) کی ضرورت پیش آتی ہے. وہ مواد اسی کائنات پر غور و فکر کرنے سے یا دوسرے الفاظ میں انسانی زندگی کے مختلف گوشوں کو قریب اور باریکی سے دیکھ کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انسان خود اس کائنات کا ایک اہم حصہ ہے اس لئے انسانی داخلی و خارجی عوامل بھی مطالعہ کائنات سے مراد لیے جاسکتے ہیں۔ تیسری چیز جسے حالی نے اہم کڑی قرار دی ہے وہ تفحص الفاظ ہے۔ یعنی تخلیق کار کو چاہئےکہ وہ اپنی بات حسین سے حسین اور مانوس الفاظ میں ایک دل نشیں پیرائے میں پیش کرے۔ اس کے لئے ایک تخلیق کار کا گہرائی کے ساتھ زبان و ادب کا مطالعہ ہونا لازمی ہے۔ یاد رہے! یہی بات آتش نے اپنے ایک مقطع میں شاعرانہ انداز میں کہی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک خیال کو نثر سے زیادہ شعر میں پر اثر انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
بقولِ آتش؂
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا
مطلب آتش بھی حالی کے خیال کی تائید کرتے ہیں کہ شاعری جوہری کے عمل کی طرح بہت ہی مشکل اور نازک ہے۔ جس طرح ایک جوہری پتھر کو تراش خراش کر ہر زاویے سے دیکھ کرایک ہیرے کی شکل دیتا ہے بالکل اسی طرح شاعر کو خیال اور مشاہدے کو سو بار سوچ کر موزوں سے موزوں الفاظ کا انتخاب کر کے ایک شعر کی شکل میں اتارنا پڑتا ہے جو کہ کسی بھی صورت میں آسان عمل نہیں ہے۔ حالی کے خیال میں جو لوگ شعر کے ذریعے اپنے ہم جنسوں کے دل میں اثر پیدا کر سکتے ہیں ان کو ایک ایک لفظ کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔وہ خوب جانتے ہیں کہ کون سا لفظ جذبات پر کیا اثر ڈال سکتا ہے۔حالی کے نزدیک شعر میں تین خوبیاں ہونی چاہیے، سادگی ،اصلیت اور جوش۔شعر سادہ ، آسان اور عام فہم ہونا چاہیےتاکہ سننے والے کو سمجھنے میں پریشانی نہ ہو۔
حالی سے ادبی چشمک رکھنے والے اور مقدمہ شعر و شاعری کے جواب میں لکھی ہوئی تصنیف شعر العجم کے خالق علامہ شبلی اپنی تصنیف میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
” جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات ہی سے پیدا ہوتی ہے"۔ اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
’’جو جذبات الفاظ کے ذریعے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔ شعر کی تعریف یوں بھی کر سکتے ہیں کہ جو کلام انسانی جذبات کو بر انگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے۔‘‘ 
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ شاعری انسانی جذبات کو تحریک عطا کرتی ہے۔ ان کے خیال میں__
” تمام عالم ایک شعر ہے۔ زندگی میں ہر جگہ شاعری بکھری پڑی ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے۔
مخلتف مغربی ناقدین نے شاعری کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ کولرج، نے شاعری کو خدا کے تخلیقی کام جیسا عمل قرار دیا ہے۔کولرج کے خیال میں شاعری بامعنی حسن کی تخلیق ہے جو بہت بامعنی الفاظ میں کی جاتی ہے۔ایک اور مغربی نقاد و شاعر گوئٹے شاعری میں تین چیزوں کو اہم قرار دیتا ہے۔ شاعری میں روانی، شیریں زبان اورنیا پن ہونے کے ساتھ ساتھ اچھوتا خیال ہونا چاہیے۔ٹی ایس ایلیٹ۔ کہتے ہیں کہ شعر، شعر ہوتا ہے اسے صرف شعر سمجھ کر ہی پڑھنا چاہیے نہ کہ اسے کوئی مخصوص معنی پہنایا جائے۔
یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شعر و ادب کو اپنے نقطہ نگاہ ،سوچ اور زاویہ سے پرکھنے اور سمجھنے کی سعی کر سکتا ہے۔ اس لئے کسی ایک فرد کا نظریہ دوسرے فرد پر زبردستی عائد نہیں کیا جاسکتا ہے۔البتہ ادب کے حوالے سے جہاں کوئی آفاقی نظریہ پیش کیا گیا ہو اور وہ تھیوری جامع اور درست ثابت ہورہی ہو تو اسے تسلیم نہ کرنا ادبی بددیانتی کہلائے گی جس کو رد کرنے کا کوئی جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔میرے ان خیالات سے بہت سارے ناقدین اور پارکھوں کو اعتراضات ہوسکتے ہیں کہ ادب میں کسی بات کو حمتی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔میرا ان خیالات کوپیش کرنے کا مقصد معاصر شاعری کی گرتی ہوئی ساخت کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ شاعری کو محض الفاظ اور مصرعوں کا جوڑ سمجھنے والے شعراء کو آئینہ دکھانا ہے۔
صاحب مضمون کی یہ تحریر بھی پڑھیں :میسر ناشاد کی غزل کا تنقیدی جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے