’دین‘ کے ظفر کو خدا آخرت میں کامران کرے!

’دین‘ کے ظفر کو خدا آخرت میں کامران کرے!

سلمان عبدالصمد


اب تک مجھے تین دفعہ حیدرآباد کے سفر کا موقع ملا۔ ایک ادبی سفر جب کہ دوسرا اور تیسرا ناکام ”ملازماتی سفر“۔ تینوں اسفار کے دوران فقط ایک بار پروفیسرظفر الدین سے ملاقات ہوئی مگر بات تو ”حیدرآبادی سفر“ میں ہر بار ہوئی بلکہ سفر کے علاوہ بھی باربار ہوتی رہی۔ حیدرآباد میں پہلی ملاقات سے قبل میں نے تخلیقی کنواں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایک مرتبہ ان کو دیکھا تھا جب ڈاکٹر شرافت علی ”مشہور صحافی شاہدالاسلام“ کے پی ایچ ڈی وائیوا میں استاد محترم پروفیسر ابن کنول کے ساتھ وہ تشریف لائے تھے۔ استادمحترم پروفیسر انور پاشا شاہد بھائی کے نگراں تھے اور سینٹر فار انڈین لنگویجز(سی آئی ایل، جے این یو) کے چیئر پرسن بھی۔ اُس وقت نہ میں پروفیسر ظفر الدین کا نام جانتا تھا اور نہ ہی انھیں پہچانتا تھا۔ البتہ وائیو کے بعد کئی لوگ ان سے مل رہے تھے تو میں نے بھی ان سے ملاقات کرلی۔اس ملاقات کے بعد دلی اردو اکادمی کے ایک سیمینار میں ”تجدید ِ ملاقات“ہوئی جب وہ اپنے چھوٹے بھائی پروفیسر شہزاد انجم کی صدارت میں اپنا مقالہ پیش کررہے تھے۔ اسی دن پتا چلا کہ پروفیسر شہزاد انجم اور پروفیسر ظفر الدین سگے بھائی ہیں۔
سدی پیٹ کالج حیدرآباد میں یک روزہ قومی سیمینار تھا۔ پہلی دفعہ میں حیدر آباد گیا تھا۔ ”اس سیمینار میں ادبِ اطفال پر ایک طفلانہ نظر“ کے عنوان سے میں نے اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔ سیمینار کے بعد مخلص بھائی ذیشان کے ساتھ مانو ہاسٹل میں تقریباً ایک ہفتہ قیام کیا۔ اسی قیام کے زمانے میں پروفیسر ظفر الدین سے ملاقات ہوئی اور میں نے ذیشان بھائی کے ساتھ حیدر آباد کے مختلف مقامات کی سیر بھی کی۔یہ 2016کے اواخر کا واقعہ ہے۔ اس موقع پر میں نے پروفیسر ظفر الدین سے اپنا تعارف کرایا۔دلی کی ہماری دو ملاقاتیں انھیں یاد تھیں مگر وہ مجھے شکلاً بھول چکے تھے۔ میں نے ان کو اپنا ناول بھی بھیجا تھا۔ تعارف کی شروعات میں ہی انھوں نے کہا ”اچھا، اچھا، لفظوں کا لہو، یاد آگیا۔ نام بتانے سے پہلے ہی ”لفظوں کا لہو“ کہہ دینا ہی تمھارا بہترین تعارف ہے۔“اس وقت کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں۔ پھر انھوں نے دیوان غالب کا وہ نسخہ دیا جو انھوں نے کسی مقصد کے تحت اردو، رومن اور انگریزی میں تیار کیا۔ وہ دیدہ زیب جہازی سائز نسخہ آج بھی میری ذاتی لائبریری میں موجود ہے۔اور ہاں،”لفظوں کا لہو“ کی بات ہے تو میں یہ بھی بتا دوں کہ 2019میں ساہتیہ اکادمی یوا پرسکار کا اعلان ہوا تھا تو فیس بک پیج پر انھوں نے باضابطہ اپنی پوسٹ مع تصو یر میں لکھا ”لفظوں کا لہو کو ایوارڈ مبارک“۔
یہ وہی دور ہے جب رسالہ ”ادب وثقافت“ کی اشاعت شروع ہوچکی تھی۔ میں نے اس مؤقر رسالے میں دوتین مضامین اشاعت کے لیے ارسال کیے تھے۔ شایدمعیاری نہ ہونے کے سبب میرے یہ مضامین شائع نہ ہوسکے۔چوں کہ میں نے ایم فل کا مقالہ ”اردو میں نفسیاتی کہانیوں کی روایت“ پر لکھا تھا،اس لیے ایم فل جمع کرنے کے بعد میں نے نفسیاتی تنقید پر بھی ایک بھرپور مقالہ لکھا۔یہ میں نے مدراس یونیورسٹی کے ایک سمینار میں پیش کیا تھا جس پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر ظفر احمد صدیقی مرحوم نے کہا تھا کہ 33برسوں سے میں محمود الحسن(شبیہ الحسن) کی کتاب ”اردو تنقید میں نفسیاتی حسیت“ پر ایسی بات سننا چاہتا تھا جو سلمان عبدالصمد نے آج اپنے مقالے میں کی۔اس کے علاوہ انھوں نے نفسیاتی تنقید پر بہت سے مفید مفروضات پیش کیے۔یہ چوتھا مضمون تھاجسے میں نے ”ادب وثقافت“ کو بذریعہ میل ارسال کیا تھا۔ کوئی ہفتہ بھر بعد پروفیسر ظفر الدین کی کال آئی اور انھوں نے اشاعتِ مضمون کی نوید سنائی۔ میں نے اپنے اس مضمون کاعنوان ”اردو کی نفسیاتی تنقید پر آدھی ادھوری نظر“لگا یا تھا۔پروفیسر ظفر الدین یوں گویا ہوئے کہ تم نے نفسیاتی تنقید پر پوری نظر ڈالی ہے۔ اس لیے عنوان تبدیل کرکے مضمون دوبارہ ارسال کردو۔ میں نے کہا کہ سر، کلیم الدین احمد ادب پر عموماً ایک نظر ڈالتے تھے۔”ایک نظر“ ان کے لیے ہی خاص رہے، اس لیے میں نے ”آدھی ادھوری نظر“ ڈالنے کا کام کیا ہے۔ وہ بہت تیز ہنسے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ سر آپ ہی مناسب کوئی عنوان لگا کر شائع کردیجیے۔ انھوں نے ”ادب وثقافت“ میں 37صفحات پر مشتمل میراطویل مضمون ”اردو کی نفسیاتی تنقید پر ایک نظر“ کے عنوان سے شائع کیا۔یہ تھی ان کی ہمت افزائی۔ گویا ان سے ملاقات تو بار بار نہیں ہوئی، البتہ بات بار بار ہوتی تھی۔
اس مضمون کی اشاعت کے بعد ایک دن پھر کال آئی اور پوچھنے لگے کہ تمھاری بات چیت پروفیسر شارب ردولوی سے ہوتی ہے؟ میں نے کہا سر کبھی ان سے بات نہیں ہوئی۔یہاں تک کہ کبھی ان کی زیارت کا موقع بھی نہیں ملا۔ انھوں نے کہا کہ میں استاذی کا نمبر بھیج رہا ہوں۔تم ان سے بات کرلو۔وہ تمھارے مضمون کا تذکرہ کررہے تھے۔ انھوں نے پسند کیا۔ ان سے رابطہ رکھو۔ اور ایک با ت یہ کہ شاید تم نے ان کی کتاب سے جتنا استفادہ کیا اُتنا حوالہ نہیں دیا ہے۔ان کی گفتگو سے مجھے ایسامحسوس ہوا. (حالاں کہ میں نے اپنے اس مضمون میں دو جگہ ان سے استفادہ کیا تھا اور حوالہ بھی موجود ہے)۔تم فقط سلام دعا کرلو اور کوئی بات مت کرنا۔

میں نے استادالاساتذہ پروفیسر شارب ردولوی کو کال کی۔ پروفیسر ظفر الدین کا حوالہ دیا۔ مضمون کا تذکرہ ہوا۔ وہ جے این یو کے احوال دریافت کرتے رہے۔ پروفیسر شارب ردولوی سے یہ میری پہلی اور آخری فون پر بات تھی۔ اس کے علاوہ ایک دفعہ ان کا ایک توسیعی خطبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سنا تھا۔ اسی پروگرام میں ان کو دیکھا مگر اس وقت بھی ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔
30اکتوبر 2019 کو میں نے حیدرآباد کا دوسرا سفر کیا۔ یہ ملازمت کی غرض سے سفر تھا۔ 2نومبر 2019کو ایل ڈی سی (لور ڈویژن کلرک) کا تحریری امتحان تھا۔ میں نے یکم نومبر کو پروفیسر ظفر الدین کو برقی پیغام بھیجا کیا کہ سر میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے گھنٹوں بعد کال کی۔ احوال دریافت کیے اورقیام کے متعلق پوچھا۔ میں نے بتایا کہ میں نے لور ڈویژن کلر ک کے لیے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں فارم بھرا تھا۔ کل امتحان ہے۔ انھوں نے ناگواری کا اظہار کیا۔ نوکری کی اتنی بھی جلدی کیا ہے مگر اب تو ان سے بھی پوچھا جاسکتاہے کہ آخر اتنی جلدی کوئی دنیا کو یوں سوگوار چھوڑ کر چلا جاتا ہے! اس سفر میں ان سے بات ہوئی، مگر ملاقات نہیں۔ ایل ڈی سی کی کل 15سیٹوں کے لیے تقریباً 1500امیدوار تھے۔ایک میں بھی بیمار تھا۔ تحریری امتحان کا نتیجہ آیا تو چنیدہ 100لوگوں میں میرا بھی نام تھا۔ ان سو میں سے فقط 15کا انتخاب ہونا تھا۔ لہذا پھر حیدرآباد کا تیسرا سفر درپیش تھا۔ اسی درمیان میں نے اس ادھوری کامیابی کے متعلق کئی لوگوں سے بات کی۔ دعائیں لیں۔ الحمد اللہ، دعا دینے والے تمام افرادآج بھی بہ قید حیات ہیں،سوائے ظفر صاحب کے۔ اس وقت میں نے پروفیسر ظفر الدین کو بھی کال کی کہ میری ظفرمندی کے لیے دعا کردیجیے۔ انھوں نے پھر کہا کہ تمھارے لیے یہ ملازمت مناسب نہیں ہے۔ ”اسکلس ٹیسٹ“ کی تاریخ 02 دسمبر طے تھی۔ دل میں خیال آتا تھا کہ شاید کامیاب پندرہ لوگوں میں میرا بھی نام ہوگا۔ اس لیے27نومبر کو پی ایچ ڈی مقالہ نظر ثانی کے لیے استاد محترم پروفیسر انور پاشا کو دے دیا تھا اور حیدر آباد چلا گیا۔ میرے ساتھ دعائیں تھیں۔ پھر میرے لیے تحریری امتحان میں کامیاب ہونا مشکل تھا، جب کہ میں اس میں کامیاب ہوگیا مگر”اسکلس ٹیسٹ“کے ٹائپنگ امتحان میں ناکام ہوا۔ حالاں کہ آج بھی میری انگلیاں کی بورڈ پر فراٹے بھرتی ہیں۔ یہ سفر میرا تیسرا حیدرآباد کا سفر تھا جس میں پروفیسر ظفر الدین سے بات ہوئی۔ ملاقات کے لیے آفس بھی گیا مگر وہ آفس میں نہیں تھے اور ملاقات نہیں ہوپائی۔ البتہ نوجوان صحافی محسن خان سے بات ہوئی اور انھوں نے امام المزاح مجتبیٰ حسین سے ملاقات کرائی۔ملاقات کا وہ لمحہ آج بھی میری آنکھوں اور میرے کیمرے میں قید ہے مگر افسوس کہ میں پروفیسر ظفر الدین سے ملاقات کو کیمرے کی آنکھوں میں سما نہ سکا۔البتہ ان کی ادائیں ہمارے دلوں میں قید ہیں۔
لاک ڈاؤن میں جب مجتبیٰ حسین کا انتقال ہواتو ان پر آن لائن کئی تعزیتی نشستیں ہوئیں۔اسی درمیان ”ادب وثقافت“ کا کوئی شمارہ فائنل ہوا تھا۔ پروفیسر ظفر الدین نے07مئی 2020 کو اس کی پی ڈی ایف فائل مجھے واٹس ایپ پر بھیجی۔ میں نے ان کا شکریہ کچھ یوں ادا کیا تھا:
Walaikum Assalam Sir, Like some old issues, this issue is very meaningful. Indeed, you have compiled it in a good manner. You are doing everything with fierce concentration. This issue, which consists of dozens of valuable articles, is the outcome of vision and hard work.I will try to read some of the articles pertaining to this issue.
اس میسیج کے بعدا نھوں نے کا ل کی اور کہا کہ مجتبیٰ حسین پر”ادب وثقافت“ میں ایک گوشہ آنے والا ہے۔ کوئی بھرپور مضمون لکھ سکو تو لکھو۔ بدقسمتی کہ میں مجتبیٰ حسین پر لکھ نہ سکا اور نہ ہی اِن دنوں ان کو اپنا کوئی مضمون میل کریاپا۔البتہ وہ پابندی سے مجھے ”ادب وثقافت“ کا شمارہ بھیجتے رہے۔ میں رسالہ کی تصویر بھیج کر فقط ان کا شکریہ ادا کردیتا تھا۔ چند دنوں قبل انھوں نے اپنی یونیورسٹی مطبوعات کی فہرست مجھے بھی بھیجی تھی۔ میں وہ ساری کتابیں منگوانے کا ارادہ بنا رہا تھا اور ”ادب وثقافت“ کے لیے فون پر ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا تھامگر اب ظفر کی سانس کی ڈور ٹو ٹ چکی ہے اور میں ان کے شکریے کا مقرض ہوں۔ اب تو بس یہی دعا ہے کہ’دین‘ کے ظفر کو خدا آخرت میں بھی کامران کرے!
9810318692

سلمان عبد الصمد کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :

سوالات کے آئینے میں ’’شعر شور انگیز‘‘

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے