کھیلا ہوبے

کھیلا ہوبے

( صوبائی انتخابات پر تازہ ترین تبصرہ)
مسعود بیگ تشنہ
اندور ،انڈیا ،2 مئی 2021
کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے، کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے. مغربی بنگال کا رنگ منچ، دیس کا رنگ منچ بن گیا ہے. مغربی بنگال کے چناؤ نے بھارت کی سیاست میں یہ دکھا دیا ہے کہ بڑی سے بڑی سیاسی طاقت بھی سام دھام دنڈ بھید یعنی ہر ممکنہ ہتھکنڈہ اپنانے کے باوجود کیسی شکست کھاتی ہے. اب نہ کانگریس کا دور چلے گا نہ بھاجپا کا. مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس سرکار نے جس جاں بازی سے باوجود اینٹی انکمبینسی فیکٹر کے، وزیر اعظم مودی، مرکزی وزیر داخلہ شاہ، کئی مرکزی وزیروں ، کئی صوبوں کے وزراء اعلیٰ کی شاہانہ ریلیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، وہ اب تاریخ بن چکا ہے. بنگال کی حمیت، خواتین کی ہم دردی، مسلم اقلیت کا بِنا بٹے ایک طرفہ ووٹ، سیاسی انتخابات کی تاریخ میں اس کامیابی کا نیا ریکارڈ بنا گیا. اعتدال پسند ووٹروں نے بھاجپا کی آندھی سے بچنے کے لیے لیفٹ اور کانگریس کو بھی ان کی روایتی سیٹوں پر در کنار کردیا اور شاید بہتر ہی کیا. یہ مرکزی حکومت اپنے سارے تام جھام اور بےجا اختیارات سے کس حد تک کسی صوبائی حکومت کو دوبارہ بر سر اقتدار آنے سے روک سکتی ہے، اس پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے. مغربی بنگال میں ہندو مسلم پولارائزیشن کا بھگوا ایجنڈا پھوٹ ڈالنے میں تو کام ہو گیا مگر حکومت بدلنے میں نہیں. انڈین نیشنل کانگریس نے اپنی اندرونی جمہوریت کو تیاگ کر صوبائی اکائیوں میں من مانی چلانی شروع کی اور خود کی تقسیم کے دن دیکھنے شروع کئے. آج اسی سے الگ ہوئی پارٹیاں اپنی اپنی ریاستوں میں بہتر پوزیشن میں ہیں، اور ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس اس کی تازہ ترین روشن مثال ہے. کانگریس مہاراشٹر میں خود سے الگ ہوئے دھڑے کے ساتھ حکومت بنانے پر مجبور ہے. حالیہ چناؤ میں مغربی بنگال میں لیفٹ کی بات کریں تو لیفٹ از لیفٹ ناؤ یعنی بنگال میں بائیں بازو کا بازو جسم سے الگ ہوگیا لگتا ہے. وہاں وہ اپنا وجود کھو چکا ہے. اس چناؤ میں ترنمول کانگریس نے اگر انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ پکڑا ہوتا تو اور پریشانی میں آ جاتی کہ کم زور ساتھی کی موجودگی اور کم زور بنا دیتی ہے. کانگریس بھی پہلی بار بے وجود ہوگئی. ایک رام مندر آندولن کی کامیابی سے نظریاتی طور پر عام ہندو پورے دیس میں دو نظریاتی خیموں میں صاف صاف بٹ چکا ہے. یہی بھاجپا کی آج تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے. دیکھنا ہوگا کہ مستقبل میں بھاجپا کس حد تک ہندو مسلم پولا رائزیشن اور مسلم دشمنی میں کامیاب ہوتی ہے.
ترنمول کانگریس سے بھاجپا میں گئے اکثر امیدوار چناؤ ہار گئے ہیں پھر بھی ترنمول کانگریس کو آگے چوکنا رہنا ہوگا اور اپنا گھر بھی درست رکھنا ہوگا. اس جیت کے جشن کو اگر بھاجپا کی طرح غرور کے جشن میں بدل دیا تو اگلا چناؤ جیتنا مشکل ہوگا، جیسے لیفٹ کے ساتھ ہوا، جنتا اگر اکھڑ گئی تو حکومت میں واپس آنے میں کئی پانچ سالہ چناؤ لگ جائیں گے.
انڈین نیشنل کانگریس میں اندرونی جمہوریت کا زبردست فقدان ہے جسے من و عن بھاجپا نے اپنایا ہے، وہی اس کے پتن(زوال) کا بھی راز بننے والا ہے. بس بھاجپا نے بڑے بڑے اور خاص طور پر چنندہ سرمایہ داروں کے ساتھ کووِڈ 19 کے دور میں بھی دو گز کی محفوظ دوری نہ رکھتے ہوئے جو طبیعت سے گلے ملی ہے اور حکومت ہتھیانے کے نشّے اور غرور میں چور ہوکر کووِڈ 19 کے دوسرے دور کو پہلے دور سے بھی زیادہ سنگین، مہلک اور جان لیوا بنا دیا ہے، اس سے پورا دیش ہکّا بکّا اور صدمے میں ہے. ہندو مسلم تفریق اور مسلم دشمنی بھاجپا کے لئے آکسیجن سلینڈر ہے، یہ مغربی بنگال میں اکثریت نہیں دلوا پایا ہو، لیکن اس نے مغربی بنگال میں اپنے قدم جما ضرور لئے ہیں. سارے ملک میں آکسیجن سلینڈر کے کہرام اور ‘آج تک’ مین میڈیا چینل کے ایک اینکر روہت سردانا کی کووِڈ سے موت سے پہلے اسپتال سے جاری اپنے ہندو مسلم تفریق کے قبول نامے نے پورے ملک کے ہندوؤں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور ان کی آتما جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے. ہندو مسلم تفریق کی آگ نے دیش کو اتنا جھلسا دیا ہے کہ گودی میڈیا کے اینکر سردانہ کی موت نے شدید رد عمل میں گودی میڈیا کے خلاف جشن کا ماحول بھی پیدا کر دیا ہے جو سراسر انسانیت سے گری ہوئی بات ہے. سردانہ کو اسپتال میں خود کی موت سامنے دیکھ کر اپنے اعمال پر پچھتاوا ہوا. اس کی تعریف کرنے کی ضرورت تھی نہ کہ اس پر غصہ نکالنے کی کہ آخری وقت میں تو وہ مسلمان ہو گیا یعنی بَیر و دشمنی اور’ پھوٹ ڈالو’ کے ایجنڈے سے توبہ کی. ہم سب جانتے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا گودی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے اور بھاجپا کے ایجنڈے کا اندھ بھکت پرچارک بن کر اپنی عزت گنواتے جا رہا ہے. اب چھوٹے چھوٹے آن لائن آزاد میڈیا کی پکار اور پہنچ مضبوط ہوتی جا رہی ہے.
آسام میں بھاجپا کی جیت این سی آر کے مدّعے کو بھاچپا کے پھر سے گرم کرنے سے ہوئی ہے. مقامی قبائلی علاقائیت پسند انتہا پسندوں کو مین اسٹریم میں لانے کے لئے، 1986 کانگریس کے آنجہانی وزیراعظم راجیو گاندھی نے ہی یہ 1986 کا اسام سمجھوتا کیا تھا جو پورے ملک کے لئے وبال اور تنازعات کی جڑ بن گیا. آسام میں علاقائ شناخت رجسٹر، پوری طرح ناکام ہو چکا ہے اور مسلمان بنگالیوں سے زیادہ لاکھوں ہندو بنیے اور دیگر ہندو ذاتیں اس کی چپیٹ میں ہیں. اس کے دور رس بُرے نتائج سے آگاہ آسامی قبائلی نئی نسل کے نوجوان این آر سی کی مخالفت میں گزشتہ ایک سال میں سامنے آئے ہیں. آسام میں صوبائی انتخابات کی جیت بےشک بھاجپا کو کووِڈ کی مار جھیل رہے اور آکسیجن سلنڈروں کی مارا ماری اور قلت جھیل رہے عوام کی یادداشت کو بھلانے میں آکسیجن سلینڈر کا کام کرے گی اور جمہوریت کا یہ تماشا کچھ اور وقت تک جاری رہے گا. کم زور جمہوریت میں عوام کی یادداشت بہت کم زور ہوجاتی ہے اور اصل مدّعے غائب اور جذباتی مدّعے حاوی ہونے لگتے ہیں. اس بار مغربی بنگال کی مسلم اکثریت والے علاقوں میں مسلموں نے ایک جُٹ ہوکر اپنا ووٹ دیا 49 میں سے 36 سیٹیں ترنمول کانگریس کو دلائیں اور بھاجپا کو ہرانے میں کارگر ثابت ہوئے . اب مغربی بنگال کے اس چناوی نتیجے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں میں اجتماعی سیاسی شعور جاگ رہا ہے اور کہاں کسے ووٹ دینا اور نہیں دینا، اسے سمجھ میں آ گیا، اس لئے اویسی فیکٹر یہاں فیل ہوگیا جو بھاجپا کی جیت کی ضمانت بنتا.
مغربی بنگال میں ‘ممتا بنام مودی بن چکے مقابلے میں مودی کی ہار، نئے بھارت کی شکل کو بگاڑنے سے بچا سکتی ہے، ایسی اٹکلیں لگنی شروع ہو گئی ہیں. ادھر ترنمول کانگریس کا بھارتیہ سنسد ( انڈین پارلیمنٹ) میں اپوزیشن لیڈر بننے کا امکان وسیع تر ہو سکتا ہے .پوڈو چیری کے انتخابی نتیجہ کانگریس کے لئے تازہ کراری شکست کی طرح ہے . کیرل میں لیفٹ فرنٹ پھر کامیاب رہا ہے. ایسا پچاس سال میں دوسری بار لیفٹ فرنٹ نے لگاتار جیت درج کرائی ہے. . تمل ناڈو میں اے آئ ڈی ایم کے، این ڈی اے گٹھبندھن میں رہ کر دس سال سے بر سر اقتدار تھی ، اب ڈی ایم کے اور کانگریس کے انتخابی اتحاد سے مات کھا گئی ہے. وہاں این ڈی اے گٹھ بندھن میں پہلی بار بھاجپا کو چار سیٹیں ملی ہیں جس سے تمل ناڈو میں بھاجپا کے بڑھتے اثر کا اندازہ ہو سکتا ہے. مغربی بنگال میں لیفٹ اور کانگریس کو کچلتے ہوئے بے شک پہلی بار دوسری بڑی پارٹی بن گئی ہے.
کُل ملا کر کووِڈ وائرس اور نفرت کے وائرس کے ماحول کے ملے جلے نتیجے برآمد ہوئے ہیں. پوڈو چیری میں بھاجپا حکومت ہتھیانے میں کامیاب رہی اور مغربی بنگال میں دوسری بڑی پارٹی کے روپ میں اور ثابت قدمی سے قدم جمانے میں کامیاب ہوئی ہے. وہیں قومی سطح کی سب سے پرانی پارٹی بنگال میں بے وجود ہو گئی. یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اب پرانی قومی پارٹیوں کا دخل کم سے کم ہوتا جائے گا اور مقامی سطح کی پارٹیاں صوبائی انتخابات میں مضبوطی سے کھڑی نظر آئیں گی. یہی وجہ ہے کہ جہاں بنگال میں بھاجپا کو پارلیمنٹ کے چناؤ میں اٹھارہ سیٹیں ہاتھ لگیں، وہیں صوبائی چناؤ میں ویسا اچھا تجربہ نہیں رہا. بھاجپا نے، جس نے ساؤتھ کے کرناٹک میں گزشتہ اسمبلی چناؤ میں قدم جما لئے تھے اسے کیرالا میں ذرا سی بھی کامیابی ہاتھ نہیں لگی. یعنی ساؤتھ (جنوب) ابھی بھی پوری طرح بھاجپا کے اثر میں نہیں آیا ہے. اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ہندو وادی اکثریت پسند، اقلیت دشمن بھاجپا، مسلم اقلیت کو کس طرح الگ تھلک کرنے میں کامیاب ہوتی ہے کہ اس نے نیچی ذاتوں اور آدی واسیوں کے بیچ سالہا سال کی محنت سے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے. بدقسمتی سے ان ہندو نچلی ذاتوں، دلِتوں اور آدی واسیوں میں سے بطور خاص شہری علاقوں میں دلِتوں اور آدی واسی علاقوں میں آدی واسیوں کو فرنٹ پر رکھ کر ہندو مسلمان فسادات بپا کر مسلم کشی کے عظائم بروئے کار لائے جاتے رہے ہیں. اس کے لئے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں دن رات اسی کام میں لگی رہتی ہیں. آر ایس ایس کی سالوں سال کی محنت کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے ہندو شہری اور پڑھی لکھی اکثریت بھی نظریاتی طور پر ہندو مسلم میں پوری طرح تقسیم ہوتی نظر آتی ہے. جیو اور جینے دو کے اصول پر کاربند مسلم اقلیت نے مغربی بنگال میں اپنے وجود کی لڑائی اپنی حکمت عملی سے جیت لی ہے. نیا بھارت اکثریت اور اقلیت خاص طور سے مسلم اقلیت کے لئے کیسا ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا.
مسعود بیگ تشنہ کی یہ تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں : کووِڈ کی مارا مار اور لٹّھے پر سوار سرکار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے