حضرت سید شاہ اکبر دانا پوری کی نعتیہ شاعری

حضرت سید شاہ اکبر دانا پوری کی نعتیہ شاعری



محمدطفیل احمد مصباحی

اکبر الشعراء ، حضرت علامہ سید شاہ محمد اکبر دانا پوری علیہ الرحمہ تیرھویں صدی ہجری کے جامعِ شریعت و طریقت عالمِ دین ، درویشِ کامل ، مایۂ ناز صوفی ، خدا رسیدہ بزرگ ، باکمال مصنف اور فارسی و اردو کے ممتاز شاعر گذرے ہیں ۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت مخدوم عبد العزیز بن سیدنا امام تاج فقیہ مکی سے ملتا ہے ۔ آپ کے والدِگرامی حضرت مخدوم سید شاہ محمد سجاد اپنے وقت کے جلیل القدر عالم و صوفی تھے ۔ شاہ اکبر دانا پوری 27 / شعبان 1260 ہجری ، مطابق : 11 / ستمبر 1843 ء کو پیدا ہوئے ۔ آبائی وطن دانا پور ، بہار ہے ۔ سلسلہ ابو العلائیہ کے ایک با فیض مرشد کی حیثیت سے ان کی ایک منفرد شناخت ہے ۔ سرسید احمد خان ، مجدد اسلام امام احمد رضا خان بریلوی ، سرکار آسی غازی پوری ، محسن کاکوروی ، شاد عظیم آبادی ، سید شاہ سعید حسرت عظیم آبادی ، صفیر بلگرامی ، فضلِ حق آزاد عظیم آبادی ، والیِ رام پور نواب کلب علی خان اور اکبر الہٰ آبادی آپ کے معاصرین میں ہیں ۔ نیز اکبر الہٰ آبادی آپ کے استاد بھائی اور پیر بھائی بھی ہیں کہ دونوں وحید الہٰ آبادی اور جناب سید شاہ محمد قاسم ابو العلائی دانا پوری کے شاگرد و مرید ہیں ۔ ابتدائی تعلیم و تربیت والدینِ کریمین کی آغوشِ شفقت میں حاصل کی ۔ بعد ازاں اپنے عم مکرم جناب سید شاہ محمد قاسم دانا پوری سے مروجہ دینی علوم و فنون اور طریقت کے اصول و مبادی سیکھے اور انہیں سے سلسلہ ابو العلائیہ میں مرید ہو کر اجازت و خلافت سے نوازے گئے ۔ ظاہری و باطنی علوم کی تحصیل کے بعد مسندِ ارشاد و تلقین پر متمکن ہوئے اور تا دمِ حیات دین کی خدمت اور بندگانِ خدا کی اصلاح و ہدایت کا کام بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ۔ آپ کو نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی ۔ مندرجہ ذیل کتب و رسائل آپ کی قلمی و تصنیفی مہارت کو ظاہر کرتے ہیں :

( 1 ) خدا کی قدرت ( 2 ) مولدِ غریب ( 3 ) اخبار العشق ( 4 ) سرمۂ بینائی ( 5 ) سیرِ دہلی ( 6 ) شورِ قیامت ( 7 ) مولدِ فاطمہ ( 8 )چراغِ کعبہ ( 9 ) رسالہ غریب نواز ( 10 ) احکامِ نماز ( 11 ) چہل حدیث ( 12 ) اشرف التواریخ – تین جلدیں – ( 13 ) ادراک ( 14 ) ارادہ ( 15 ) نذرِ محبوب ( 16 ) شرحِ مثنوی مولانا روم ( 17 ) رسالہ التماس ( 18) رسالہ اردو بیگم – منظوم – ( 19 ) شعری دیوان تجلیاتِ عشق ( 20 ) جذباتِ اکبر ( 21 ) دل

خواجہ محمد صدیق حسن کے بقول : ” تحصیلِ علمِ ظاہری تکمیل کو پہنچی یا نہیں ، مگر آپ کی تعلیمات و مصنفات سے جہاں تک اندازہ کیا جا سکتا ہے ، اس کے کہنے میں تامل نہیں کہ آپ آسان عربی عبارت اچھی طرح سمجھ لیتے تھے ۔ قرآن شریف و مشکوٰۃ میں بڑا تدبر فرماتے رہتے تھے اور بعض اوقات ایسے علمی نکات بیان فرماتے کہ علما بھی متحیر رہ جاتے ۔ علمی دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ علما کی بیحد قدر فرماتے اور علمی مضامین و علمی کتابوں کے مطالعہ سے تا دمِ آخر سیر نہ ہوئے ” ۔

( شاہ اکبر دانا پوری : حیات اور شاعری ، ص : 14 )

شاعری و نعت گوئی :

جناب سید شاہ اکبر دانا پوری کی ذاتِ ستودہ صفات ہر فن مولیٰ واقع ہوئی تھی ۔ علومِ ظاہری و باطنی کے دانائے راز تھے ۔ شاعری آپ کے گھر کی باندی تھی ۔ شعر و سخن کی دولت وراثت میں پائی تھی ۔ آپ کے والد شیخ سجاد اور دونوں چچا حضرت شاہ قاسم و حضرت شاہ واجد اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے ۔ صوفیانہ شاعری کا ماحول بچپن سے ملا تھا ۔ حضرت مولانا وحید الہٰ آبادی کی شاگردی نے فکر و فن کو مزید نکھارا اور آپ اردو و فارسی کے ایک مسلم الثبوت شاعر بن کر ابھرے ۔ فصاحت و بلاغت اور سلاست و برجستگی کے علاوہ سوز و گداز اور صوفیانہ مضامین کی آمیزش آپ کی نمایاں شعری خصوصیت ہے ۔ تذکرۂ ہزار داستاں معروف بہ ” خم خانۂ جاوید ” میں آپ کی شاعری پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے : حاجی سید شاہ محمد اکبر ابوالعلائی ، سجادہ نشیں خانقاہ دانا پور ( بہار ) ۔ اوائلِ سنِ تمیز سے آپ کو فنِ شریف ( شاعری ) کی طرف میلان رہا ۔ مگر اپنے والدِ بزرگوار کے ارشاد کے بموجب عشقیہ مضامین ترک کر کے زیادہ تر تصوف ، اخلاق اور معرفت کے رنگ سے کلام کو رنگتے رہے ۔ اب اچھے کہنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ مولانا وحید الہٰ آبادی سے آپ کو رشتۂ تلمذ حاصل ہے ۔ آپ کو قدیم طرز کے علاوہ طرزِ جدید میں بھی معقول دسترس ہے ۔ چنانچہ اکثر قومی مجالس میں نیچرل مضامین پر وقتاً فوقتاً نظمیں پڑھی ہیں ۔ آگرہ میں اکثر قیام کا اتفاق رہتا ہے ۔ چنانچہ وہیں سے آپ کا دیوان 1315 ھ میں شائع ہوا تھا ۔ سن شریف اس وقت ساٹھ سے متجاوز ہے ۔ آپ کے کلام میں سوز و گداز کے علاوہ فصاحت اور بلاغت بھی موجود ہے اور اس بات کو بھی دیکھیے کہ آپ کی مادری زبان اردو نہیں ہے ۔ زبان دانی بھی قابلِ ستائش ہے ۔

( خم خانۂ جاوید ، جلد اول ، ص : 376 ، مطبوعہ : مخزن پریس ، دہلی )

آپ نے اکثر شعری اصناف میں طبع آزمائی فرمائی ہے اور اساتذۂ سخن سے داد وتحسین وصول کی ہے ۔ چوں کہ تصوف کے رنگ میں آپ کا پورا وجود رنگا ہوا تھا ، اس لیے صوفیانہ شاعری اور نعت گوئی سے خصوصی دل چسپی تھی ۔ آپ کی نعت گوئی کمیت و کیفیت کے لحاظ سے خاصے کی چیز ہے ، جس میں جذبات کی شدت اور عشق و عقیدت کی حلاوت پائی ہے ۔ حکیم سید احمد اللہ ندوی لکھتے ہیں : حضرت مولانا سید شاہ محمد اکبر ابو العلائی متخلص بہ اکبر علومِ ظاہری میں کامل اور علومِ باطنی میں عارف تھے ۔ آپ کا خاندان صوفی صافی اور آپ کے آبا و اجداد سے بڑے بڑے اولیا گذرے ہیں ………….. اردو شاعری آپ کی مستند اور مطبوعِ خلائق ( لوگوں کی پسندیدہ ) تھی ۔ مختلف اصنافِ سخن مثلاً :قصیدہ ، غزل ، قطعہ اور تاریخ گوئی پر کاوش فرماتے ، مگر نعت شریف میں زیادہ فکر فرماتے تھے اور کیوں نہ ہو کہ آپ کو جب محبوبِ رب العالمین سے وِلا اور عشق تھا تو اس کا تقاضا بھی یہی تھا کہ کلام کے اس مبارک صنف ( نعت ) میں آپ زیادہ توجہ فرمائیں ۔

( تذکرہ مسلم شعرائے بِہار ، جلد اول ؛ ص : 83 )

امام العشاق حضرت شاہ محمد اکبر دانا پوری علیہ الرحمہ کی ذاتِ گرامی عشقِ رسول اللہ علیہ وسلم کی چلتی پھرتی تصویر تھی ، اس لیے ان کی نعت گوئی عشق و عقیدت اور خلوص و وفا کا ایک خوب صورت گنجینہ ہے ۔ نعت گوئی کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ جریدۂ عشق و ادب پر ثبت ہونے کے لائق ہے ۔ آپ کی پوری زندگی عشقِ شہِ بطحا سے عبارت ہے ۔عشقِ خدا و رسول ان کا سرمایۂ حیات اور سرنامۂ زیست ہے ۔ ذکرِ مدینہ اور عشقِ شہنشاہِ مدینہ ان کا وظیفۂ حیات تھا ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں :

سودا ہو جو سر میں تو مدینے کے سفر کا
ہو عشق تو عشقِ شہِ والائے مدینہ

ان کی نعتیہ شاعری کا مبتدا و منتہا یہی جذبۂ عشقِ رسول ہے ، جس کی بھینی بھینی اور سوندھی خوشبوؤں سے ان کا شعری دیوان معطر ہے ۔ جذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز یہ اشعار بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں :

دل عشقِ محمد سے ہے روشن مرا اکبر
پہنچا ہے مجھے فیض اویسِ قرنی کا

ملک نے مجھ سے پوچھا قبر میں تو کس کا عاشق ہے
کہا میں نے محمد کا ، محمد کا ، محمد کا

قبہّ ٔ سبز مدینہ اتر آیا دل میں
کھنچ گیا روضۂ محبوب کا نقشہ دل میں

فاش اگر راز ہو میرا ابھی طوفاں ہو بپا
جوش زن عشقِ محمد کا ہے دریا دل میں

ہر جگہ حسنِ محمد نے کیا مجھ کو نہال
کبھی آنکھوں میں سمایا کبھی آیا دل میں

کعبہ مسجود ہوا جن کے سبب سے اکبر
جلوہ فرما ہے وہی کعبے کا کعبہ دل میں

جاتی ہی نہیں دل سے تمنائے مدینہ
پھرتی ہے مری آنکھوں میں صحرائے مدینہ

ڈاکٹر فرحانہ شاہین آپ کے جذبہ عشقِ رسول اور آپ کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے رقم طراز ہیں :

تجلیاتِ عشق معروف بہ دیوانِ اکبر اور دیوانِ جذباتِ اکبر ، یہ دونوں آپ کی گراں قدر شعری تصانیف ہیں ۔ آپ کے دونوں دیوان نعتیہ کلام سے مزین ہیں ۔ اکبر دانا پوری ایک نعت گو کی حیثیت سے منفرد و ممتاز مقام کے حامل ہیں ۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے والہ و شیدا تھے ۔ آپ کا دل عشقِ رسول کے جذبے سے سرشار تھا اور اس جذبۂ عشقِ محمدی کو آپ نے شعری خلعت سے نوازا ہے ۔

( بہار میں اردو کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ ، ص : 330 )

عشق و عقیدت کے علاوہ فنی نقطۂ نظر سے فصاحت و بلاغت ، سلاست و روانی ، تشبیہ و استعارہ ، رعنائیِ افکار ، شوکتِ الفاظ ، زورِ بیان ، معنیٰ آفرینی ، سادگی و پرکاری ، قرآنی افکار کی ترجمانی اور صفائی و برجستگی ، یہ سارے ادبی و فنی اوصاف آپ کے نعتیہ کلام میں موجود ہیں ۔ ان کی نعتیں محفلِ حال و قال کی زینت اور عشاقِ پیمبر کے لیے روحانی لذت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ نعتیہ ادب کی تاریخ میں ان کے فکر و فن کو وہ مقام نہیں ملا ، جس کے وہ مستحق تھے ۔ محض صوفی شاعر کی حیثیت سے ان کا سرسری تعارف پیش کر کے تذکرہ نگار آگے بڑھ گئے ۔ جب کہ ان کے معاصرین و متاخرین کی نعت گوئی کا بار بار تذکرہ کیا گیا ۔ حالاں کہ وہ جتنے بڑے صوفی شاعر تھے ، اتنے بڑے نعت گو بھی تھے ۔ اردو نعتیہ شاعری کو پروان چڑھانے والے جیالوں میں ایک اہم اور نمایاں نام حضرت شاہ اکبر دانا پوری کا بھی ہے ، جو دبستانِ عظیم آباد کے رکنِ رکین تھے ۔ اردو شاعری کے گلشن میں نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گلہائے رنگا رنگ کھلانے والوں میں ایک نمایاں اور ممتاز نام حضرت شاہ اکبر دانا پوری کا بھی ہے ۔ خواجہ میر درد نے کہا تھا کہ ہم اردو شاعری کے باغ میں تصوف کا پودا لگا رہے ہیں ۔ شاہ اکبر کہتے ہیں کہ زمینِ سخن میں ہم نعت کا باغ لگا رہے ہیں :

لکھتے ہیں شعر وصفِ رسولِ زمن میں ہم
باغ اک لگا رہے ہیں زمینِ سخن میں ہم

مذکورہ بالا ادبی اوصاف سے مزین نعت کے یہ اشعار جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کے آئینہ دار ہیں ، وہیں حسنِ تشبیہ و لطفِ استعارہ کے علاوہ اسلوب کی جدت ، تعبیر کی عمدگی اور رعنائیِ فکر و خیال کا بے مثال نمونہ بھی ہیں ۔

مصحفِ ناطق رخِ پر نور ہے اس ماہ کا
ابروئے سلطانِ دیں طغرا ہے بسم اللہ کا

روضۂ اقدس ہے مرجع ہر گدا و شاہ کا
ہے وسیلہ نامِ حضرت سارے خلق اللہ کا

جب جھکی گردن نظر وہ قبۂ سبز آ گیا
قلب میرا بن گیا گنبد تری درگاہ کا

جو کہ فانی ذاتِ شاہِ لی مع اللہ میں ہوا
مرتبہ حاصل ہوا اس کو فنا فی اللہ کا

میرے اشکوں میں حلاوت آبِ زم زم کیسی ہے
مل گیا آنکھوں سے سوتا اس مبارک چاہ کا

جلوہ فرما روضۂ اقدس میں ہے وہ شمعِ فیض
ہے چراغِ روز جس کے آگے جلوہ ماہ کا

یوسفِ مصری کو کیا نسبت مرے محبوب سے
وہ ہے معشوقِ زلیخا ، یہ حبیب اللہ کا

قامتِ بے سایۂ حضرت کا ہے دل میں خیال
نقش ہے یا اس نگینہ پر الف اللہ کا

تینوں قبریں روضۂ اقدس میں ہیں اس شان سے
” خطِ کوفی ” میں لکھا ہو جیسے نام اللہ کا

غل ہے بازاروں میں پھر اکبر مدینے کو چلے
میرے دل سے کوئی پوچھے لطف اس افواہ کا

( تجلیاتِ عشق معروف بہ بہ دیوانِ اکبر ؛ ص : 9 ، مطبوعہ آگرہ )

حسنِ صورت اور جمالِ سیرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نظیر و ہم سرنہیں ۔ حضرت علامہ احمد قسطلانی علیہ الرحمہ نے مواہب اللدنیہ میں سید الملائکہ حضرت جبریلِ امیں کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ ” قلبت مشارق الارض و مغاربھا فلم ار رجلا افضل من محمد صلی اللہ علیہ وسلم ” . یعنی میں نے روئے زمین کے چپے چپے کو کھنگال کر دیکھا ، لیکن مجھے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل و اعلیٰ کوئی نظر نہیں آیا ۔ اس لیے شاعر دربارِ رسالت حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا :

و احسن منک لم تر قط عینی
و اجمل منک لم تلد النساء

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت و سیرت کا بیان صنفِ نعت کا سب سے نمایاں اور دل چسپ موضوع رہا ہے ، جس پر نعت گو شعرا نے عشق و عقیدت میں ڈوب کر طبع آزمائی کی ہے اور اس حوالے سے ایک سے ایک حسین شعری پیکر تراشے ہیں ۔ حضرت شاہ اکبر دانا پوری نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات ، آپ کی حسین صورت و سیرت اور مبارک سراپا کا نقشہ مختلف انداز سے کھینچا ہے ، جس میں روایتِ سخن کے ساتھ درایتِ فن کی آمیزش قابلِ دید ہے ۔ ایک سچے عاشقِ رسول ، ممتاز نعت گو اور تصوف آشنا مردِ قلندر اپنے مرکزِ عقیدت کے حسن و جمال کی یوں عکاسی کرتے ہیں :

قدِ موزونِ حضرت میں ہے جلوہ کس قیامت کا
فرشتوں کو یہاں دعویٰ نہیں ہے استقامت کا

ہوا ہے شور عالم میں بپا کس کی ملاحت کا
کہ قصہ بے نمک ہے یوسفِ مصری کی صورت کا

تڑپ جاتا ہے دل پہلو میں یاد آتا ہے جب روضہ
مدینے کی جدائی سامنا ہے مجھ کو آفت کا

جدھر آنکھیں اٹھیں پیشِ نظر ہے صورتِ حضرت
تماشہ دیکھتے ہیں ہم اسی کثرت میں وحدت کا

ہر اک کوچہ وہاں کا غیرتِ وادیِّ ایمن ہے
مدینے میں ہے جلوہ ہر طرف شمعِ نبوت کا

خیالِ روئے حضرت میں نہیں کچھ سوجھتا ہم کو
جمالِ پاک نے آئینہ دکھلایا ہے حیرت کا

نہیں کٹتی کسی پہلو شبِ ہجرِ نبی اکبر
دکھایا انتظار اس صبح نے صبحِ قیامت کا

( تجلیاتِ عشق معروف بہ دیوانِ اکبر ، ص : 76 – 77 ، مطبوعہ : شوکت شاہجہانی ، آگرہ )

ذیل کے اشعار میں عقیدہ و عقیدت کا حسنِ امتزاج شاعر کے عالمانہ و عارفانہ فکر و مزاج کو ظاہر کرتا ہے ۔ نظر اور نظریہ کی آمیزش سے ہی فن اور فن کار کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں ۔ وہ شاعری ہی کیا جس میں فکر و نظر اور عقیدہ و نظریہ کی آمیزش نہ ہو ۔ قرآنی صراحت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے عالمین کے لیے رحمت ہیں ۔ آپ کا وجودِ مسعود سراپا رحمت اور آپ کا گیسوئے ناز ہم غلاموں کے لیے سایۂ رحمت ہے ۔ نیز آپ باعثِ کن فکاں اور موجبِ ایجادِ عالم ہیں ۔ حدیث پاک : لولاک لما خلقت الافلاک . کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ کی بدولت ہی دنیائے رنگ و بو کو پیدا فرمایا ۔ چوں کہ آپ وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں ، اس لیے آپ کا وجودِ مسعود جانِ جہاں ہے ۔ ایمان ، توحید و رسالت کا صدق دل سے اقرار کرنے کا نام ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچا عشق اور سچی محبت فرضِ عین ہے اور آپ کی الفت عینِ عبادت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ مظہرِ پروردگار اور آپ کا حسن و جمال ، مظہرِحسنِ ازل ہے ۔ یہ ساری باتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ۔ شاہ اکبر دانا پوری ان مسلمہ شرعی اصول کو شعری قالب میں یوں بیان فرماتے ہیں :

سایۂ رحمت گیسوئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم
جانِ جہاں ہے آپ کی صورت صلی اللہ علیہ وسلم

فرض ہے ہم پر عشق نبی کا ، شغل ہے یہ ہر ایک ولی کا
آپ کی الفت عین عبادت صلی اللہ علیہ وسلم

جلوۂ موسیٰ نام ہے کس کا ، حال ہمیں معلوم ہے اس کا
تھا یہ فروغِ عارضِ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم

حسنِ محمد حسنِ ازل ہے ، آپ کی الفت حسنِ عمل ہے
پڑھ یہ وظیفہ تا ہو زیارت صلی اللہ علیہ وسلم

یہ میرا سر ہے پائے نبی پر ، کہتے ہیں عاشق اس کو قسمت
کیوں نہ کروں میں آپ کی مدحت صلی اللہ علیہ وسلم

عشقِ نبی نے کام کیا ہے ،گرتے ہوئے کو تھام لیا ہے
سیدھی ہے اکبر اب تو یہ قسمت صلی اللہ علیہ وسلم

” حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو ” اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی کی مشہور نعت ہے ۔ شاہ اکبر دانا پوری ، رضا بریلوی کے ہم عصر ہیں اور عمر میں ان سے بارہ سال بڑے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ شاہ اکبر کی مندرجہ ذیل نعت جو اسی بحر اور اسی ردیف و قافیہ میں ہے ، رضا بریلوی کی مذکورہ نعت سے پہلے منظوم ہوئی ہو ۔ حسنِ زبان و بیان ، ندرتِ اسلوب ، رعنائیِ خیال ، وفورِ جذبات اور شدتِ عشق و عقیدت میں ” نعتِ اکبر ” کسی بھی جہت سے ” نعتِ رضا ” سے کم نہیں ہے ۔ اس کے ہر شعر اور ہر مصرعے سے درد ، کسک ، اضطراب ، جذبِ دروں ، جاں سپاری ، اور عشق و عقیدت مترشح ہوتی ہے اور قارئین و سامعین کے دلوں پر خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہے ۔ ایک جاں سوختہ عاشق اور دل تپیدہ محب کی آواز اس کی سطر سطر سے گونجتی ہے اور سامنے والے کو مدینہ منورہ کی سیر کرانے لگتی ہے :

آؤ اے جنتیو ! گنبدِ خضریٰ دیکھو
قبلۂ عرش ہے یہ قصرِ معلی ٰدیکھو

آؤ اے خضر ! مدینے کا تماشہ دیکھو
سبز پردوں کا مری آنکھوں سے جلوہ دیکھو

دیکھو وہ سامنے میزاب کے ہے گنبدِ سبز
اہلِ کعبہ ! ادھر آؤ مرا کعبہ دیکھو

روضہ سے جالیوں تک آؤ شہنشاہِ امم
میں تڑپتا ہوں ذرا میرا تڑپنا دیکھو

روشنی شمعِ سرِ طور کی دیکھی موسیٰ
شمعِ بالینِ پیمبر کا بھی جلوہ دیکھو

کل مدینے سے نکل کر ہے مناخے میں مقام
آج عشاق کا حسرت سے تڑپنا دیکھو

شمعِ محفل کا تم دیکھ چکے جل بجھنا
شمعِ داغِ دلِ عاشق کا بھی جلنا دیکھو

اہلِ تمکین کو بھی اب ضبط کا یارا نہ رہا
تھام کر پردۂ سبز ان کا بِلکنا دیکھو

صف بہ صف با ادب استادہ ہیں سب بہرِ سلام
چشمِ رحمت سے انہیں یا شہِ والا دیکھو

آپ کے ہجر میں باقی نہ رہی طاقتِ ضبط
آؤ اب خاک پر اکبر کا تڑپنا دیکھو

( دیوانِ اکبر ، ردیف واؤ )

اردو و فارسی نعت گوئی میں ” معراجِ مصطفی ٰ” ایک اہم موضوع ہے ، جس پر شعرائے اسلام نے خصوصی روشنی ڈالی ہے اور اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیٰ میں قربت و وجاہت کا ذکر بڑے پرُ شکوہ اور حسین پیرائے میں کیا ہے ۔ حضرت سید شاہ اکبر دانا پوری علیہ الرحمہ چوں کہ اردو نعتیہ شاعری کے بنیادگزاروں میں سے تھے ، اس لیے ان کی شاعری میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نہ ہو ، ایسا ممکن ہی نہیں تھا ۔ آپ نے اس موضوع پر اپنی پاکیزہ فکر و خیال کو شبنمی لہجہ اور والہانہ اسلوب عطا کیا ہے ۔ یہ اشعار دیکھیں :

پہنچا جو سرِ عرش وہ پیارا شبِ معراج
تھا حضرتِ حق محوِ تماشا شبِ معراج

کہتا ہے یہ کون تھے تنہا شبِ معراج
ہمراہ تھی امت کی تمنا شبِ معراج

کچھ فرق نہ تھا طالب و مطلوب میں باقی
تھا ایک ہی سا دونوں کا نقشہ شبِ معراج

موسیٰ کی طرح اہلِ سما غش میں پڑے تھے
وہ عارضِ پُر نور جو چمکا شبِ معراج

مخفی نہ رہا آپ سے سے اک ذرہ بھی اس دن
اللہ نے کیا کیا نہ دکھایا شبِ معراج

ڈوبی ہوئی تھی نورِ محمد میں ہر اک شے
تھا جوش پہ وحدت کا یہ دریا شبِ معراج

علامہ اقبال نے معراجِ مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوعِ انساں کے عروج و ارتقا کی دلیل ٹھہرائی ہے اور گردوں یعنی آسمان کو کاروانِ انسانیت کی گردِ راہ اور عالمِ بشریت کی زد میں رہنے والا بتایا ہے ، جو مبنی برحقیقت ہے ۔ واقعۂ معراج سے عالمِ انسانیت کے عروج و کمال کا حال معلوم ہوتا ہے اور محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی غایت درجہ عظمت و رفعت کا اظہار ہوتا ہے ۔ اقبال کا شعر ہے :

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ٰسے مجھے
کہ عالمِ بشَرِیّت کی زد میں ہے گردُوں

شیخ اکبر دانا پوری نے اسی مفہوم کو دوسرے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ معراج کی شب جب فرشتوں نے شہنشاہِ کائنات جناب محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتمام و کمال عز و شان کے ساتھ دیکھا تو ان پر آدم و آدمیت کا جوہر کھل گیا اور انہیں انسان کے علوئے مقام کا بخوبی اندازہ ہوا ۔

اس روز فرشتوں پہ کھُلے جوہرِ آدم
اس شان سے جب آپ کو دیکھا شبِ معراج

قرآن مقدس کی سورۂ اسرا و سورۂ و النجم میں معراج شریف کا اجمالی تذکرہ موجود ہے ۔ آیت کریمہ ” ما زاغ البصر و ما طغیٰ ” کی ترجمانی موصوف نے بڑے اچھوتے انداز میں کی ہے ، جو ان کی شاعرانہ مہارت کی دلیل اور صنفِ نعت گوئی میں ان کی فنی بصیرت کا ثبوت ہے :

کیا میل تماشے کی طرف کرتیں وہ آنکھیں
منظورِ نظر اور ہی کچھ تھا شبِ معراج

اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اشعار لفظی و معنوی اعتبار سے قابلِ قدر ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ” گلِ نیرنگ ” اور ” دلبرِ یکتا ” کہنا حسنِ تغزل کے ساتھ لطفِ استعارہ کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔

ہر سمت تھا ” انوارِ انا اللہ ” کا جلوہ
” لا غیر ” کا روشن تھا ستارا شبِ معراج

جب اس گلِ نیرنگ کی رنگینیاں دیکھیں
جبریل بنا بلبلِ شیدا شبِ معراج

کونین میں تھا کوئی نظیر اس کا نہ اکبر
بے مثل تھا وہ دلبرِ یکتا شبِ معراج

نعت وہ صنفِ سخن ہے جو کسی بھی ہیئت اور فارم میں کہی جا سکتی ہے ۔ شاہ اکبر دانا پوری کو اردو نظم کی جملہ اصناف میں کمال تھا ۔ انہوں نے سب سے زیادہ صوفیانہ غزلیں لکھی ہیں ۔ لیکن دیگر انواعِ سخن کو بھی اپنے شعری دیوان کا حصہ بنایا ہے ۔ نعت و غزل کے علاوہ قصیدہ گوئی میں بھی انہیں کمال حاصل تھا ۔ ان کے سات آٹھ قصائد میں سے ایک نعتیہ قصیدہ ” مدینہ منورہ ” کی عظمت و فضیلت کے بیان میں ہے اور ایک منقبتی قصیدہ حضرت مخدوم منعم پاک رضی اللہ عنہ کی شان میں نظم کی گئی ہے ۔ نعتیہ قصیدہ ” ابرِ رحمت ” کے عنوان سے معنون ہے ، جس کا مطلع ہے :

فدائے خاکِ مدینہ زہے وہاں کی بَہار
برس رہا ہے شب و روز ابرِ رحمت بار

اس قصیدے کے بارے میں پروفیسرطلحہٰ رضوی برق دانا پوری لکھتے ہیں :

اکبر مخمورِ مئے حبِ نبی ، سرشارِ عشقِ رسول و فدائے اہلِ بیت ہیں ۔ جس حسنِ عقیدت اور گداز قلب سے انہوں نے یہ قصیدہ لکھا ہے ، وہ سراسر آمد کی شان لیے ہے ۔ اس میں نہ آورد کو دخل ہے اور نہ آورد کا تکلف و تصنع ۔ چوں کہ اس میں والہانہ جذباتِ دل کی ترجمانی کی گئی ہے اور ایک مستی و بے خودی کا عالم ہے ، اس لیے قصیدے کے اجزا کی پابندی فنی طور پر نہ ہو سکی ہے ۔ اسے ہم قصیدے کی ساخت و پرداخت کی کمزوری کہہ سکتے ہیں ۔ اس پاک و مقدس سرزمین ( مدینہ منورہ ) کا ذکر کرتے ہوئے حضرتِ اکبر پر وہ وجدان اور ایسی کیفیت طاری ہوئی ہے جس نے اشعار میں دریا کا بہاؤ پیدا کر دیا ہے ۔

( شاہ اکبر دانا پوری : حیات اور شاعری ، ص : 152 – 153 )

مجھے بہشت سے مطلب نہ خلد سے ہے غرض
مرا جگر تو مدینے کے ہجر میں ہے فگار

کہاں کا باغ ، کہاں کا چمن ، کہاں کی سیر
مری نظر میں تو ہر دم مدینہ کی ہے بہار

وہاں کے خار ہیں حوروں کی گردنوں کے ہار
ہیں آٹھوں باغوں میں فردوس کے وہیں کی بَہار

ہماری آنکھوں کی ہے روشنی وہیں کا سواد
ہماری آنکھوں میں پھرتے ہیں اس کے لیل و نہار

ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک وہاں کا نورِ سحر
ہمارا کحلِ جواہر ہے اس زمیں کو غبار

وہیں سے حکمِ قضا و قَدَر نکلتے ہیں
ہے عرش و فرش میں ممتاز ایک یہی سرکار

دیوانِ اکبر ، ص : 244 ، 246 پر دو نعتیں موجود ہیں ، جن کی ردیف ” مدینہ ” ہے ۔ جذب و کیف ، عشق و سرمستی اورقلبی وارفتگی میں ڈوبی ہوئی یہ نعتیں اپنی مثال آپ ہیں ۔ چند منتخب اشعار نذرِ قارئین ہیں :

دل میں ہے کہ مر کر بھی نہ نکلیں گے وہاں سے
اب کے ہمیں تقدیر جو دکھلائے مدینہ

سودا ہو جو سر میں تو مدینے کے سفر کا
ہو عشق تو عشقِ شہِ والائے مدینہ

کعبے کے لیے اور جگہ لاؤں کہاں سے
اس دل میں تو بستی ہے تمنائے مدینہ

کعبے سے مرا خانۂ دل کم نہیں اکبر
روشن ہے یہاں شمعِ تجلائے مدینہ

ہو مدفن بقیعِ منور میں میرا
مری خاک ہو اور جوارِ مدینہ

ضرورت ہے سرمے کی آنکھوں کو میری
صبا مجھ کو لا دے غبارِ مدینہ

شرف کعبے پر ہے مرے دل کو اکبر
یہ ہے مسکنِ شہرِ یارِ مدینہ

مواد و ہیئت اور زبان و بیان کے لحاظ سے شاہ اکبر دانا پوری کی نعت گوئی اپنے اندر بڑی کشش رکھتی ہے ۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے با وجود ابھی تک ان کا رنگِ سخن پھیکا نہیں ہوا ہے ۔ عشق و عقیدت کی جلوہ ریزی ، زبان کی چاشنی ، بیان کی طرفگی اور اسلوب کا بانکپن آج بھی قارئین کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا ۔ شاہ اکبر ایک با شعور فن کار اور قادر الکلام شاعر تھے ۔ انہیں اپنے شاعرانہ مرتبے کا علم و احساس تھا ، یہی وجہ ہے کہ تحدیث نعمت کے طور پر وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے :

کوئی شاگرد ہوا استاد کا ہے آئینہ اکبر !!
سلاست تیرے شعروں میں وحیدِ خوش نوا کی ہے

ہے فیض ابرِ رحمتِ ربِ رحیم کا
سرسبز باغ ہے مری طبعِ سلیم کا

فنِ شعر و سخن کے مبتدی کیا اس کو سمجھیں گے
مرا ہر شعر دیباچہ ہے سعدی کے گلستاں کا

موصوف نے اپنی زبان دانی ، سلاست گوئی اور شعری برجستگی کی مختلف مقامات پرتعریف کی ہے ، جو حقیقت کے عین مطابق ہے ۔ یہ ادبی وصف ان کی شاعری کی اکثر اصناف میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کچھ یہی حال ان کی نعت گوئی کا بھی ہے ۔ ان کی نعتوں میں حزم و احتیاط اور شرعی تقاضوں کا بہر گام خیال رکھا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں سلاستِ زبان اور روانیِ بیان ان کی اکثر نعتوں میں موجود ہے ۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

مقدس ہو گئی دنیا ، ہوا غل شہ کی آمد کا
بتوں نے سر جھکا کر پڑھ لیا کلمہ محمد کا

زباں وہ پاک ہے جس نے پڑھا کلمہ محمد کا
وہ دل روشن ہے جس میں جلوہ ہو انوارِ احمد کا

ملک نے مجھ سے پوچھا قبر میں تو کس کا عاشق ہے
کہا میں نے محمد کا ، محمد کا ، محمد کا

کرے چاروں طرف سے کیوں نہ اس کو آسماں سجدے
زمیں کو فخر حاصل ہے رسول اللہ کے مرقد کا

فنا فی اللہ ” علمِ فقر ” کی ہے انتہا اکبر
فنائے ذاتِ مرشد نام ہے اس فن کی ابجد کا

( روحانی گلدستہ ، ص : 11 )

سلاست و روانی کے علاوہ صفائی و برجستگی اور شدتِ جذبات و احساسات کے حامل یہ اشعار بھی ان کے قادر الکلام نعت گو ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں :

وقفِ درِ محبوب ہوئی اپنی جبیں آج
ہم سر نہیں میرا کوئی بالائے زمیں آج

لکھنی ہے مجھے منقبتِ سرورِ دیں آج
ہے عرشِ معلیٰ مرے شعروں کی زمیں آج

کس کے گلِ عارض کی صفت نظم ہوئی ہے
پھولوں سے بسی ہے مرے شعروں کی زمیں آج

سورج میں گہن ہے تو کلف ماہِ مبیں میں
بے عیب نہیں تجھ سا زمانے میں کہیں آج

ہے عرش پہ اکبر غلبہ فرشِ زمیں کو
اس دہر میں آئے قدمِ سرورِ دیں آج

( ایضاً ، ص : 117 )

شہنشاہِ کونین ، سلطانِ دارین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ ذی وقار میں استغاثہ و فریاد ، عرضِ مدعا اور حاجت طلبی عربی ، فارسی و اردو نعتیہ شاعری کی قدیم روایت رہی ہے ۔ اس کے ذریعے نعت گو اپنے ممدوح کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے ساتھ اپنا قصۂ غم سناتا ہے ، ازالۂ مصائب کی درخواست کرتا ہے اور دین و دنیا میں سرخرو ہونے کی فریاد کرتا ہے ۔ جناب شاہ اکبر دانا پوری کی نعت گوئی کا بیشتر حصہ جذبوں کی صداقت ، حدتِ احساس ، عجز و نیاز اور خلوص و تواضع کے علاوہ استغاثہ و استمداد اور منت و فریاد پر مشتمل ہے :

لکھوں اب میں نعتِ رسولِ معظم
شفیعٌ ، مطاعٌ ، نبیٌ ، مکرّم
سرِ بادشاہانِ دیں ، فخرِ آدم
حبیبی سلامٌ علیک و سلم
مریضانِ عصیاں کی تدبیر کیجے
مرے ڈوبتے بیڑے کو تھام لیجے

نثار آپ کے قدموں پر سر ہمارے
فدا آپ پر باپ ، ماں ، گھر ہمارے
چمک جائیں ایسے مقدر ہمارے
بنیں حشر میں آپ رہبر ہمارے
خدا کے حبیب اور بندوں کے والی
صدا ہم فقیروں کی جائے نہ خالی

حقیقت میں ہیں آپ سب سے مقدم
ہوئی آپ کی ذات سے بودِ آدم
کھلا جب نشانِ نبوت کا پرچم
کیا آپ کو حق نے سالارِ عالم
حدوث آپ کا ہے ، قدِم آپ کا ہے
وجود آپ کا ہے ، عدم آپ کا ہے

حضرت شاہ اکبر دانا پوری کی نعت گوئی جہاں ندرتِ افکار ، علوئے معانی ، مضمون آفرینی و پیکر تراشی اور جدتِ اسلوب سے مزین ہے ، وہیں سادگی و صفائی ، متانت و سنجیدگی اور سہل ممتنع سے بھی مرصع ہے ۔ مثلاً :
مدینے کی عجب روشن زمیں ہے
رسول اللہ کا جلوہ یہیں ہے

قیامت کا ہمیں کھٹکا نہیں ہے
رسول اپنا شفیع المذنبیں ہے

رسول اللہ کی صورت پہ قرباں
یہی نقشہ تو نقشِ اولیں ہے

لکھا ہے ہم نے حضرت کو عریضہ
ہمارا نامہ بر روح الامیں ہے

مدینہ کیوں خدا کو ہو نہ محبوب
کہ یہ محبوب کی پیاری زمیں ہے

چراغِ دین و دنیا ہے محمد
فروغِ عرشِ اعلیٰ ہے محمد

میں ہوں وہ قطرۂ بے مثل و نایاب
کہ جس قطرے کا دریا ہے محمد

نہ مثل اس کا ، نہ اس کا کوئی مانند
خدا ہے ایک ، یکتا ہے محمد

پھرے نظروں میں اپنی کیوں نہ وہ ماہ
مری آنکھوں کا تارا ہے محمد

طواف اپنا کروں میں کیوں نہ اکبر
مجھی میں جلوہ فرما ہیں محمد

( روحانی گلدستہ ، ص : 12 )

خلاصۂ کلام حضرت شاہ اکبر نے جس انداز سے عروسِ نعت کی مشاطگی کی ہے اور جس فنی مہارت کے ساتھ گیسوئے سخن کو سنوارا ہے ، وہ اردو شاعری کے لیے خاصے کی چیز ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ناقدینِ ادب ان کے فکر و فن کا منصفانہ تنقیدی جائزہ لیں. ان کی ادبی و فنی قدر و قیمت متعین کریں ۔ نعتیہ ادب کےمحققین کو چاہیے کہ ” دیوانِ اکبر ” اور ” جذباتِ اکبر ” میں موجود نعتیہ کلام کو سامنے رکھ کر نعت گوئی کے فروغ و استحکام میں ان کی گراں قدر خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کریں ۔ مندرجہ ذیل نعتیہ اشعار کے ذکر کے ساتھ راقم الحروف اپنا مضمون ختم کرتا ہے ۔ محب گرامی جناب سید شاہ محمد ریان ابو العلائی دام ظلہ کا شکر گذار ہوں کہ ان کے حکم و ایما اور تحریک و تشویق پر زیر نظر مضمون لکھنے کی توفیق ارزاں ہوئی ۔

کرے تعریف کوئی کیا جمالِ پاکِ حضرت کی
” کلام اللہ ” ہے تفسیر اسی پر نور صورت کی

الہٰی ہو جلد حشر برپا بلائے فرقت ٹلے بھی سر سے
ابھی سے بے چین ہیں نگاہیں کسی کا دیدارِ عام ہوگا

حسن اپنا جو دکھانا اسے منظور ہوا
پردۂ صورتِ انساں میں وہ مستور ہوا

جلوۂ حسنِ محمد نظر آیا کل میں
جس طرف آنکھ اٹھائی وہی منظور ہوا

شمعِ انوارِ محمد سے ہے روشن عالم
جلوہ فرمائے سرِ طور یہی نور ہوا

اللہ اور اس کے حبیب ایک ہی تو ہیں
مطلب کھلا ہوا ہے ” اطیعوا الرسول ” کا

قرآن بھی زبانِ نبی ہے حدیث بھی
جو حکم ہے خدا کا وہی ہے رسول کا

ہند کو چھوڑو بھی اکبر اب اٹھاؤ بسترا
چومو چل کر آستانِ احمدِ مختار کو

Email : tufailmisbahi@gmail.com

طفیل مصباحی کی گذشتہ نگارش : قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے