’کربِ جاں‘: غضنفر کی ادبی شخصیت کی تکمیل

’کربِ جاں‘: غضنفر کی ادبی شخصیت کی تکمیل

[حصّہ اوّل]
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

ہم عصر ادب میں غضنفر ایک کثیر التصانیف فن کار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ بعض اصحاب ان پر زود نویسی کا الزام ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ پے بہ پے ناولوں کی یلغار سے تھوڑے بہت ناقدین اور خاص طور سے غضنفر کے معاندین نے رفتارِ قلم کے سلسلے سے بار بار غیر ضروری طور پر سوالات قائم کرنا شروع کیے۔شاید اسی وجہ سے غضنفر نے ناول نویسی سے الگ اپنے ادبی کاموں کودوسری جانب موڑنے کی کوشش کی۔ یہ کم تعجب خیز نہیں کہ گذشتہ چار برسوں میں ان کا کوئی ناول منظرِ عام پر نہیں آیا لیکن اس دوران ان کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ’روے خوش رنگ‘، شعری مجموعہ ’آنکھ میں لکنت‘، افسانوں کا دوسرا مجموعہ’پارکنگ ایریا‘ یکے بعد دیگرے سامنے آتے گئے۔ انگریزی میں جسے پائپ لائن میں ہونا کہتے ہیں، اسے بھی درجِ گزٹ کرلیں تو نئے خاکوں اور افسانوں کے تیسرے مجموعے آنا ہی چاہتے ہیں۔اردو ہندی لغت اور تدریسی مضامین پر مشتمل کتابیں بھی کسی مرحلے میں آجائیں۔ اُن کی شاعری کبھی کبھی رسائل میں چھَپ جاتی تھی لیکن اپنے عہد کے ایک مستند ناول نگار سے بھرپور شعری مجموعے کی شاید ہی کسی نے توقع کی ہو۔ غضنفر نے جب ’آنکھ میں لکنت‘ مجموعہ پیش کیا تو اس کی ضخامت اور تعدادِ اشعارحیرت میں ڈالتے ہیں کیوں کہ ان کے کئی معاصرین اور شاعر کی حیثیت سے بے حد معروف افرادکے اس میں تین تین مجموعے سما جائیں گے۔ اس بیچ یہ خبر آئی کہ شعری مجموعے کے بعد نئے زمانے کا یہ شاعر ایک مکمّل مثنوی کے تار وپود درست کر رہا ہے۔ جس صنف کو مردہ قرار دے دیا گیا ہو اور جسے کوئی توجہ دینے والا نہ ہو، اس پر غضنفر نے اتنے اہتمام سے دھیان دیا کہ سوا سو صفحے کی مثنوی تیار ہوگئی۔ مثنوی چھپنے کے مرحلے تک پہنچی تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ غضنفر نے اپنی خودنوشت مکمل کرلی۔ مثنوی کے مسودے کو ملاحظہ کرتے ہوئے جو سوانحی رنگ جگہ جگہ ابھرتا ہے، اسے اب قارئین شرح و بسط کے ساتھ خود نوشت میں ملاحظہ کریں گے۔
اردو میں ایسے مصنّفین کم نہیں ہیں جن کی سو سو کتابیں منظرِ عام پر آئی ہوں۔ بیس پچیس کتابیں پیش کرنے والے تو ہزاروں میں ہیں۔ یہ بھی ہوا کہ کسی نے ایک کتاب لکھی اور وہ مستند قراردے دیا گیا۔ کچھ دوچار کتابیں لکھ کر بھی ہنرور تسلیم کیے گئے۔ یہ بھی درست کہ جس نے سینکڑوں تحریریں پیش کیں، انھیں آج کوئی نہیں جانتا۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعدادِ تصانیف کے مقابلے معیار کوبہر طور اہمیت حاصل ہے۔ لیکن کسے معلوم کہ اپنی صلاحیتوں کا عطر وہ کس تصنیف میں پیش کردے گا۔ کبھی تو ابتدائی تصانیف میں ہی ’باغ وبہار‘، ’امراؤجان ادا‘، ’انارکلی‘، ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ اور ’آگ کا دریا‘ جیسے شہ کار پیش کردیے جاتے ہیں مگر کبھی مصنّف کو اچھی خاصی مشق کے بعد’آبِ حیات‘، ’اِبن الوقت‘، ’مقدمۂ شعر و شاعری‘، ’الفاروق‘،’لہو کے پھول‘، ’ایک چادر میلی سی‘ اور ’شعرِشور انگیز‘ جیسی تصانیف نصیب ہوتی ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زندگی کی ڈھلان پر پہنچ کر ’سحر البیان‘، ’گؤدان‘ اور’فائر ایریا‘ جیسی تصانیف سامنے آتی ہیں۔ ’سحر البیان‘ سے پہلے میر حسن دس مثنویاں اور چارسوسے زیادہ غزلیں پیش کر چکے تھے۔ پریم چند نے ’گؤدان‘ لکھنے سے پہلے تیرہ ناول قلم بند کرلیے تھے اور ڈھائی سو سے زیادہ افسانے بھی ان کے سامنے آچکے تھے۔ بائیس برس کی عمر میں ’انارکلی‘ اور بتیس برس کی عمر میں ’آگ کا دریا‘ لکھ لینے کے باوجود کیا ان مصنّفین نے اپنے کاموں کو سمیٹ لیا؟ محمد حسین آزاد نے ’آبِ حیات‘ کی اشاعت کے بعد دوسری کتاب اور’آبِ حیات‘میں ترمیم و اضافہ اور نظرِ ثانی جیسے کاموں میں خود کو مصروف کرلیا۔’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کے بعد حالی نے ’حیاتِ جاوید‘ اور ’الفاروق‘ کے بعد شبلی نے ’موازنۂ انیس و دبیر‘ جیسی کتابیں پیش کیں۔ ’سحرالبیان‘ کے ساتھ دو اور مختصر مثنویوں پر میر حسن مشقت کرتے رہے۔ ’گؤدان‘ کے بعد ’منگل سوتر‘ کے لکھنے کا کام پریم چند نے جاری رکھا۔شبلی نعمانی نے ’سیرت النبی‘ کا ایک سلسلۂ لامتناہی عمر کے آخری حصے میں قائم کررکھا تھاجسے ان کی وفات کے بعد ان کے شاگرد سیّد سلیمان ندوی نے تکمیل تک پہنچایا۔
تاریخِ ادب کی مذکورہ مثالیں کئی باتوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتی ہیں۔ تصنیفات کی تعداد بلاشبہ معنیٰ نہیں رکھتی لیکن لگاتار لکھنا اور تخلیقی تجربے کو بار بار پیش کرنا کسی مصنف کے لیے اس وجہ سے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کی کون سی تصنیف پڑھنے والوں کو پسند آجائے گی،کون جانتا ہے؟ قارئین کے سامنے بعض لکھنے والے صرف ایک فن کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ کبھی کبھی اسی میں انھیں اعتبار حاصل ہوجاتا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو کئی فنون میں طبع آزمائی کرتے ہیں مگر پڑھنے والے انھیں کسی ایک ہی فن کا ماہر سمجھتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو متعدد فنون میں مبتلاے تخلیق ہوتے ہیں اور پڑھنے والے انھیں ہرفن کا ماہر تسلیم کرلیتے ہیں۔ کئی مصنف نثر اور نظم دونوں طرف اپنی بانہیں پھیلاتے ہیں۔ اکثر دونوں میں یا کسی ایک میں راندۂ درگاہ بھی ہوجاتے ہیں مگر انھی میں الطاف حسین حالی بھی ہیں جن کو کون کافر صرف شاعر یا صرف نثر نگار کہہ سکتا ہے؟ ماجرا یہ ہے کہ ایک لکھنے والا اپنے تخلیقی امکانات کی سیر میں لگارہتا ہے۔ زمین و آسماں کی گردش میں اسے جو کچھ نیا ملتا ہے، اسے اپنی بساط بھر پیش کرتا رہتا ہے۔ کوئی تجربے اور مشاہدے کی شدّت، وسعت اور گہرائی کو ایک کوزے میں سمیٹ لیتا ہے تو محمد تقی میر بن جاتا ہے جس نے نوّے برس کی عمر تک روز شعر کہہ کہہ کر وہ سرمایہ اکٹھا کرلیا کہ لکھنؤ میں اس شخص کی قبر کا تو پتا نہیں چلا لیکن اس کے بغیر ہماری زبان کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ جنھوں نے کم لکھا، ان کی دفاع میں ’دیوانِ غالب‘ پیش کیا جاتا ہے مگر لوگوں کو یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ یہ منتخب کلام ہے اورایک اچھی بھلی مقدار غالب کے منسوخ شدہ کلام کی بھی ہے۔ فارسی میں مکمل دیوان، نو سو(٩٠٠) سے زیادہ اردو خطوط کا سرمایہ، ایک درجن فارسی مثنویاں، فارسی قصائد اور فارسی میں دیگر کتب بھی غالب ہی کے قلم سے برآمد ہوئیں۔ جب زندگی بھر کا جنون ہوتو یہ کیسے ممکن ہے کہ دو چار اوراق سیاہ کردیے اور ہمارے دل کے غبار اور زندگی کے تمام معرکوں کے نتائج سامنے آ گئے۔ شاید یہ خام خیالی ہے۔اسی لیے غضنفر نے اگر طرح طرح کی چیزیں لکھیں اور روز روز لکھیں تو کسی اہلِ قلم کا یہ عیب نہیں ہوسکتا۔ اس صارفی تمدن میں کوئی اس قدر انہماک اور سنجیدگی سے لوح و قلم کی خدمت اور اس کی پاس داری کا جذبہ رکھتے ہوئے اپنے تجربات اور مشاہدات کو عوام کے سامنے لانا چاہتاہے تو یہ وہی شیوۂ بزرگاں ہے جس کے طفیل ہماری تاریخ میں بڑے بڑے ادبی کردار سامنے آتے رہے۔
غضنفر نے اپنا تخلیقی سفر ڈراما نویسی سے شروع کیا۔ حالاں کہ ٤٠_٣٥ برس کے دوران وہ کبھی دوبارہ ڈرامے کی طرف واپس نہ ہوئے۔ ڈرامائی کیفیت کا تھوڑا بہت استعمال فطری طور پر ناول اور افسانوں میں انھوں نے کیا اور اس سے بڑھ کر تدریسی کتابوں میں مختلف اسباق کی تکمیل میں اس ہنر کو آزمایا۔ ابتدائی دور میں انھوں نے باضابطہ شعر و شاعری سے شغف رکھا لیکن ہماچل کی وادیوں میں جب ’پانی‘ جیسا ناول ان کے قلم سے برآمد ہوا اور ہم عصر منظرنامے پر ایک متاثرکن تخلیقی شہ کار کے طور پر اسے پہچانا جانے لگا تب سے غضنفر نے پلٹ کر اپنی شاعری اور ڈراما نویسی کی طرف ایک ذرا نہ دیکھا۔ ١٩٨٩ء سے ٢٠١٢ء کے دوران انھوں نے نو ناول لکھے۔ ہر ڈھائی برس میں ایک نئے ناول کا اوسط یہ واضح کرتا ہے کہ اس کام کو انھوں نے دل لگا کر کیا۔ ان ٢٣/برسوں میں غضنفر کے صرف ناول ہی سامنے نہیں آئے۔ تین درسی کتابیں، ایک افسانوی مجموعہ، ایک خاکوں کا مجموعہ بھی اسی بیچ شایع ہوئے۔ وہ چیزیں جو کتابی شکل میں پڑھنے والوں کے سامنے ابھی تک نہ آسکی ہیں، وہ اس سے الگ ہیں۔ ہم عصر ادبی منظرنامے پر شاید ہی کوئی دوسری ایسی ادبی شخصیت نظر آرہی ہو جس نے اس قدر انہماک اور یکسوئی کے ساتھ اپنی ادبی کاوشوں کو منظرِ عام پر لانے کی کوششیں کی ہوں۔ شاید اسی کا نتیجہ ہو کہ غضنفر کی حیات و شخصیت اور کارناموں سے متعلق آصف ابرار و محمد انور، نشاط کوثر، صبوحی اسلم، شگفتہ یاسمین، سلمان عبدالصمد، الفیہ نوری اور زیبا ناز کی مکمل کتابیں شایع ہوچکی ہیں اور ان کے علاوہ متعدد دانش گاہوں میں ان کی خدمات پرتحقیقی و تنقیدی مقالے لکھے جارہے ہیں۔ اردو رسائل کے صفحات پر غضنفر کی خدمات کے کسی نہ کسی گوشے پر تواتر کے ساتھ مضامین شائع ہوتے رہے۔ ’دویہ بانی‘ اور ’مانجھی‘ پر مکمل کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ کہنا چاہیے کہ غضنفر جس طرح مستقل مزاجی کے ساتھ تصنیف و تالیف میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کے قارئین اور ناقدین بھی ان کی تحریروں کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اس سلسلے سے اپنی تنقیدی آرا اور تاثرات پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
اب اگر سوال معیار اور مرتبے کا سامنے لایا جائے تو اس میں اچھی خاصی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ ہم عصر ادب کامکمل محاسبہ ممکن نہیں۔ پچھلے ادوار کے آفتاب و ماہتاب ادب کی تاریخ میں آج بے مایہ نظر آتے ہیں۔ چار نقادوں نے کسی شخصیت پر محبت کے پھول نچھاور کردیے تو اگلے زمانے کی کون کہے، اگر اس نے قابلِ اعتنا نہیں لکھاہے تو پڑھنے والے آنے والے وقت کا بھی انتظار نہیں کرتے؛ اسی وقت اسے خارج کردیتے ہیں۔ اس لیے اعتبار اور استناد کے سوالوں پر ہم عصر ادب کے محاسبے میں اصرار ایک بے جاعلمی تکلّف ہے۔ مصنف کے کاموں پر پچاس سو برس کی مٹّی پڑنے دیجیے، تب اگر وہ اپنے معیار کی ضمانت اور زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کردے گا، اسی وقت وہ میر یا غالب قرار پائے گا۔ ہم عصر ادب کو پرکھنے کے لیے اسی عہد کے نقاد کو اپنی ان حدود کا پتا ہونا چاہیے۔ یہ حدود اُن مصنفین کے لیے بھی ہیں جو اپنے عہد کے قارئین اور ناقدین سے یہ توقع کرتے ہیں کہ اُن کے کارناموں کا منصفانہ جائزہ انھی کے زمانے میں لے لیا جائے۔ خوش نصیبی سے غضنفر تخلیق کاروں کی ایسی جماعت کا حصہ نہیں ہیں جنھیں اس بات پر اصرار ہو کہ ان کی ہر تحریر کو ناقدین اور قارئین ان کے عہد میں ہی شہ کار کا درجہ دے دیں یا دیے جانے کی سفارش کریں۔ وہ ادبی جمہوریت کے قائل ہیں اور ہر پڑھنے والے کی اس کی انفرادی راے کو خوش آمدید کہتے ہیں؛ ہر چند وہ ان کے حق میں نہ ہو یا جذبۂ رقابت یا معاندت سے سامنے آئی ہو۔ بعض ہم عصر تخلیق کاروں کی طرح نام نہاد صفِ اوّل کے نقادوں کی مبالغہ آمیز تعریفوں بہ عنوانِ دیگر سرٹی فیکیٹ کے غضنفر طلب گار نہیں رہے۔ اس کے متوازی یہ بھی سچّائی ہے کہ نئی نسل کے لکھنے والوں کی محبت حاصل کرنے میں وہ موجودہ دور کے کسی بھی مصنّف کے مقابلے میں زیادہ اہم فن کار تسلیم کیے جائیں گے۔
غضنفر مثنوی نگاری تک اچانک نہیں پہنچ گئے۔ رُک رُک کر ہی سہی لیکن ان کی شاعرانہ مشق تقریباً چار دہائیوں کو محیط ہے۔ اپنی نظموں میں انھوں نے سلسلۂ خیال کو قائم کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ مجموعے میں کئی طویل نظمیں اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ باتوں کو عام نظم نگار کی طرح کسی ایک خاص موڑ پر پایۂ تکمیل تک پہنچا دینے کی انھیں کوئی عجلت نہیں ہے۔ کہانی اور ناول لکھتے لکھتے قصّہ نویسی ان کے اعصاب پر اس طرح سے سوار ہوگئی کہ ان کی ہر نظم اسی قصّے کی ایک توسیع معلوم ہونے لگی۔ اپنے مختلف ناولوں بالخصوص ’دویہ بانی‘، ’مم‘ اور ’وش منتھن‘ میں جس طرح شاعری کا انھوں نے استعمال کیا ہے، ان نمونوں کو محض تجربہ نہیں کہنا چاہیے۔ فکشن اور شاعری کے درمیان اسے نقطۂ مفاہمت کی تلاش سمجھنا چاہیے۔ اس کے بعد یہ لازمی مرحلہ تھا کہ فن کار اس صنفِ قدیم کے دروازے پر دستک دے جہاں قصّہ نویسی اور شعر گوئی ہزاروں سال پہلے سے شیر و شکر ہوکر دنیا کی عظیم شاعری کا حصّہ ہے۔ یوں بھی رفتہ رفتہ غضنفر کی نثر میں شاعرانہ تلازمے، تشبیہات و استعارات کے لیے اضافی لپک اور انشا پردازانہ جوش اور جذبے کی فراوانی پیدا ہوتی گئی۔ زبان کا یہ دریا مثنوی کے سمندر میں نہ ملے تو دوسری اور کون سی صورت ہوسکتی ہے۔ اسی لیے ایک ناول نگار، افسانہ نویس، تدریسی معاملات کا ماہر،پختہ عمری میں مشرقی زبانوں کی قدیم تر صنف مثنوی کی آغوش میں آکر گوشۂ عافیت میں بیٹھنا چاہتا ہے۔
’کربِ جاں‘ غضنفر کے اس اسلوبیاتی طلسم خانے کا غالباً پہلا پڑاو ہے۔ مثنوی کی روایت اور مخصوص آداب کو انھوں نے بہت حد تک اپنے لیے رہنما اصول کے طور پر پیشِ نظر رکھا ہے۔ قدیم مثنویوں نے اصل موضوع تک پہنچنے کے پہلے جو لوازم طے کیے تھے، غضنفر نے اس کا معقول خیال رکھا۔ پڑھنے والے تعجب کریں گے کہ عہدِ جدید میں غضنفر روایت کی ایسی پاس داری کرنے کے کیوں کرخوگر ہوئے؟ غالباً ان کے لیے یہ چیلینج تھا کہ فارسی اور اردو زبان کے عظیم مثنوی نگاروں کے سامنے ایک نیا لکھنے والا کس طور پر جائے گا۔ غضنفر نے اپنے انتساب سے ہی بتا دیا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے قدموں میں بیٹھ کر یہ مثنوی پیش کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے میر حسن اور دیا شنکرنسیم کے نام انتساب کیا اور ’سحرالبیان‘ کی مشہور زمین میں آگے قدم بڑھایا۔ غضنفر نے اپنی مثنوی کے مختلف حصّوں اور ابواب کے عنوانات قائم کرنے میں بھی ’سحرالبیان‘کی پیروی کی ہے۔ متن میں اپنے احوال بیان کرتے ہوئے بھی ’سحرالبیان‘ کے کرداروں کا تذکرہ آ گیاہے. اسی کے ساتھ انتساب میں انھوں نے اپنے استاد، جدید شاعری کے محترم دستخط اور نئے ادب کے نمایندہ نقاد خلیل الرحمان اعظمی کے نام کو بھی شامل کیا ہے۔خلیل صاحب نے غضنفر کو کلاس روم میں مثنویوں کے ابواب سبقاً پڑھائے تھے۔ خلیل صاحب ایسے خوش نصیب استاد تھے جن کی تدریس کی روشنی چار دہائیوں تک قائم رہی اورجس کے نتیجے میں غضنفر براہِ راست مثنوی کی طرف آئے۔ اس سے بہتر شاید ہی کوئی اپنے استاد کو خراجِ تحسین پیش کرسکتا ہے۔
غضنفر نے ہندستانی مسلمان اور عالمِ اسلام کے مسائل و مباحث پر اپنی مختصر اور طویل متعدد تحریروں میں اظہارِ خیال کیاہے۔ ’دَر اور دیواریں‘، ’تانا بانا‘ افسانوں کے علاوہ ’فسوں‘، ’وِش منتھن‘،’شوراب‘ اور’مانجھی‘ میں ہندستان سے لے کر دنیا بھر کے ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ درپیش مسائل کو مختلف انداز میں پیش کیا گیاہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ا ب وہ ان مسائل کی جڑ میں اُتر کر غور و فکر کرنا چاہتے ہیں۔گذشتہ پندرہ برسوں میں ان کے یہاں اس موضوع کے تئیں غور و فکر میں تواتر اور انہماک بڑھا ہے۔ ہماری دانست میں ایسی کوئی مثال نہیں جس کے سلسلے سے یہ کہا جا سکے کہ قصّے کہانیوں کی سب سے قدیم صنف مثنوی میں کسی نے، کم از کم عصرِ حاضر میں اس مسئلے کو پیش کرنے پر توجہ دی ہے۔ دنیا کے اس مسئلے کو غضنفر نے اپنی اس مثنوی کا بنیادی موضوع بنا کر ’مسدسِ حالی‘ کا ایک نیا ایڈیشن تیار کر دیا ہے۔عام طور سے عصری مسائل کوزیادہ شرح و بسط کے ساتھ نثر میں پیش کیا جا سکتاہے۔ غضنفر نے اس سلسلے سے مضمون نویسی تو نہیں کی لیکن فکشن میں بار بار اپنے غور و فکر کے نتائج وہ پیش کر چکے ہیں۔ پھر ایک ایسی صنف کی ضرورت کیوں کر آن پڑی جس میں صراحت کے مقا بلے رمزیت اور وضاحت کے مقابلے اجمال کو خوبی تسلیم کیا جاتا ہے؟ مثنوی کی تنقید میں شعری زبان کے بنیادی معاملات اسی انداز میں مقرر ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ غضنفر نے جانے پہچانے اور بار بار زیرِ بحث رہنے والے موضوع کو پھر ایک بار منتخب کرکے اپنے لیے، خاص طور سے شاعرانہ صفات کو قبول کرانے کے مرحلے میں کوئی خطرہ مول لیا ہے؟ یہ مشہور حقیقت ہے کہ بڑا لکھنے والا بہت مشقت کے بعد اپناادبی اور موضوعاتی حصار قائم کرتاہے اور پھر اگلے موڑ پر اس حصار کو توڑ کر نئے دائروں میں پہنچ جاتاہے۔پڑھنے والے اور لکھنے والے کے بیچ یہ کھیل تماشاچلتا رہتاہے۔ غضنفر نے ایک ناول سے دوسرے ناول تک پہنچنے کے دوران اسلوبیاتی سطح پر اور موضوعات کے اعتبار سے بھی بار بار خود کو اس قدر بدلا ہے کہ ہر بار وہ نئی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ مثنوی ’کربِ جاں‘ بھی شاید اسی متنوع شخصیت کا اگلا قدم ہے۔
مثنوی کی شہر ت عاشقانہ قصّوں اور مافوق الفطرت عناصر کی وجہ سے رہی ہے۔ قدیم مثنویوں میں کامیابی کے کچھ خاص گُر تھے جنھیں صرف چند مثنوی نگار آزما سکے۔ ’سحرالبیان‘ پرمحمد حسین آزاد نے ’آبِ حیات‘میں لکھتے ہوئے اس کا ایک خاص وصف ان لفظوں میں بیان کیا تھا: ”کیا اُسے سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں کہ جو کچھ اس وقت کہا، صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگوہے جو آج ہم تم بول رہے ہیں۔“ یعنی زبان وہ استعمال کی جائے جو ہر عہد میں یا کم از کم سینکڑوں برس بعد قبول کرنے کے لائق ہو۔ زبان کے دوسرے پہلوؤں پر بھی لافانی مثنوی نگاروں، شعرا اور ادبا کے یہاں مزید صراحت کے ساتھ گفتگو ملتی ہے۔امیر خسرو نے شعر کا خاص وصف ’روانی‘ لفظ سے واضح کیاتھا۔میر نے اپنی تعریف کرتے ہوئے ’طبیعت کی روانی‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ کلاسیکی اصطلاح میں اِسے آمدکہا گیا۔غضنفر مثنوی کی تاریخ کے بہترین طالبِ علم کے طور پریہاں نظر آتے ہیں۔ سادگی اور روانی کے ساتھ مستقبل کی زبان پر نظر اُسی شخص کی ہو سکتی ہے جو غالب کے لفظوں پر ایمان رکھتاہو: ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘۔ مرصع سازی کے مقابلے بہتی ہوئی ندی کی عمومی رفتار کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے شعر کہنا ایسا ہنر ہو سکتاہے جس میں سلاست اور روانی کے ساتھ ساتھ مستقبل کی اُس زبان کی آگہی شاملِ حال ہوگی جس کے لیے میر حسن کو محمد حسین آزاد نے سراہا تھا۔ نثر میں غضنفر کئی مقامات پر انشا پردازی کے شاعرانہ طلسم میں بے خودی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔روانی تو وہاں بھی ہوتی ہے لیکن سلاست کے کھونے کے امکانات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اس مثنوی میں غضنفر اپنی طاقت ور انشا پردازی کے لوازم کو کنارے رکھ کر اور شعر کے ناز ک تن بدن اور قصّہ گوئی کے کاغذی جسم کو گزند پہنچانے کے جُرم میں خود کو مبتلا نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے یہ مثنوی اچھی خاصی رواں دواں کیفیت میں اُسی طرح ہمارے سامنے آتی ہے جس طرح ’قطب مشتری‘ اور سحرالبیان‘ کے مطالعے کے وقت ہماری کیفیت ہوتی ہے۔
غضنفر کسی راجا، رانی یا جن اور پری کی کہانی نہیں لکھ رہے تھے۔ کسی عشقیہ داستان کی گنجائش بھی اس میں پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔حقیقت کی ٹھوس زمین پر رہتے ہوئے انھیں اپنے پَر پھیلانے تھے۔موضوع ایسا منتخب کیا جسے پورے طور پر پڑھنے والے پہلے ہی سے جانتے ہیں۔پہلا نشانہ تو یہی تھا کہ جو بات قارئین کو معلوم ہے، اُس سے آگے بڑھ کر کون سی نئی بات پیش کر دی جائے۔ایک شاعر چاہے جتنا بھی بڑا دانش ور ہو، مثنوی نگاری میں اُسے موضوع کے نئے ملحقات پیش کرنے میں ہزار طرح کی دشواریوں کا لازمی طور پر سامنا کرنا پڑے گا۔غضنفر نے عصرِ حاضر کے حقائق کو تو بنیاد بنایا لیکن مظاہر کی پیش کش میں انھوں نے ایمائیت اور علامات کو شامل کرکے ایک علاحدہ کیفیت سامنے لا دی۔یہ موضوع پر قدرت اور تکنیک پر مہارت کے بغیر کسی بھی فن کار کے لیے ناممکن ہے۔ وہ واقعات اور سانحوں کے اعدادو شمار اور تحقیقی پیش کش کے راستے پر نہیں گئے۔اُن پر حالات اور واقعات کے جو تاثرات مرتّب ہوئے،اُسے انھوں نے زیادہ اہمیت دی۔ اسی لیے اس مثنوی میں علامت اور اشاروں کی زبان پیدا ہو سکی۔ اگر اس جہت سے انھوں نے اپنی انفرادی حکمتِ عملی ایجاد نہ کی ہوتی تو وہ جدیدو قدیم مثنوی نگاری کے بھنور میں ایسی جگہ پھنستے جہاں اُنھیں کوئی جاے اماں نہیں مل سکتی تھی۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ غضنفر نے جس صنف کا انتخاب کیا، اُس کی تاریخ اور اس کے فنّی تقاضوں کوبھی بہ غور سمجھا اور اپنے موضوع سے مطابقت بٹھاتے ہوئے’کربِ جاں‘ جیسی مثنوی پیش کرنے میں کام یابی حاصل کی۔
مثنوی کے روایتی عناصر کا اس مثنوی میں پورے طور پر شاعر نے لحاظ رکھاہے۔ اس لیے آغاز’حمدِ خدا‘سے ہوا ہے۔ انتساب میں شاعر نے میرحسن کے ساتھ دیا شنکر نسیم کا بھی نام شامل رکھا لیکن روایتی عناصر کے برتاو میں نسیم کا اختصار انھوں نے نہیں اپنایا۔ حمد میں کل پینتیس (٣٥) اشعار ہیں۔ ان اشعار میں حمد کے روایتی اورکلاسیکی مضامین تو شامل ہیں ہی، بعض نئے مضامین یا نئے اندازِ کلام کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔پانچ اشعارپیشِ خدمت ہیں:
سموتا ہے جو بیج میں اک شجر
تنا، شاخ، جڑ، پھول، برگ و ثمر
ذرا سے مکوڑے میں اعضا تمام
سمٹ جائے نقطے میں جیسے کلام
نہیں پاؤں سے سر تلک کچھ کمی
نہیں تن کے بھیتر بھی کوئی کجی
عجب فن و حرفت، عجب اہتمام
ہنر مندیوں کا عجب التزام
دکھاتا ہے ایسی بھی کاری گری
کہ حیرت زدہ ساری دانشوری
حمد کے بعد شاعر نے ’مناجاتِ باری تعالیٰ‘ کو شامل کیا ہے۔ یہاں کُل چونتیس (٣٤) اشعار موجودہیں۔ مناجات میں شاعر نے خدا سے دولتِ قلم طلب کی ہے۔ مذہبی نوشتہ جات کا انداز اختیار کرتے ہوئے شاعر نے پہلے ان چیزوں کا ذکر کیا ہے جو اُسے نہیں چاہیے۔ مال ودولت، شان وشوکت، جاہ و حشمت،طاقت، حکومت و وزارت، عزت و شہرت، عیش وطرب، گاڑی، گھوڑا، چاند، سورج، کہکشاں؛ سب کی طلب سے شاعر نے انکار کیا ہے۔ شاعرکو طلب ہے تو بس اس قدر:
خدائے دو عالم سے بس یہ دعا
قلم میرا مجھ سے نہ ہووے جدا
بلا خوف لکھے ہر اک داستاں
بنا مصلحت ہو حقیقت بیاں
نہ جنبش میں لرزش پڑے اے خدا
نہ رستے میں روڑا اَڑے اے خدا
مناجات کے آخر میں دیا شنکر نسیم اور میر حسن جیسا بننے یا قبولِ عام حاصل ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے آخری دو شعریوں لکھے گئے ہیں:
اُسے بھی عطا ہو اداے نسیم
گھلے اس کی آواز میں بھی شمیم
سحر ساز ہو جائے اس کی زباں
کہیں لوگ اس کو بھی سحرالبیاں
حمد اور مناجات کے بعد ٢١/ اشعار پر مشتمل ’مدحِ رسولؐ‘ کوشامل کیا گیا ہے۔ آغاز ندائیہ انداز میں ہے اور ایک پُر لطف منطق پیش کی گئی ہے۔ ’مدحِ رسولؐ‘ کا پہلا شعر ملاحظہ ہو:
سُنو کوئی ایسا بھی بندہ ہوا
زمیں کے لیے جو فلک پرگیا
اس نعتیہ حصّے میں اختصار کے ساتھ شاعر نے ان واقعات کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے جن سے حضورؐ کی حقیقی زندگی ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ آغاز میں اپنی قوم کے لیے حضورؐ نے جو مصائب برداشت کیے، ان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ بڑے سادہ انداز میں تاریخ کے جیالے ابواب اس طرح لفظوں میں سمٹ آئے ہیں:
کبھی جو اندھیری گپھا میں گیا
کبھی دشت و صحرا میں پھرتا رہا
کبھی جس کو گھر سے بھگایا گیا
کبھی محفلوں سے اُٹھایا گیا
ان مصائب کے باوجود حضور ؐ کا سفر جاری رہا۔ شاعر نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ منزلوں سے پہلے یہ قدم ٹھہریں گے نہیں۔زندگی منزل تک پہنچنے اور نشانہ حاصل کرنے سے پہلے رُکنے والی نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے اہل دنیا کو کیا عطا کیا، اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے غضنفر نے کیا خوب کہا ہے: محبت کو جس نے سکھایا جنوں جنوں سے دیا جس نے دل کو سکوں

کربِ جاں‘: غضنفر کی ادبی شخصیت کی تکمیل
[حصّہ دوم]
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

تمام قدیم مثنویوں میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ’بیان مصنف‘ میں شاعر اپنی زندگی کے احوال پیش کرے، اس کے بعد ہی سببِ تالیف کی طرف آئے۔ محققین کے لیے مثنوی کا یہ ایک بیش قیمت حصّہ ہوتاہے۔اکثر قدیم مثنوی نگاروں کے بارے میں ان کے حالات ِ زندگی ان کی مثنوی کے کسی حصّے سے ہی دریافت ہوپاتے ہیں۔ بعض مثنویوں میں شعرا نے اس موقعے سے طولِ کلام سے بھی کام لیا ہے۔ ہر چند عہدِ جدید میں مصنف کے احوال جاننے کے ہمارے پاس متعدد وسائل ہیں، ا س کے باوجود غضنفر نے اپنی مثنوی میں پوری تفصیل کے ساتھ ’روداد قصّہ گو کی زندگی کی‘ کو مکمل کیا ہے۔بعض حقائق پیش کرتے ہوئے اعدادو شماربھی اسی روانی سے شعر کا حصہ بنے ہیں۔ واحد حاضر صیغے کا استعمال بھی یہاں پُر لطف ہے۔ مصنف کے احوال پورے چھبیس (٢٦) صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اعداد کی بات کریں تو مثنوی کے اس حصّے میں شاعر نے دوسو چونتیس(٢٣٤) اشعار شامل کیے ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ مثنوی کا یہ حصّہ کس قدر جی لگا کر مکمل کیا گیا ہے۔مصنف کی زندگی کے آغاز کا انداز یہ ہے کہ ابتدا میں مذہبی ماحول کے پیشِ نظر انھیں مدرسے میں ڈالا گیا اور مذہبی آئینے سے زندگی کے مظاہر کی پیش کش ہوئی لیکن وہاں ان کا جی نہ لگا۔ تین شعروں میں اس کیفیت کا بیان ملاحظہ ہو:
مگر مدرسے سے میں اکتا گیا
کہ مجھ پر عجب اک سماں چھا گیا
عجب بے دلی دل میں پلنے لگی
گھٹن سے مری سانس جلنے لگی
جھپٹنے لگیں مجھ پہ بے کیفیاں
مجھے خشک کرنے لگیں سختیاں
مذہبی تعلیم سے نکلنے کے بعد شاعر جدید تعلیم کی طرف مڑا۔ تعلیم کی اس مہم میں شاعر نے جو پایا، اس گفتگو کا آغاز ان چار مصرعوں سے ہوتاہے:
ملا کچھ نئے راستوں کا پتا
نئی منزلوں سے ہوا واسطہ
نیا رنگ آنکھوں میں روشن ہوا
نیا نور ذہن و نظر میں گھلا
اسی مرحلے میں مصنف علی گڑھ پہنچتاہے اور پھر اس کی زندگی پورے طور پر بدل جاتی ہے۔ علی گڑھ کو شاعر نے’شہرِ دانش‘ سے یاد کیاہے۔علی گڑھ کے ماحول پرغضنفر نے پچاسی(٨٥) اشعار مثنوی میں شامل کیے ہیں۔ غضنفر کی اکثر تحریروں میں علی گڑھ کا ماحول آتا ہی رہتاہے لیکن خاص طور سے دانش گاہِ علی گڑھ کو انھوں نے اپنے ناول’فسوں‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس مثنوی کے یہ ٨٥/اشعار آج سے چار دہائیوں قبل کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثنوی میں جس طرح سے یہ اشعار سامنے آئے ہیں، وہ واقعتا علی گڑھ کو خوابوں کا شہر بناتے ہیں۔ اُس زمانے کے علی گڑھ کے بارے میں غضنفر نے ایک صفت یہ بیان کی:
مہک علم و دانش کی تھی کوٗ بہ کو
چہک طائرِ فن کی تھی چار سوٗ
آج شاید کسی تعلیمی ادارے کے بارے میں ایسی بات کہنا مشکل ہے۔ غضنفر نے اپنے مادرِ علمی کے بارے میں عقیدت کے مقابلے حقائق پر انحصار کرتے ہوئے ابتداً اُس عہد کے جواں سال ادیبوں کی وہاں جو کہکشاں سجی ہوئی تھی، اس کا عمومی تعارف ان اشعار میں پیش کیا ہے:
جواں سال سارے ہی جس میں ادیب
سبھی خوش بیاں، خوب روٗ خوش نصیب
تعلق ہر اک کا تھا اشراف سے
مزیّن سبھی اعلیٰ اوصاف سے
کوئی فنِّ تقریر میں طاق تھا
کوئی شعر گوئی میں مشّاق تھا
کہانی کا ماہر کوئی نوجواں
مضامین میں تھا کوئی نکتہ داں
کسی کو تھا حاصل غزل میں کمال
کوئی نظم گوئی میں تھا بے مثال
غضنفر نے اپنی زندگی کے واقعات بیان کرنے میں اپنے ہم عصروں اور زندگی کی جدوجہدمیں ایک ساتھ سرگرم افراد کا نام بہ نام تذکرہ کرتے ہوئے چند اشعار میں ان کے اوصاف بھی بیان کیے ہیں۔ جاوید حبیب، شارق ادیب، آشفتہ چنگیزی، فرحت احساس، خورشید احمد، ابوالکلام قاسمی، مہتاب حیدر نقوی، پیغام آفاقی، طارق چھتاری، نسیم صدیقی وغیرہ کا متعدد اشعار میں تذکرہ ہوا ہے۔یونی ورسٹی کے یہ طالبِ علم عام تعلیم سے نکل کر شعر وادب کی دنیا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کیوں کر پھیل سکے، غضنفر نے محض دو شعروں میں اس عہد کے نوجوانانِ علی گڑھ کے دلوں کو ٹٹولنا چاہا ہے:
زمانے میں بدلاو کے واسطے
سلیقے سے سارے ہی بیدار تھے
سبھی اپنے اپنے تئیں لیس تھے
عزائم میں فرہادتھے، قیس تھے
یہاں اس گفتگو کی گنجائش نہیں کہ غضنفر اپنے ہم عصروں کا تذکرہ کس انداز سے کرتے ہیں، اس کی پوری وضاحت کردی جائے۔ تین اشعار جو پیغام آفاقی کے سلسلے سے رقم کیے گئے ہیں، انھیں پڑھتے ہوئے خون کے آنسو آتے ہیں۔ اب وہ ہمارے بیچ نہیں لیکن یہ دیکھنے کا مقام ہے کہ ٣٥_٤٠ برس پہلے کا پیغام آفاقی کب بدلا تھا؟ وہ تو ہر دور میں اسی انداز سے نظر آتے ہیں، جیسے غضنفر نے پیش کیا ہے:
انھیں میں سے اک اپنا پیغام تھا
ادب واسطے جو کہ بدنام تھا
ہمہ وقت اس کا ادب مشغلہ
ہمیشہ ادب ہی سے تھا واسطہ
اکیلا وہ ناول کا تھا شہسوار
نہیں ایک پل بھی اسے کچھ قرار
اپنے ہم عصروں کے تذکرے کے دوران غضنفر نے اپنا تذکرہ بھی شامل کیا۔ تین شعر میں علی گڑھ کے اس ماحول میں انھوں نے اپنی جو شناخت پیش کی ہے، اسی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ چالیس برس بعد غضنفر کے اس نئے تخلیقی کام کا موضوع آخر کیوں کر قوم و ملت کے مسائل بنے۔یہ پُر لطف بات ہے کہ شاعر چار دہائیوں قبل کے اپنے ذہن کو ٹٹولنا چاہتا ہے۔ اس زمانے میں دل میں کون سا غم تھا، اِ سے وہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ تین اشعار ملاحظہ کیجیے:
انھیں میں غضنفر بھی اک فرد تھا
جسے مٹتی اقدار کا درد تھا
رُلاتا تھا ملّت کا غم رات دن
نگہہ جس کی رہتی تھی نم رات دن
نظر جس کی دنیا کے حالات پر
لہو دل کا جلتا تھا ہر بات پر
غضنفر نے معاصرین کے ساتھ ساتھ علی گڑھ کے چنداساتذہ کا بھی تذکرہ کیاجن کی صحبتوں سے انھوں نے فیض اُٹھایا۔ شہریار، قاضی عبدالستّار، وحید اختر، عابد سورتی وغیرہ کے سلسلے سے اپنے مشاہدات درج کیے گئے ہیں۔ شہریار کے بارے میں یہ مصرع پیش کیا گیا ہے:
دکھاتے تھے جو منزلوں کے نشاں
علی گڑھ کی زندگی میں وہاں کے ماحول، معاصرین اور اساتذہ نے کچھ ایسی بنیادیں قائم کیں جہاں سے نہ صرف یہ کہ وسعتِ ذہنی نصیب ہوئی بل کہ زندگی کو ایک نئی راہ میسر آ گئی۔ اب وسیع و عریض دنیا تھی اور کاروبارِ حیات میں دم بہ دم کامیابی کے نظارے۔ غضنفر کے لفظوں میں علی گڑھ کے نتائج ملاحظہ کریں:
نگاہوں میں لعل و گہر بچھ گئے
نئے رنگ کے سیم و زر بچھ گئے
مری رہ میں شمس و قمر بچھ گئے
ثمردار سارے شجر بچھ گئے
اسی سے سفر ایک پورا ہوا
اسی سے ملی اک نئی یاترا
علی گڑھ کی زندگی کے احوال بیان کرنے کے بعد غضنفر نے ہماچل پردیش اور لکھنؤ کے قیام کے تاثرات پیش کیے۔ ہماچل پردیش کی پہاڑی زندگی اور علی گڑھ سے مختلف کیفیات، شفّاف فضاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے غضنفر نے ایک نئے انداز کی زندگی کے یہاں آثار پیش کیے ہیں۔ ١٧/ شعروں میں ہماچل کی زندگی کا نقشہ ہے، اُس کے بعدپھر لکھنؤ کا سفر شروع ہوتاہے۔لکھنؤ کی زندگی اور معاشرت پر غضنفر نے ٤٣/ اشعار پیش کیے ہیں۔ لکھنؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے اردو زبان کے سلسلے سے لکھنؤ کا اختصاص اور وہاں کی تاریخ سے اُبھرنے والے عظیم کرداروں کا ذکر کیا ہے۔ اس تفصیل میں جانے کا فائدہ یہ ہوا کہ اُن کی ادبی اور علمی تربیت کس ماحول اور کیسی فضامیں ہوئی، اس سے لوگ با خبر ہو جائیں۔ علی گڑھ، ہماچل اور اودھ کے بعد غضنفر نے دلی کو مستقر بنایا۔ ’رودادِ قصّہ گو‘ میں یہ فصل بھی علی گڑھ ہی کی طرح طویل ہے۔ ٥٩/ شعروں میں یہ مکمّل ہوا ہے۔ ابتدائی تذکرے میں ہی یہ شعر آتاہے:
جہاں پر کھُلی زندگی اس طرح
سرکتی ہے سر سے رِدا جس طرح
ابھی تک غضنفر نے زندگی کے جو احوال رقم کیے، وہاں روشن پہلوزیادہ اُبھر کر سامنے آئے تھے۔ علی گڑھ، لکھنؤ یا سولن (ہماچل پردیش) کی زندگی کے حسن میں دلّی کی حقیقت افروزی نے ایک خاص لطف پیدا کر دیا ہے۔ زندگی یوں بھی ایک رنگ کی کہاں ہوتی ہے۔ وہ تو غضنفر کی سادگی تھی جس کے پردے میں دنیا کی قبیح تصویریں بھی حسین ہو جا رہی تھیں۔ دلی میں انھوں نے جو زندگی ملاحظہ کی، اس میں حقیقت بیانی سے جو خار وخس جمع ہوئے ہیں، انھیں اس طور پر بھی سمجھنا چاہیے کہ غضنفر اب تک کی زندگی کے تجربات کی مکمّل عقدہ کشائی کر رہے ہیں۔ یہ زہر صرف تازہ نہیں،کئی شہروں اور کئی دہائیوں کے نوحے کے طور پر یہاں سامنے آرہا ہے۔ چند اشعار پڑھنے والوں کی توجہ کے لیے پیش ہیں:
یہ دلی نئی، نوٹ جعلی لگی
بھری بند مٹھی بھی خالی لگی
سروں میں دکھائی پڑی لومڑی
دوپٹہ کوئی سبز اوڑھے ہوئی
دغا ہاتھ سے ہاتھ کرتا ہوا
سگا غیر سے بھی زیادہ بُرا
ان کیفیات کے ساتھ غضنفرکو دلّی کی ادبی فضا کا بھی احساس ہے لیکن ہندستانی سماج اور سیاست کا یہ وہ زمانہ ہے جب فرقہ واریت کو ادارہ جاتی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور سماجی اشتراک کا تانا بانا بکھرنے لگتاہے۔ صرف دلی نہیں بگڑتی ہے بل کہ پورا ملک اس کی چپیٹ میں آتاہے۔ غضنفر نے دلی کو اس لیے مرکز مانا کیوں کہ یہاں کے ایوانوں سے جو اشارے ہوتے ہیں، وہ ملک میں طوفان کے طور پراپنا اثر دکھاتے ہیں۔ تاریخ میں ایسابار بار ہوا ہے، اس لیے دلّی کے احوال کو غضنفر نے ’سببِ تالیف‘ کے طور پر اپنی زندگی کی کیفیات بیان کرتے ہوئے اختتامی اشعار میں کچھ یوں بیان کیے ہیں:
اسی عالمِ کرب میں یہ لگا
کہ چپکے سے جیسے کسی نے کہا
اُبلتا ہے جو جسم میں کربِ جاں
کسی طرح اس کو کروں میں بیاں
رقم اس طرح اک فسانہ ہوا
مرا کرب کربِ زمانہ ہوا
’بیانِ مصنف‘ اور ’احوالِ مصنف‘ کے بعد روایتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے غضنفر نے مثنوی نگاری کے مدعا کو پیش کرنے کے لیے ٥٩/ اشعار کہے ہیں۔ اب وہ زمانہ تو رہا نہیں کہ سببِ تالیف میں حاکمِ وقت اور شہنشاہِ زماں کی فرمائش یا اُن کی دل جوئی کو پیش کیا جا سکے۔ سچی بات یہ ہے کہ غضنفر نے صاف صاف اپنا مدعا اس شعر میں بیان کر دیا ہے:
طبیعت کا ہو جائے پھر امتحاں
دکھائیں ہنر پھر زبان و بیاں
یہ اُسی طرح کی بات ہے جو انیس کے لفظوں میں غور کریں تو ’خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو‘ جیسے دعوے سے سمجھا جا سکتاہے۔ اپنے لیے ایک مشکل نشانہ مقرر کرنا اور مقابلے میں کامیاب و کامران گزرنے کا جذبہ یہاں کارفرماہے۔ آخر اس زمانے میں کون ہے جومثنوی جیسی صنف کی برکتیں سمیٹ کر دنیا کے سامنے لے آئے۔ مثنوی غزل اور نظم نہیں اور نہ افسانے یا ناول کی طرح تازہ روایت کی صنف ہے۔ اصول و ضوابط اور صنعتوں کا ایک پورا سلسلہ مثنوی نگار کے امتحان کے لیے قائم ہے۔ ایک سے ایک جادو نگار مثنویوں کی بزم میں شریک ہوئے۔ غضنفر نے مدعا بیان کرتے ہوئے اُن بزرگوں کے ہنر کے سامنے اپنی طرف سے جو نشانات مقرر کیے، وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ غضنفر بہ ہر طور اپنی شاعری اور اپنے ادبی سفر کی نئی کیفیات تک پہنچنے کے لیے’کربِ جاں‘ تک کیسے آئے ہیں؟قدما کی پیروی کرتے ہوئے انھوں نے جو نشانہ رکھا،وہ اس طرح تھا:
کھلے گُل تو خوش بو دکھائی پڑے
بجے ساز تو سُر کا چہرہ دِکھے
غلو کی بھی تبلیغ ہووے ذرا
زمیں اپنی حیرت بھی بووے ذرا
ستاروں سے سورج کو رستہ ملے
قمر جگنوؤں کی نظرسے چلے
بنے ایسا منظر کہ دل کا دھواں
دکھائی پڑے نور کا گلستاں
تخیل اور فنّی تکمیل کے نتائج اس مثنوی میں واقعتا غضنفر نے کیا خوب پیش کیے ہیں۔ غضنفر اپنے نثری کاموں میں بھی ادبی صنعتیں کم نہیں استعمال کرتے لیکن مثنوی کی روایت اور تہذیب کا خیال، پھر سب سے بڑھ کر عہدِ جدید میں مثنوی کے سارے لوازم کی پیش کش کا نشانہ اُستادانہ رکھ رکھاؤ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس میں بار بارلفظ و معنیٰ کے کھیل ہوں گے، صنعتوں کا ممکن حد تک جال بچھانے کا بھی ارادہ ہے؛ اس لیے غضنفر نے مدّعا کی پیش کش میں نہ صرف یہ کہ آیندہ کی حکمتِ عملی بتائی بل کہ صاف صاف صنعتوں اور رعایتوں کا پورا تماشا پیش کر دیا۔ اس سلسلے سے پانچ اشعار ملاحظہ ہوں:
چلیں کوئی تجنیس کی چال بھی
ذرا پھر سے ڈالیں زباں جال بھی
تلفظ کے پھندے لگائیں ذرا
مطالب کی مچھلی پھنسائیں ذرا
مشابہ تلفظ میں معنی کا فرق
دکھا کر گرائیں دماغوں پہ برق
دکھائیں کہ گُل گَل کے گِل بن گیا
سنائیں کہ سِن خاک میں سن گیا
دکھائیں کہ ہے بام پر کوئی بام
جسے دیکھنے کو کھڑی اژدہام
غضنفر کا یہ عمومی انداز نہیں ہے لیکن ادبی روایت کی لپک اور شاید صنفی تقاضہ ہی تھا کہ وہ اس بات کا ثبوت فراہم کریں کہ سادہ زبان میں عام آزمائے ہوئے لفظوں سے وہ جو ادبی کام لے رہے ہیں، اسی کے ساتھ شعرو ادب کے اصول ہاے قدیم سے بھی وہ کم واقف نہیں ہیں۔جہاں جہاں مثنوی میں انھوں نے ایسے کام کیے، اُن کا ایک مقصد لازماً قدرتِ کلام کا اپنے آپ ثبوت فراہم کرنا ہے۔ ’آغاز کربِ جاں کے قصّے کا‘ عنوان کے ایک مختصر باب سے مثنوی کا بنیادی قصّہ شروع ہوتاہے۔ یہ بات پُر لطف ہے کہ مثنوی کا یہ ابتدائی حصّہ اُس وقت شروع ہوتاہے جب مثنوی ایک تہائی سے زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔ مثنوی کے روایتی عناصر کی ایسے جی لگا کر پاس داری کسی زمانے میں بھی آسان نہیں۔ یہ بار بار کہا جاتا رہا ہے کہ مثنوی کی اہمیت اُس کے موضوعات یا نفسِ مضموں سے بالکل نہیں۔ پُرانی مثنویوں میں تو ایک جیسے قصّے یہاں سے وہاں تک بکھرے پڑے ہیں۔ جزوی طور پر اُن قصّوں میں کچھ جن، پری، راکشش بدل جاتے تھے، باقی قصّے کی اُٹھان اور انجام میں کوئی بنیادی قسم کا فرق نظر نہیں آتا۔ غضنفر کی مثنوی میں یوں بھی ایسے مسائل نہیں آسکتے تھے۔ قصّہ انھوں نے باضابطہ منتخب کیا اور اُسے اپنے عہد کے ٹھوس مسائل سے جوڑنا لازم سمجھا، ایسے میں انھیں گل و بلبل کی حکایت اور بھوت پریت کی کہانیوں کی طرف کیوں کر آناتھا۔ مثنوی نگاروں نے بھی ڈیڑھ سو برس پہلے ہی مافوق فطرت عناصر سے خود کو علاحدہ کر لیا تھا۔ آغازِ قصّہ میں غضنفر نے بڑے لطف سے اعلان کا اندازاپنایا ہے۔ انھوں نے دانش وروں کو مخاطَب بنایا ہے۔ یہ سوال ہے کہ عام لوگوں کے لیے یہ اعلان نہیں کیا گیا ہے بل کہ وہ خواص اُن کے پیشِ نظر ہیں جن کی توجہ اور غفلت سے بیداری کے بغیر اس ملک کی زندگی نہیں بدل سکتی۔بیان میں سخت مشکل حالات کی پیش کش مقصود ہے، اس لیے شروع ہی میں انھوں نے یہ بتانا لازم سمجھا کہ اس قصّے میں روایتی مثنویوں کی سج دھج اور آزمائے ہوئے نسخے نہیں ہیں۔ وہ صاف صاف کہتے ہیں:
نہیں یہ کوئی عشق کی داستاں
نہیں داستانوں سا اس میں سماں
وہ ترتیب سے اردو کی مشہور مثنویوں کے نام، مثنوی نگاروں کے اسما اور بعض مشہور کرداروں کے ناموں کی تفصیل شامل کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سب چیزوں کو انھوں نے اپنی مثنوی میں شامل نہیں رکھا ہے۔ کہتے ہیں:
پری ہے نہ پریوں کی اولاد ہے
نہ ہے کوئی سایہ، نہ ہم زاد ہے
نہ جادو کی ڈبیا نہ کوئی چراغ
نہ جادو کی وادی نہ جادو کا باغ
عجائب کا کوئی فسانہ نہیں
تخیل کا کوئی بھی خانہ نہیں
اتنی تفصیل میں انھوں نے نفی کا نغمہ چھیڑا ہے۔ اس کے بعد یہ لازم تھا کہ وہ اثبات کا راگ بھی چھیڑیں۔ملک و قوم کے حالات کے تذکرے میں وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہونے، وسیع مقاصد میں لوگوں کو آگے آنے کے لیے تازیانہ دیتے ہیں۔ دو شعروں میں صاف صاف یہ بیان آتاہے:
سنو کہ سنبھل جائے دانش وری
سنو کہ بدل جائے دانش وری
سنو کہ نگاہوں میں آئے سماں
نظر آئے تم کو حقیقی جہاں
وہ پُر سوز انداز میں اپنے ہم وطنوں کو یہ بھی کہتے ہیں:
کوئی من میں کانٹا تمھارے چبھے
کوئی نوک سینے کے اندر گڑے
اس کے بعدتشدّدکے شیطان کو بھگانے اور اہنسا کوطریقۂ عمل میں ڈالنے کی بات کہی گئی ہے۔ بڑی صفائی سے وہ یوں مقصد پیش کرتے ہیں:
فضامیں اُٹھا ہے جنوں جو تھمے
حقارت، عداوت کی آندھی رُکے
ہندستان میں یہ مسئلے کہاں سے پیدا ہوئے اور یہ پیڑ اپنی شاخوں پر کیسے زہریلے ثمر اُگا رہے ہیں، غضنفر نے جذباتی انداز اور تکلیف کے احساس سے بھرے لہجے میں مثنوی میں اچھے خاصے اشعار شامل کیے۔ ہندستان کی مختلف قوموں کے بیچ بنیادی اختلافات آخر کیا ہیں، غضنفر نے حقیقت کے آئینے میں اِن امور کوپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسائل میں جتنی بھی پیچیدگی ہو، ان کے حل کے لیے جس قدر بھی مشقّت اُٹھانی پڑے لیکن غضنفر نے کیسے سادہ سے لفظوں میں آغازِ قصہ میں صاف صاف مسئلے کی بنیادیں واضح کر دی ہیں:
یہ قصہ فقط ایک تکرار کا
غلط فہمیوں کے بس اظہار کا
بنا ’باہری‘ لفظ اس کی اساس
اِسی سے کشاکش، اسی سے ہراس
اسی سے چُبھی کوئی سینے میں پھانس
اسی سے ہوا کوئی چہرہ اُداس
مسئلے کی شناخت کرتے ہوئے غضنفر نے اُس کا اُسی طرح سے سادہ لفظوں میں ایک حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسئلے کو جس طرح انھوں نے ’باہری‘ لفظ سے پہچاننے کی کوشش کی، اُسی طرح اُس کے حل کے لیے بھی انھوں نے ایک مناسب لفظ موزوں میں کامیابی پائی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
سُنو کہ تحفظ کی صورت ملے
مناسب کوئی اک مہورت ملے
کہ قصّہ نہیں ہے، یہ تریاق ہے
سُنو غور سے کہ یہ چقماق ہے
قصّے کے آغاز کی تفصیل پیش کرنے کے بعد غضنفر نے ایک باب ’داستان اساسِ قصہ کی‘ عنوان سے قائم کیا ہے۔یوں توفنِّ قصّہ گوئی کے اعتبار سے یہ تکلّف کی بات ہوئی کہ مصنّف الگ سے اساسِ قصّہ کی وضاحت کرے۔ غضنفر کے ذہن میں شایدیہ بات ہوگی کہ قصّہ اپنے پھیلاو میں کچھ اس طرح الگ الگ معاملات کی سیر میں لگ جائے گا جس سے موضوعاتی گہرائی میں اضافہ تو ہوگا لیکن کہیں قاری کے ذہن میں ارتکاز قائم ہونے کے بجاے بکھراونہ پیدا ہو جائے۔ اس لیے انھوں نے یہ مناسب تصوّرکیا اور اساسِ قصّہ کو بھی الگ سے باب بنا کر ٨٦/ اشعار اس عنوان سے پیش کر دیے۔اس بات کی ابتدا بڑے معصومانہ انداز میں ہوتی ہے۔ چار شعروں میں زمین، آسمان،فلک،چاند،تارے، مہہ و مہر، لہوٗ اوربوٗ اور سب کاخدا یا ہر سانس میں پیدا ہوئی ہَوا کی مثالیں پیش کرتے ہوئے غضنفر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہر جگہ یگانگت کاماحول ہے۔ سب کچھ ایک ہے۔ ایک ہوش مند نشانے باز کی طرح شاعر چار اشعار میں جب اس بات کے لیے سب کو قائل کر دیتاہے کہ ہمارے ملک میں سب لوگ ایک جیسے ہیں اور سب کی کیفیات ایک ہیں تو مصنّف کی جانب سے بہت سادگی کے ساتھ ایک سوال پیش کر دیا جاتاہے:
”توپھر کوئی کیسے ہُوا باہری“۔
سوال یہ ہے کہ جب ہندستان میں بسنے والے سب انسانوں کے لہو کا رنگ ایک ہے تو کوئی اس میں ایک باہری اور کوئی داخلی کیسے ہوگیا؟ شاعر کو اس بات کی خلش بھی ہے کہ ملک میں سار ی کھلبلی، قتل و خوں، انتشار اور خوف و دہشت کی بنیاد اِسی ایک مسئلے پر قائم ہے۔ اس منطق کے بعد غضنفر گریز اختیار کرتے ہیں اور ہندستان میں مسلمانوں کی آمد کے قضیے کو سامنے لاتے ہیں۔ یعنی انھیں اب’باہری‘ افراد کی وہ تاریخ پیش کرنی ہے جس کے لیے انھوں نے یہ مثنوی صفحۂ قرطاس پر اُتاری ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کے آنے کے کثیر مقاصد تھے۔ کوئی آب و دانہ کے لیے آیا، کسی کو یہاں کی زمینوں کی نمی نے متاثّر کیا، کسی کو کسی دَر سے خاکِ شفا حاصل کرنی تھی؛ سب الگ الگ مقاصد سے آئے۔ یہ سب لوگ بھوکے، ننگے اور بے یارومددگار نہیں تھے۔ سب کے پاس اپنا گھر بار اور زندگی کی شاداب فصلیں تھیں۔ اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر، اپنے آل عیال سے الگ ہو کر اس ملک میں انھیں بسنا تھا۔ یہ لوگ ہندستان آئے تو پانے کی توقّع ضرور ہو گی لیکن وہ جو کھو کر آئے، اس کا بھی حساب مقرر ہونا چاہیے۔ غضنفر نے چند اشعار میں مسلمانوں کی آمد کے وقت ہی وہ کیا کھوکر آرہے تھے، اس پر بڑے سلیقے سے روشنی ڈالی ہے: سماعت میں چیخوں کا ریلا لیے
جدائی کے زخموں کا میلا لیے
نکل آئے اپنا جہاں چھوڑ کر
زمیں چھوڑ کر، آسماں چھوڑ کر
مسلمان اپنا گھر چھوڑ کر یہاں آئے لیکن کیا سب جنگ و جدال اور حکومت کے کاموں میں لگ گئے تھے؟ ہرگز نہیں۔ غضنفر ابتدائی مسلمانوں کی مشغولیت اور کارکردگی کے بارے میں بڑی صاف گوئی کے ساتھ اُن خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں جو مسلمانوں نے اس ملک میں پیش کیں۔غضنفر کبھی سوال کرتے ہیں، کبھی خود ہی جواب دیتے ہیں یا کبھی کبھی سوال میں ہی جواب پنہاں ہوتاہے۔ہندستان میں وحدت، یگانگت اور ترقی کے نئے نئے پیمانوں کو چھلکانے والے لوگوں کی پہچان کیا ہے؟جہالت سے کون لڑا؟ وحدت کا گیت کس نے گایا؟ قومی ترقی کے لیے نئی نئی راہیں کس نے استوار کیں؟اخوّت اور انسان دوستی کے ساتھ ساتھ توکّل اور وسیع المشربی کاسبق جن فقیروں نے سُنایا، آخر وہ کون تھے؟شاہ و گدا کے امتیازات کو کس نے کم سے کم کیا؟ عہدِ وسطیٰ کے ہندستان کے تمام مذاہب کے درمیان اصولی اور عملی بنیادوں پر صوفیاے کرام نے جس پیغام کو عام کیا، آخر اُن صوفیا کا تعلق کہاں سے تھا؟ پہلا مسافر جنگ جوٗ ہو سکتاہے لیکن اُس کے پیچھے ہزاروں اور لاکھوں آئے اور پھر یہاں بس گئے۔ شادیات اور اولادیں سامنے آئیں۔ اُن کے مقاصد اس ملک کے دوسرے باشندوں سے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس لیے یہاں ’باہر‘ اور ’بھیتر‘ کا معاملہ الگ سے کوئی کیوں کر پیدا کر سکتاہے؟بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں غضنفر نے یہ تین اشعار کہے ہیں:
ارادے اگرچہ سبھی کے جُدا
دلوں میں مگر سب کے اک مدّعا
زمیں ہند کی آشیانہ بنے
سبھی کا یہاں پر ٹھکانہ بنے
رہی جو بھی نیت مگر یہ ہُوا
جو آیا یہاں، وہ یہیں رہ گیا
ہندستان میں مسلمانوں کی آمد اور قیام کے ساتھ زبان و تہذیب کے نئے زاویے اُبھرے۔ غضنفر نے ’داستان قیام کے اسباب کی‘باب میں اس کی بہ خوبی وضاحت کی ہے۔ مختلف ماحول اور فضا سے آئے ہوئے یہ مسلمان ایک نئی فضامیں کس طرح بدل کر یہیں کا ہو جاتے ہیں،اس کی چند دل چسپ مثالیں غضنفر نے پیش کی ہیں۔سامنے کی ان باتوں کو غضنفر نے کس طرح ایک علمی وسیلے کے طور پر ہمارے سامنے کھڑا کر دیا ہے، یہ دیکھنا دل چسپی سے خالی نہیں۔ وہ درس و تدریس کاخاصا تجربہ رکھتے ہیں جس کے سبب انھوں نے ہندستان میں مسلمانوں کی آمد کے وقت زبان کی سطح پر کس انداز سے تبدیلیاں سامنے آئی ہوں گی، اس کی بڑے سلیقے کے ساتھ وضاحت کر دی۔ اس باب کے لگاتار چھے اشعار ملاحظہ کریں جن سے غضنفر کا ادب اور سماج کے تعلق سے گہرا فلسفیانہ رشتہ اور تیز مشاہدے کے ثبوت فراہم ہو جاتے ہیں:
بدلنے لگے اس کے نام و نشاں
نئی آگئی اس کے منہ میں زباں
زباں میں نئی صوت شامل ہوئی
صداؤں میں بھ پھ بھی داخل ہوئی
نکلنے لگی منہ سے ٹ ڈ بھی
لگے بولنے ہونٹ ڈھ ڈھال بھی
نہ لہجہ رہا فارسی کی طرح
تلفظ ہوا ناگری کی طرح
مفرّس تھی جو اب مُہنّد ہوئی
معرّب پہ ہندی زباں زد ہوئی
کوئی نام باقر سے بِٹّوٗ ہوا
کوئی میر مہدی سے مِٹھّوٗ ہوا
غضنفرنے ان اسباب پربھی وافر روشنی ڈالی ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندستان میں باہر سے آئی مختلف قوموں میں مسلمان کیوں کر مستقل طور پر یہیں سکونت پذیر ہوئے۔ قدرتی حسن، موسموں میں توازن اور مقامی باشندوں کی کشش انگیزی سے ہی یہاں مسلمان اقوام ہمیشہ کے لیے بس جانے کے خواہش مند ہوئے، مسلمانوں کے اپنے وطن اور ہندستان میں کس انداز کا فرق تھا، اس موضوع پر غضنفر نے بڑی توجہ سے اشعار پیش کیے ہیں۔ عرب و ایران کی قبائلی تہذیب اور ہندستان کے ماحول میں جو امتیازی فرق تھا، اس سلسلے سے مثنوی کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
نہ جھکڑ، نہ طوفاں، نہ ریگِ رواں
تھا محفوظ ہر شاخ پر آشیاں
نہ گولی نہ گولہ نہ بلّم نہ بم
نہ دستِ جنوں تھا نہ وحشی قدم
نہ سودا نہ وحشت نہ کوئی خلل
نہ سینے میں ہلچل نہ چہرے پہ بل
نہ ضربِ مشیّت نہ فطرت کی مار
نہ قومی کدورت نہ ملّی غبار
نہ آنکھوں میں خوں نہ رگوں میں جنوں
نہ بے چین سینہ نہ دل بے سکوں
نہ طوفاں نہ ہلچل نہ کوئی بھنور
نہیں من کے ساگر میں مدّو جزر
سبب ایک یہ بھی تھا ٹھہراو کا
نہ تھا شائبہ کوئی الگاو کا
زندگی کے وسائل بالخصوص زراعت اور تجارت کا اس ملک میں ایک سلیقہ مند نظام تھا۔ آب و ہوا کے اعتدال سے ہر انداز کی کھیتی ہو سکتی تھی۔پھل اورپھول کی رونقیں اس سے بڑھ کر تھیں۔ بزم اور جشن کی کیفیات اس پر اضافہ رہیں۔ غضنفر نے ہندستانی خواتین کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عرب و ایران کے حملہ آوروں اور تاجروں کو ہندستان میں یہ شے بھی باعثِ کشش معلوم ہوئی ہوگی جس کے سبب وہ اسی ملک کے ہو تے چلے گئے۔اب اُن کی خانہ بدوشی اور جوش و جنوں کا خاتمہ ہوا اور نئی قومی زندگی کا آغاز۔ دو شعرملاحظہ ہوں:
کہ پائے مسافر مقفّل ہوئے
سدا کے لیے وہ یہیں رُک گئے
نیا اس طرح ان کو گھر مل گیا
سلگتے سروں کو شجر مل گیا
قیام کے اسباب پر روشنی ڈالنے کے بعد غضنفر نے ٢٥/ اشعار کا ایک باب ”داستان سماں کے بدلنے کی“ شامل کیا ہے۔ مسلمان ہندستان میں رہنے لگے تو کون کون سی تبدیلیاں ہوئی ہوں گی؟ مختلف تہذیب و ثقافت سے آئی آبادی ایک نئی تہذیب کے ساتھ مل کر کیا کر پائے گی یا اس نے کون سی نئی بات کی، اس موضوع کو اس باب میں توجہ کے ساتھ قابلِ مطالعہ بنایا گیا ہے۔ سماجی مساوات اور تہذیبی کُشادگی کے عناصر سے ہندستان کے مقامی باشندوں کی زندگی بدلنے لگی۔ یہاں کے بھی لوگ دوسری جگہوں تک پہنچ گئے۔ اثرات اور سماں کے بدلنے کی کیفیت کو غضنفر نے ان لفظوں میں پیش کرنے میں کامیابی پائی ہے:
فقیری امیری برابر ہوئی
رہائی اسیری برابر ہوئی
اندھیری فضائیں منوّر ہوئیں
تعفّن کی راہیں معطّر ہوئیں
غضنفر کا یہ تاثّر ہے کہ یہ قوم اب اس قدر بدل گئی ہے کہ اسے بدلی ہوئی شکل میں نئی شخصیت کے طور پر ہی پہچانا جا ئے گا۔ اونچ نیچ کے دلدل میں پھنسے سماج کو ہندستان کے نووارد مسلمانوں نے برابری کا جو پیغام دیا، اس کے نتائج فوری طور پر سامنے آنے لگے۔ مظلوم کی زندگی جینے پر مجبور طبقے میں اپنی تمنّا سے زندگی جینے کا شوق پیدا ہوا۔ غضنفر کا بیان غور سے پڑھنے سے تعلق رکھتاہے:
سہانی سی آنگن میں رت آگئی
اندھیری فضا روشنی پاگئی
پڑا تھا جو مردہ، اُٹھا لہلہا
ہوا زندگی کا نیا سلسلہ
نگاہیں کبھی جو اُٹھاتا نہ تھا
نظر سے نظر جو ملاتا نہ تھا
خموشی سے سہتا تھا جور و جفا
نہ لاتا تھا لب پہ کبھی جو گلہ
نوائے نہاں لب پے لانے لگا
شرر بیز نغمہ سنانے لگا
عجب جان تن من میں پڑنے لگی
نئی کوئی ہستی ابھرنے لگی

کربِ جاں‘: غضنفر کی ادبی شخصیت کی تکمیل
[حصّہ سوم]
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
غضنفر اپنے تاریخی مطالعے میں مشاہدے کی معروضیت کو قائم رکھنے کے لیے اُن باتوں پر بھی توجہ کرتے ہیں، جوگرچہ ضمنی نوعیت کی ہیں لیکن تاریخ کے بطن میں ان کا وجود بے اثر نہیں ہے۔اسی لیے اس مثنوی کے نئے باب ”داستان بدلے ہوئے سماں کے ردِّ عمل کی“ میں خاص طور سے مسلمانوں کی آمد اور پھر اس ملک میں ان کے ہاتھوں متعدد انداز کی تبدیلیوں کا بعض حلقوں سے نفسیاتی طور پر ہی سہی، جو ردِّ عمل ممکن تھا، اس کی پیش کش توجہ طلب ہے۔ یہ نفسیاتی ہزیمت بادشاہت کے طویل سلسلے کے باوجود نسل در نسل کس طرح سے منتقل کی گئی، اِسے غضنفر نے قصّے کی شکل میں یوں پیش کیا ہے:
جگاتا رہا سوئے جذبات کو
نہ بھو‘لا کسی بھی طرح مات کو
اسے جب یہ احساس ہونے لگا
کہ وہ اپنی طاقت کو کھونے لگا
کسی روز دم اب نکل جائے گا
کہ یمراج کا زور چل جائے گا
تو بچّوں کو غصّے کا من سونپ کر
انھیں اپنے دل کی جلن سونپ کر
یہ کہتے ہوئے وہ جدا ہوگیا
کہ میری جگہ خود کو تم دیکھنا
وفادار بچّوں نے وعدہ کیا
سمجھ سوچ کے یہ اراداہ کیا
کہ روشن کریں گے ہم اس آگ کو
جلایا تھا بابا نے جس آگ کو
یہ آگ امن وآشتی اور محبت اور سلامتی کی نہیں ہے، اس لیے اس میں سیاست، مذہب اور حکمت کے شعور سے فتنوں کے بیج بونے کا ایک سلسلہ قائم کیا جاتاہے۔ یہ آسان بات نہیں کہ عام سماجی ماحول اور امن کی فضا میں رہتے ہوئے دبی ہوئی چنگاری کی طرح کیسے کوئی منفی جذبات کی پرورش کر سکتاہے۔ غضنفر نے مٹھی بھر لوگوں کی اس کیفیت کو خوب خوب سلیقے سے پیش کیا ہے۔انھوں نے مثنوی کے باب ”داستان منتھن اور چنتن منن کی“ میں بہ خوبی یہ پیش کیا ہے کہ امن کے خلاف محاذ آرائی کی منظّم کوششیں کس انداز سے ہوتی رہیں اور ہندستان میں مذہبی جنون کی فصلیں تازہ کرنے کے لیے کیسی مہم جوئی سامنے آئی؛ اس کی تفصیل اس باب میں درج ہے۔ مثنوی سے چند اشعار ملاحظہ ہوں جس سے یہ اندازہ کیا جا سکتاہے کہ مسلمانوں کی آمد اور ان کی حکومتوں کے خلاف داخلی سطح پر کس انداز کی مخالفت اور سازشیں سامنے آئیں: 
”داستان خیمے سے نکلی ہوئی روشنی کی“ عنوان سے شامل باب ٦٨/ اشعار پر مشتمل ہے۔مسلم بادشاہت کے خلاف اندرونی سطح پر مختلف انداز کی سازشوں کے باوجود بعض سلیقہ مند بادشاہوں اور دیگر افراد کی فراست سے صورتِ حال بدلی اور نفرت کے معمولات کو مٹانے میں انھیں کامیابی ملی۔ غضنفر نے عہدِ وسطیٰ کے ان صوفیا، فقیروں اور بادشاہوں کا تذکرہ کیا ہے جن کے دم سے ملک میں نئے انداز سے اور مزید اثر کے ساتھ محبت کا پیغام عام ہوا۔صوفیا نے جس نظامِ تعلیم پر زور دیا، اُس میں محبت اور وسیع المشربی تھی، امن اور مساوات کے اعمال تھے، تعلیم کا ایک باضابطہ سلسلہ شروع ہو رہا تھا؛ یہ صرف کتابوں کی تعلیم نہیں تھی بل کہ دلوں میں زندگی کی حقیقی کیفیات اُتارنے کا بھی طور یہاں قائم تھا۔ چند اشعار مختلف مقامات سے منتخب کرکے پیش کیے جاتے ہیں:
جہاں کوئی آقا نہ کوئی غلام
جہاں ایک صف میں کھڑے خاص و عام
امیری جہاں پہ جھکاتی تھی سر
فقیری امیری سے تھی بالا تر
جبیں قشقہ والی بھی ہے سر نگوں
شہنشاہِ عالی بھی ہے سر نگوں
فلک کی سی دامن میں تھیں وسعتیں
تھیں اوجِ ثرّیا پہ سب قسمتیں
عجب اس فسوں کا اثر ہوگیا
ضرر آن میں بے ضرر ہوگیا
امن و امان اور سا لمیت کے طویل سلسلے کے بعد ایک ایسا موقع بھی آتا ہے جب حکومت کی زمام اُن کے ہاتھ میں ہوتی ہے جن کے تھوڑے سے سابقین کئی سو برس پہلے کچھ بے اطمینانی اور کئی طرح کی سازشوں میں مبتلا ہو چکے تھے۔ اب انھی کے ہاتھ میں حکومت تھی اور بعض ایسے تھے جن کے دلوں میں شعلگی اور فاسد جذبات رواں دواں تھے۔ اقتدار کے حصول سے ان کی پوشیدہ خواہشیں اور بدلے کے جذبات کچھ ایسے اُمڈ ے جس کے اثر سے ان کی زبان اور کردار سے حیرت انگیز بے انصافی اور عدم توازن کا کاروبار پنپنے لگا۔ یہ امر اُن کے لیے بہت مشکل تھا جن کے دماغ میں یہ بات واضح تھی کہ حکومت چلانا ایمان اور انصاف کے تخت پہ بیٹھنے جیسا ہے لیکن بہ قول غضنفر یہاں تو عجب حال تھا۔ ”داستان ٹھٹھکے ہوئے قدموں کی روانی کی“ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کسی کی زباں لڑکھڑانے لگی
عجب تلخ لہجہ دکھانے لگی
بڑے بول کھل کر لگی بولنے
رعونت کی پوتھی لگی کھولنے
کوئی اس طرح بھی بہکنے لگا
خدا جیسے خود کو سمجھنے لگا
مثنوی کے اگلے باب کا عنوان داستان نویسی کی صفات اور شاعری کے طلسم کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے ”جس کے دم سے ہستی ہنوز باقی ہے، داستان اُس وجود کی“۔ غضنفر نے اس طبقے کو بھی پہچاننے کی کوشش کی ہے جو نفرت کے اس کھیل میں شریک نہیں ہے۔ یہ طبقہ اداس اور فکرمند ہے، اسے تشدّد نہیں چاہیے، نفرت کے شعلوں کو وہ بجھا دینا چاہتا ہے؛ یہ ہندستان کا امن پسند شہری ہے جسے آئین اور جدیدتاریخ کی اصطلاح میں سیکولر قدروں کا ترجمان کہا جا سکتا ہے۔ دوشعر سے اس طبقے کی شناخت کی جا سکتی ہے، ملاحظہ ہوں:
نہیں چاہتا کہ زمیں لال ہو
اہنسا کی دھرتی یہ پامال ہو
تمدن کی دل کش وراثت مٹے
اخوت، مروّت، محبت مٹے
غضنفر نے بہ جا طور پر اس دانش ور طبقے کے وجود کی پہچان اور ستائش کی۔ ان کے ہونے سے کس طرح ملک کے ڈھانچے میں توازن اور استحکام قائم ہے، اس کی وضاحت اس باب میں کی گئی ہے۔ اس طبقے کا مقصد یہی ہے کہ ایک جمہوری اور غیرمذہبی زمانے میں غیر ضروری طور پر نفرت اور بے انصافی کی فصلیں قائم کرنے کا کام ہرگز مناسب نہیں۔ اس کے بعد قصے کا یہ لازمی حصہ ہوتا کہ غضنفر اقلیتی طبقے کے بیچ کون سی کیفیات ہیں یا آخر وہ خوف کی کن کالی گھٹاؤں کے بیچ رہتے ہیں، اس کی بھی پڑتال ہو جائے۔ غضنفر نے ایک مختصر باب اس موضوع سے شامل کیا ہے جس کا عنوان ہے: ”داستان ایک طبقے کے خوف اور اس خوف کے اسباب کی‘۔ یہاں انھوں نے اولاً اکثریتی طبقے میں موجود نفسیاتی خوف کی تصویر کشی کی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے دل میں بیٹھا ہوا ہے کہ ہندستان میں مسلمان باہر سے آکر ہندستانی باشندوں کے حقوق اور مواقع چھین رہے ہیں۔ وسائل کا بٹوارہ انھیں قبول نہیں۔ اس خوف کی نفسیات نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا ہے کہ اقلیتی طبقے کے وجود سے ان کے مواقع سمٹ رہے ہیں۔ غضنفرنے اس کی موثر انداز میں پیش کش کی ہے:
سبب ایک یہ بھی نظر میں رہا
کہ آنے سے ان کے بہت کچھ گیا
ہر اک چیز حصے کی آدھی ہوئی
یہ آدھی بھی تقسیم ہوتی گئی
کہیں اپنی دھرتی نہ جائے کھسک
بچا ہے جو حصّہ نہ جائے سرک
اکثریتی طبقہ جب یہ سمجھنے لگے کہ ملک کی اقلیت آبادی اس کے حقوق چھین رہی ہے تو ماحول میں بگاڑ آنا لازم ہے، اسی لیے اسے ایک ’باہری‘ کردار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’داستان اندیشہ ہاے دور دراز کی‘ میں غضنفر نے اپنی مثنوی کے آخری حصے میں تین کرداروں کی شناخت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک کردار اکثریتی طبقے کے ان لوگوں کا نمایندہ ہے جو اس ملک پر اپنی علاحدہ خدائی کا پرچم لہرا رہے ہیں۔ دوسرا کردار امن و امان کا طلب گار وہ طبقہ ہے جو ملک میں جمہوری اقدار اور تاریخی اصول وآداب سے جینا چاہتا ہے، وہ سیکولر کردار ہے۔ تیسرا کردار بجا طور پر ’باہری‘ قرار دیا گیا وہ انسان ہے جسے عرفِ عام میں مسلمان کہا جاتاہے۔ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے غضنفر نے ان کرداروں کے حالات کے سلسلے سے درست تاثّرات پیش کیے ہیں۔ تین شعر ملاحظہ ہوں:
یہ کردار تینوں عجیب و غریب
کسی کو نہیں چین دل کا نصیب
سبھی اپنی اپنی جگہ بے قرار
سبھی کے دماغوں میں ہے انتشار
سبھی خوفِ فردا سے سہمے ہوئے
کشا کش میں سارے ہی الجھے ہوئے
مثنوی کے اس حصے میں یگانگت کا شیرازہ کس طرح سے بکھرا، اس موضوع پر بڑے پُر سوز اشعار دکھائی دیتے ہیں۔ زوال کی کیفیت اور انسانی دردمندی سے بھرے جذبے کی پیش کش کے لیے اس مثنوی کے چند اشعار قابلِ مطالعہ ہیں: مثنوی کے اس حصے میں غضنفر نے سماجی تانے بانے کے بکھرنے کے اندیشوں پر کئی زاویوں سے غور کیا ہے۔ سماج میں جب منظم طریقے سے نفرت انگیزی بڑھے گی تو ہماری قومی زندگی کا کیا ہوگا؟ جو قومیں بڑے اطمینان سے ایک دوسرے میں شیروشکر ہو کر زندگی گزارتی تھیں، اب انھیں باضابطہ طور پر الگ کرنے کی کوششیں چل رہی ہیں۔ کہاں امن اور مساوات کی ندیاں بہتی تھیں،اب حالات کو بہ زور کروٹیں دینے کی تیاری ہو رہی تھی۔ غضنفر کا ذہن انھی سوالوں میں گُم ہے۔ وہ کہتے ہیں:
مجھے خوف ہے بس اسی بات کا
کہیں کوئی جادو ادھر چل گیا
یہ کردار بھی دام میں آگیا
کہیں ذہن اس کا بھی گہناگیا
تو کیسے بہے گی ہوا امن کی
تو کیسے بچے گی فضا امن کی
اندھیروں سے کیسے لڑے گا دیا
اجالوں کی خاطر کرے گا وہ کیا
تو کیسے بچے گی ہماری زمیں
تو کیسے کھلیں گے یہاں گل حسیں
”اندیشہ ہاے دور دراز“ باب کے آخری حصے کو عجیب غم و الم میں مکمّل کیا گیا ہے۔ غضنفر نے جس سیکولر کردار کی شناخت کی تھی، سماجی اعتبار سے اُس کی بڑی ذمّہ داریاں تھیں۔غضنفر کو معلوم ہے کہ دردوملال کے اس ماحول میں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ اگر یہ ہم درد بیچ سے غائب ہو جائے تو پھر اپنا ہی درد اور اپنے ہی آنسو ہوں گے۔دکھ میں مبتلا طبقہ آخر اپنی بات کس شخص کو سنائے۔ ظالم کو اُس کی غلط کاریوں پر کون ٹوکے گا۔ ایسے متعدّد سوالات تھے جنھیں مثنوی کے اس حصے میں غضنفر نے انسانی سوز و گداز کے ساتھ پیش کیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
غلط کار لوگوں کو ٹوکے گا کون
بلاؤں کے تیور کو روکے گا کون
رکے گا جنونی کا کیسے جنوں
دل و جاں کو کیسے ملے گا سکوں
کوئی بے سہارا کہاں جائے گا
مصیبت کا مارا کہاں جائے گا
سنائے گا کس کو وہ رودادِ غم
دکھائے گا کس کو وہ درد و الم
سنے گا یہاں کون سوزِ دروں
اداسی میں ڈوبے گا کس دل کا خوں
کرے گا وہ روداد کس سے بیاں
سنائے گا قصہ کسے کربِ جاں
مثنوی کا آخری باب ”داستان صفِ بے زبانی کے کردار کی“تک پہنچتے پہنچتے پڑھنے والا کچھ الگ دلی کیفیات میں مبتلا ہو جاتاہے۔شاعر نے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی کہانی کے انجام کے لیے قصے کا ایک ضروری عنصر بچا رکھاتھا۔ چند صفحات پیش تر شاعر نے اپنی کہانی میں تین کرداروں کی شناخت کی تھی لیکن آخری باب میں انوکھا کردار سامنے آجاتاہے۔ یہ عام دکھائی دینے والا کردار نہیں۔ غضنفر نے پہلے ہی شعر میں یوں تعارف کرایا ہے:
کوئی اور بھی اس کہانی میں ہے
مگر وہ صفِ بے زبانی میں ہے
یہ صفِ بے زبانی میں رہنے والا کردار حقیقت میں وہی مصنّف ہے جس نے ’کربِ جاں‘ تخلیق کی۔ قوموں کے بنتے بگڑتے معاملات میں ایک شاعر اور فن کار کی بات کون سنے گا۔ جب دانش وران فہم اور تخلیقی فن کا بازار میں کوئی خریدار نہ ہو تو پھر قوم کا کون نگہہ بان ہوگا۔ شاعر حالات کے مدِّ نظر مثنوی کی روایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعائیہ انداز اختیار کرتاہے۔ اس سلسلے سے بنیادی شعر میں غضنفر نے کیا خوب کہا ہے:
تمدّن کا گھر پھر سے آباد ہو
کسی کی وراثت نہ برباد ہو
مثنوی کے اختتام تک آتے آتے نہ صرف یہ کہ موضوعاتی اعتبار سے غضنفر نقطۂ عروج حاصل کرتے ہیں بل کہ بیان اور اندازِ گفتگو کی بھی ایک بے خودی اُن پر عجب طرح سے طاری ہوتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صفِ بے زبانی سے نکلا ہوا یہ کردار اب آخری باتیں پیش کر رہا ہے۔ خواب اور تمنّا تاریخ کے جبر کے بعد اب رقّت آمیز دعا میں بدل جاتے ہیں۔ شاعر مذہبی صحائف یا صوفیوں کے ملفوظات کی زبان اختیار کرتے ہوئے افسوس، غم اور آرزومندی کے ملے جلے جذبات سے مغلوب ہو کر اِن لفظوں میں دعا کرتا ہے:
جڑی کاش ایسی کہیں سے ملے
مرض جس کے پینے سے جڑ سے مٹے
گیا جس طرح اس زمیں سے پلیگ
پھسلتی ہے جس طرح مُٹھّی سے ریگ
نکل جائے جڑ سے یہ خارِ زیاں
نہ باقی رہے کوئی نام و نشاں
کسی من میں کوئی نہ کھٹکا رہے
نہ کانٹا کہیں کوئی اٹکا رہے
شاعراس قومی مسئلے اور نفرت کے کاروبار میں ایک نوجوان اور بے باک نقطۂ نظر رکھنے والے آدمی کی تمنّا کرتاہے۔ کیوں کہ اُس کے بغیر نیا ماحول نہیں بن سکتا۔ نئی نسل سے اس درجہ انقلابی اقدام کی توقع رکھنا یہ ثابت کر تاہے کہ غضنفر آنے والے لوگوں یا نسلوں سے مایوس نہیں۔ جن کی بڑی عمر ہے وہ نفرت کے کاروبار میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ غضنفر بجا طور پر اپنے قصّے میں ایک اُبھرنے والے شہری کا خواب دیکھتے ہیں جو میدان میں آئے اور صاف، صحیح اورحقیقت مندانہ باتوں کو سب کے سامنے بے لاگ لپیٹ کہہ سکتا ہو۔ یہ اچھا ہوا کہ غضنفر نے مثنوی کا خاتمہ رجائی انداز میں کیا ہے۔ آنے والے وقت میں یہ دنیاایسی ہی رہے گی یا اس سے بد تر ہو جائے گی، ایسا سوچنے والے کروڑوں ہیں لیکن تھوڑے سے ایسے لوگ ہیں جن کے دل میں یہ اعتماد ہے کہ آنے والے وقت میں ہماری نا سمجھی بدلے گی، ہم اپنی برائیوں کو ختم کریں گے، اپنے اعمال سے سیکھیں گے اور ایک انصاف اور مساوات پر قائم نئی دنیا کی تشکیل میں بہ ہر طور کامیاب رہیں گے۔غضنفر کا یہی ایمان ہے۔ سماجی اور سیاسی مسئلوں کے ماہرین اس موضوع پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں کہ آخر اس نئی دنیا کی جدّو جہدکی قیادت کون کرے گا؟ پہلی جنگِ عظیم کے بعد میکسم گورکی نے نفرت سے بھری دنیا میں امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے جنھیں تربیت دینے اور آگے بڑھانے کا مقصد اپنی زندگی میں پالا، وہ ہمارے نوجوان طالبِ علم تھے۔ غضنفر بھی ایک آزاد، بے باک اور سلجھے ہوئے نوجوان کی قیادت میں نئی دنیا کی تعمیر اور مصائب سے نجات کا ایک خوش آیند تصوّر پیش کرتے ہوئے اپنی مثنوی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ غضنفر نے ہندستانی مسلمانوں کے تازہ مسائل کو بنیاد بنا کر قدیم صنفِ سخن مثنوی میں طبع آزمائی کر کے ایک ایسا ادبی نشانہ مقرر کیا ہے جہاں تک دوسروں کو پہنچنا بہ ہر طور دشوار ہے۔ ایسے مسئلوں پرافسانے یا ناول تو متوقع ہیں لیکن طویل قصّہ اس سلسلے سے موزوں کر دیا جائے، یہ نا قابلِ یقین معلوم ہوتاہے۔ غزل کے ایک شعر میں کوئی چبھتی ہوئی بات کہہ کر نکل جانا دوسری بات ہے اور صراحت کے ساتھ قصّہ گوئی کے قدیم و جدید آداب کا لحاظ کرتے ہوئے مثنوی کہنا ادبی اعتبار سے کھیل تماشا نہیں ہو سکتا۔دس بیس اور سو پچاس شعر کہنا تو سمجھ میں آتاہے لیکن کوئی فن کار ہزاروں شعر اس موضوع کی نذر کردے اور مثنوی کے اختتام تک ہر بات آئینہ ہو جائے، یہ واقعتا حیرت انگیز کام ہے۔ مثنوی کے شاعر کے لیے یہ بات ہمیشہ مشکل کھڑی کرتی ہے کہ قصّے کے پھیلاو میں غیر شاعرانہ لوازم کی شمولیت سے فنّی پیمانوں کو گزند پہنچنے لگتاہے۔ آبگینوں کو ٹھیس لگنے لگتی ہے۔ یہ مسئلہ ناول نگاروں کے ساتھ بھی ہمیشہ قائم رہتاہے اور
Artless Form یا Formless Art کی پھبتی سہنے کے لیے ناول نویس مجبور ہوتے ہیں۔ ’قطب مشتری‘ ہو یا ’سحر البیان‘، غیر شاعرانہ لوازم کی شمولیت سے کہیں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔غضنفر کی مثنوی میں بھی ایسے غیر شاعرانہ لوازم قصّے کا حصّہ بنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی طرح انھوں نے ایسی رواں دواں بحر کو منتخب کیا جس میں پڑھنے والے کوشاید ہی کوئی گرانی محسوس ہو۔اکثر بیان کی روانی میں ہمیں یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ حقائق کا ٹھوس پن کس طرح غضنفر کے ہاتھوں میں رقیق بن کر شعر کی موجوں میں شیر وشکر ہو گیا اورکیسے اپنا کام کر گیا۔ ایک مانے ہوئے نثر نگار کی ایسی شاعرانہ صفت ہمیں حیرت میں ڈالتی ہے۔ ایس شاعری روا روی میں نہیں پیش کی جا سکتی۔ صرف دانش ورانہ فہم کے کاندھے پر سوار ہو کر اورمسائل کو بنیاد بنا کر بھی مثنوی نہیں لکھی جا سکتی۔ کبھی فراق گورکھ پوری نے کہا تھا: ’میں نے اس آواز کو مر مر کے پالا ہے فراق‘ غضنفر نے پچھلے چالیس برسوں میں اپنے شاعرانہ اوصاف اور تخیّل آمیزی کو اُسی طرح مر مر کے پالاہے۔ سطحِ زمین پر وہ ناول نگاراو رافسانہ نگار دکھائی دیتے رہے، تعلیمی ماہر کے طور پر نظر آتے رہے لیکن معاملہ یہ تھا کہ وہ جاں نثار اختر کی طرح ایک شخص یعنی اپنے اندر کے شاعر کی یادوں کو بھلانے کے لیے یہ کام کر رہے تھے۔ ڈیڑھ درجن کتابوں کے بعد اُنھیں اپنی شاعری یاد آئی اور عزیز از جان صنف میں قدرتِ کلام کا دعوا پیش کرنے کے لیے انھوں نے مثنوی نگاری کا تن بدن اختیار کیا۔اب اس مثنوی کے پڑھنے والے رفتہ رفتہ شاید غور کریں کہ آخر غضنفر اپنے ناولوں اور افسانوں میں بھی جس شاعرانہ کیفیت کی تخلیق کر رہے تھے، وہ حقیقتاً اُسی شاعر کا ایک عکس تھا۔اسی لیے ’پانی‘ سے لے کر ’مانجھی‘ تک کون ایسی جگہ ہے جہاں وہ شاعرانہ کیفیت اور لوازم کے استعمال سے کبھی گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔’کربِ جاں‘ کی اشاعت سے ہمارے ادبی معاشرے میں غضنفر کو ایک ہمہ صفت اور مکمّل ادبی شخصیت کے طور پر قبول کیا جائے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ عبدالصمد، غضنفر اور پیغام آفاقی کے ایک ساتھ ناول آنے سے اردو میں نئی ناول نگاری کا دور شروع ہوا تھا جس کے نتیجے میں اس دوران کم از کم سو ناول لکھے گئے۔ کیا پتا غضنفر نے جو مثنوی نگاری کا تجربہ کیا اور اپنی شعری صلاحیت کا دعوا پیش کیا؛ ہمارے شعراے کرام متوجہ ہوں اور اُن کی صف سے نکل کر کوئی ایسا ہُنرور سامنے آجائے جو اِس مردہ صنف کی طرف پھر سے توجہ کر دے۔ غضنفر نے عصری موضوعات کی شمولیت کا ایک باضابطہ سلسلہ پیدا کر دیاہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس سے دوسروں کو بھی ترغیب ملے گی اور وہ جن، پری یا شہزادہ شہزادی کے بغیر بھی مکمّل مثنوی لکھنے میں کامیاب ہوں گے۔ (2017) Safdar Imam Quadri Department of Urdu, College of Commerce, Arts & Science, Patna: 800020, Bihar India Email: safdarimamquadri@gmail.com Mob: +91 -9430466321
صفدر امام قادری کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :دھیمے سروں کی شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے