فضائل اعتکاف احادیث کی روشنی میں

فضائل اعتکاف احادیث کی روشنی میں

مولانا محمد عزرائیل مظاہری
مرکزی ممبر جمعیت علماء نیپال
رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا رسول اللہ ﷺ کی مستقل سنت ہے، اوراس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے. امام زہری ؒ فرماتے ہیں : کہ لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ رکھا ہے حال آں کہ رسول اللہ ﷺبعض امور کو انجام دیتے تھے اور ان کو ترک بھی کرتے تھے ،اور جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے ،کبھی ترک نہیں کیا ۔ (اور اگر ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ کما فی الحدیث)۔اور حضورِ اکرم ﷺ کا ہمیشگی فرمانا (ترک کرنے والوں پر نکیر کیے بغیر) یہ اس کی سنیت کی دلیل ہے ۔
نیز اعتکاف میں اللہ تعالیٰ کے گھر میں قیام کرکے تقربِ باری تعالیٰ کا حصول ہے،دنیا سے منہ موڑنا اور رحمتِ خداوندی کی طرف متوجہ ہونا اور مغفرتِ باری تعالیٰ کی حرص کرنا ہے ۔ اور معتکف کی مثال ایسے بیان فرمائی گئی ہے گویا کوئی شخص کسی کے در پر آکر پڑجائے کہ جب تک مقصود حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک نہیں لوٹوں گا. معتکف اللہ کے در پر آکر پڑجاتاہے کہ جب تک رب کی رضا اور مغفرت کا پروانہ نہیں مل جاتا وہ نہیں جائے گا، ایسے میں اللہ کی رضا ومغفرت کی قوی امید بل کہ اس کے فضل سے یقین رکھنا چاہیے۔
فضائل اعتکاف احادیث کی روشنی میں :
(1 ) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰى تَوَفَّاهُ اللّهُ ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ(صحیح البخاری: باب الاعتكاف في العشر الأواخر، ج 1ص271)۔
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف فرماتی رہیں۔
(2)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ۔۔۔ مَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ تَعَالٰى جَعَلَ اللهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ(المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص279 رقم 7326)۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہےتو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔
(3 ) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ ھوَ یَعْكِفُ الذُّنُوبَ، وَيَجْرِيْ لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا. (سنن ابن ماجۃ: باب فی ثواب الاعتكاف ص128)۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی رہتی ہیں جیسے وہ ان کو خود کرتا رہا ہو۔
(4 )مَنِ اعْتَکَفَ اِیْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ. (کنز العمال: کتاب الصوم، الفصل السابع فی الاعتکاف و لیلۃ القدر، ج8 ص244 )۔
ترجمہ: جس نے اللہ کی رضا کے لیے ایمان و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
(5 )عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَيَقُولُ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. (صحیح البخاری: باب تحری ليلۃ القدر في الوتر من العشر الأواخر، ج1 ص270)۔
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کیا کرو۔
اعتکاف کی بےشمار فضیلتیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں ،اس لیے مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ حتی المقدور کوشش کرکے رمضان المبارک کےاخیر عشرے کااعتکاف ضرور کریں۔

اور معتکف کو چاہئے کہ وہ مدتِ اعتکاف کوآرام وسکون کاایک موقع سمجھ کر ضائع نہ کرے کہ دن رات صرف سوتا ہی رہے یا یوں ہی مسجدمیں ٹہلتا رہے بلکہ سونے اورآرام کرنے میں کم سے کم وقت ضائع کرے ….اور اعتکاف کے ایام کو اپنی تربیت اورآئندہ زندگی کے سنہری اورخاص دن سمجھے…. اور عبادت وریاضت میں سخت محنت کرے….اس طرح کہ زیادہ سے زیادہ نمازیں خصوصاًاپنی قضاءنمازیں پڑھتارہے ….قرآن وحدیث کی تلاوت کرے…. درودوسلام کاوردکرتارہے ….اورفقہ و اسلامی کتابوں کامطالعہ کرتارہے۔اعتکاف کرنے والا دنیاکے مشاغل سے الگ ہوکرخودکو قاضی الحاجات کے سپردکردے۔ اعتکاف کے ایام میں معتکف فرشتوں کے مشابہ ہوجاتاہے، جواللہ تعالیٰ کی بالکل معصیت و نافرمانی نہیں کرتے بلکہ ہمہ وقت اللہ کے احکام پرعمل کرتے ہیں اوردن رات تسبیح وتحمیداورتہلیل وتمجید میں مشغول رہتے ہیں۔نمازی! نمازپڑھ کرچلے جاتے ہیں لیکن معتکف اللہ تعالیٰ کے گھرکو نہیں چھوڑتااوروہیں بیٹھ کر اپنے خالق حقیقی سے راز و نیاز کرتے ہیں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں ،رحمتوں اور برکتوں کے بارے میں تفکر ،تعقل اور تدبر کرتے رہتے ہیں۔پس اس کے لئے اللہ کی رحمتیں،نعمتیں،برکتیں،سعادتیں اورانعامات واحسانات بھی زیادہ متوقع ہیں۔
باری تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہرایک مسلمان کورمضان المبارک کےاخیر عشرےمیں اعتکاف کرنےکی توفیق عطا فرمائے آمین.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے