شام کی پوٹلی میں زندگی کا اشارہ

شام کی پوٹلی میں زندگی کا اشارہ


جاوید اختر ذکی خان


جس دن مجھے موت آئے گی
میرے سرہانے ایک کتاب رکھی ہوگی
اس کتاب کا ایک صفحہ تمہیں
مڑا ہوا ملے گا
یہ مڑا ہوا صفحہ علامت ہے
ٹھہر جانے کی، رک جانے کی
پر، یہ فقط میرے لیے ہے
تمہیں اس مڑے ہوئے صفحہ سے
آگے بڑھنا ہے
تم جو آج بھی کھیتوں کے
باڑوں میں لگے درخت کی پرچھائیوں سے
وقت کو ماپتے ہو
اب تمہیں اس سے آگے بڑھنا ہے
بھوک سے، پیٹ کی بھوک سے
آگے کی سوچ کو اڑان بخشنی ہے اب تمہیں
بھوک، جو تمہیں خود کو چبانے
کی ترغیب دیتی ہے
اب ان کھیتوں سے نکل کر باہر آؤ
کتابوں کے مڑے ہوئے صفحات کو پڑھ ڈالو
ایک نئے عزم و ہمت کے ہم راہ
اپنی زندگی کی تیرگی کو دور کرو، تم
کیا نہیں ہے تمہارے پاس
صبح کی امید
اور
شام کی پوٹلی میں زندگی کا اشارہ
تم صبح مت دیکھو
تم شام مت دیکھو
تم نشیب و فراز مت دیکھو
تم زندگی کا جشن شروع کیوں نہیں کر دیتے ہو
یہ میرے لفظ
پتھروں پر گھس گھس کر اب دھار دار ہو رہے ہیں
لہو جم جاتا ہے
پر، لفظ کبھی منجمد نہیں ہوتا ہے
یہ الفاظ ہی ہیں میرے
جو تمہاری پیشانی کو روز بوسہ دیتے ہیں
ہاں! میرے لہو کے دریا کو
تم پار کر جاؤ اب
لہو تاریخ کی گلیوں میں نہیں جھانکتا
پر لفظ میرے
تاریخ بنائیں گے ایک روز
مجھے یقین ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے