فہد۔ اللہ کی امان میں

فہد۔ اللہ کی امان میں

ڈاکٹرعمیر منظر
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، لکھنؤ کیمپس

کووڈ۔19کی دوسری انسانیت کش لہر میں بہت سے عزیز اور شناسابڑی تیزی سے رخصت سفر باندھ رہے ہیں۔ عزیز دوست اور سینئر ساتھی ڈاکٹر امان اللہ فہد فلاحی(1973-2021) نے قصد کیا تو سینہ چاک ہوگیا۔ع
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
اوّلاً امان بھائی کی علالت کی خبر آئی،علاج و معالجہ کے لیے احباب ومتعلقین دوڑبھاگ کرتے رہے۔تشویش میں اضافہ ہوتا رہا، ہم سب دعا کرتے رہے، بالآخر کئی روز حیات و موت کی کش مکش میں مبتلا رہنے کے بعد 22،اپریل 2021کوجان جان آفرین کے سپرد کردی. مجھ جیسے بہت سے لوگ دل مسوس کررہ گئے۔ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ڈاکٹر امان اللہ فہد کے انتقال کے بعد سوچتا ہوں تو ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔یہی محسوس ہوتا ہے کہ کہیں ملیں گے تو فوراً پوچھیں گے کہ کہاں تھے اتنے دنوں سے۔امان بھائی احباب و متعلقین کے لیے خلوص و مروت کی مثال تھے۔ان میں اپنے سے بڑوں کے تئیں عزت و احترام کا قابل رشک جذبہ موجود تھا۔ ہم لوگ ہنسی مذاق میں ہی کبھی کبھار حدود پھلانگ لیتے تھے مگر وہ اس معاملے میں بھی بہت وضع دار واقع ہوئے تھے۔انھیں رشتوں کو سجونے کا ہنر آتا تھا۔ناپ تول کر بات کرنا، احباب اور جملوں کو قابو میں رکھنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔کبھی زبان کھولتے تو نیم تبسم کے ساتھ ایک مصرع سے ہی کام چلا لیتے اورکبھی ایسا گریز کرتے کہ بات کا رخ ہی بدل جاتا۔
امان بھائی چلتے پھرتے جامعہ میں مل جاتے تو خیال گذرتا تھا کہ انھیں جامعہ میں ضم ہوجانا چاہئے تاکہ انھیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مزید مواقع ملیں،مگر ایسا نہ ہوسکا۔لیاقت،اہلیت سب کچھ تھی مگر منشائے ایزدی کچھ اور تھی۔ان کی تعلیمی استعداد اپنے ہم عصروں سے کہیں زیادہ تھی. اس حساب سے جو چیزیں انھیں ملنی چاہیے تھیں،وہ نہیں مل سکیں،جس کا انھیں شکوہ بھی نہیں تھا۔ہمارا تعلیمی سماج اُن باصلاحیت افراد کوجن کی شرافت اور سنجیدگی کسی دوسرے کے لیے مسئلہ نہیں بنتی بہت سلیقہ سے نظر انداز کرتا ہے، ڈاکٹر امان اللہ فہد تعلیمی دنیا کے اسی عام رجحان /رویے کا شکار ہوئے۔انہی کے سامنے لوگوں کو مواقع ملتے رہے اور انھیں آگے بھی بڑھا یا جاتا رہا مگر اعلی ظرفی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ جس سیاست کے وہ شکار ہوئے کبھی اس کے بارے میں حرف شکایت تو کجا، اس کا ذکر تک نہیں آنے دیا۔اس پورے عرصے میں اس سلسلے میں کبھی کوئی بات انھوں نے نہیں کی۔ایک بار یہ عنوان کہیں سے آیا توکچھ کہنے کے بجائے پروین شاکر کا ایک شعر سناتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے ساتھ گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آجاتا
سید حامد کاقائم کردہ ادارہ’ہمدرد پبلک اسکول‘ (سنگم وہار،نئی دہلی)ان کی اگلی منزل تھا اور ایک مدت تک یہی ادارہ ان کی عملی جولان گاہ رہا۔جامعہ سے جو کچھ سیکھا تھا وہ یہاں کام آیا اور رفتہ رفتہ ایک اچھے استاد کے طورپر ان کا نام ان کے شاگردوں کی زبانی سنا جانے لگا۔ہمدرد پبلک اسکول کے درودیوار سے دور دلی کے مختلف ثقافتی اور انعامی پروگراموں میں وہاں کے طلبہ کی کارکردگی سامنے آنے لگی۔استاد کی تربیت اورحسن سلوک کے مناظر دوسروں کو بھی مسحور کرنے لگے۔
امان بھائی بجواں کلاں،بلرام پور، یوپی کے رہنے والے تھے۔انھیں پہلے پہل جامعۃ الفلاح میں دیکھا تھا۔محنتی اور اچھے طالب علموں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔جمعیۃ الطلبہ کے تحت ہونے والے ادبی پروگرام بزم ادب کے ذمہ دار بھی رہے۔جامعۃ الفلاح سے عا لمیت کے بعد انھو ں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا رخ کیا اور یہیں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز سے بی اے اور ایم کیا اوربعد ازاں 2004میں ”شمالی ہند میں تعلیم نسواں کے مذہبی ادارے“ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔اُس زمانے میں جب کہ نیشنل فیلو شپ حاصل کرنے والے اسکالر انگلیوں میں گنے جاسکتے تھے، امان بھائی وظیفہ یاب ہوئے۔اس منزل تک پہنچنے میں انھیں بہت سے ہفت خواں بھی طے کرنا پڑے لیکن کوئی بھی کڑا وقت ان کو منزل تک پہنچنے میں مزاحم نہیں ہوسکا اور اس طرح انھوں نے جدوجہد اور عزم پیہم کی ایک الگ مثال قائم کی۔ان پریشانیوں اور مسائل نے ان کی شخصیت کو اس طرح سجا سنوار دیاتھا کہ وہ دوسروں کے لیے ایک جذبہ میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ناموافق حالات پر نہ گھبرائے نہ کبھی اس کا شکوہ کیا بلکہ اس کو اپنی تعلیمی صلاحیت کو بڑھانے اور اپنے اندرمزید نکھار پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ریسرچ کے دوران شعبہ کے جونئیر ساتھیوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے سب کے ساتھ ان کا حسن سلوک اور خندہ پیشانی سے پیش آنا عام بات تھی۔
ڈاکٹر امان اللہ فہدکا تعلیمی سفر بے مثال تھا۔ وہ پوری توجہ سے اس راہ پر گام زن رہے۔اساتذہ سے استفادہ اور ان کی قدر دانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اساتذہ کے بعض احکام کے سلسلے میں کبھی کبھی ہمارا رویہ اپنے جونیئروں سے تعمیل کا رہتا ہے مگر انھوں نے یہ سعادت کبھی دوسرے کے حصے میں نہیں جانے دی۔انھیں کسی کام کوترتیب اور سلیقے سے کرنے کا ہنر ہی نہیں بلکہ مشق بھی تھی۔ٹھہر ٹھہر کر وضاحت اور صراحت والی گفتگو لطف دیتی تھی۔حسن خط بھی اتنادل کش تھا کہ شخصیت کی تمام تر رعنائی اس میں سمٹ آئی تھی۔خوش سلیقگی اور نفاست نے شخصیت کو پیکرجمیل بنا رکھا تھا۔مسکراتے ہوئے مخصوص انداز میں ملنا، جس میں کسی طرح کا کروفر نہیں تھا۔غالباًاسی سبب سے شوخ رنگ نہ ان کی طبیعت نے گوارا کیا اور نہ کبھی ان کے جسم نے۔ان کی شرافت اور سنجیدگی کبھی کبھی یوں الجھن کا سبب بن جاتی کہ ہم آزادہ روی اور سیلانی مزاج کے لوگ تھے۔یہ خیال بھی گذرتا تھا کہ یہ شرافت اور سنجیدگی ٹھیک تو بہر حال ہے مگر بہت سے لوگ اسے شخصی کم زوری سمجھنے لگتے ہیں۔اکثر یہ میرا اعتراض ہوتا مگر اسے وہ بہت خوب صورتی سے ٹال دیتے۔
امان بھائی ایک اچھے استاد تھے۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ ایک اچھے طالب علم رہے۔فلاح میں ان کا نام ٹاپر کی فہرست میں رہتا تھا۔وہ طالب علمانہ ضروریات سے واقف رہے۔ اچھا استادکتابوں اور علم وآگہی سے اپنا رشتہ ہمیشہ استوار رکھتا ہے۔ وہ کلاس کے مختلف مضامین کو اپنی سطح پر غور وفکر کرتا ہے اور سمجھتا ہے. انہی خوبیوں کی وجہ سے ان کے بہت سے شاگرد جوکہ اب استاد ہوچکے ہیں، آج بھی ان کے طریقہ تدریس کے مداح ہیں۔جامعۃ الفلاح میں کلاس کے علاوہ اجتماعی شکل میں پڑھنے پڑھانے کا جورواج تھا،اس میں عام طور پر ِذہین ودرّاک طلبہ ہی قیادت سنبھالتے تھے. اگر کسی کو کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو سوال کرتا یا عبارت کو دہراتا، اس پر بحث و مباحثہ ہوتا اور پھرکسی حتمی نتیجے تک رسائی حاصل کی جاتی تھی۔ امان اللہ فہد فلاح کے اس غیر رسمی تعلیمی روایت کی زندہ مثال تھے۔
امان بھائی نے صوفیانہ طبیعت پائی تھی۔وہ شہرت اور ناموری کے بکھیڑوں میں کبھی نہیں پڑے۔ گاہے بہ گاہے وہ مقالے اور مضامین بھی لکھتے رہے مگر تصنیف و تالیف ان کے لیے اس طرح کا میدان نہیں بن سکا کہ وہ کوئی بڑا علمی اور تحقیقی کام دنیا کے سامنے پیش کرسکیں. البتہ انھوں نے ایسے لوگوں کی تربیت ضرور کی ہے جو اس راہ کے راہی بنیں گے۔دلی کے بعض اہم ادبی پروگراموں کی نظامت کے ساتھ ساتھ ’ماہنامہ زندگی نو‘ جیسے اہم رسالے میں ان کے مضامین بھی ایک دہائی قبل شائع ہوئے۔ادھر سات آٹھ برس سے مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے کیا لکھا۔البتہ جامعہ اسکول میں تقرر کے بعد یہاں کے ثقافتی اور دیگر پروگراموں میں وہ پیش پیش رہتے تھے۔یوم تاسیس کی تقریبات کا آغاز جامعہ اسکول سے ہی ہوتا تھا۔یہاں انھیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع خوب سے خو ب ملے، جس کا خاطرخواہ اثر ان کے طالب علموں پر مرتب ہوا۔اب ان کے نہ رہنے سے ایک ادارے کا جو زیاں ہے وہ اپنی جگہ مگر طلبا کی نگاہیں ایسے مواقع پربار بار انھیں ڈھونڈیں گی۔
تعلیم کے دوران ہی امان بھائی نے دلی میں اپنا گھر بسالیا تھا۔شادی کا یادگار دن اب بھی آنکھوں میں روشن ہے۔کاکانگر میرج ہال میں تزک و احتشام کے ساتھ شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ڈاکٹر محمد ارشد،سمیع اللہ اعظمی اورڈاکٹر محمد خالد ان کے دوستوں کا یہ ایک الگ حلقہ تھا، جس نے تکلف اور تکلیف کو کبھی راہ نہیں دی تھی اور اسی لیے ہنسنے اور بولنے کے مواقع خوب ملتے رہے۔ان کی شادی کے بعد ہم دوستوں کو دلی میں ایک گھر مل گیا تھا. نہ جانے کتنی شامیں امان بھائی کی ضیافت کی یادگار ہیں۔ایسا لگتا تھا ضیافت کی مختلف شکلوں میں بھابھی نے امان بھائی کے خلوص کو سجادیا ہو۔یہ تواضع دونوں کے حسن ذوق کی آئینہ دار تھی۔ اخوت و یگانگت کے اس چھوٹے سے قافلے کی خوشبو دور تک محسوس کی گئی۔ابو الفضل انکلیو (ایف:44)میں ہی ننھی منھی خنسا کو پہلی بار دیکھا تھا. اس کی روشن پیشانی مستقبل کی بشارت دے رہی تھی۔والدین کی دعاؤں اور تربیت نے اسے شعور کی و ہ دولت بخشی کہ جس کا ادراک بسااوقات بڑوں کو بھی نہیں ہوتا۔روح جب امان بھائی کے جسم کا ساتھ چھوڑنے والی تھی اس مرحلے پر جس ثابت قدمی اور صبر و شکر کے جس عظیم جذبے کا مظاہرہ سوشل میڈیاپر خنسا فہدکی مختلف پوسٹوں کی شکل میں دیکھا گیا اس نے تاریخ کے ایک کردار کو روشن کردیا۔یہاں بھی والد کے علاوہ دادا اور بڑے والد کا سلسلہ وار غم تھا۔بیٹی خنسا پراللہ کی مہربانی ہو!
شروع شروع میں امان بھائی سے ملاقات اکثر شعبے میں ہی ہوجاتی یا فیکلٹی میں چلتے پھر تے کہیں مل جاتے۔ہفتہ اتوار کبھی کبھی بعض ساتھیوں کے یہاں ابو الفضل انکلیو میں محفل جمتی۔بعد کے دنوں میں جب وہ ابو الفضل انکلیو کی نئی بستی میں آباد ہوگئے تھے تو شام کواکثرابو الفضل انکلیو کے ڈی بلاک(فلاحی چوک) میں جناب سمیع اللہ اعظمی کی دوکان ’منیٰ لذیذیات‘(Muna Confectionery)پر ملاقات ہوتی۔سمیع اللہ اعظمی سے امان بھائی کا یارانہ تھا۔ بعض اشیائے خور د ونوش وہ گھر کے لیے یہیں سے لے جاتے تھے۔اس ز مانے میں یہ جگہ یارباشوں کی جائے اماں تھی۔موبائل ابھی آیا نہیں تھا اس لیے ملنے ملانے کی ایک الگ ہی لذت ہوتی تھی۔ دوستانہ نوک جھونک اور دیگرمعاملات اکثر یہیں پر حل ہوتے اور کبھی کبھی امان اللہ بھائی کی بات ہی قول فیصل ہوتی۔ فلاحی چوک تو آبادرہامگر دوستوں کی یہ محفل بکھر گئی۔ برسوں پہلے سمیع اللہ اعظمی نے اپنے وطن کوہنڈہ،اعظم گڑھ کو آباد کرلیا، جہاں وہ درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔میں لکھنؤ چلا آیا۔رہے ڈاکٹرمحمد ارشد اور ڈاکٹر خالد خاں تو انھیں بھی مصروفیات نے گھیر رکھا ہے۔امان بھائی جب تک تھے تو امیدوں کے چراغ روشن تھے کہ کہیں نہ کہیں ملیں گے ہی. مگر شہر خموشاں کی سکونت کے بعد رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی۔یقین ہے کہ وہاں بھی صلحا و صابرین کی رفاقت ہی انھیں میسر ہوگی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسکول میں ان کے تقررسے یک گونہ خوشی تھی۔خیال آیا کہ ملنے ملانے کے دن واپس آجائیں گے۔باتیں اور ملاقاتیں ہوں گی مگر میرا بھی آب ودانہ لکھنؤ پہنچ چکا تھا۔اب ہم صرف ٹیلی فون، دوستوں اور واٹس گروپ کے احسان مند رہ گئے تھے، جہاں سے اجتماعی خبریں مل جایا کرتی تھیں۔خیریت کے ہزار بہانے تھے جس کا تسلسل تو برقرار رہا مگر گئے دنوں کی طرح مسلسل مل بیٹھنے کا وہ موقع ہاتھ سے جاتا رہا، جس کے ہم دہلی میں خاصے عادی ہوچکے تھے۔ادبی اجتماعات میں دلی جانا ہوتا مگر وہ جانا بھی کیا کہ جس سے ملاقات ہوتی وہ بھی شکوہ سنج ہی رہتا کہ یہ ملنا بھی کوئی ملنا ہوا۔ابھی گذشتہ ماہ ایک دن کے لیے دلی گیا تھا اس تنگ وقت میں کوشش کے باوجود ملاقات کی سبیل نہیں نکل سکی اور پھر تشویش ناک خبروں نے ماضی کو کھول کر رکھ دیا۔

صاحب تحریر کا مختصر تعارف :

پیدائش : مئ 1974

آبائی وطن: چاند پٹی، ضلع اعظم گڑھ، یوپی، ہند

مادر علمی : جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی 

سن فراغت : عالمیت: 1995، ڈاکٹریٹ : 2010 

تدریسی خدمت : 2003 سے 2008 جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئ دہلی، مئی 2012 سے تا حال اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی۔لکھنؤ کیمپس

تصانیف : راجیندر منچندا بانی، باتیں سخن کی؛ شبلی، مکاتیب شبلی اور ندوۃ العلماء؛ رشید حسن خاں؛ خان محبوب طرزی، لکھنؤ کا مقبول ناول نگار (2020) 

مناصب : اعزازی مدیر ماہنامہ کتاب نما 

تخلیقی صلاحیت : شاعر ہیں اور ہند و بیرون ہند کے معتبر و مقبول مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں. ریڈیو اور ٹی وی کے مشاعروں کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیے ہیں. 

  رابطہ : oomairmanzar@gmail.com
8004050865

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے