دلتوں کا مسیحا : پریم چند

دلتوں کا مسیحا : پریم چند

محمد منظر حسین
شعبۂ اردو
مولانا آزاد کالج، کولکاتا
اردو کا افسانوی ادب بالخصوص ناول اور افسانہ جن ستونوں پر ٹکا ہوا ہے۔ انہی ستونوں میں سے ایک اہم اور مضبوط ستون پریم چند بھی ہیں۔ پریم چند کا شمار اردو ادب میں ایک عہد ساز ادیب کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب کو اتنا کچھ دیا ہے جس کا احاطہ ایک مضمون میں تقریباً ناممکن ہے۔ پریم چند کا قلمی سفر ”دنیا کا سب سے انمول رتن“ سے شروع ہوا جو بغیر تھکے کفن تک چلتا رہتا ہے۔اردو ناول اپنے ڈیڑھ سو سالہ سفر کی دلہیز پر قدم رکھ چکا ہے جب کہ اردو افسانہ بھی اپنی سو سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے۔ان عرصوں میں بے شمار ادیب آئے جنھوں نے ناول اور افسانے کی شکل میں اردو ادب کو جلا بخشا۔لیکن اس کے باوجود پریم چند کی انفرادیت اپنی جگہ آج بھی مسلم ہے۔ان کا افسانوی ادب ہندوستان کی سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی کے پہلوؤں کو پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
پریم چند کو کہانی لکھنے کا نہ صرف شوق تھا بل کہ جنون تھا اور اسی جنوں نے انہیں دھنپت رائے سے نواب رائے اور پھر نواب رائے سے پریم چند بننے پر مجبور کر دیا۔ ان کے ناول ہوں یا افسانے ہر جگہ ان کا اپنا ایک مخصوص رنگ ہے اور یہی رنگ انھیں دوسرے افسانہ نگاروں میں ممتاز کرتاہے۔ اردو افسانے نے کئی بڑے افسانہ نگاروں کو جنم دیا۔ ترقی پسند تحریک اور جدیدیت نے اس فہرست میں مزید اضافہ کیا۔ اور آج بھی لکھنے والے بڑے انہماک سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ لیکن پریم چند کی بات ہی کچھ اور ہے۔اور یہی وجہ کہ اردو افسانے کے چالیس سالہ سفرمیں شمس الرحمن فارقی جیسے ناقد کا انتخاب نظر پریم چند پر جا کر مرکوز ہو جا تاہے۔ وہ اپنے مضمون ”افسانے کی حمایت میں“ پریم چند کے تعلق سے رقم طراز ہیں :
”١٩٠٠ سے ۰۴۹۱؁ء تک اس عرصے میں آپ نے کتنے افسانہ نگار پیدا کیے؟ بس ایک پریم چند۔“
(شعر، غیر شعر اور نثر : شمس الرحمن فاروقی۔ صفحہ۔۲۴۲)
فاروقی کے اس قول سے پریم چند کے فکر و فن کی بلندی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔پریم چند نے جب کہانیاں لکھنا شروع کیا تو اس وقت ہمارے ملک پر انگریزوں کی حکومت قائم تھی۔ ان کے ظلم و بربریت سے ملک کی پوری عوام پریشان تھی اور وہ غلامی کا طوق اتار پھینکنا چاہتے تھے۔پریم چند ایک ادیب تھے اور ادیب عوام سے زیادہ حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔اسی حساسیت کے مادے نے پریم چند کی وطن پرستی کے جذبے کو ابھارا۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے افسانہ نگاری کی ابتدا وطن پرستی سے ہی کی۔ ۸۰۹۱؁ء میں جب ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”سوز وطن“ منظر عام پر آیا تو اس میں شامل بیش تر افسانے حب الوطنی پر مبنی تھے۔جس میں ملک پر قربان اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کے خیالات و جذبات تھے جسے انگریزی حکومت برداشت نہیں کر سکی اور اس کی تمام کاپیاں حکومت وقت نے ضبط کر لی۔اس واقعے نے پریم چند کی حب الوطنی کے جذبات کو مزید تقویت پہنچایا او ر وہ نام بدل کر مسلسل افسانے لکھتے رہے۔لیکن پھر انھیں محسوس ہوا کہ حب الوطنی اچھی چیز ہے لیکن اپنے ملک میں صدیوں سے چلے آرہے رسم و رواج، ظلم وستم، خانہ بندی اور برہمنی نظام نے سماج کے کم زور طبقوں پر سب سے زیادہ ظلم و ستم ڈھایا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی کہانیوں کا محور انہی موضوعات کی جانب موڑ دیا۔ ان کے مشہور و معروف افسانے عید گاہ، پنچایت، نجات، بوڑھی کاکی، پوس کی رات، بڑے گھر کی بیٹی،نمک کا داروغہ، ٹھاکر کا کنواں، طلوع محبت اور کفن وغیرہ سبھی میں دیہاتی زندگی، کسانوں، مزدوروں کی زندگی، غربت و افلاس اور سماج میں موجود بوسیدہ رسم و رواج کو موضوع بنایاگیا۔ان موضوعات کو اپنی کہانیوں میں جگہ دے کر پریم چند نے اردو ادب میں حقیقت نگاری کا آغاز کیا۔ پریم چند کی حقیقت نگاری کے تعلق سے ماہر پریم چند، قمر رئیس لکھتے ہیں :
پریم چند کی شاہ کار کہانیاں وہی ہیں جو گاؤں کے ماحول اور زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔۔۔۔۔ ان کہانیوں میں پریم چند نے اپنے تجربات، اپنے تخیل کی شادابی اور نفسیاتی بصیرت سے جو محاکاتی حسن پیدا کر دیا وہ اس عہد کی دوسری کہانیوں میں کم نظر آتا ہے۔ان میں ہر کہانی انسانی زندگی یا انسانی نفسیات کے کسی گوشہ کو اس طرح بے نقاب کرتی ہے کہ قاری سوچتا رہ جاتا ہے۔ پوس کی رات میں ایسا لگتا ہے جیسے مصنف نے اپنے وجود کو ہلکو کسان کے وجود سے کامل طور پر آہنگ کر لیا ہو۔“
(پریم چند کے نمائندے افسانے: قمر رئیس، صفحہ۔ ۰۲)
کسی بھی کہانی کی ماہیئت کے مطالعے میں کہانی پن کے عنصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ان عناصر کے متضاد پہلو ہو سکتے ہیں جن سے کہانی کے عمل میں مختلف خصوصیات در آتی ہیں۔ اور یہی خصوصیات کہانی کو آگے بڑھنے میں معاون و مددگار ہوتی ہیں۔ جب ہم پریم چند کی کہانیوں کا بغورر مطالعہ کرتے ہیں توہمیں ان کی کہانیوں میں کہانی پن کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ولیم وان او کانر کہانی کے عنصر کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”جو ادیب اپنے موضوع کو تکنیکی انداز میں مکمل طور پر پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہی ایسے ادب کو جنم دے سکتا ہے جس کا موضوع زیادہ متناسب، بھر پور اور معنی خیز ہو گا۔“
(فارمس آف فکشن : ولیم وان او کانر، صفحہ۔ ۹)
اس طرح سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بڑے کہانی کار کی کہانی کی ہیئتی اورماہیتی جانچ کے لیے ضروری ہے کہ اسے پرکھا جائے کہ موضوع پر اسے کتنا قدرت حاصل ہے۔ اس کی کہانی کی تکنیک اور موضوع میں کتنی یکسانیت ہے۔ ان خصوصیات کا کسی بھی تخلیق کار کی تخلیق میں ہونا ضروری ہے۔
انگریزی حکومت نے ہندوستان میں جاگیر دارانہ نظام اور غلامی کی روایت کو ختم کر دیا تھا۔ اور نئے زرعی و معاشی نظام کا نفاذ کیا۔ لیکن اس نئے نظام نے اور زیادہ استحصال کے دروازے کھول دیے تھے۔ اس نظام نے ایسے ساہو کار طبقہ کو جنم دیاتھا جو گاؤں گاؤں پھیلا ہوا تھا اور کسانوں کی معاشی اور انسانی کم زوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کا طرح طرح سے استحصال کر رہا تھا۔ استحصال پسند طبقے کا مذہب، سماج اور قانون کے علاوہ سب سے بڑا ہتھیار بیاج اور سودتھا۔ جس کی زدمیں اگر کوئی کسان آجاتا تو اپنا گھر زمین بیچ کر بھی نجات حاصل نہیں کر پاتا۔ اور کبھی کبھی تواپنے بال بچوں کو بھی اس سود در سود کے بھنور میں قربان کرنا پرتا تھا۔ محنت کے استحصال کی جو نظیر ہمارے سماج میں ملتی ہے اس کی مثال دنیا کے کسی بھی سماج میں مشکل سے ہی ملے گی۔ اس کی مثال پریم چند نے اپنے افسانہ ”سوا سیر گیہوں“ میں پیش کیا ہے کہ کس طر ح سے کوئی کسان سے مزدور اور پھر مزدور سے بندھوا مزدور بنادیا جا تا ہے۔ لیکن ہمارے سماج میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس استحصال کا احتجاج کرے۔ پریم چند کی زبانی سنئے:
” شنکر کانپ اٹھا، ہم پڑھے لکھے لوگ ہوتے تو کہہ دیتے، اچھی بات ہے۔ ایشور کے گھر ہی دیں گے، وہاں کی تول یہاں سے کچھ بڑی تو نہ ہوگی،کم سے کم اس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں، پھر اس کی کیا فکر، مگر شنکر اتنا عقل مند اتنا چالاک نہ تھا، ایک تو قرض وہ بھی برہمن کا!بہی میں نام رہے گا تو سیدھے نرک میں جاؤں گا،اس خیال ہی سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بولا! مہا راج تمہارا جتنا ہوگا، یہاں دوں گا، ایشور کے یاں کیوں دوں، اس جنم میں تو ٹھوکر کھا ہی رہا ہوں، اس جنم کے لیے کیوں کانٹے بوؤں، مگر یہ کوئی نیاؤنہیں ہے تم نے رائی کا پربت بنا دیا، برہمن ہو کے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے  تھا، اسی گھڑی تگا دا کر کے لے لیا ہوتا، آج میرے اوپر اتنا بڑا بوجھ کیوں پڑتا، میں تو دے دوں گا لیکن تمھیں بھگوان کے یہاں جواب دینا پڑے گا۔“
(سوا سیر گیہوں)
پریم چند نے اپنی کہانیوں میں مذہبی ٹھیکیداروں کے ذریعہ کیے گئے استحصا ل کی بھی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانے ”نجات“ میں ”دکھی“ کے طور پر ایک ایسے کردار کو پیش کیا ہے جو مذہبی ٹھیکیداروں سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔کیوں کہ ان ٹھیکیداروں کے تصور سے ہی دکھی کے اندر دہشت پیدا ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ چاہ کر بھی ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا ہے۔ پیدائش و موت، شادی و بیاہ اور دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے انہیں پنڈت و پروہت کے آشیر واد کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اس لیے دکھی ان کی خوشامدیں کرتا ہے پھر بھی اسے ان کی خوشنودی حاصل نہیں ہوتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مذہبی بے رواداری ہے جس نے دکھی کو اچھوت قرار دیا ہے۔ اور یہی اچھوت پن اسے سماج کے طبقاتی نظام میں سب سے نیچے پہنچا دیتا ہے۔ اس سے ہر کوئی کام لے سکتا ہے لیکن اپنے قریب اس کا آنا برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ اور یہی وجہ کہ جب وہ جی توڑ محنت کے بعد فوت ہو جاتا ہے تو اس کی آخری رسومات کی بھی ادئیگی نہیں ہوتی ہے۔اس کی لاش کو بے گور وکفن جنگل میں پھینک دیاجاتا ہے۔ جہاں چرند پرند اپنی خوراک بناتے ہیں۔ پوری زندگی کی خدمات اور اعتقاد کا صلہ اسے اس شکل میں ملا۔ اس تعلق سے افسانہ ”نجات“ کا اقتباس ملاحظہ کیجئے :
” دکھی اپنے ہوش میں نہ تھا۔ نا معلوم کوئی غیبی طاقت اس کے ہاتھوں کو چلا رہی تھی۔تکان، بھوک، پیاس، کمزوری سب کے سب جیسے ہوا ہو گئی تھیں، اسے اپنے قوت بازو پر خود تعجب ہو رہاتھا، ایک ایک چوٹ پہاڑ کی مانند پڑتی تھی، آدھ گھنٹے تک وہ اسی طرح بے خبری کی حالت میں ہاتھ چلاتا رہا، حتیٰ کہ لکڑی بیچ سے پھٹ گئی اور دکھی کے ہاتھ سے کلہاڑی  چھوٹ کر گر پڑی اس کے ساتھ ہی وہ بھی چکر کھا کر گر پڑا، بھوکا، پیاسا،تکان خوردہ جسم جواب دے گیاتھا۔ پنڈت جی نے پکارا، اٹھ کر دو چار ہاتھ اور لگا دے۔ پتلی پتلی چپلیاں ہو جائیں۔ دکھی نہ اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔
رات تو کسی طرح کٹی۔ مگر صبح بھی کوئی چمار نہ آیا، چمارنی بھی رو پیٹ کر چلی گئی،بدبو پھیلنے لگی، پنڈت جی نے ایک رسی نکالی، اس کا پھندا بناکر دکھی کے پیر میں ڈالااور پھندے کو کھینچ کر کس دیا، ابھی کچھ کچھ اندھیرا تھا، پنڈت جی نے رسی پکڑ کر لاش کو گھسیٹنا شروع کیا اور گھسیٹ کر گاؤں کے باہر لے گئے، وہاں سے آکر فوراً نہائے، درگا پاٹھ پڑھا اور سر میں گنگا جل چھڑکا،ادھر دکھی کی لاش کو کھیت میں گیدڑ، گدھ اور کوے نوچ رہے تھے، یہی اس کی تمام زندگی کی بھگتی، خدمت اور اعتقاد کا انعام تھا۔“
(نجات)
پریم چند کے افسانوں میں کفن کا شمار شاہ کار افسانوں میں ہوتا ہے۔اس لیے مشہور ناقد وزیر آغا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”پریم چند پہلی بار اس منزل پر نظر آتے ہیں“۔ اس کہانی میں پریم چند کا فن عروج کی آخری حد کو چھو چکا ہے۔اس کہانی میں ایک ایسے سماج کی عکاسی کی گئی ہے جس میں کوئی فرد یا طبقہ مسلسل استحصال پسندی کا شکار ہو کرسماج میں اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے آپ میں سمٹ کر رہ جاتا ہے بل کہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جب سماج کی تشکیل میں اس کا کوئی حصہ ہے ہی نہیں، محنت و مشقت کے بعد بھی اسے کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی، تن ڈھکنے کے لیے کپڑا اور سر چھپانے کے لیے چھپر نصیب نہیں ہوتا تو پھر وہ محنت کیوں کرے؟ مذہب اورسماج کے بے جا رسم و رواج کی پابندی کیوں کرے؟اور یہی سب چیزیں اس کے اندر مکر و فریب جیسی صفت پید ا کر دیتی ہے۔گھیسو اور مادھو استحصال زدگی کا اس قدر شکار ہو ئے کہ ان کی اپنی شناخت گم ہو گئی۔ وہ اپنا پیٹ کسی طرح پال رہے تھے۔ لیکن ان کی اور بھی ضرورتیں اور خواہشیں تھیں جو پوری نہیں ہو پا رہی تھیں اوریہی وجہ کہ بدھیاکے کفن کے لیے انہیں جو روپے ملتے ہیں ان سے وہ کفن خریدنے کی بجائے نہ صرف اپنے پرانے جذبوں کی تسکین کرتے ہیں بل کہ سماج پر ایک گہری چوٹ بھی کرتے ہیں۔ جسے پریم چند نے ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے :
” تو کیسے جانتا ہے کہ اسے کفن نہ ملے گا تو مجھے ایسا گدھا سمجھتا ہے۔میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں۔
اس کو کفن ضرور ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا جو ہم دیتے۔
مادھو کو یقین نہ آیا بولا کون دے گا؟ روپے تو تم چٹ کر دیے۔
گھیسو تیز ہو گیا۔ میں کہتا ہوں اسے کفن ملے گا تو مانتا کیوں نہیں۔
کون دے گا بتاتے کیوں نہیں۔
وہی لوگ دیں گے جنھوں نے اب کی دیا۔ ہاں وہ روپیہ ہمارے ہاتھ نہ آئیں گے اور کسی طرح آجائیں تو پھر۔ہم اسی طرح یہاں بیٹھے پیئں گے اور کفن تیسری پار ملے گا۔“
(کفن)
پریم چند کی کہانیوں کا جائزہ اگر انسانی زندگی کی پامالی سے لیا جائے تو جا بجا ایسی تصویریں ابھر کر سامنے آتی ہیں جس سے انسانیت شرم سار ہو جاتی ہے۔ سماج میں موجود دبا اور کچلاہوا طبقہ ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس کا کوئی مقصد نہیں سوائے ظلم و بر بریت برداشت کرنے کے۔ او رجب جبر و ظلم حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو گھیسو اور مادھو جیسا کردار پیدا ہوتا ہے۔جسے اپنی خستہ حالی پر اس لیے افسوس نہیں ہے کہ اسے کم از کم کسانوں کی طرح سخت محنت تو نہیں کرنی پڑتی۔ اس کی بے زبانی اور سادگی سے کوئی بے جا فائدہ تو نہیں اٹھاتا ہے۔ اس لیے پریم چند اپنے افسانے کفن میں گھیسو اور مادھو کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کم زوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے، کہیں زیادہ فارغ البال تھے۔ وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا تعجب کی بات نہ تھی۔ ہم تو کہیں گے گھیسو کسانوں کے مقابلہ میں زیادہ باریک بیں تھا۔ اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔“
(کفن)
پریم چند ایک ایسے فکشن نگار تھے جنہوں نے فکشن کو رومانی دنیا سے حقیقی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ اپنی کہانیوں میں ایسے موضوعات کو اپنا یا جن کا تعلق ان کے قرب جوار کے لوگوں اور سماج سے تھا۔ انھوں نے سماج کے پس ماندہ لوگوں کو جینے کا ہنرسکھایا۔انھیں اپنے حقوق سے واقف کرایا۔ اور یہ نعرہ بھی دیا کہ ہمیں اب حسن کا معیار بدلنا ہو گا۔انھوں نے صرف نعرہ نہیں دیا بل کہ اپنی کہا نیوں کے ذریعہ اسے سچ بھی ثابت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں میں ہمیں بیسویں صدی کے ابتدائی ہندوستان کی مکمل عکاسی دکھائی دیتی ہے جس کا اعتراف پروفیسر قمر رئیس نے بھی کیا ہے :
پریم چند نے اردو ادب اور اس کے سرمایۂ فکر کوایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ انھوں نے زندگی اور کائنات کو فکر و نظر کے مروجہ زایوں سے ہٹ کر ایک نئی سطح سے دیکھا۔ ایک ایسی بلند سطح سے جہاں سے زندگی اور انسانیت کا سمندر کروٹیں لیتا اور ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ وہ پہلے ادیب ہیں جن کی نظرحیات انسانی کے اس انبوہ میں ان مجبور اورمقہورانسانوں تک پہنچی جو قدرت کے دوسرے بے زبان مظاہر کی طرح صدیوں سے گونگے اور بے زبان تھے۔ پریم چند نے انھیں زبان دی۔ ازلی پسپائی اور پس ماندگی کے شکار یہ ہندوستان کے دبے، کچلے کڑوروں انسان تھے۔ جو ملک کی غالب اکثریت اور اس کی دولت، تہذیب اور شان و شوکت کے خالق تھے۔“
(پریم چند کی روایت اور معاصر اردو فکشن، قمر رئیس، ایوان اردو، دہلی، نومبر ۶۰۰۲؁ء ، صفحہ ۵)
پریم چند کی ایک کہانی”تالیف“ ہے جس میں پریم چند نے تشکیک اور بے عملی کو موضوع بنایا ہے۔آریہ سماج اور ہندو مہا سبھا نے ہریجن اور آریہ بھائی بھائی کا نعرہ دیا تھا۔ لیکن عملی طور پر حقیقت کچھ اور تھی۔ جب جنوبی ہند میں مذہبی تبدیلی کا معاملہ آتا ہے تو ہندو مہا سبھا اس کے سد باب کے لیے ایک پر جوش مقرر پنڈت کو بھیجتی ہے۔ جس کا استقبال تمام راستے سبھی لوگ مل کر کرتے ہیں۔ پنڈت جی تقریر کرتے ہوئے اچھوتوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ”وہ بھی انہی رشیوں منیوں کی اولاد ہیں۔ ان کی رگوں میں بھی ان ہی تپسیوں کا خون ہے جو آسمان کے نیچے ایک اور آسمان بنا سکتے تھے وہ کسی طرح بھی ہندوؤں سے نیچے نہیں ہیں۔ ہندو چاہے کتنا ہی اپنے آپ کو اونچا کیوں نہ سمجھے۔“لیکن پنڈت جی کی ان باتوں میں کافی تضاد پایا جاتاہے۔ کیوں کہ ان کے قول و فعل میں ہی تضاد ہے۔ اس لیے ان کی یہ تقریر کافی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ پریم چند نے سماج میں موجود چھوت چھات کی لعنت کو ایک بوڑھا اچھوت اور پنڈت جی کے مکالمے کے ذریعہ پیش کیا ہے :
” بوڑھا: جب آپ انھیں مہاتماؤں کی سنتان بتاتے ہیں تو پھر اونچ نیچ میں کیوں اتنا بھید مانتے ہیں۔
چوبے: اس لیے کہ ہم پتت ہیں۔ اگیان میں پڑکر ان مہاتماؤں کو بھول گئے ہیں۔
بوڑھا: اب تو آپ کو ہوش آیا ہے۔ ہمارے ساتھ بھوجن کیجئے گا۔
چوبے: میں کسی ہندو کے ہاتھ کا بھوجن نہیں کر سکتا ہوں
بوڑھا: میرے لڑکے سے اپنی کنیا کا بواہ کیجئے گا۔
چوبے: تم میرے ساتھ مذاق کرتے ہو۔ جب تک تمھارے جنم کے سنسکار نہ بدل جائیں۔جب تک تم میں وچار پرکاش نہ آجائے۔ اس وقت تک بواہ کا سمبند نہیں ہو سکتا۔
بوڑھا: جب آپ خود کو پتت مانتے ہیں۔ خود اگیان میں پڑے ہوئے ہیں تو آپ کو ہمارے سنسکاروں کو برا کہنے کا کیا حق ہے۔ جائیے بھی کچھ دنوں اپنی آتما کا سدھار کیجئے۔“
(تالیف)
مجموعی طور پر جب ہم پریم چند کی کہانیوں میں موجودہ مسائل اور فرسودہ نظام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسائل پریم چند کی ذہنی اپج نہیں ہے بل کہ خود انھوں نے نہ صرف ان مسائل اور رسومات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بل کہ جھیلا بھی ہے۔ اور یہی سب چیزیں انھیں ایک تخلیق کار کے ساتھ ایک آدرش واد بھی بناتاہے۔ اس کی مثالیں ان کے اکثر افسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانے ” صرف ایک آواز“ میں چاند گرہن کے وقت گنگامیں اشنان کرنے والوں جن میں تعلیم یافتہ لوگ، مذہبی رہنما، سیاسی رہنما، سیٹھ ساہو کار، برہمن پروہت،اخبار نویس سبھی شامل تھے، لیکن ان لوگوں کے دل و دماغ انسانی ہم دردی کے جذبات سے اس قدر خالی ہیں کہ جب انھیں ایک سنیاسی مخاطب کر کے بھائی چارے اور مساوات کی تعلیم دیتا ہے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ سنیا سی کی اس تقریر کو پریم چند نے اپنے افسانے میں بہت ہی دل کش انداز میں پیش کیا ہے۔ سنیاسی کی تقریر ملاحظہ فرمائیں :
”کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ اچھوت بھائیوں سے ہم دردی کا سلوک کر سکیں۔کیا ہم واقعی ایسے پست ہمت، ایسے بودے، ایسے بے رحم ہیں؟ اسے خوب سمجھ لیجئے کہ ان کے ساتھ کوئی رعایت، کوئی مہربانی نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ان پر کوئی احسان نہیں ہے۔ یہ آپ ہی کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے اس لیے میرے بھائیوں اور دوستو! آئیے اس موقع پرشام کے وقت پوتر گنگا ندی کے کنارے کاشی کے پوتر استھان میں ہم مضبوط دل سے عہد کریں کہ آج سے ہم اچھوتوں کے ساتھ برادرانہ سلوک کریں گے ان کی تقریبوں میں شریک ہوں گے اور اپنی تقریبوں میں انھیں بلائیں گے، ان کے گلے ملیں گے اور انہیں اپنے گلے لگائیں گے۔ ان کی خوشیوں میں خوش اور ان کے دردوں میں درد مند ہوں گے اور چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے، چاہے طعنہ و تضحیک اور تحقیر کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے ہم اس عہد پر قائم رہیں گے۔“
(صرف ایک آواز)
پریم چند ایک ایسے ادیب ہیں جنھیں اردو اور ہندی دونوں میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ انھوں نے دونوں زبانوں میں تواتر کے ساتھ کہانیاں لکھی ہیں۔وہ دونوں ہی زبانوں کے ادب میں ایک ایسا چراغ رووشن کر گئے جس کی لو سے آج تک لوگ روشنی حاصل کر رہے ہیں۔ میری بات کی تائید داکٹر جعفر رضا کے اقتباس سے ہوتی ہے کہ :
”پریم چند اردو اور ہندی کہانیوں کی دنیا میں اہرام کی طرح سر بلند، عظیم الشان اور محیط ہیں۔ان کی تخلیقات کی بدولت سدرشن، جنیندر،علی عباس حسینی، کرشن چندر،سعادت حسن منٹو، اپندر ناتھ اشک، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، امرت رائے، اگیہ، پشپال، رام لعل اور بلونت سنگھ کے علاوہ انگنت کہانی کاروں کی راہیں روشن ہو سکیں۔ بعد کے ادوار میں پریم چند کے اثرات بیان کرنا ہمارے موضوع کے حیطۂ عمل سے باہر ہے لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پریم چند نے اپنے تخلیقی عمل میں توازن وتناسب اور اسلوب کی ہم آہنگی اور تراش خراش میں اعلا ترین فن پارے پیش کر دیئے ہیں۔جن سے بعد کے کہانی کاروں نے کسب فیض حاصل کیا ہے۔
پریم چند کی تخلیقات اردو ہندی افسانوی ادب میں وسیع و کشادہ قومی شاہ راہ قرار دی جا سکتی ہیں۔ان کے بعد کوئی دوسری شاہ راہ اردو ہندی افسانوی ادب میں نہیں بن سکی۔ البتہ انگنت چھوٹی موٹی راہیں اور پگڈنڈیاں دوردراز سے آکر قومی شاہ راہ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ ہم توقع کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں ان میں بعض راہیں قومی شاہ راہ بن سکیں گی۔“
(پریم چند کہانی کا رہنما: جعفر رضا، صفحہ۔ ۲۱۳)

محمد منظر حسین کا یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں : اکیسویں صدی میں اردو ناول اور ہمارا معاشرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے