چوٹ پر چوٹ کھائے جاتے ہیں

چوٹ پر چوٹ کھائے جاتے ہیں



طفیل احمد مصباحی

چوٹ پر چوٹ کھائے جاتے ہیں
پھر بھی ہم مسکرائے جاتے ہیں

زخم دینے کے بعد ہنس ہنس کے
اس پہ مرہم لگائے جاتے ہیں

دیکھ کر حالتِ دلِ مفلس
زیرِ لب مسکرائے جاتے ہیں

یاد آتے ہی ان کی اشکوں کے
دیپ اکثر جلائے جاتے ہیں

وقت کے چیل کوّوں کے ہاتھوں
ہم تو الّو بنائے جاتے ہیں

کر لو دیدارِ یار جی بھر کے
رخ سے چلمن ہٹائے جاتے ہیں

بات کیا ہے کہ آج چاروں طرف
ہم مسلماں ستائے جاتے ہیں

ہائے افسوس کہ مگرمچھ کے
آج آنسو بہائے جاتے ہیں

دوستوں کو بُھلا کے ، سینے سے
دشمنوں کو لگائے جاتے ہیں

بیٹھ جاتے ہیں اس جگہ جس جا
قصّۂ غم سنائے جاتے ہیں

دیکھیے کب طفیل قسمت سے
ان کے در پر بلائے جاتے ہیں

طفیل احمد مصباحی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :

ملفوظاتِ صوفیا : ایک تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے