قطعاتِ تشنہ

قطعاتِ تشنہ

مسعود بیگ تشنہ 

گندی سوچ

سوچ ہے گندی جیبھ کٹیلی
دِل زہریلا آنکھیں پیلی
سب سے اُلفت ہم سے نفرت
دیکھ رہی ہے چھتری نیلی

حق کی دیوار 

حق کی دیوار ہوں اچّھے سے مُجھے پڑھ لینا
پھِر ضروری ہو تو کُچھ جھوٹ نئے گڑھ لینا
پھِر نئی تہمتیں دیوار پہ چسپاں کرنا
پھِر نئی بھیڑ کھڑی کرکے کہیں بڑھ لینا

زمیں غائب 

ہے شہ حاکم کی منصف کی خموشی اور ڈر اب تک
وطن سے بے وطن ٹھہرے نہیں ہے کوئی گھر اب تک
زمیں غائب ندارد چھت سبھی کُچھ بے سروساماں
جھلستے گھر کٹی لاشیں وہی حیراں نظر اب تک 

حیات ابدی 

اہلِ باطل ہوں یا کہ اہلِ یزید
جیت کر جنگ ہار جاتے ہیں
حق کی خوشنودی و رضا والے
جان دے کر حیات پاتے ہیں

بُلیٹ ٹرین
سوادِ شب میں سحر کا دھوکا
حسین منظر ، نظر کا دھوکا
ڈی ریل ہوتی ہماری گاڑی
بُلیٹ ٹرین کے سفر کا دھوکا

 

 ہتھیار
کردے نہ برباد کہیں یہ ہتھیاروں کی دوڑ
جانے کس رُخ لے جائے گی سرکاروں کی دوڑ
پھِر شاید آباد نہ ہوگی انسانوں کی بستی
ٹکر دے کر ختم کرے گی رفتاروں کی دوڑ

اپنے من کی 

مرنے سے پہلے ہی کرلو اپنے من کی بابا

ورنہ مرنے پر ہووےگا مرنے کا پچھتاوا
اپنوں کے سب رشتے جی لو ، بولو ، ہنس لو ،رولو
دُنیا کے پیچھے نہ بھاگو ، خود کو جانو سارا

 نئی روشنی 
ہے نظر کے سامنے اب نئی صبح کا سویرا 
کوئی بد نظر نہ ڈالے برے وقت کا اندھیرا 
چلو مل کے بانٹتے ہیں نئی روشنی کو "تشنہ” 
یہ اجالا ہے سبھی کا نہیں ہے یہ تیرا میرا 

فکر و وجدان 
فکر کا عنصر جب بھی غالب ہوتا ہے 
وجدان بھی اپنی فکر کا طالب ہوتا ہے 
شاعر کی بھی روح مچلتی ہے "تشنہ” 
جذبہ بھی اک جان دو قالب ہوتا ہے 

 اوچھے لوگ 
جس کی جیسی سوچ ہے ویسا اس کا کام
جس کا جیسا ظرف ہے ویسا اس کا نام
اونچا آسن چڑھ گئے "تشنہ” اوچھے لوگ
باطن جگ ظاہر ہوا چہرہ طشت از بام

 استاد 
 استاد بلند کرتا ہے شاگرد کے آفاق
شاگرد کرے یاد جو استاد کے اسباق
گم گشتہ خزانوں سے اُٹھاتے ہیں وہی فیض
روحانی تعلق کے پلٹتے ہیں جو اوراق

 وہ 
وہ دُھول آنکھوں میں جھونکے، وہ جھوٹ سچ بولے
مگر اُسی کی چلے، راج اُس کا ہی بولے
سُدھار کی کرے باتیں، مگر بگاڑ کرے
نفیس باتوں کے پردے میں زہر وہ گھولے

 یہ تام جھام 
یہ تام جھام یہ جلوے تمہیں مبارک ہوں
ہمیں تو صبحِ بنارس کا انتظار ہے بس
ہم اپنے ملک کو مٹتا ہوا نہ دیکھیں گے
وطن کی خاک پہ تشنہ یہ جاں نثار ہے بس

 دوستانہ 
سرحدیں بناؤ پر دوستانہ بھی رکّھو
نت نئے بہانوں سے آنا جانا بھی رکّھو
سرحدوں پہ اُڑتے ہیں طائران آزادی
اُن کی میزبانی کو آب و دانہ بھی رکّھو

غریب کی تعلیم 

(عالمی یوم شاعری کے موقع پر) 
آئی وبا ایسی کہ بچپن چھین لیا
گھر اسکول کا پیارا بندھن چھین لیا
جن کو تھی غربت میں پڑھائی کی عادت
ان سب کی تعلیم کا سادھن چھین لیا

مسعود بیگ تشنہ کی گذشتہ نگارش : گُلوں پر سخت پہرے ہو گئے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے