بدکاری کیا ہے

بدکاری کیا ہے

محمد شمشاد

بدکاری کے لئے حالات پیدا کرنا گناہ ہے. اسلام میں حکم دیا گیا ہے کہ تم لوگ ایسے حالات پیدا نہ کرو جن سے وہ جو تمہارے زیر اثر ہوں زنا کرنے کے لئے مجبور ہو جائیں
سورۃالنور 24 آیت نمبر 33(و لیستعفف الذین لا یجدون نکاحا حتی یغنیھم اللہ من فضلہ، والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم فکا تبو ھم ان علمتم فیھم خیرا، واتو ھم من مال اللہ الذی اتکم، ولا تکرھوا فتیتکم علی البغا ٓ ء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیو ۃ الدنیا، و من یکر ھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم ۰) ”اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے اور تمہارے مملکوں میں سے جو مکاتب کی درخواست کریں ان سے مکاتب کرلو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے اور ان کو اس مال میں دو سے جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لئے غفور و رحیم ہے“ (تفہیم القرآن)
یعنی تمہاری نوجوان لڑکیاں یہاں تک کہ ان میں نوکرانیاں یا لونڈیاں کیوں نہ ہوں جو نکاح کا ارادہ رکھتی ہوں انہیں اپنے دنیاوی مفاد کی خاطر اس سے نہ روکو، اگر تم انہیں نکاح کرنے سے روکنے کی کوشش کرو گے تو وہ بدکاری کرنے پر مجبور ہو جائیں گی اور اگر کوئی انہیں اس طرح بدکاری اور قحبہ گری کرنے پر مجبور کرے گا تو قانون خداوندی میں یہ شق بھی موجود ہے. اس لئے یہ اسلامی مملکت کا فریضہ ہے کہ وہ اس جبر اور ظلم کے خلاف ان عورتوں کی حفاظت کرے اور انہیں ایسی سہولیات مہیا کرائے جس سے وہ آزادی کے ساتھ اور معروف طریقہ سے اپنی زندگی گزار سکیں. اس طرح کسی بھی حال میں بن بیاہے مرد اور عورت کو اللہ نے ناپسند کیا ہے اوران کے لئے صاف صاف حکم دے دیا ہے کہ ایسے تمام لوگوں کے نکاح کردیے جائیں جو بالغ ہوں اور جو اپنے نکاح کے خواہش مند ہوں حتی کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے. 
اپنی حفاظت
سورۃالاحزاب 33 آیت نمبر 59 ( یآ یھا البنبی قل لاز واجک و بنتک ونسآء المومنین یدنین علیھن من جلا بیبھن، ذلک ادنی ان یعرفن فلا یوذین، و کا ن اللہ غفوررحیم ۰) ”اے نبی! اپنی بیوییوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالی غفور و رحیم ہے“ (تفہیم القرآن)
اس طرح ایمان والی عورتوں کو حکم دے دیا گیا کہ جب وہ گھر سے نکلیں تووہ اپنے جسم پہ چادریں ڈال لیاکریں اور اپنے چہرہ پرگھونگھٹ ڈال کر نکلیں یعنی وہ بے پردہ نہ نکلا کریں اوروہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کے درمیان تمیز کیاکریں اور وہ غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ جایا کریں. 
بے شرمی و بے حیائی کیا ہے؟ 
سورۃالاعراف 7کی آیت نمبر – 33 ( قل انما حرم ربی الفوا حش ما ظھر منھا و ما بطن والاثم والبغی بغیرالحق وان تشرکوا باللہ مالم ینزل بہ سلطنا و ان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون ۰) ”اے محمد!ان سے کہہ دو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں بے شرمی کے کام(خواہ کھلے ہوں یا چھپے) اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو جس کے لئے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اس نے فرمائی ہے“ (تفہیم القرآن)
یعنی انسان کا اپنے رب کی اطاعت و فرماں بردار ی میں قدرت و استطاعت کے باوجود کوتاہی کرنا اور اس کی رضا کو حاصل کرنے میں جان بوجھ کر نا فرمانی کرنا ایک جرم ہے اس کے ساتھ ہی اپنی حدسے تجاوز کر کے ایسے حدود میں قدم رکھنا جن کے اندر داخل ہونے کا آدمی کو کوئی حق حاصل نہ ہو. اس آیت کی رو سے وہ لوگ اللہ کے سامنے باغی قرار دیے جاتے ہیں جو بندگی کے حد سے نکل کر خدا کے ملک میں خود مختارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور وہ بھی جو خدا کی خدائی میں اپنی کبریائی کا ڈنکا بجانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بھی جو بندگان کے خدا کے حقوق پر دست درازی کرتے نظر آتے ہیں. 
اس آیت کی رو سے ایک انسان کے لئے اللہ کی نا فرمانی، حق کے خلاف زیادتی اور بے حیائی کے وہ سارے کام حرام ہیں جن سے معاشرے کے اندر برائیوں کو پنپنے کا اندیشہ ہو چاہے یہ کام کھلے میں کیے جائیں یا چھپ کر کیے جائیں. 
بیعت کرنے کی شرائط
سورۃ الممتحنہ 60 آیت نمبر 12 یٓا یھا النبی اذاجآ ء ک المومنت یبا یعنک علی ان لا یشرکن باللہ شیئا ولا یسرقن و لا یزنین ولا یقتلن اولا دھن ولا یاتین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن وارجلھن ولا یعصینک فی معروف فبا یعھن واستغفر لھن اللہ، ان اللہ غفور رحیم ۰) ”اے نبی جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی، اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی، تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو، یقینا اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے“ (تفہیم القرآن)
یعنی اس آیت کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پانچ منفی احکام دینے کے بعدمثبت حکم صرف ایک ہی دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام نیک کاموں میں محمد ؐ کی اطاعت کی جائے. جہاں تک برائیوں کا تعلق ہے یہاں پروہ تمام بڑی بڑی برائیاں ایک ایک کر کے گنا دی گئی ہیں جو اس وقت عرب معاشرے کی عورتوں میں عام طور سے پائی جاتی تھیں اورجن میں زمانہ جاہلیت کی عورتیں مبتلاہوتی تھیں، جن سے انہیں باز رہنے کے لئے عہد لے لیا گیا، یعنی محمدؐ کسی سے بیعت لینے کے قبل اس سے اس بات کا عہد لیں کہ وہ شرک، چوری، زنا، اسقاط حمل اور بہتان گڑھنے جیسی برائیوں سے دور رہیں. 
دوسرے گھروں میں داخل ہونے کا طریقہ
جاہلیت کے زمانے میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ صبح بخیر اور شام بخیر کہتے ہوئے وہ بے تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں داخل ہوجایا کرتے تھے اوربسا اوقات ان کی نگاہیں نا دیدنی حالت میں ان کی عورتوں اور گھر والوں پر پڑجاتی تھیں. اس لئے اللہ نے ان کی اصلاح کرنے کے لئے یہ اصول مقرر کیا کہ وہ بنا اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہوں تاکہ ہر ِشخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہوجائے اور کسی دوسرے شخص کے لئے یہ طریقہ جائز نہیں رہ پائے کہ وہ کسی کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو اور اس طرح وہ ان کے لئے پریشانی کے سبب بن جائیں. 
چنانچہ سورۃالنور 24 آیت نمبر 27 ( یٓایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیو تا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا، ذلکم خیرلکم لعلکم تذکرون ۰) ”میں اللہ تعلی فرماتا ہے ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھر میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو یہ طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے“ (تفہیم القرآن)
یعنی اللہ تعالی نے اس آیت کے ذریعہ لوگوں کے ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف آنے جانے پر روک لگانے کی کوشش کی ہے اور اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کو دیکھنے اور آزادانہ ملاقات سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے. ان عورتوں کو اپنے قریبی حلقے(ماں، باپ، بھائی،بہن، بیٹے، بیٹیوں اور شوہروں) کے سوا غیر محرم رشتہ داروں اور اجنبیوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے سے منع کردیا کیا گیا ہے. اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھروں میں جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں بہنوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی اجازت لازمی ہے. جب ایک شخص نے محمد ؐ سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں تو آپ نے فرمایا ”ہاں۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا کوئی اور نہیں ہے کیا ہر بار جب میں ان کے پاس جاؤں تو اجازت طلب کروں گا تو رسول محمدؐ نے فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھے. بلکہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے بھی آدمی کو کم از کم ایک بار کھنکار دینا چاہئے. 
اس طرح کی سخت پابندیاں عاید کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان تمام امکانات کے راستے بندکر دیے جائیں جن سے بدکاری کے پنپنے اور پروان چڑھنے کے امکانات ہوں اور قحبہ گری کے پیشے کو اختیارکرنے کے راستے ہم وار ہو سکتے ہوں، ان کا قطعی انسداد کیا جائے. مردوں اور عورتوں کو زیادہ دیر تک مجرد نہ رہنے دیا جائے. یعنی یوں سمجھئے کہ عورتوں کی بے پردگی اور معاشرے میں بکثرت لوگوں کا مجرد رہنا اللہ کے سامنے وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے اجتماعی ماحول میں غیر محسوس طریقے سے شہوانیت اور بدکاریوں کو پنپنے کے مواقع فراہم ہوجاتے ہیں. اس  بنا پر لوگوں کی آنکھیں،ان کے کان، ان کی زبانیں، ان کے دل، سب کے سب کسی واقعی یا خیالی فتنے میں پڑنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہیں. 
سورۃالنور 24 آیت نمبر 28 ( فان لم تجدوا فیھآ احدا فلا تدخلوھا حتی یوذن لکم، وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا ھواز کی لکم، واللہ بما تعملون علیم ۰) ”پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے“ (تفہیم القرآن)
یعنی کسی خالی گھر میں بنا اجازت داخل ہونا کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ صاحب خانہ نے کسی کو اس بات کی اجازت دے دی ہو مثلاََ صاحب خانہ نے آپ سے کہہ دیا ہو کہ اگر میں موجود نہ رہوں تو آپ میرے کمرے میں بیٹھ جایا کریں یا وہ کسی اور جگہ پر ہوں اور آپ کے آنے کی اطلاع ملنے پر وہ اس بات کی اجازت دے دیں کہ آپ وہاں تشریف رکھیں میں ابھی آتا ہوں، ورنہ محض اس بنا پرکہ مکان میں کوئی نہیں ہے یا اندر سے کوئی آواز نہیں آرہی ہے اس لئے میں اندر جا کر بیٹھ جاتا ہوں یا دیکھ لیتا ہوں،کسی کے لئے یہ طریقہ جائز نہیں ہے کہ وہ بلا اجازت کسی گھر میں داخل ہوجائے. دوسری بات یہ ہے کہ ایک انسان کو پورا حق ہے کہ وہ کسی سے نہ ملنا چاہے تووہ انکار کردے یا کوئی مشغولیت یا کسی اور بنا پر وہ اس سے نہ ملنا چاہتا ہو اور وہ ملنے سے منع کردیتا ہو تو اس صورت میں کسی کو اس کے دروازے پر ڈٹ کر کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس شخص کو وہاں سے ہٹ جانا چاہیے. اس کے ساتھ ہی کسی کو اس بات کی بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو ملاقات کرنے پر مجبور کرے. 
سورۃالنور 24 آیت نمبر 29 لَیْسَ عَلَیْکُم ْ جُنَاحُٗ اَنْ تَدْ خُلُوا بُیُوْ تًا غَیْرَ مَسْکُوْنَۃِِ فِیْھَا مَتَاعُٗ لَّکُمْ ٌ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ ترجمہ”البتہ تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کہ رہنے کی جگہ نہ ہو اور جن میں تمہارے فائدے اور کام کی کوئی چیز ہو. تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے“(تفہیم القرآن)ان سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں لوگوں کے لئے داخلہ ممنوع نہیں ہوتا ہے بلکہ انہیں داخلہ کی کھلے عام اجازت ہوتی ہے جیسے سرائے، مہمان خانے، ہوٹل، دوکانیں، اور مسافر خانے وغیرہ
A-169/2,A.F.Enclave-2,Jamia Nagar,New

صاحب تحریر کی دوسری نگارش ملاحظہ فرمائیں : نکاح کیا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے