سوشل میڈیا سے وابستہ افراد کا حالِ زار!

سوشل میڈیا سے وابستہ افراد کا حالِ زار!

محمد قاسم ٹانڈؔوی
09319019005
سوشل میڈیا کی دو انتہائی مقبول سائٹس (فیس بک اور واٹس اپ) پر ایک گروپ ایسے لوگوں کا سرگرم و متحرک ہے، جن کی معلومات کا تمام تر ذخیرہ اور اس معلومات کا مأخذ و مراجع بھی واٹس اپ یونیورسٹی اور فیس بک کی دنیا کے ارد گرد ہی گھومتا ہے، جہاں سے یہ گروپ پہلے تو بلا تأمل و تدبر اپنی معلومات میں اضافہ کے واسطے مواد اخذ کرتا ہے اور حقیقت حال کو جانے بغیر بعد میں چیٹ اور کمنٹس کی شکل میں بحث و مباحثہ کے دوران اس کا استعمال کرتا ہے۔ اور اس وقت اس گروہ کا یہ وہم و گمان ہوتا ہے، کہ زیر بحث قضیہ کے اعتبار سے جس معلومات سے میرا دامن لب ریز ہے، روئے زمین پر بسنے والے تمام افراد اس مواد اور ذخیرہ سے تہی دامن ہیں۔ اس دوران اسے یہ خیال تک نہیں رہتا کہ جس بات کو لے کر میں بحث و مباحثہ کر رہا ہوں، اس کا حقیقت و سچائی سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ اس ناقص الفہم گروپ کا یہ رویہ و طریقہ کبھی کبھی نہیں بلکہ کسی نہ کسی کے ساتھ یومیہ ہی رہتا ہے۔ اس گروہ کی سب سے خاص اور ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ دوران گفتگو کام کی باتیں کم اور بکواس زیادہ کرتا ہے اور معمولی سے وقفہ کے بعد ہی یہ گروپ اپنی عادت سے مجبور اور کتابی علم کی دولت سے محرومی کی بنا پر ابے تبے کے ساتھ ساتھ فحش و غلیظ اور نازیبا کلمات تحریر کرکے اپنے غصے کا اظہار اور دل کی بھڑاس نکالنے پر اتر آتا ہے۔ اس وقت منہ زوری میں ماہر یہ لکھاری مافیا ان تمام اصول و ضوابط اور باہمی گفتگو کے آداب کو بھول جاتا ہے، جو ایک سنجیدہ اور صاحب علم شخص کی پہچان بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، بل کہ تمام تر ثبوت و شواہد پیش کرنے پر بھی نہ صرف اپنی ضد و ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے بلکہ "الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” کی مانند بےتکے اور غیرمناسب لہجے کا استعمال کرنے لگتا ہے۔ حال آں کہ اس وقت ہونا تو یہ چاہیے کہ جب ایک صاحب علم اور ماہر فن کی بات مدلل شکل میں ہمارے سامنے آ گئی اور اسی گروپ میں شامل دوسرے احباب کی طرف سے اس بات کی تصدیق بھی کر دی گئی تو اب ہمیں اس بات کو مان کر شکر گزاری کا عمل اپنانا چاہیے اور ان کی بات پر توجہ دے کر تحقیق و تفتیش کا عمل اپنی طرف سے شروع کرنا چاہئے، تاکہ بات میں مزید پختگی پیدا ہو اور جب کہیں ایسی صورت حال پیش آئے تو اسے پورے وثوق کے ساتھ پیش بھی کر سکیں، مگر ایسا نہیں کرتے بل کہ اس وقت بھی منہ زوری میں اپنا کوئی ثانی نہ سمجھتے ہوئے اپنی رائے ہی کو حرف آخر سمجھتے ہیں، کیوں کہ ایسا کرنا ان لوگوں کی عادت بن چکی ہوتی ہے؛ تو یہ واٹس اپ و فیس بک کے طالبان اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا اپنی توہین و ہزیمت تصور کرتے ہیں۔ اور ہماری سمجھ میں اس کی دو وجوہات آتی ہیں، پہلی وجہ: تو حقیقی علم اور اس کے بدلہ پیدا ہونے والی لیاقت کی کمی ہے، اور دوسری وجہ: اخلاقی تربیت سے محرومی ہوتی ہے، جو آدمی کے اندر یہ احساس و جلا پیدا کرتی ہے کہ اسے کب اور کس کے ساتھ کون سے لہجے اور کس رویے سے پیش آنا ہے؟ آیا سامنے والا علم و عمر میں مجھ سے لائق و فائق ہے یا میرے ہم سر و برابر اور کم تر و کہتر، جس کی بنیاد پر مجھے اس کے ساتھ ان اخلاق و آداب کی رعایت کرتے ہوئے پیش آنا چاہئے جن کو دوران گفتگو ضروری بتایا جاتا ہے؟ مگر جیسا کہ اوپر لکھا گیا کہ ان کی معلومات کا تمام تر محور و مرکز انٹرنیٹ کی دنیا سے اخذ کردہ ہوتا ہے، اس لئے گفتگو کے آداب، سامنے والے کا پاس و لحاظ اور موزوں کلمات کا انتخاب جیسے امور ان کے یہاں مفقود ہوتے ہیں اور وہ پورے دھرڑلے اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے کہے ہوئے پر آڑے و جمے رہتے ہیں۔
اگرچہ باہمی تعلقات میں اختلاف رائے کا واقع ہونا یا کسی بھی مسئلہ میں اپنی بات کو الگ یا نئے انداز میں پیش کرنا کوئی معیوب و بری بات نہیں ہے، لیکن اپنی پیش کردہ رائے پر جم جانا اور مدمقابل کی رائے اور اس کی ہر بات کو سرے سے خارج و نظر انداز کرنا، یہ کوئی کمال اور خوبی والی بات نہیں ہوتی۔ بل کہ اختلافات کے وقت ایک دوسرے کی رائے کا بھرپور احترام کرنا اور سامنے والے کی پیش کردہ رائے پر ہر زاویہ سے غور و فکر کرنا اور اس کی تحقیق و تفتیش میں لگنا ہی ہماری اپنی شخصیت میں چار چاند لگانے کا باعث بنتی ہے۔ مگر چوں کہ ہمارے مزاج اور طبیعت میں اس قدر بگاڑ و پستی واقع ہو چکی ہے کہ ہم کسی کی صحیح بات، درست رائے اور دلائل سے مزین نظریات کو بھی پل بھر اور لمحہ بھر کی دیر کیے بغیر ان کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا پسند کرتے ہیں اور اس وقت ذرہ برابر بھی یہ خیال ہمارے دل و دماغ سے ہو کر نہیں گزرتا کہ ہمارے اس طرح کے منفی عمل اور یک طرفہ سوچ و فکر سے خود ہمارا کتنا بڑا نقصان ہونے والا ہے؟ ایسی ہی بری عادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: "اختلافی و نزاعی صورت میں یہ قوم اصول و ضوابط سے عاری اور تحمل و برداشت کے جوہر سے خالی ہوچکی ہے” کیوں کہ آئے دن سامنے آنے والے اختلافی مواقع پر چھوٹے بڑے کا اکرام، باہمی رائے کا احترام اور عالم و غیر عالم کا پاس و لحاظ برائے نام بھی اب غیروں کو دکھائی نہیں دیتا۔
واضح رہے کسی بھی شخص یا کسی بھی ادارے، تنظیم اور جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر ان کی تعریف و توصیف بیان کرنا یا ان کی حصول یابی کا جابجا تذکرہ کرنا اور مدمقابل کو ثبوت میں پیش کرنا، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس شخص کا تعلق اس جماعت و ادارے سے ہے، اور یہ اس کےلئے کوئی بری بات یا لائق طنز و ملامت فعل نہیں ہے کیوں کہ جس طرح ہر شخص اپنی رائے میں آزاد ہے ویسے ہی جماعت اور ادارے سے وابستہ ہونے میں اسے آزادی حاصل ہے اور جب ان دونوں کاموں میں اسے آزادی حاصل ہے تو پھر وہ ان کی خوبیاں بیان کرنے اور حصول یابی شمار کرانے کا حق رکھتا ہے۔ ایسے میں کوئی واٹس اپ یونیورسٹی کا چکر لگانے والا یا فیس بکی دنیا میں ٹکریں کھانے والا درمیان سے اٹھے اور پھر سامنے والے کو لعنت و ملامت کا مستحق ٹھہرانے اور نازیبا اور غیرشائستہ الفاظ و القاب سے نوازنے لگے تو پھر ہم جیسوں کےلئے ضروری ہو جاتا ہےکہ: اس بدباطن اور قابل رحم شخص کو اس کے ٹھکانے تک پہنچایا جائے اور حقیقت حال سے واقف و باخبر کیا جائے، اور جس نے بھی غیر موزوں انداز میں گفتگو کی ہے، اسے ان ہی الفاظ و القاب کے ساتھ اس کے گھر تک پہنچایا جائے، جس سے کہ اسے بعد میں احساس ہو کہ ہاں میں جو خود کو ‘فیس بکی دنیا کا سب سے بڑا دانش ور اور واٹس اپ یونیورسٹی کا جو سب سے زیادہ جان کار و ماہر تصور کرتا تھا، واقعی اب تک میں اندھیرے میں تھا اور اصل علم و آگہی کی دولت سے محروم تھا، جو سوشل میڈیا کے باہر کتابوں اور ماہرین کے پاس موجود ہے، اور اس دولت کو ان ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی اسے اس بات کا بھی احساس و ادراک ہو جائے کہ یہ جو میں نے اپنے اوپر اپنے علاوہ سب کو ہیچ و ناسمجھ ہونے کا بھوت سوار کر رکھا ہے، انٹرنیٹ کی دنیا سے باہر آکر میرا یہ بھوت بھی مجھ سے دور ہو گیا۔
(mdqasimtandvi@gmail.com)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش : http://محمد قاسم ٹانڈوی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے