حضرت علامہ فروغ القادری : تحریر و خطابت کے گوہرِ آب دار

حضرت علامہ فروغ القادری : تحریر و خطابت کے گوہرِ آب دار

 طفیل احمد مصباحی

خطیبِ یورپ و ایشیا ، مفکرِ اسلام ، آبروئے لوح و قلم حضرت علامہ محمد فروغ القادری دام ظلہ العالی ایک ہشت پہلو شخصیت کا نام ہے ۔ علم و عمل ، اخلاص و وفا ، فکر و نظر ، دانش و بینش ، تدبر و دانائی ، تحریر و خطابت ، شرافت و بزرگی اور جادۂ دعوت و تبلیغ کے ایک تیز رو اور پُر عزم مسافر کی حیثیت سے ان کی ایک منفرد پہچان ہے ۔ ان کی تقریروں میں جہاں علم و استدلال اور تحقیق و تاریخ کی نہریں رواں نظر آتی ہیں ، وہیں ان کی بیش بہا تحریروں میں سلاست و روانی ، ادبی جمال اور فنی کمال کے آب دار موتی بھی جھلملاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مغرب کی وادیوں میں اذانِ بلالی بن کر گونجنے والے اس بے لوث مبلغ نے گزشتہ داعیانِ اسلام کی یاد تازہ کر دی ہے اور عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کی گراں قدر اور قابلِ رشک خدمات انجام دی ہیں ۔ شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر اقبال نے ” شاہین ” کا جو علامتی و استعاراتی تصور ہمیں دیا ہے ، وہ اس مفہومِ کلی کے ایک ممتاز فرد ہیں ۔ موصوف ایک شاہین صفت عالمِ دین اور سیمابی کیفیت رکھنے والے ایک مایۂ ناز اسلامی مبلغ ہیں ۔ مقامِ شکر و اطمینان ہے کہ اقبال کا یہ ” شاہین ” ایشیا و یورپ اور امریکا و افریقہ کے بیشتر ممالک کا چکر کاٹ چکا ہے اور اپنے شوقِ فراواں اور حوصلوں کی بلندی سے دعوت و تبلیغ کے نت نئے آفاق مسخر کر چکا ہے ۔

ایک شخص بیک وقت بلند پایہ خطیب بھی ہو اور اعلیٰ انشا پرداز بھی ، ایسا حسنِ اتفاق بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ خدائے قادر و قیوم نے علامہ فروغ القادری کو دونوں نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے ۔ وہ کشورِ خطابت کے سلطان بھی ہیں اور میدانِ قرطاس و قلم کے شہسوار بھی ۔ جب خطابت پر اتر آتے ہیں تو خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ سید سلیمان اشرف بہاری ( سابق صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ) اور مفکرِ اسلام حضرت مولانا قمر الزماں خاں اعظمی کے پُر مغز خطاب کی یاد تازہ کر دیتے ہیں اور جب اپنے نرم و گداز ہاتھوں سے قلم کو جنبش دیتے ہیں تو اپنے وقت کے ممتاز صاحبِ قلم اور کامیاب انشا پرداز معلوم ہوتے ہیں ۔ ایک بار عرسِ رضوی کے موقع پر مولانا قمر الزماں خاں اعظمی نے بھرے مجمع میں فرمایا تھا کہ ” لہجہ اور اسلوب کے اعتبار سے مولانا فروغ القادری میرا عہدِ شباب ہیں ” ۔ خطابت و انشا پردازی ان کی تہہ دار فکر و شخصیت کے دو ممتاز حوالے ہیں ۔ انشا پردازی کا انحصار قلم پر ہے ، جب کہ خطابت ، زبان دانی و طلاقِ لسانی کا فن ہے ۔ استدلال کی قوت اور زبان و بیان کی تاثیر و دل کشی اور جذبات کی فراوانی ، خطابت کے اہم عنصر ہیں ۔ ایک دانشور کے بقول : ” خطیب اپنے جس فکر و خیال کو پیش کرتا ہے تو اس کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ دلیل وبرہان ، زور بیانی اور طلاقت لسانی کی قوت سے اُسے سامعین کے دل میں اتار دے اور ان کے احساسات وجذبات کو اپنی جانب کھینچ لے ۔ یہیں سے ایک مدرس ، ایک فلسفی اورایک خطیب کے درمیان امتیاز پیدا ہوجاتا ہے ۔ ایک مدرس یا فلسفی ، استدلال کا سہارا لیتا ہے اورعقل کومخاطب بناتا ہے ، جب کہ ایک خطیب سامعین کے جذبات میں تلاطم وتموّج کی لہریں ابھارتا ہے ۔ جوخطیب انسانی جذبات کوچھیڑ کرعمل پر آمادہ نہ کرسکے وہ کوئی مدرس ، فلسفی یا عالم تو ہو سکتا ہے ، لیکن خطیب نہیں ہو سکتا ” ۔

علامہ فروغ القادری اکیسویں صدی عیسوی کے خطیبِ مشرق و مغرب ہیں ، جن کی خطابت کا ڈنکا آج پوری دنیا میں بج رہا ہے ۔ دیارِ مشرق ومغرب میں عوام و خواص ان کا پُر مغز خطاب بڑے ذوق و شوق سے سماعت کرتے ہیں اور حد درجہ محظوظ و متاثر ہوتے ہیں ۔ امریکہ ، برطانیہ ، لندن ، فرانس ، ترکی ، جاپان ، ماریشش اور عرب کے مختلف ممالک میں ان کی خطابت نے انقلاب برپا کیا ہے ۔ ہر سال خصوصی خطیب کی حیثیت سے ” عرسِ رضوی ” کے موقع پر بریلی شریف مدعو کیے جاتے ہیں ۔ مشہور سیاسی رہنما جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب انہیں سال بہ سال خطاب کے لیے حیدر آباد بلاتے ہیں ۔ غرض کہ عوام سے زیادہ خواص ان کی تقریر کے دل دادہ ہیں ، جس کی واحد وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی تقریر میں علمیت ، زورِ استدلال اور فکر و نظر کی آمیزش ہوا کرتی ہے ۔ موصوف کی تقریر بڑی فصیح و بلیغ ہوا کرتی ہے ۔ خوب صورت جملے ، دل کش الفاظ و تراکیب اور دل و دماغ کوجھنجھوڑنے والا ان کا توانا اسلوب سامعین کو مسحور کر دیتا ہے ۔

یہ تو ان کی خطیبانہ صلاحیت تھی اور جہاں تک ان کی تحریری مہارت کی بات ہے تو اس میں بھی انفراد و امتیاز کا پہلو نمایاں ہے ۔ عام بول چال ، روز مرہ گفتگو اور تحریری زبان میں فرق ہوتا ہے ۔ راقم الحروف علامہ فروغ القادری دام ظلہ کو گذشتہ آٹھ سالوں سے جانتا ہے اور بارہا ان سے گفتگو کا شرف حاصل رہا ہے ۔ میں نے ہر بار ہمیشہ یہی محسوس کیا کہ ان کی تقریر و تحریر اور روز مرہ کی زبان یکساں ہے ۔ ان کی عام گفتگو میں جو فصاحت و بلاغت اور نفاست و حلاوت پائی جاتی ہے ، وہ ادبی خصوصیت ان کی تحریر و خطابت میں بھی پائی جاتی ہے ۔ موصوف جس طرح فصیح و بلیغ زبان اپنی تحریروں میں استعمال کرتے ہیں ، اسی طرح عام بول چال میں بھی فصیح و بلیغ اور ادبیت سے مالا مال اردو بولتے ہیں ۔ راقم نے اپنی زندگی میں ان کی طرح لسان العصر اور فصیح البیان ادیب و خطیب نہیں دیکھا ہے ۔ علامہ موصوف کی بلند پایہ تحریریں اور گراں قدر مضامین و مقالات ، زبان و بیان ، الفاظ و معانی اور ہیئت و اسلوب کے لحاظ سے اردو زبان و ادب کے ذخیرے میں بیش بہا اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اچھی نثر لکھنے کے لیے زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت اور دست رس ہونی چاہیے ۔ مطمحِ نظر واضح ہونا چاہیے اور لکھنے کا کوئی جواز ہونا چاہیے ۔ زبان عامیانہ نہیں ، بلکہ عالمانہ ہونی چاہیے ۔ اسلوب ، دل نشیں ، پُر کشش ، حکیمانہ اور حسبِ ضرورت محققانہ ہونا چاہیے ۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہو ، اس کا حق ادا ہونا چاہیے ۔ تحریر میں واضح اور دو ٹوک انداز اختیار کرنا چاہیے تاکہ مدّعا پوری طرح ظاہر ہو جائے اور اس کا کوئی گوشہ مجمل یا مبہم نہ رہنے پائے ۔ مفہوم میں وضاحت و قطعیت اور ایجاز و اختصار اس طرح ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ” ایجازِ مُخل اور اطنابِ مُمل ” کی صورت پیدا نہ ہونے پائے ۔ سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی کا خاص خیال رکھا جائے ۔ ادیب اور نثر نگار کو بلاغت آشنا یعنی اقتضائے احوال کے مطابق کلام ( نظم و نثر ) پیش کرنے والا ہونا چاہیے ۔ اسی طرح الفاظ و تراکیب کے استعمال میں فصاحتِ کلمہ و کلام کا ہر حال میں خیال رکھنا ضروری ہے ۔ ہمیشہ نئے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے اور چبایا ہوا لقمہ تحریر کے پیٹ میں ڈالنے سے احتراز کرنا چاہیے ۔ ہر بار نئے موضوع اور نئے انداز و اسلوب میں گفتگو کرنی چاہیے ۔ ان اصول و شرائط کی رعایت و التزام سے ہی کوئی شاعر و ادیب زندہ رہ سکتا ہے اور اس کی تحریر پائدار ادب کا نمونہ بن سکتی ہے ۔

مذکورہ بالا ادبی اوصاف و نثری محاسن کے تناظر میں جب ہم ” مضامینِ فروغ ” کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو ان کی تحریریں  اس ادبی معیار پر کھری اترتی ہیں ۔ فصاحت و بلاغت ، سلاست و روانی ، صفائی و برجستگی ، زورِتخیل ، بلند آہنگی ، فکر و جذبہ کی باہمی آمیزش اور نظریہ و فلسفہ کا باہمی امتزاج ” مضامینِ فروغ ” کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ہیں ۔ مجموعی اعتبار سے ان کے فکر و خیال میں تنوع اور معنوی تہہ داری پائی جاتی ہے اور ان کی تحریریں ادبِ عالیہ و اردوئے معلیٰ کا نمونہ پیش کرتی ہیں ۔ ” مشتے نمونہ از خروارے ” کے طور پر صرف ایک مثال دیکھیں اور اقلیمِ تحریر و خطابت کے اس بے تاج بادشاہ کی قلمی مہارت کا اندازہ لگائیں ۔ استاذ العلماء ، جامع معقول و منقول حضرت علامہ مفتی شبیر حسن رضوی بستوی علیہ الرحمہ ( جو موصوف کے استاذ تھے اور راقم الحروف کے بھی ) کے سانحۂ ارتحال پر درد و کرب میں ڈوبی تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں :

مادرِ علمی الجامعۃ الاسلامیہ ، روناہی ( فیض آباد ) کی مسندِ تدریس پر کم و بیش نصف صدی تک اپنے علم و فضل کے گوہرِ آبدار لٹانے والا ، اپنی ذہنی دراکی اور خدا داد صلاحیتوں کے ذریعے فقہِ اسلامی ، معارفِ دینی اور منطق و فلسفہ کے مشکل ترین مسائل کی عقدہ کشائی کرنے والا اور نغماتِ رضا کو استدلال کی زبان دینے والا عظیم عبقری اپنی زندگی کی 73 / بہاریں دیکھ کر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ۔ وہ عصرِ حاضر میں ہماری درس گاہ کی آبرو ، مسلکِ امام احمد رضا کی عزت ، اسلامیانِ ہند اہلِ سنت و جماعت کا وقار اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے تلامذہ کی علمی ، دینی ، تہذیبی اور اعتقادی تحریکات کے امام تھے ۔ آج اچانک ان کے وصال سے علم و فن کی کائنات ان ساری عزتوں سے محروم ہو گئی ۔ علومِ عقلیہ اور نقلیہ کا ایسا ماہر ، مسندِ ارشاد و تدریس کا ایسا شناور ، فلسفۂ خودی کا ایک مردِ کامل ، عصرِ حاضر میں رازی و غزالی کی درس گاہِ شوق کا حقیقی ترجمان ، ایسا عاشقِ رسول اور کاروانِ ملت کا حدی خواں آفاق کی وسعتوں میں صدیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے اور شاید پھر صدیوں کے بعد پیدا ہو ۔ ان کے دہن کا ہر ترانہ کلامِ رضا ، ان کی جانِ حزیں کی ہر آواز مدحتِ رسول اور ان کے جذبۂ دل کی ہر فریاد ارمغانِ حجاز تھی ۔ وہ ذکر کی گرمی میں شعلے کی طرح روشن اور فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز رہا کرتے تھے ۔ ان کی درس گاہ ِ فیض طلبہ کے لیے کسی چشمۂ سیال[سے] کم نہ تھی ۔ وہ اسباق و مضامین کو دل و دماغ کی پہنائیوں میں اتارنے کا ہنر جانتے تھے ۔ ایسی شعلہ بداماں ، وسعتِ مطالعہ ، استحضارِ ذہنی اور فقہی بصیرت کی جمالیاتی صلاحیتوں سے آراستہ شخصیت ، جس سے ہماری شاہراہِ حیات مدتوں روشن رہے گی ، آج ہم سے رخصت ہو گئی ۔

خواجہ الطاف حسین حالی نے کامیاب اور دیر پا تحریر کے لیے حسنِ معانی سے زیادہ حسنِ الفاظ کو اہمیت دی ہے ۔ ان کا کہنا ہے معنی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں ، اگر عمدہ الفاظ میں بیان نہ کیے جائیں تو ہرگز دلوں میں گھر نہیں کرسکتے ۔ جاحظ اور قدامہ بن جعفر طرزِ بیان اور صنعت پر زور دیتے ہیں ۔ جاحظ لکھتا ہے : معانی تو پیش پا افتادہ ہوا کرتے ہیں ، اُسے تو عربی ،عجمی ، دیہاتی ، شہری سب جانتے ہیں ۔ دراصل اہمیت اچھے الفاظ کے استعمال کی ہے ۔

( مشرقی شعریات اور اردو تنقید : ص : 358 )

علامہ فروغ القادری اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں حسنِ معانی کے ساتھ حسنِ الفاظ کی چاندنی صفحاتِ قرطاس کو منور کرتی ہے اور کوثر و تسنیم میں دھلا ہوا ان کا نکھرا اسلوب قارئین پر خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے ۔ ” مجموعۂ مضامین ِ فروغ ” میں شامل تمام تحریریں اس وصف سے مزین ہیں اور ان کی قلمی مہارت کو اجاگر کرتی ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے علم و عمل اور عمر و اقبال میں بے پناہ برکت عطا فرمائے اور ان کی تحریروں کو گم گشتگانِ راہِ حق کے لیے مینارِ ہدایت اورمشعلِ راہ بنائے ۔ آمین

طفیل احمد مصباحی کی گذشتہ نگارش : درختوں اور پیڑ پودوں کے طبّی فوائد

شیئر کیجیے

One thought on “حضرت علامہ فروغ القادری : تحریر و خطابت کے گوہرِ آب دار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے