آہ! مشرف عالم ذوقی نہیں رہے 

 آہ! مشرف عالم ذوقی نہیں رہے 

 مسعود بیگ تشنہ 


کون مشرف عالم ذوقی؟
نہیں جانتے تم؟ وہی مرگِ انبوہ والے.
مشرف عالم ذوقی دنیائے ادب میں ایسا نام جس کا تذکرہ گذشتہ ایک سال میں اتنا زیادہ ہوا ہے جتنا اردو کی کسی بڑی ادبی شخصیت کا نہیں ہوا. ان کے عالمی شہرت یافتہ ناول ‘مرگِ انبوہ’ کے بعد حال ہی میں ان کا ناول ‘مردہ خانے میں عورت’ منظرِ عام پر آیا تھا. ادارہ ‘کسوٹی جدید’ نے انہیں فِکشن (ناول، افسانہ،ڈرامہ) کے لئے معین الدین خان لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ برائے سن 2020 سے نوازا بھی. ذوقی صاحب سے میرے جُڑاؤ کی داستان عزیزی جاوید اختر ذکی خان  کی وجہ سے ہوئی. جاوید اختر ذکی خان نے’ بہت محنت سے’ مرگِ انبوہ ایک مطالعہ’ کی تالیف کی جس کے چالیس پینتالیس تبصروں میں میرے تبصرے کو بھی شامل رکھا. جاوید اختر سے پہلے وقتاً فوقتاً باتیں ہوتی تھیں پھر اکثر ہونے لگیں. انہوں نے ذوقی صاحب کو اپنا مرشد بنا لیا گو کہ ذاتی طور پر جاوید اختر کی ان سے ملاقات نہیں ہو پائی(اور میری بھی نہیں) اور مجھے استاد بلانے لگے (بلانے کیا ماننے لگے). مجھے اکثر بتاتے آج مرشد سے اتنی دیر بات ہوئی،آج آدھ گھنٹے بات ہوئی، بھابھی  تبسّم فاطمہ (ذوقی صاحب کی اہلیہ) سے اتنی دیر بات ہوئی، یہ بات ہوئی، وہ بات ہوئی، ان کی گھریلو باتیں،ان کے ذاتی صدمے، بھابھی کی بیماریوں کی باتیں اور پھر سارا منظر نامہ بدل گیا. خود ذوقی صاحب بیمار رہنے لگے. ان کی سگریٹ نوشی کی عادت، بلغمی عارضہ … سب کچھ .پھر کچھ دنوں سے منظر نامہ بدلنے لگا مجھے جاوید اختر کے فون کم آنے لگے میں سمجھا ماہِ رمضان میں مصروفیات الگ طرح کی ہوتی ہیں. پھر میں نے فون لگایا تو پتہ چلا مرشد کی بیماری کی وجہ سے پریشان چل رہے ہیں. بہت زیادہ پریشان. کیا کیا نہیں کیا جاوید اختر نے اللہ کے حضور گڑگڑایا، اجتماعی دعائیں کروائیں، صدقات کئے، کیا کچھ نہیں کیا! بھابھی سے خبر لیتے رہے. پھر بھابھی کے بھائی سے صبح نو ساڑھے نو بجے خبر لی جو پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں تین دن سے ساتھ تھے، تب انہوں نے کہا اچھا تم جاوید اختر ہو بتائیں گے کہہ کے چھوڑ دیا. غالباً وہ وصال کا وقت رہا ہوگا. بعد میں خود بھابھی نے تین بجے جاوید اختر کو خبر دی کہ ذوقی صاحب نہیں رہے. جاوید اختر تو اپنے مرشد کی رحلت سے صدمے جیسی حالت میں ہیں.
مجھے تو فیس بُک دیکھتے ہی عالمی فلک کے مدیر احمد نثار  صاحب کی پوسٹ پر نظر پڑی ، دل دھک سے رہ گیا آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا.
ناول ‘مرگِ انبوہ’ (2020) کے بعد حال ہی میں ان کا تازہ ناول ‘مردہ خانے میں عورت’  منظرِ عام پر آیا تھا اور اسے بھی مرگِ انبوہ کی طرح مقبولیت ملنے لگی تھی. ایک عرصے تک فل ٹائم صحافتی زندگی سے جُڑے ہونے سے ہندوستان کے تیزی سے بدلتے سیاسی منظر نامے پر آپ کی گہری نظر تھی جس کی پوری جھلک ان کے ناول ‘مرگِ انبوہ’ میں دیکھی جا سکتی ہے. میں نے اپنے ایک مضمون ‘ اردو ادب میں نوبل پرائز کیوں نہیں’ میں نوبل انعام پر عالمی سیاست، ترجمے و ابلاغ کی کمی و دیگر متعلقات پر گفتگو کی تھی اور بر سبیل تذکرہ ‘مرگِ انبوہ’ کا بھی ذکر کیا تھا.
آج کا منظر نامہ کورونا کی دستک کے ایک سال بعد پھر کورونا کے مرگِ انبوہ (ہولو کاسٹ) میں بدلتا دکھ رہا ہے. ہندوستان میں آگے کا سیاسی منظر نامہ جس کی ممکنہ منظر کشی ذوقی صاحب ‘مرگِ انبوہ’ میں کر گئے، ابھی کورونا کی دھند میں گُھل مل گیا ہے. یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ذوقی کا سیاسی مشاہدہ کتنا کھرا تھا؟ مجھے افسوس ہی رہ گیا کہ میں کیوں اس شخصیت سے فیس بُک کی حد تک ہی جُڑا رہا. شاید اسی لئے کہ رضائے الٰہی ہو کہ میں ان کی رحلت کے اتنے شدید صدمے سے دوچار ہونے سے بچ جاؤں. اب میرے لئے یہی بچا ہے کہ ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے اپنا جی ہلکا کر رہا ہوں. شاید ذوقی کا دماغ، میرا تخیّل ایک ہی راہ پر گام زن تھے. تبھی آج رات ہی ‘لاش غزل’ عنوان سے اپنے اشعار یکجا کرکے غزل کا روپ دیا تھا. ‘مرگِ انبوہ’ اور ‘مردہ خانے میں عورت’ جیسے ناول لکھنے والے ناول نگار، افسانہ نگار، ادیب و صحافی اور ڈاکومنٹرین کو میری یہ خراجِ عقیدت سمجھئے.
افسانوں، ناول، ڈوکیومینٹریوں ،مضامین و صحافت کی دنیا سے اپنی الگ دنیا بسالی آپ نے ذوقی صاحب! جہاں اب آپ کو کسی مرگِ انبوہ کا خطرہ نہیں ستائے گا. بھابھی  تبسّم فاطمہ کا پیارا جیون ساتھی اٹھ گیا. دونوں کی جسمانی سے زیادہ روحانی محبت بھابھی کی، خود ان کی پیدائش کی سال گرہ پر لکھی حالیہ نظموں سے صاف جھلکتی ہے. اب انہیں خود اپنا اور اپنے اکلوتے 24 سالہ جوان بیٹے شاشا کا خیال رکھنا ہے. حق مغفرت فرمائے. آمین. الوداع ذوقی صاحب الوداع!
عمر ہے یہ بھی کوئی جانے کی
لاج ہی لُٹ گئی فسانے کی
:: لاش غزل ::
سب کو لاشیں بانٹ رہے ہیں دھرم سبھا کے سوداگر
اپنی چاندی کاٹ رہے ہیں دھرم سبھا کے سوداگر
کھیل مَرَن جیون کا جاری ستتا سُکھ کے ہاتھوں میں
کتنی دوری پاٹ رہے ہیں دھرم سبھا کے سوداگر
کوئی پَرَشْن نہیں پوچھے گا ایسا ہے آدیش یہاں
ہر بندے کو ڈانٹ رہے ہیں دھرم سبھا کے سوداگر
سنکٹ میں ہے دھرم تمہارا، دھرم کی رکشا پہلے ہے
خون سبھی کا چاٹ رہے ہیں دھرم سبھا کے سوداگر
یہ ہندو ہے، یہ مسلم ہے ؛ رام رحیم میں بھید بڑا
لاشوں کو بھی بانٹ رہے ہیں دھرم سبھا کے سوداگر
اب تو چار دِشا ہے بھائی لاشوں کا انبار کھڑا
بس لاشوں کو پاٹ رہے ہیں دھرم سبھا کے سوداگر
کیسا سنکٹ آن پڑا ہے تشنہ سب کے جیون پر
جی بھر بھاشن بانٹ رہے ہیں دھرم سبھا کے سوداگر
19 اپریل 2021، اِندور، انڈیا

مشرف عالم ذوقی کے تعلق سے صاحب تحریر کی توشیحی نظم بھی ملاحظہ فرمائیں : آہ! مشرف عالم ذوقی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے