جواں مرگ ادیب:فرقان سنبھلی

جواں مرگ ادیب:فرقان سنبھلی

محمد اویس سنبھلی

۲۶؍اپریل کی شام برادرم ڈاکٹر قمر عالم نے بذریعہ فون یہ اطلاع دی کہ فرقان بھائی (ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی) علی گڑھ کے میڈیسا اسپتال میں ایڈمٹ ہیں اور ان کی حالت بہت نازک ہے ،نیز انھوں نے یہ بھی بتایا کہ سنبھل سے ان کے ماموں زاد بھائی برادر محترم شہزاد علیگ و دیگر احباب علی گڑھ پہنچ چکے ہیں۔ مجھے یہ اطلاع افطار کے فوراً بعد ملی تھی۔ اس کے بعد ہی سے میں مسلسل شہزاد بھائی کے رابطے میں تھا۔وقفے وقفے سے فرقان بھائی کی خیریت دریافت کرتا اور ان کا بس اتنا جواب آتا کہ طبیعت ایک جگہ پر رُکی ہوئی ہے۔ سحری کے وقت فون کرنا مناسب نہیں، لہٰذا شہزاد بھائی کو ایک میسج کیا ۔ کافی دیر بعد ان کا جواب آیا کہ دعاؤں کی بہت سخت ضرورت ہے، ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ’ ہارٹ فیلیور کی طرف جارہا ہے۔‘ اب بس دعائیں ہی کوئی معجزہ کرسکتی ہیں۔ نماز فجر سے فارغ ہوکر میں نے موبائل ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ شہزاد بھائی کا فون آگیا۔۔۔۔انھوں نے بس اتنا کہا ’فرقان بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے‘۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور ان کی قبر کو نور سے منور فرما دے۔ آمین۔
کورونا وبائی مرض نے اس ماہ میں جتنے اپنوں کے چلے جانے کا صدمہ دیا ہے وہ تو شاید ایک برس میں بھی دل پر نہیں گزرا تھا، لیکن ان میں چند کے حادثۂ وفات نے تو دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ رمضان کی تیسری سحری میں راقم الحروف کے محترم ماموں مولانا عبدالمومن ندوی نے محض ۵۶؍برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ اپنے سامنے انھیں قبر میں اتارتے دیکھا،ان کی قبر پر مٹی ڈالی، لیکن اس حادثے کو ابھی تک دل قبول کرنے کو تیار نہیں۔وہ پورے خاندان کے چہیتے تھے اور خود بھی وہ سب کو بڑا عزیز رکھتے تھے۔ گذشتہ ۳۲؍برس سے وہ اشاعت دین کے کام میں لگے ہوئے تھے۔اللہ تعالیٰ اپنے شایانِ شان اجر عطا فرمائے ،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
اس حادثہ کا غم ابھی بالکل تازہ ہی تھا کہ مشرف عالم ذوقی بھی محض ۵۸؍برس کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئے۔ ذوقی صاحب عمر میں ہم سے بہت بڑے تھے اور ان کا مرتبہ بھی بہت بلند تھا، لیکن وہ اپنے چھوٹوں کے سامنے اخلاقیات کے ایسے نمونے پیش کرتے تھے کہ ہم چھوٹوں کو بھی ان سے دوستی کا احساس ہوتا تھا۔وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ انتقال سے چند روز قبل بھی انھوں نے مجھے فون کیا اور طویل گفتگو کی۔ اس سے قبل کبھی اتنی دیر تک فون پر بات نہیں ہوئی تھی۔ دراصل راقم الحروف کی کتاب ’حفیظ نعمانی: ایک عہد ایک تاریخ‘اور عزیز دوست ڈاکٹر عمیر منظر کی کتاب ’خان محبوب طرزی: لکھنؤ کا ایک مقبول ناول نگار‘ انھیں ایک دن قبل ہی ڈاک سے موصول ہوئی تھی اور انھوں نے ان کتابوں کا اکثر حصہ پڑھ ڈالا تھا۔ وہ مشمولات پر گفتگو کررہے تھے اور بہت خوش تھے۔ مجھے آج بھی ان کے وہ آخری جملے یاد ہیں ’پیارے !ذرا سی طبیعت بہتر ہوجائے ، مجھے ان کتابوں پر لکھنا ہے‘۔ وہ جو کچھ میرے بارے میں اس کتاب میں لکھ گئے ، اب وہی ان کی یادگار بھی ہے اور اس نااہل کے لیے سند بھی۔اس کے بعد وہ کچھ نہیں لکھ سکیں گے ۔ ہاں! اب دنیائے علم وادب ان کے بارے میں بہت کچھ لکھے گی۔ ان کے فن پر بھی اور ان کی شخصیت پر بھی۔
ذوقی صاحب کہا کرتے تھے کہ ’تبسم (ذوقی صاحب کی اہلیہ)میرے بغیر چوبیس گھنٹے زندہ نہیں رہ سکتی‘۔۔۔ تبسم فاطمہ نے ذوقی کے اس جملے کی لاج رکھی اور ذوقی کے انتقال سے محض چند گھنٹوں کے بعد وہ بھی رخصت ہوگئیں۔۔۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ذوقی اور تبسم واقعی دو جسم ایک جان تھے۔ ذوقی نے اپنی اہلیہ کے تعلق سے جو کہا تھا وہ ان کی خود اعتمادی تھی اور اپنی محبت پر مکمل یقین اور تبسم فاطمہ نے ذوقی کے پیچھے پیچھے رخت سفر باندھ کر نہ صرف اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت پیش کیا،بلکہ ذوقی کے یقین کو حقیقت کا جامہ پہنا کر اس محبت کو ہمیشہ کے لیے امَرکردیا۔ یعنی ذوقی اور تبسم کی کہانی کا یہ اختتام نہیں بلکہ اس محبت پر تو ابھی بہت سی کہانیاں لکھیں جائیں گی۔یہ تین حادثے ایسے تھے کہ جن کاصدمہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھاکہ بھائی ڈاکٹر فرقان سنبھلی بھی بہت سی یادیں چھوڑ کرعالم خاکی سے عالم ارواح کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
غالباً سن ۲۰۰۰ کے آس پاس کی بات ہے کہ سنبھل کے ہند انٹر کالج میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس مشاعرہ کے کنوینر راقم الحروف کے تایا زاد بھائی برادرمحترم رضوان مسرور صاحب تھے۔ اسٹیج پر شعراء کی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ سامعین بھی خوب محظوظ ہورہے تھے۔ اسٹیج سے متصل چند کرسیاں پریس والوں کے لیے مختص تھیں۔ ان کرسیوں پر ہندی کے کئی صحافی بیٹھے ہوئے تھے اور سب سے پیچھے ایک صاحب اردو میں اشعار نوٹ کررہے تھے۔ راقم الحروف بھی انھیں کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ کرمحض شوق میں سادے کاغذ پر اشعار نقل کررہا تھا کہ اچانک ان صاحب نے مجھ سے پوچھا آپ کس اخبار سے ہیں؟ میں نے ان سے کہا کہ میں کسی اخبار سے وابستہ نہیں، بس شوق میں لکھ رہا ہوں۔ پھر جب میں نے ان سے واپس یہی سوال کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ ہندی اور اردو کے کئی اخبارات کے لیے بیک وقت خبریں تیار کرتے ہیں۔ یہ فرقان بھائی سے میری پہلی ملاقات تھی۔خبر نویسی اور مراسلہ نگاری کا شوق ان کا کافی پرانا تھا۔ یہی سبب تھا کہ وہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے اس کی اشاعت کے ابتدائی دنوں سے ہی جڑگئے تھے تھے۔ قومی آواز آخری سانسیں لے رہا تھا، راشٹریہ سہارا پرکشش بھی تھا اور ایک نئی سوچ کے ساتھ میدان میں اترا تھا ،لہٰذا لوگ اس کی جانب متوجہ ہونے لگے۔ علی گڑھ منتقل ہونے تک وہ روزنامہ راشٹریہ سہاراکے سنبھل میں نمائندے رہے۔ علی گڑھ جانے کے بعد بھی انھوں نے اپنی اس دل چسپی کو باقی رکھا۔ان کی بھیجی ہوئی خبریں اخبار میں بڑے اہتمام سے شائع ہوتی تھیں۔اپنی زندگی کے آخری کچھ عرصہ میں تو وہ پابندی کے ساتھ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے لیے ہفتہ میں ایک کالم بھی لکھنے لگے تھے۔
راشٹریہ سہارا اردو کی اشاعت کے ابتدائی دنوں میں ہفتہ وار میگزین’اُمنگ‘ میں فرقان بھائی کے مضامین بکثرت شائع ہوتے تھے۔ اس زمانے میں وہ انجینئر محمد فرقان سنبھلی کے نام سے لکھتے تھے۔اردو فرقان بھائی کا شوق تھا جو بعد میں Passionمیں تبدیل ہوگیا۔ان کی ابتدائی تعلیم میں اردو کبھی شامل نہیں رہی۔ بلکہ انھوں نے تو ۱۹۹۳ء میں سول انجینئرنگ کا ڈپلومہ کیا تھا ۔ کچھ دن اس میدان میں ملازمت بھی کی لیکن طبیعت اردو کی طرف مائل ہوچکی تھی۔ لہٰذا انھوں نے دوبارہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہائی اسکول اور انٹر میں اردو سنگل سبجیکٹ کے ساتھ امتحان پاس کیا۔ ۲۰۰۸ میں اردو سے ایم اے کرنے کے بعد انھوں نے مڑ کرنہیں دیکھا۔۲۰۰۹ء میں NETکا امتحان پاس کیا۔۲۰۱۰ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ ایم اے کے زمانے سے وہ افسانے لکھنے لگے تھے۔ پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کے فوراً بعدغالباً۲۰۱۰ء ہی میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’آب حیات‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ’روہیل کھنڈ میں اردو افسانہ‘ کے موضوع پر انھوں نے تحقیقی مقالہ قلم بند کیا ،جس پر۲۰۱۵ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ۔ واضح ہو کہ ’آب حیات‘ کی اشاعت سے قبل ڈاکٹر فرقان سنبھلی کی تین کتابیں ’مصرِ قدیم‘ (۲۰۰۳ء)، ’آئینۂ فلکیات‘ (۲۰۰۴ء) اور ’اردو صحافت اور ضلع مرادآباد‘ (۲۰۰۸ء) شائع ہوکر منظر عام پر آچکی تھیں۔افسانوں کا مجموعہ’آب حیات‘کی اشاعت کے بعد ۲۰۱۳ء میں ’نقوش قلم‘ کے نام سے ان کے مضامین و مقالات کا مجموعہ شائع ہوا، اسی برس ’ترک اور سنبھل سرکار‘ کے نام سے ان کی ایک اور کتاب شائع ہوئی۔ ۲۰۱۴ء میں ’اسلم جمشیدپوری کے دیہی افسانے‘ کے نام سے کتاب مرتب کی۔۲۰۱۵ء میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’طلسم‘ کے نام سے شائع ہوا۔۲۰۱۶ء میں ان کی کتاب ’روہیل کھنڈ میں لوک گیتوں کی روایت‘ شائع ہوئی تو۲۰۱۷ء میں انھوں نے ڈاکٹر وکرم سنگھ کا سفرنامہ ناروے کا اردو ترجمہ’سورج: چاندنی رات میں‘ کے نام سے شائع کیا۔اس کے بعد وہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، دہلی کے ایک پروجیکٹ پر کام کرنے لگے ۔ اس کا عنوان ’روہیل کھنڈ کا افسانوی ادب ‘تھا۔۲۰۱۹ء میں انھوں نے یہ پروجیکٹ مکمل کرکے کونسل میں جمع کردیا تھا۔
ڈاکٹر فرقان سنبھلی مستقل کام کرتے رہنے پر یقین رکھتے تھے اور ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں لگے رہتے تھے۔ حال ہی میں ان کی دو کتابیں ’پاپا میاں شیخ عبداللہ‘ ( مونوگراف)اور ’سوانح شیخ عبداللہ‘ شائع ہوکر منظر عام پر آئیں۔علی گڑھ میں رہنے کی وجہ سے انھیں مواقع زیادہ ملے ۔ گذشتہ ۱۱ ؍ برس میں انھیں ۱۵۰؍سے زیادہ بین الاقوامی اور قومی سمینار میں شرکت کا موقع ملا۔تقریباً ۳۵؍ریسرچ پیپر ملک و بیرون کے جنرلز میں شائع ہوئے۔۱۰۰؍سے زیادہ مضامین و تبصرے لکھے۔وہ ’تاریخ سنبھل‘ پر بھی کام کررہے تھے۔ ان کے اندرادبی دل چسپی بھی تھی اور ذوق و شوق بھی، نیز جنون ، محنت اور لگن کا جذبہ بھی خوب خوب ان کے یہاں دیکھنے کو ملتا تھا۔
فرقان صاحب اپنے اساتذہ کے چہیتے تھے۔ لہٰذا پی ایچ ڈی مکمل ہونے کے فوراً ہی بعد وہ ویمنس کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے تھے اور آخری سانس تک اسی سے وابستہ رہے۔ ویمنس کالج کے شعبہ اردو میں بھی ان کا تقرر کانٹریکٹ بیس ہی ہوتا تھا۔ اس کی مدت گیارہ مہینے کی ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے ہر سال انھیں انٹرویوں کی اذیت اور اساتذہ کی خوشامد سے گزرنا پڑتا تھا۔لیکن اس سب کے باوجود وہ ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں منہمک رہے۔ وہ بکثرت سمینار ودیگر ادبی تقریبات میں نہ صرف شرکت کرتے تھے، بلکہ مقالے بھی پڑھتے تھے۔ لکھنے پڑھنے کا ان کا سلسلہ بڑی پابندی کے ساتھ جاری تھا۔ یہی سبب ہے کہ یکے بعد دیگرے ان کی کئی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آئیں۔
میری ان سے ملاقاتیں تو کم ہوتیں تھیں ، اکثر فون پر بات ہوجایا کرتی تھی۔گذشتہ ڈیڑھ برس اس وبائی مرض کورونا کی نذر ہوگیا۔ جس کی وجہ سے سنبھل آنا جانا بھی کم ہوا ۔ لہٰذا ان سے کافی عرصہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ آخری ملاقات سنبھل میں ۲۰۱۹ء میں اس وقت ہوئی تھی ، جب وہ علی گڑھ سے پدم شری حکیم ظل الرحمٰن صاحب کو لے کر سنبھل آئے تھے۔ اتفاق سے اس وقت میں سنبھل ہی میں تھا ۔ فرقان بھائی نے مجھے فون کرکے بس اتنا کہا کہ ظل الرحمٰن صاحب ملنا چاہتے ہیں،عاشق پبلک لائبریری آجائیں۔ حکیم ظل الرحمٰن صاحب دارالعلوم ندوۃ العلماء کی شوریٰ کے اہم رکن ہیں۔ وہ جب بھی اجلاس میں شرکت کے لیے لکھنؤ آتے ہیں ، ضرور یاد کرتے ہیں۔ ان کی محبت کا تقاضا تھا کہ میں فوراً لائبریری پہنچ گیا۔ سب سے ملاقات ہوئی ۔ فرقان بھائی علی گڑھ لوٹ گئے اور میں لکھنؤ واپس آگیا۔اس کے بعد ان سے فون پر گفتگو ہوتی رہی ۔ گذشتہ مارچ میں نے سنبھل میں حفیظ نعمانی صاحب کی یاد میں ایک سمینار کرنے کا ارادہ کیا تھا ۔ اس میں فرقان بھائی سے شرکت کی درخواست بھی کی تھی، جسے انھوں نے بخوشی قبول کرلیا لیکن کسی سبب یہ پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔۔۔۔اور فرقان بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ڈاکٹر فرقان سنبھلی بہت خوش اخلاق اور ملنسار انسان ، عزیز دوست اور محترم بھائی تھے۔ بے شک آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن وہ اپنی تصنیفات و دیگر ادبی خدمات کے ذریعے ہمیشہ اردو والوں کے درمیان زندہ رہیں گے۔ فرقان سنبھلی ۲۰؍جون ۱۹۷۳ء کو دیپا سرائے سنبھل میں پیدا ہوئے اور محض ۴۸؍برس کی عمر میں ۲۷؍اپریل ۲۰۲۱ء کو انھوں نے آخری سانسیں لیں۔وہ سرزمین سنبھل کے ہونہار سپوت، ایک کامیاب ادیب، اچھے صحافی اور افسانہ نگار تھے۔ سنبھل کی علمی و ادبی خدمات کا موجودہ منظر نامہ ڈاکٹر فرقان سنبھلی کے ذکر کے بغیر ادھورا رہے گا۔ بہت دن تک ان کی یاد ستاتی رہے گی۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔آمین۔
٭٭٭

صاحب تحریر کا مختصر تعارف:
پیدائش : اپریل 1981
آبائی وطن :  سنبھل، یوپی ، ہند
مادر علمی : ہند انٹر کالج، سنبھل، لکھنؤ یونیورسٹی
 
تصنیف و تالیف :
اعتراف سعادت ، بجھے دیوں کی قطار، کاوشیں
قلم کا سپاہی: حفیظ نعمانی، باغ سنبھلی کی شعری کائنات،
افسانوی ادب اور حیات اللہ انصاری، نذرِ شارب، 
حفیظ نعمانی ایک عہد ایک تاریخ
 
مناصب : نائب مدیر سہ ماہی ’کاوش‘، شاہ جہانپور
 
رابطہ : 9794593055
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے