سید نور الحسن نور نوابی کی غزل گوئی

سید نور الحسن نور نوابی کی غزل گوئی

طفیل احمد مصباحی

Mob : 8416960925

غزل حسن و عشق کی واردات و کیفیات کا ایک جمالیاتی اظہار ہے ۔ تغزل اس کی جان ، رمز و کنایہ اور ایماء و تمثیل اس کی پہچان ہے ۔ عشق و الفت کے جذبات کی ترجمان یہ لطیف صنفِ سخن اپنے شبنمی لہجوں سے دردِ دل اور دردِ جگر کی حکایت بیان کرتی ہے ۔ پھول کی پنکھڑیوں جیسا نرم و نازک یہ فن جلال کے بجائے جمال کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس کڑھے میں اُبال نرم آنچ سے آتا ہے ، بھڑکتے ہوئے شعلوں سے نہیں ۔ نگار خانۂ دل میں متمکن یہ وہ معشوق ہے جو اپنے چاہنے والوں سے ناز برداری و عشوہ طرازی کا مطالبہ کرتا ہے ۔ یہ پلکوں پر ٹھہرا ہوا وہ آنسو ہے جو دامن میں جذب ہونے کے لیے بے قرار رہتا ہے ۔ غزل ہماری تہذیب میں اور تہذیب اور ہماری غزل میں اس طرح رچی بسی ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہے ۔ غزل ہماری ادبی روایات اور مشرقی اقدار کا ایک اہم حصہ ہے ، جس نے زبان و ادب کی ترویج و توسیع کے ساتھ مشرقی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ غزل کی نمایاں ترین خصوصیت دروں بینی ہے ۔ یہاں خارجی حقائق بھی داخلی کیفیات میں ڈھل کر سامنے آتے ہیں ۔ صنفِ غزل میں نوع بنوع افکار و نظریات کا اظہار اسی دروں بینی کا نتیجہ ہے ۔ عرفانِ ذات و کائنات ، غمِ جاناں و غمِ دوراں ، تصوف و اخلاق اور حکمت و فلسفہ کی موشگافیاں اسی کا عطیہ و ثمرہ ہیں ۔

اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ سید نور الحسن نور نوابی ایک ممتاز علمی و روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں ۔ نعتیہ شاعری ان کی منفرد شناخت ہے ۔ ایک درجن سے زائد ان کے نعتیہ مجموعے اب تک شائع ہو چکے ہیں ۔ قادر الکلام نعت گو کی حیثیت سے ان کی شخصیت مسلم ہے ہی ، تاہم غزل گو شاعر کی حیثیت سے بھی ان کا مقام و مرتبہ کافی بلند ہے۔ انہوں نے نہ صرف عہدِ حاضر کے تمام ادبی و فکری معیاروں کو اپنی شاعری میں سمویا ہے ، بلکہ ندرتِ زبان و بیان کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے غزل کے وسیع موضوعات کو بھی مختلف انداز میں برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ان کی غزل گوئی میں فنی لحاظ سے جاذبیت اور معنوی تہہ داری پائی جاتی ہے ۔ پختگی اور قادر الکلامی ایسی ہے کہ ہم ان کے کسی بھی کلام یا شعر کو ” ٹکسال باہر ” کے زمرے میں نہیں رکھ سکتے ۔ ان کا مجوعۂ غزلیات ” شاخِ نوا ” ایک ایسا شجر ہے جس کی شاخ شاخ اور ڈال ڈال پر تغزل و تصوف کے پرندے چہچہاتے ہیں ۔ کبھی وہ عشقِ حقیقی کے راگ الاپتے ہیں تو کبھی بلبلِ شیدا بن کر تغزل کا سرمستانہ نغمہ چھیڑتے ہیں ۔ ان کی غزلیہ شاعری ایک ایسی حقیقت کی روداد ہے جو اپنے اندر انفس و آفاق کی پہنائیاں رکھتی ہے ۔

حسن و عشق ، غزل کا سب سے اہم اور قدیم موضوع ہے ۔ عشق بہر حال عشق ہے ، حقیقی ہو یا مجازی ۔ عشق کے لیے دردِ سر نہیں بلکہ دردِ دل اور دردِ جگر درکار ہے ۔ بلجیم کے مشہور صوفی تمثیل نگار مارس ماہتر لنک کا خیال ہے کہ ” دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے عشق کیا ہو اور اس سے اپنی روح کی عظمت و بزرگی میں اضافہ نہ کیا ہو ، چاہے اس کا عشق کتنا ہی سفلی کیوں نہ ہو ” ۔ عشق و الفت انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ عشق کس کے ساتھ ہے اور انسان کس نوع کے عشق میں گرفتار ہے ؟ یہ اپنے اپنے ظرف ، افتادِ طبع اور توفیق پر منحصر ہے ۔ اس کی تفتیش بے کار ہے ۔ عشق کی توضیح و تشریح میں دفتر کے دفتر سیاہ کردیے گئے ، بایں ہمہ اس کی وسعت و ہمہ گیری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا ۔ یہ وہ بحرِ ناپیدا کنار ہے جس کی وسعت و پہنائی انسانی خرد سے بالا ہے ۔ اس کی ابتدا ہی معلوم نہیں ، چہ جائے کہ اس کی انتہا دریافت کی جائے ۔ کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے :

وسعتِ بحر عشق کیا کہیے
ابتدا ہو تو انتہا کہیے 

سید نور الحسن نور کا نظریۂ عشق انفرادی نوعیت کا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق ایک رمز ہے ، جس کی حقیقت و ماہیت کا ادراک ممکن نہیں ۔ یہ ایک بحرِ نا پیدا کنار ہے ۔ ان کا دل اگر چہ محبت کے لیے مخصوص اور عشق کی آماج گاہ ہے ، لیکن ان کی محبت روحانی قدروں کی حامل ہے جس میں سوز و ساز ہے ، کسک اور گداز ہے ، اطاعت و انقیاد ہے اور اپنے قبلۂ فکر و نظر کے اشارۂ ابرو پر سب کچھ لٹا دینے کا جذبہ ہے ۔

خرد پہ رمز محبت کا آشکارا نہیں
یہی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارا نہیں

اور احساس کوئی جراتِ بے جا نہ کرے
میرا دل ہو گیا مخصوص محبت کے لیے

دیارِ عشق کے چرچے بہت ہیں
مگر اس راہ میں خطرے بہت ہیں

جس کے دامن میں محبت کا گہر آ جائے
وہ اکٹھا کبھی سرمایۂ دنیا نہ کرے

نور صاحب کی شخصیت کے تخلیقی عناصر میں خانقاہی ماحول ، خانقاہی سوز و گداز اور اس کے زیرِ اثر پروان چڑھنے والے روحانی اقدار نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فکر و فن میں تصوف و روحانیت کا غلبہ ہے ۔ ان کی شاعری میں متصوفانہ رنگ کی آمیزش قابلِ ذکر اور جاذبِ فکر و نظر ہے ۔ ان کی پرورش و پرداخت خانقاہی ماحول میں ہوئی ہے اور انہوں نے بزرگوں کی صحبت اٹھائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خانقاہی سوز و گداز اور روحانی فکر و مزاج ان کی شخصیت کے لازمی عنصر ہیں ۔ موصوف شروع سے جذب و کیف اور عشق و سر مستی کی کیفیتوں سے سرشار رہے ہیں ، جس کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا ہے ۔ غزل کا عام موضوع حسن ہے ، لیکن اربابِ تصوف و معرفت کے نزدیک اس کا مفہوم کافی وسیع ہے ، جس میں حقیقت و مجاز ، روحانی و اخلاقی اقدار اور نفسانیت سے خالی مادی حسن کی تمام ادائیں شامل ہیں ۔ انسانی روح ایک جوہرِ لطیف ہے ۔ اللہ رب العزت کی اطاعت و محبت اس کا ازلی خاصہ ہے ۔ خانقاہی حسنِ تربیت اور روحانی فطری تقاضوں کے زیرِ اثر نور صاحب نے اپنی غزل کے باغ میں تصوف کے گلہائے رنگا رنگ کھِلائے ہیں ۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

یہ کوچۂ جنوں نہیں راہِ سلوک ہے
رکھنا قدم یہاں پہ بہت دیکھ بھال کے

جو لوگ اہلِ ظرف سے ہوتے ہیں فیض یاب
کرتے نہیں غرور وہ شہرت کے بعد بھی

عزتِ نفس کا ہو پاس اگر پیشِ نظر
تشنگی بھول کے رخ جانبِ دریا نہ کرے

دامنِ دِل پر داغ بہت ہیں
دیدۂ تر سے دھونا ہوگا

تری بخشی امانت کی خدایا
دل و جاں سے حفاظت کر رہا ہوں

اک معمہ ہی رہی پھر بھی حقیقت اس کی
چلتے چلتے قدمِ فکر میں چھالے آئے

سجادۂ غنا سے ہماری شناخت ہے
خواہاں نہیں ہیں ہم کسی جاہ و جلال کے

وہی نغمہ جو گونجا تھا ازل میں
میں ہر لمحہ سماعت کر رہا ہوں

یہ لمبی رات ، یہ گریہ کا عالم
پڑوسی نور ہوں میں اک ولی کا

نور صاحب کے جادۂ سخن میں تصوف و تغزل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور دونوں ایک شعری فضا ( غزل ) میں سانس لیتے ہیں ۔ غزل ، حسن و عشق کی ایک جمالیاتی داستان ہے ۔ حسن کی مصوری بذات خود اہم نہیں ، عاشق کے جذبے کی شدت ، درد ، کسک ، سوز وگداز ، والہانہ کیفیت اور لطافت اہم ہے ۔ جو غزل اس معیار پر کھری اترتی ہے ، اس کا جلوہ قابلِ دید ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کو شعرا کی اصطلاح میں ” تغزل ” کہتے ہیں ۔ تغزل ، غزل کی جان ہے ۔ ان کی غزلوں میں تغزل کا رنگ کافی گہرا ہے ۔ وہ اپنے جذبات و احساسات کی مصوری اس انداز سے کرتے ہیں کہ طبیعت مچل اٹھتی ہے اور ان تغزل آمیز شعری نغموں سے فضائے احساس میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے ۔

گلابِ شاخِ تمنا جو مسکرا دے گا
تو میرے باغ کو باغِ جناں بنا دے گا

کھِلے ہوئے ہیں تری شوخیوں کے گل بوٹے
دیارِ دل میں قیامِ بَہار ہے اب تک

تری یادوں کے گل بوٹے سجا کر
مزین اپنی خلوت کر رہا ہوں

نقوشِ پائے جاناں کے علاوہ
نہیں احسان میں لیتا کسی کا

دھڑکتا ہے مرے سینے میں جو دل
کرشمہ ہے تری شیشہ گری کا

سامنے جب ہو وہ ” گلِ رعنا ”
بس اسی دم یہ دم نکل جائے

گلستاں میں قدم رکھا ہے اس نے
بہاروں کے زمانے آ گئے ہیں

شاعر موصوف نے غزل کے ساز پر جو سلونی راگ اور مدھ بھرا نغمہ چھیڑا ہے ، اس کی باز گشت عرصۂ دراز تک سنی جائے گی اور ایک کامیاب غزل گو کی حیثیت سے ان کے فکر و فن کو سراہا جائے گا ۔ فکر و خیال کی معنویت ، پیرایۂ بیان کی سادگی ، تمثیلی اسلوب ، لہجے کی حلاوت ، شدتِ جذبات و احساسات اور ادبی قدروں کے حامل تشبیہات و استعارات ان کی غزل گوئی کو مقامِ اعتبار و افتخار بخشتے ہیں ۔


شاعری میں امیجری یا پیکر تراشی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ علامت نگاری ، استعارہ سازی اور پیکر تراشی غزل کے اظہاری پہلو کے نمایاں اوصاف ہیں ۔ یہ ایک دشوار فن ہے ۔ ہر ایک کو یہ شعری جوہر میسر نہیں آتا ۔ بعض قادر الکلام شاعر بھی جہدِ مسلسل کے باوجود پیکر تراشی کے فن سے بہرہ ور نہیں ہو پاتے ۔ غزل جیسی نرم و نازک صنف کے دو مصرعوں میں کسی خوش نما منظر کا نقشہ اس انداز سے کھینچنا کہ اس کا فطری رنگ باقی رہے اور اس میں چلتی بھرتی جمالیاتی تصویر ابھر آئے ، نہایت دشوار کام ہے ۔ ڈاکٹر شہپر رسول اپنے مضمون ” اردو غزل میں پیکر تراشی ” میں لکھتے ہیں :

اردو ادب میں امیج کو پیکر اور امیج سازی کو ” پیکر تراشی ” کی اصطلاحوں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے ۔ پیکر کو ہم ایک ایسی لسانی تصویر کہہ سکتے ہیں جس کے ذریعے شاعر نہ صرف اپنے نازک ، نادر اور نایاب شعری تجربات کا اظہار کرتا ہے ۔ بلکہ ان کو نکھارنے ، سنوارنے اور روشن کرنے کا کام بھی کرتا ہے ۔ پیکر ایک ایسا الہامی نزول ہے جس کا زیادہ تر حصہ لاشعوری ہوتا ہے اور وہ اس وقت ورود کرتا ہے جب شاعر کے جذبات بامِ عروج پر ہوتے ہیں …………….. پیکر تراشی شاعری کا وہ طاقت ور لسانی عنصر یا اثر آفریں صورتِ اظہار ہے جو شاعر کے مافی الضمیر کو سامع و قاری کے ذہن پر پوری طرح منکشف کردیتا ہے اور جس سے تصور و خیال کی چلتی پھرتی تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں ۔

( سہ ماہی فکر و تحقیق ، جنوری تا مارچ 2013 ء )


غالب کے یہ دو شعر پیکر تراشی کی بہترین مثال ہیں :

چِپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

پیکر تراشی کے معاملے میں علامہ اقبال کو کمال حاصل تھا ۔ یہ شعر دیکھیں :

برگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن


غزلیاتِ نور میں پیکر تراشی کی فضا قارئین کو وجد آفریں کیفیات سے دوچار کرتی ہے ۔ ذیل کے یہ اشعار دیکھیں :

شمیمِ کوچۂ جاناں کی مہربانی سے
تمام پیرہنِ جاں مرا مہکتا ہے

ترے خیال کا بادل برس رہا تھا جہاں
وہ کشتِ فکر مری لالہ زار ہے اب تک

اک معمہ ہی رہی پھر بھی حقیقت اس کی
چلتے چلتے قدمِ فکر میں چھالے آئے

حدِ نظر تک چاروں جانب گرد اڑاتے منظر ہیں
پلکیں جھپکیں کیسے کیسے باغ خس و خاشاک ہوئے

مشق میرے جسم پر کرنے لگے
راہ کے کانٹوں کو لکھنا آ گیا

شمیمِ کوچۂ جاناں سے وجود کے پیرہن کا مہکنا ، خیالِ یار کے بادل سے کشتِ فکر کا لالہ زار ہونا اور تلاشِ حقیقت کے جاں گداز سفر سے فکر و تخیل کے پاؤں میں چھالے پڑنا ، الفاظ و معانی کی یہ وہ صورت گری ہے جس سے شعر میں پیش کردہ مرکزی خیال کا پورا نقشہ نگاہوں میں پھر جاتا ہے ۔

افکار و خیالات کے پُر کشش اظہار کو ادب کہتے ہیں ، جس میں نظم و نثر دونوں داخل ہیں ۔ لیکن الفاظ و معانی کے حسین امتزاج اور قارئین کو متاثر کرنے والے دل نشیں اسلوب کے بغیر ادب وجود میں نہیں آتا ۔ ادب خواہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر کی شکل میں ، اس کی ترکیب و ترتیب مواد و ہیئت سے ہوتی ہے ۔ ( مواد کو معانی اور ہیئت کو صورت بھی کہتے ہیں ) مواد و ہیئت اور الفاظ و معانی آپس میں اس طرح ضم ہو جائیں کہ قارئین کو مسرت کے ساتھ بصیرت بھی حاصل ہو ، یہ ادب کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے ، جس کو ” ادبِ عالیہ ” کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔

ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں :

ہم سب خط لکھتے ہیں لیکن ہمارے خطوط ادب کے ذیل میں نہیں آتے ، لیکن اس کے برخلاف غالب کے خطوط ادب کے ذیل میں آتے ہیں ۔ غالب اور دوسرے خطوط کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی تحریر کو ادب کہا جا سکتا ہے جس میں الفاظ اس ترتیب و تنظیم سے استعمال کیے گئے ہوں کہ پڑھنے والا اس تحریر سے لطف اندوز ہو اور اس کے معنی سے مسرت حاصل کرے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب لفظ و معنی اس طور پر گھل مل گئے ہوں کہ ان میں ” رس ” پیدا ہو گیا ہو ۔

سید نور الحسن نور نوابی علمی و ادبی حلقوں میں ” شاعرِ جدت طراز ” کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں ۔ عام خیال اور سادہ مفہوم کو بھی وہ اتنے اچھوتے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ وہ نیا معلوم ہوتا ہے ۔ عمدہ پیرایۂ بیان اختیار کرنے میں موصوف کو کمال حاصل ہے ۔ لفظ و معنیٰ کی آمیزش سے فن پارے میں حلاوت اور رس گھولنے کے ہنر سے واقف ہیں ۔ اس لیے تو تحدیث نعمت کے طور پر کہتے ہیں :

ضرور اہلِ نظر کی نگاہ ٹھہرے گی 
میں نور لفظوں میں ایسا جمال رکھتا ہوں

یہ سارا حسنِ ادا کا کمال ہے ورنہ
کسی بھی لفظ میں موسیقیت نہیں ہوتی

یعنی ان کا ماننا ہے کہ کسی لفظ میں بذاتِ خود کشش یا موسیقیت نہیں ہوتی ، بلکہ پیرایۂ بیان اور حسنِ ادا کی فن کارانہ ترکیب سے الفاظ میں موسیقیت اور نغمگی پیدا ہوتی ہے ، جو بڑی حد تک درست ہے ۔ شاہ نامۂ نظامی ، مثنوی مولانا روم اور شیخ سعدی کی گلستاں و بوستاں کی شہرت و مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ان کے اسلوب میں عمدگی و چاشنی پائی جاتی ہے ۔ نور صاحب ندرتِ فکر اور جدتِ اسلوب کے معاملے میں ایک انفرادی شان رکھتے ہیں ۔ ان کی غزلوں میں مواد و ہیئت اور معانی و صورت کا ایک حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے ۔ فصاحت و بلاغت ، زورِ تخیل ، معنیٰ آفرینی و پیکر تراشی ، تشبیہات و استعارات ، جدتِ اسلوب ، عمدہ پیرایۂ بیان اور صنائعِ لفظی و معنوی کا ایک خوب صورت جہاں ان کی غزلوں میں آباد ہے ۔ ثبوت اور مثال پیش کرنے سے قبل یہ اقتباس ملاحظہ کریں ۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں :

دوسری اصناف کی طرح شاعری بھی مواد اور ہیئت ، معانی اور صورت کا ایک حسین امتزاج ہوتی ہے جس کو ایک دوسرے سے علاحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود لایعنی معلوم ہوتا ہے ۔ اسی امتزاج میں اس کے حسن کا راز مضمر ہے ۔ اسی پر اس کی اچھائی اور برائی ، بلندی اور پستی کا انحصار ہے ۔ فن کا جمالیاتی پہلو اس حسین امتزاج کا دوسرا نام ہے ………….. ہیئت اپنے وسیع مفہوم میں ایک طرف تو وہ طریقِ اظہار ہے جو فن کار استعمال کرتا ہے اور دوسری جانب جذبات سے بھرا ہوا وہ پُر اثر اور کسی حد تک مانوس اظہارِ بیان ہے جو شاعر اور سامع کے درمیان رابطہ اور رشتہ کا کام دیتا ہے ۔ اس میں زبان ، زبان کی تمام آرائش ، اثر اندازی کے تمام طریقے ، مواد کے تمام سانچے ، حسن اور لطافت پیدا کرنے کے تمام ذریعے اور ان سب سے بڑھ کر مواد کے ساتھ ہم آہنگی کا احساس دلا کر ایک مکمل فنی نمونہ پیش کرنا سبھی کچھ شامل ہیں ۔


( غزل اور مطالعۂ غزل ، ص : 162 / 165 ، ناشر : انجمن ترقی اردو ، کراچی )

ناظرین ! اس اقتباس کے بعد مندرجہ ذیل اشعار کا بغور مطالعہ کریں اور خود فیصلہ کریں کہ نور صاحب کی غزلوں میں مواد و ہیئت اور معانی و صورت کا حسین امتزاج ہے یا نہیں اور اگر ہے تو پھر اس کی ادبی و فنی قدر و قیمت متعین کرنے میں ہمیں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے. 

شمیمِ کوچۂ جاناں کی مہربانی سے
تمام پیرہنِ جاں مرا مہکتا ہے

ترے خیال کا بادل برس رہا تھا جہاں
وہ کشتِ فکر مری لالہ زار ہے اب تک

کھِلے ہوئے ہیں تری شوخیوں کے گل بوٹے
دیارِ دل میں قیامِ بَہار ہے اب تک

صورتِ سنگ سرِ راہ پڑا رہنے دے
ایک دروازہ تو ملنے کا کھُلا رہنے دے

ابھی اندازِ تکلم کو نہ کر آئینہ
قریۂ جاں میں یوں ہی حشر بپا رہنے دے

اس کی گلیوں میں ہے کچھ ایسی کشش ایسا جمال
ماہِ شب تاب بھی دستار سنبھالے آئے

عریضہ پہنچا جو اس بارگاہِ عالی میں
کھِلے گلاب مری حسرتوں کی ڈالی میں

یہ ترا دل ہے کہ بازارِ تمنا ہے کوئی
جب نظر اٹھتی ہے میلہ سا لگا رہتا ہے

ترے خیال کے گل زار میں جدھر بھی گئے
قدم قدم پہ مناظر بہت سہانے تھے

ہر ایک شام نظارے نئے نمود کریں
ہر ایک شام فلک پیرہن بدلتا ہے

حریمِ گل تصور میں ہے میرے
بصارت کو بصیرت کر رہا ہوں

ان اشعار کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مواد و ہیئت کے حسین امتزاج کے علاوہ نور صاحب کی شاعری بنیادی طور پر شعریت و معنویت ، شدتِ احساس اور تغزل کی تثلیت سے تشکیل پاتی ہے ۔ معنوی لحاظ سے ان کی غزلوں میں روایت کی پاس داری بھی ہے اور درایت کا خوش گوار اضافہ بھی ۔ خوب صورت تشبیہات ، لطیف استعارات اور لسانی نقطۂ نظر سے نت نئی تعبیرات سے مزین ان کی غزلوں میں غنائیت اور نغمگی کا احساس قارئین پر خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے ۔ ایک مجسمہ ساز کی طرح لفظوں کو تراشنے اور ایک موسیقار کی طرح لفظوں کو ساز و آہنگ عطا کرنے کے ہنر سے واقف ہیں ۔ یہ خوبی ان کی جملہ شعری اصناف میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔

دیگر باکمال شعرا کی طرح نور صاحب بھی حساس طبیعت اور بلاغت آشنا فکر کے مالک ہیں ۔ حقائقِ اشیا کا مشاہدہ کامل گہرائی اور دقتِ نظری کے ساتھ کرتے ہیں اور اپنا حاصلِ مشاہدہ قارئین کے روبرو سلیقے سے پیش کر دیتے ہیں :

میں جب بھی کوئی منظر دیکھتا ہوں
ذرا اوروں سے ہٹ کر دیکھتا ہوں

یہی شے منفرد کرتی ہے مجھ کو
میں قطرے میں سمندر دیکھتا ہوں

صحرائے جنوں کو مسخر کر کے جہانِ آگہی میں قدم رکھنے والے اس فن کار کی زنبیلِ سخن میں حقائق و معارف اور پند و موعظت کے نقوش جا بجا نظر آتے ہیں ۔ مثلاً۔ :

وقت گذرا تو کوئی فیض نہ حاصل ہوگا
فصل وہ فصل ہے جو وقت پہ بولی جائے

اعتبار اپنا بہر حال وہ کھو دیتی ہے
بات جو دل کے ترازو میں نہ تولی جائے

جمتا نہ میرے نام پہ تشکیک کا غبار
تاریخ کے ورق ہی کھنگالے نہیں گئے

شرر جو حوصلۂ دل کا بن گیا شعلہ
گلاب راہ گزر پر مری بچھا دے گا

جہاں قیام میں خطرہ ہے زندگی کا بہت
اسی درخت کے سائے بڑے گھنیرے ہیں

آگے بڑھنا سرشت ہو جس کی
راستے اس قدم سے ڈرتے ہیں

تھرتھراتے ہیں سامنے آتے
تیغ و خنجر قلم سے ڈرتے ہیں

اصلاحِ احوال اور پند و نصیحت پر مبنی یہ اشعار قابلِ قدر اور لائقِ حفظ ہیں :

نور ملتی ہے کہاں نرم مزاجی سب کو
چیز اچھی ہے طبیعت میں سمو لی جائے

سر پہ انسانیت کا سہرا ہے
کیجیے حرزِ جاں شرافت کو

کیا ہے سیرت غرض نہیں کوئی
لوگ بس دیکھتے ہیں صورت کو

چلو یہ رہ گزر تسخیر کر لو
نیا عزمِ سفر بھی باندھنا ہے

غزل گو شاعر کے کمالِ فن اور اعجازِ سخن کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ فکری عمق اور پیغام رسانی کے عمل کے باوجود اس کی غزل کے حسن و دل کشی ، سلاست و روانی اور اس کی تاثیر پر کوئی آنچ نہ آئے ۔ نور صاحب کی غزل رفعتِ فکر و خیال اور ندرتِ اسلوبِ بیان کے علاوہ اس جہت سے بھی مالا مال ہے ۔ ان کی غزلیہ شاعری میں فکری عمق اور پیغام رسانی کے وقیع نمونے موجود ہیں ، بایں ہمہ شعر کا حسن و دل کشی ، سلاست و روانی اور اس کی تاثیر و طرفگی اپنی جگہ سلامت ہے ، جو شاعرانہ عظمت کا ایک واضح ثبوت ہے ۔

غزل ہماری تہذیبی روایت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور تہذیب و تمدن کا تعلق براہِ راست انسانی معاشرے سے ہے ، جس کے دائرے میں دین و مذہب ، تعلیم و تربیت ، اخلاق و سیرت ، سیاست و حکومت ، صنعت و حرفت اور اقتصاد و معیشت کے علاوہ بے شمار عناصر داخل ہیں ۔ ہماری تہذیبی روایت کا قابلِ ذکر حصہ ہونے کی حیثیت سے سماجی و معاشرتی احوال کی عکاسی بھی غزل کے موضوعات میں شامل ہے ۔ اس تناظر میں جب ہم نور صاحب کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معاشرتی بد حالیوں اور سماجی ناہم واریوں کو اجاگر کرنے والے اشعار اچھی خاصی تعداد میں نظر آتے ہیں :

ہر موڑ پہ ہیں بکھرے ہوئے خوف کے سائے
ماحول مرے شہر کا گرمایا ہوا ہے

نہ جانے کتنے سورج ہیں درخشاں
اندھیرا پھر بھی گھر گھر دیکھتا ہوں

ہوا کرتا تھا تازہ پھول جن میں
اب ان ہاتھوں میں خنجر دیکھتا ہوں

تمہیں حیرت زدہ بت کر رہے ہیں
مگر میں دستِ آزر دیکھتا ہوں

اس شہر میں جس طرف بھی دیکھو
نفرت کی چِتا دہک رہی ہے

کسے اپنا کہیں ہم ، غیر کس کو
کہ ہر چہرے پہ اب چہرے بہت ہیں

لے رہی ہیں نفرتیں انگڑائیاں
ہائے یہ کیسا زمانہ آ گیا !

عصری حسیت ، معاشرتی زبوں حالی اور سماجی ناہم واری کے علاوہ ان کی غزلوں میں اخلاق و مروت اور انسانیت دوستی کے نمونے بکثرت ملتے ہیں اور یہ وہ اعلیٰ و ارفع قدر ہے جو کسی شاعر کے فکر و فن کو حسن و جمال کے ساتھ عظمت و رفعت بخشتی ہے ۔

نور صاحب کی شاعری تجربات و مشاہدات کی آئینہ دار ہے ۔ انہوں نے اپنے گرد و پیش کی دنیا میں جو کچھ دیکھا ، سمجھا اور پرکھا اسے نرم اور سبک لہجے میں حسن و نزاکت کے ساتھ پیش کر دیا ۔ غزل کی خوب صورتی یہی ہے کہ اس کے لہجے میں کرختگی اور اس کی زبان میں ترشی نہ ہو ۔ غزل کا حسن و لطافت ، رنگِ تغزل ، شبنمی لہجہ اور اس کی جمال آفریں رمزیت و ایمائیت لہجے کی سختی برداشت نہیں کرتی ۔ نور صاحب کی غزلوں میں زبان و بیان کے لحاظ سے اگر چہ شاعرانہ طمطراق ، شوکتِ الفاظ ، رفعتِ خیال ، ندرتِ اسلوب ، ادیبانہ کرّ و فر اور الفاظ و عبارات کی حسن کاری پائی جاتی ہے، لیکن ان کا مجموعی ڈھانچہ نرم و گداز ، آسان ، سنجیدہ اور سہل الفہم ہے ۔ زیرِ مطالعہ ان کے مجموعۂ غزلیات ” شاخِ نوا ” میں سینکڑوں اشعار ایسے ہیں ، جو ” سہل ممتنع ” کے زمرے میں آتے ہیں ۔ مثلاً :

دیارِ عشق کے چرچے بہت ہیں
مگر اس راہ میں خطرے بہت ہیں

روبرو آئینہ تو رکھنا ہے
جانتا ہوں وہ مشتعل ہوگا

لفظ اس کے پھول سے لگنے لگے
بات کرنے کا سلیقہ آ گیا

اس سے امیدِ سائبانی ہے
اس شجر کو ہرا بھرا رکھنا

زندگی جائے یا رہے لیکن
یاد تیری نہ ایک پل جائے

گزرتا وقت جو چاہے وہ لکھے
کتابِ زندگی سادہ پڑی ہے

سمٹنا اب نظر آتا ہے مشکل
بہت بکھری ہماری زندگی ہے

خلاصہ ہے کتابِ زندگی کا
کہ دشمن آدمی ہے آدمی کا

خلاصۂ کلام یہ کہ سید نور الحسن نور کی غزلوں میں سوز بھی ہے اور ساز بھی ، جمال بھی ہے اور جلال بھی ، تصوف کی رعنائی بھی ہے اور تغزل کی چاشنی بھی ، فکر کا مغز بھی ہے اور مچلتے جذبات و احساسات کا رس بھی ۔ سماجی ناہم واریوں کا تذکرہ بھی ہے اور اخلاق و مروت کی تعلیم بھی ۔ ان ملی جلی کیفیات سے ان کی غزلوں کا جو ڈھانچہ تیار ہوا ہے ، وہ اپنی جگہ نہایت وقیع ، دل کش اور فکر و نظر کو اپیل کرنے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ گلشنِ شہِ نواب علی کے اس گلِ سر سبد کی تازگی و شگفتگی کو ہمیشہ باقی رکھے ۔ آمین

طفیل احمد مصباحی کی یہ تحریر بھی ملاحظہ ہو : پیڑ پودے لگائیں اور آکسیجن فراہم کریں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے