چشم کو سونپی گئی خدمتِ خواب

چشم کو سونپی گئی خدمتِ خواب


خالد مبشر

چشم کو سونپی گئی خدمتِ خواب
دل پہ طاری ہے عجب حالتِ خواب

خواب اب کے نہ حقیقت ہو جائے
اب کے ایسی ہے مری شدتِ خواب

میں نے دیکھی ہیں تری بھی آنکھیں
صرف مجھ پر نہ لگا تہمتِ خواب

تجھ کو مژدہ ہو مری آنکھ کہ اب
مجھ میں باقی نہ رہی ہمتِ خواب

خواب مخفی ہی رہے سب سے یہاں
کون کرتا ہے بھلا عزتِ خواب

میری آنکھوں میں گہر ہیں کتنے
مجھ کو حاصل ہے بہت دولتِ خواب

تم کہ جلوت سے گریزاں ہو بہت
اب تو آجاؤ کہ ہے خلوتِ خواب

اس کے پہرے ہیں مری آنکھوں پر
اس کو معلوم ہے کیا قوتِ خواب

کتنا بے خواب کیا ہے تو نے
چھوڑ پیچھا مرا اے آفتِ خواب

بس کلیجہ ہی چبا جاتی ہے
کتنی خونخوار ہے یہ وحشتِ خواب

کائنات اور حیات اے خالد
خواب میں جیسے کوئی ساعتِ خواب

 

شاعر کا مختصر تعارف :

اصل نام: مبشر حسین

قلمی نام : خالد مبشر 

والد کا نام : غلام محمد یحییٰ 

تاریخ پیدائش : 21 مئ 1980 

جائے پیدائش : بیگنا کشن گنج، بہار ، ہند 

ابتدائی تعلیم : اپنے والد سے لی 

ثانوی تعلیم: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 

اعلا تعلیم : جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی 

( بی اے، ایم، ایم فل، پی ایچ ڈی) 

شرف تلمذ:  ( شعر و ادب) اپنے والد اور شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ کرام سے 

منصب : درس و تدریس بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئ دہلی 

تصانیف : (1) طنزومزاح اور مولانا ابوالکلام آزاد ( تحقیق و تنقید) (2) مقدماتی ادب ( تحقیق و تنقید) 

رابطہ نمبر : 8178082405 

برقی پتہ : mhkhalid2002@gmail.com

 مزید تین غزلیں 

غزل_ ١


جو عہدِ نو میں خمیرِ بشر بنایا جائے
سناں کو ہاتھ تو نیزے کو سر بنایا جائے

شبِ حیات کو ایسے سحر بنایا جائے
اک آفتاب سرِ چشمِ تر بنایا جائے

مرے حواس کو یہ کون حکم دیتا ہے
کہ اس کو مرکزِ قلب و نظر بنایا جائے

میں اپنے پیکرِ خاکی سے مطمئن ہی نہیں
مرے خدا مجھے بارِ دگر بنایا جائے

درونِ ذات کسی کا یہ جبر ہے مجھ پر
اسی کو جان ، اسی کو جگر بنایا جائے

سکون وراحتِ جاں اب کہیں نہیں ممکن
تمہارے دل کو ہی اب مستقر بنایا جائے

جو ہم نفس بھی ہو،ہم راز بھی ہو،ہم دم بھی
اسی کو کیوں نہ بھلا ہم سفر بنایا جائے

بہت ہی تنگ ہیں یہ لامکاں کے گلیارے
سو دشتِ ذات کو ہی رہ گذر بنایا جائے

اگر بنانا ہی لازم ہے کچھ تو اے خالد
خود اپنی خاک کو اب کے گہر بنایا جائے

غزل_٢


رات ہے، دشت ہے، مہتاب اکیلا ہوگا
اور ایسے میں کوئی خواب اکیلا ہوگا

ہے اگر حسنِ جہاں تاب یگانہ بھی تو کیا
عشق بھی ایسا گہر ناب اکیلا ہوگا

تو اُدھر بزم میں ہوگا کہیں شاداں، فرحاں
اور اِدھر تیرا یہ بیتاب اکیلا ہوگا

کوہ وصحرا کے یہ قصے تو ہزاروں ہوں گے
میری وحشت کا مگر باب اکیلا ہوگا

میں کہ تنہائی کا مارا سرِ دریا خالد
میرا ہم سر بھی تہہِ آب اکیلا ہوگا

غزل_٣

سر بہ نیزہ پکارتا ہے عشق
میرے اندر وہ کربلا ہے عشق

کیسی وحشت ہے ، بے قراری ہے
کس قیامت سے ہو گیا ہے عشق

ختم ہوگا نہ ختم کر نے سے
وہ جبلت ہے ، خلقیہ ہے عشق

شوق ہے ، آرزو ہے ، طوفاں ہے
یعنی سرتاپا جامعہ ہے عشق

کتنا مرمر کے جی رہا ہوں میں
کتنا جانکاہ سانحہ ہے عشق

کوہِ آتش فشاں ہوں میں خالد
مجھ میں اب اس طرح بپاہے عشق

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے