پیپرویٹ  کا افسانہ نگار : احسان قاسمی

پیپرویٹ کا افسانہ نگار : احسان قاسمی



 رفیع حیدر انجم

اردو افسانوں کے مشہور ناقد وارث علوی نے لکھا ہے کہ ” اچھے فنکار یا فن پارے پر لکھنا مشکل کام ہے کیوں کہ شعر و افسانے کا حسن اور معنویت فن کے ہزار پردوں میں پنہاں ہوتی ہے اور صاحبِ نظر نقاد کی ہنر شناس نظریں ہی ان تک پہنچ سکتی ہیں ۔ "
( مژگاں ، نئ نسل نیا ادب نمبر ۔ صفحہ ۱۴۱۱ )
اس اقتباس کے حوالہ سے میں یہ اعتراف کر نا چاہتا ہوں کہ میرے اندر ناقدانہ صلاحیت بالکل نہیں ہے ۔ میں نے خود کو ادب کا ایک ادنیٰ سا قاری ہی تصور کیا ہے اور اسی حیثیت سے میں احسان قاسمی کے افسانوں پر اپنے تاثرات رقم کر رہا ہوں ۔
فنِ افسانہ نگاری میں صوبہء بہار سے بڑے قد آور افسانہ نگار ہوئے ہیں جنہوں نے ہر دور میں اعلیٰ افسانوی ادب کی نمائندگی کی ہے ۔ اردو افسانے کی ابتداء و ارتقاء سے لے کر ترقی پسند تحریک ، جدید یت اور مابعد جدیدیت تک ان افسانہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے ۔
ترقی پسند تحریک کے زوال پذیر ہونے اور جدیدیت کے شور شرابے کے بعد ۱۹۸۰ کی دہائی میں جن افسانہ نگاروں نے منصوبہ بند خارجیت اور شدید داخلی حسّیات سے انحراف کرتے ہوئے افسانہ کے بنیادی تقاضوں کو بحال رکھنے کا کام کیا ان میں احسان قاسمی بھی شامل ہیں ۔ ان کا پہلا مطبوعہ افسانہ ‘ پہلا پتھر ‘ ہے جو۱۹۷۶ء میں ماہنامہ ” روبی ” نئ دہلی میں شائع ہوا تھا ۔یہ افسانہ ایمرجنسی کے دور کی یاد دلاتا ہے ۔ افسانے کا مرکزی کردار سپاہی رام دین ہے جس کی وجیہہ و ممتنوع شخصیت سے اَفسانہ نگار بے حد متاثر ہے اور عمر کی تفاوت کے باوجود وہ اسے اپنا دوست سمجھتا ہے ۔ ایک ایسا دوست جو اس کے کچے ذہن کا آئیڈیل بھی ہے ۔ مگر ایک عرصہ گزر جانے کے بعد سپاہی رام دین کی رنگا رنگ شخصیت حالات کی چکی میں پس جاتی ہے ۔ پسپائی کا یہ منظر دیکھ کر افسانہ نگار کے ذہن و دل پر قابض رام دین کی شخصیت زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے ۔ ملک کے حالات بدلتے ہیں اور سیاسی نظام کے جبر کے خلاف طالب علم احتجاجی کارروائی میں ملوث نظر آتے ہیں ۔ ان حالات میں نادانستہ طور پر سپاہی رام دین اس کے ہاتھوں پھینکے گئے پتھر سے شدید طور پر زخمی ہو کر دم توڑ دیتا ہے ۔ یہ افسانہ ماضی کی خوشگوار یادوں کا حال کے سخت اور کھردرے پتھر سے لہو لہان ہو جانے کا افسوسناک بیانیہ ہے ۔
احسان قاسمی کے ابتدائی دور کے افسانے خوش گوار رومانی آنچ سے شروع ہوتے ہیں مگر اختتام تک آتے آتے یہ افسانے سماجی و معاشرتی مسائل کی شعلہ سامانی کا سبب بن جاتے ہیں ۔ افسانہ ‘ ڈاک بنگلہ ‘ ‘ کمپارٹمنٹ میں تیرتی خوشبو ‘ ‘ وائلن کے تار ‘ اور ‘ زرد پتے ‘ ایسے ہی افسانے ہیں ۔ عالمِ جوانی میں یہ دنیا بڑی حسین و جمیل اور پرکشش نظر آتی ہے مگر شعور کی بالیدگی کے ساتھ زندگی کا نظریہ بدلتا ہے ۔ زندگی کی تلخ اور کریہہ سچائیاں جمالیاتی حس پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہیں ۔ گردشِ حالات میں الجھ کر حسن و جوانی اپنی معنویت کھو دیتی ہے اور ضروریات ِ زندگی کا حصول ہی مقصدِ حیات بن کر رہ جاتا ہے ۔ افسانہ ‘ ڈاک بنگلہ ‘ زندگی کی انہیں صداقتوں کے حصار میں گھِرا ایک پر تاثیر افسانہ ہے ۔
‘ کمپارٹمنٹ میں تیرتی خوشبو ‘ سعیء لاحاصل کا دل چسپ بیانیہ ہے ۔ جب ہم ایک خود ساختہ نخلستان کے تصور میں گم ہوتے ہیں تو سب کچھ رنگین اور خوش گوار محسوس ہوتا ہے مگر کیف و انبساط کا یہ لمحہ اس وقت ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتا ہے جب صحرا کا سچ ہمارے سامنے آ دھمکتا ہے ۔ پہلی بار رومال میں بسی ہوئی خوشبو کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ راز افشاء نہ ہو جائے مگر دوسری بار اسی خوشبو کو آزاد فضا میں تیرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ ماحول کی ناخوش گوار بو کو کسی حد تک کم کیا جا سکے ۔ افسانہ نگار نے انسانی نفسیات کے اس پہلو کو خوب صورتی سے قلم بند کیا ہے ۔
‘ زرد پتّے ‘ احسان قاسمی کا پہلا افسانہ ہے ۔ اس کا سنہ تخلیق ۱۹۷۶ء ہے. اس افسانہ کے قرات سے احساس ہونے لگتا ہے کہ افسانہ نگار نے جدیدیت کے اثر کو قبول کرنا شروع کر دیا تھا ۔ ہر چند کہ دیگر متذکرہ افسانوں میں راست بیانیہ انداز ہے ۔ ہر تخلیقی ادب اپنے زمانے کا آئینہ دار ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طور پر تخلیق کار کی ذاتی سوچ بھی اس میں شامل ہوتی ہے ۔ ذات کا کرب جب گہرا ہو جائے تو اس کی جھلک فن پارے میں نظر آنے لگتی ہے ۔ اس افسانے میں داخلی احساسات کا تناسب فزوں تر ہے ۔ اس افسانہ میں ایک بے روزگار اور بے یار و مددگار نوجوان کے حوصلہ شکن حالات کو کریدنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ پیپل کا اجاڑ درخت اور اونچی ٹہنی پر اونگھتے ہوئے گدھ کے استعارے سے اس نوجوان کی دنیا بےزاری اور موت کی پناہ میں آجانے کا بیانیہ خلق کیا گیا ہے ۔

احسان قاسمی نے جب لکھنا شروع کیا تو اس وقت اردو افسانہ جدیدیت کے طلسم سے پوری طرح آزاد نہیں ہوا تھا ۔ نئ نسل کے سامنے ترقی پسندوں کی کھردری خارجیت اور جدیدیوں کی شدید داخلیت ، دونوں طرح کے فن پارے موجود تھے ۔ نئ نسل کا جدید رجحان کی طرف مائل ہونا فطری بات تھی کہ علم و آگہی اور فہم و ادراک نے انسانی ذہن کو بے حد حساس اور باریک بین بنا دیا تھا ۔ شوکت حیات کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے وصیہ عرفانہ نے لکھا ہے کہ ” معاشرتی مسابقت ، افراطِ زر ، سیاسی ہتھکنڈوں ، مذہبی و تہذیبی رشتوں ، قومی و بین الاقوامی تبدیلیوں نے انسان اور انسانی رشتوں کو بیش از بیش متاثر کیا ہے ۔ ایک مکمل مشینی نظام ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کو ظاہری و باطنی طور پر ہر لحظہ متاثر کر رہا ہے ۔ آج مسائل کی نوعیت پہلے سے زیادہ گنجلک ہو چکی ہے ۔ ایسی صورت حال میں آج کا قاری نہ تو سیدھی سادی حقیقت بیانی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اور نہ ہی پر پیچ علائم وابہام سے کیف کشید کر سکتا ہے ۔”
( سہ ماہی ‘ آمد ‘ ۲۰۱۱ صفحہ ۱۰۶ )
شوکت حیات کی بعد کے نسل سے تعلق رکھنے والے احسان قاسمی کے بیشتر افسانے جدیدیت کے عکاس و غماز ہیں ۔ لیکن یہ افسانے تجریدیت کے شکار نہیں ہیں ۔ انہوں نے علامتوں ، استعاروں اور تشبیہوں کو فطری انداز میں برتا ہے اور کہیں سے بھی شعوری کوشش کی کارفرمائی کا احساس نہیں ہوتا ہے ۔ اس زمرے میں ان کے افسانوں ‘ کفن لے لو کفن ‘ ‘ سرنگ زدہ ‘ ‘ ڈائگنوسس ‘ اور ‘ ایک گناہ اور ‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ ‘ کفن لے لو کفن ‘ کا موضوع کنزیومر کلچر کی المناکی ہے ۔ عصر حاضر میں صارفی تہذیب نے ہر شخص کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ۔ انتہا یہ ہے کہ نچلے متوسط طبقے کے فرد کو کفن تک خریدنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔ دوسری طرف معاشرتی نظام کی ڈھٹائی اور بے شرمی اس قدر بڑھ گئ ہے کہ دیگر اشیاء کی طرح کفن بیچنے والے گلیوں میں گھوم رہے ہیں ۔ موت ایک آفاقی سچ ہے لیکن طبعی موت سے قبل زندگی محرومیوں اور ناآسودگیوں کا مرقع بن کر رہ جائے تو ہر لمحہ اپنے وجود کے موہوم ہونے کا گماں ہونے لگتا ہے ۔۔۔۔ ‘ ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے’ 
افسانہ ‘ سرنگ زدہ ‘ کا ہیّت اور اسلوب بھی جدید لب و لہجہ سے مزین ہے ۔ افسانے کا عنوان ہی چونکانے والا ہے ۔ کسی فرد کا مصیبت زدہ یا آسیب زدہ ہوجانا دیکھا اور سنا ہے ۔ لیکن سرنگ زدہ ہو جانا تشویش اور تشکیک کا باعث ہے ۔ سرنگ کا تصور کریں تو ذہن میں کئ باتیں آتی ہیں ۔ عام طور سے سرنگ تنگ و تاریک ہوتا ہے ۔ سرنگ وہ خفیہ راستہ ہے جس کی تعمیر کے پسِ پردہ مختلف وجوہات رہی ہیں ۔ اسے فرار کا راستہ بھی سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن اس افسانے کا واحد متکلم سرنگ زدہ ہے ۔ اسے اپنی ذات سرنگ کی طرح لگتی ہے یا سرنگ کی ہیّت اس کی ذات کا حصہ بن چکی ہے ۔
” نادان لڑکے ! جس دن واپسی ہوگی تلووں کے نیچے کلبلانے والی سرنگوں کی سرسراہٹ سن کر تیری اس ہنسی کا فیوز اُڑ جائے گا ۔ اس دن پری کے رنگین پر جو موم کے ذریعہ خوب صورتی سے چپکائے گئے ہیں ، لامحدود خلاؤں میں منتشر ہوجائیں گے اور مُردہ اسکائی لیب کی مانند پرزہ پرزہ یہاں وہاں ۔۔۔۔ ” ( سرنگ زدہ )
سرنگوں کا کلبلانا اور سرسراہٹ کی آواز کا سننا یہاں قابلِ غور ہے ۔ مجھے لگتا ہے اس افسانے کا مرکزی کردار اصل میں سرنگ زدہ نہیں ، سرنگ گزیدہ ہے ۔ سرنگ کا خوف اس پر مسلط ہے ۔ یہ ایک ایسے سرنگ کا اسیر ہے جس کے دہانے بند ہیں اور فرار کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے اور یہ تمام کیفیات عالمِ بیداری کی ہیں ۔ اس کی بیوی گہری نیند میں ہے اور بچہ حسین پریوں کے خواب میں محو ہے ۔ وہ اپنی بیوی اور بچے کے خواب میں مخل ہونا نہیں چاہتا کہ ایک بیدار ذہن کے کرب سے وہ آشنا ہے ۔ دروازے پر ہونے والا دستخط فرد کا واہمہ بھی ہو سکتا ہے یا کسی انہونی کا پیش خیمہ بھی مگر یہ ہنوز وضاحت طلب رہ جاتا ہے ۔ افسانے کی قرات سے جو بات کشید ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ تمام طرح کے اندیشے ، اضطراب ، گھٹن اور بے یقینی خواہ وہ معاشرے کا زائیدہ ہو یا ذات کا پروردہ ، ادراک و آگہی کی دین ہے اور یہ آگہی ایک عمر کے تجربے کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔

‘ کفن لے لو کفن ‘ اور ‘ سرنگ زدہ ‘ استعاراتی افسانے ہیں جب کہ ‘ ڈائگنوسس ‘ خالص علامتی افسانہ ہے ۔ اشیاء کی آسمان چھوتی ہوئی قیمت اور اس میں روز بروز اضافہ متوسط طبقے کے ایک ایمان دار اور اصول پرست آدمی کے لئے اس آسمانی آفت سے کم نہیں جو سیلاب کی صورت وقتاً فوقتاً نازل ہو جاتا ہے ۔ سیلاب کی تباہی و بربادی تو ایک مقررہ وقت کے لئے ہوتی ہے مگر اشیاء کی گرانی سے ہم تا حیات ایک کرب ناک صورت حال کو جھیلنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں کیوں کہ مہنگائی کا گراف کبھی نیچے نہیں اترتا ۔ یہ ارضِ بشر ایک امتحان گاہ ہے ۔ یہاں صراطِ مستقیم پر چلنے والا امتحان میں اوّل نمبر پر نہیں رہ سکتا ۔ بغیر بے راہ روی کے دنیاوی حصول نا ممکن ہے ۔ ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرض کی تشخیص اور اس کا تدارک اگر بدعنوانی کی طرف راغب کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ فرد یا ہمارا سیاسی و سماجی نظام ؟ افسانہ نگار تو صورت حال کو من و عن سماج کے سامنے رکھ دینے بھر کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔
۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ء کے درمیان کا عرصہ اردو کے مختصر افسانوں میں افراط و تفریط کا دور رہا ہے ۔ تخریب و تعمیر کے عمل میں کچھ افسانہ نگاروں نے تجربے اور ہیئت شکنی کے نام پر ایسے افسانے خلق کئے جس نے تجرید کی شکل اختیار کر لی ۔ ان افسانہ نگاروں کے حوصلے اس لئے بھی بڑھے ہوئے تھے کہ رسالہ ‘ شب خون ‘ اس طرح کے افسانوں کو پروموٹ کرنے میں لگا ہوا تھا ۔ یہ تجریدی افسانے سیدھی سادی حقیقت نگاری اور سپاٹ بیانیہ کے شدید انحرافی رویے کے طور پر لکھے گئے تھے ۔ اس دور کے بیشتر افسانہ نگاروں کے یہاں ایسے افسانے مل جاتے ہیں جن میں موضوعاتی ، ہیئتی ، اسلوبیاتی اور تکنیکی سطح پر تجربے کئے گئے تھے ۔ احسان قاسمی کا افسانہ ‘ ایک گناہ اور ‘ اسی قبیل کا افسانہ ہے ۔ اس افسانہ کا موضوع کنایوں اور اشاروں کے جنگل میں کھویا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے افسانے کا واحد متکلم کسی گناہ کی پاداش میں تاریکی کا اسیر ہو چکا ہے اور اب وہ عظیم روشنی کا جویا ہے تاکہ اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر سکے ۔ مگر جب اس کا سامنا روشنی کے جھماکے سے ہوتا ہے تو اسے برداشت کرنے سے قاصر رہتا ہے ۔ افسانے میں دو انسانی کردار ہیں ۔ بین السطور سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک نسوانی کردار ہے ۔ تو کیا دونوں ہی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ؟ ان دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں کردار ابنارمل پُتلے ہیں جن کی ڈور افسانہ نگار کی انگلیوں سے بندھی ہے ۔ افسانہ کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ گناہ کا مرتکب کردار لذتِ گناہ کا عادی ہے ۔ اگر گناہ کا استعارہ تاریکی ہے تو وہ تاریکی کا اسیر ہو چکا ہے اور روشنی کا سامنا کرتے ہوئے وہ خود کو اذیت میں مبتلا پاتا ہے ۔
افسانہ ‘ شلپی ‘ ‘ نمک حرام ‘ اور ‘ لال کبوتر ‘ موضوع ، اسلوب اور تکنیک کے لحاظ سے انفرادیت کے حامل افسانے ہیں ۔ ان افسانوں کا موضوع لڑکوں اور لڑکیوں کے جنسی استحصال پر مبنی ہے جس میں ایک طرف دولت مند اور نام نہاد دانشور طبقے کی عیاری و عیاشی کو بے نقاب کیا گیا ہے تو دوسری جانب ‘ لال کبوتر ‘ میں محنت کش طبقے کی جنسی بے راہ روی اور ہوس کو اجاگر کیا گیا ہے جہاں عصمت دری کو روٹین ورک سمجھا جاتا ہے یا پھر گلی ڈنڈا کھیلنے کے مترادف ۔ ان افسانوں میں فنِ افسانہ نگاری کا جوہر کھل کر سامنے آیا ہے ۔ انتہائی موثر اور برجستہ تشبیہات کے پیرائے میں افسانے کا رواں دواں بیانیہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افسانہ نگار کو موضوع کی مناسبت سے کرداروں کے ماحول و مزاج کو خلق کرنے میں فن کارانہ دست رس حاصل ہے ۔
افسانہ ‘ گرتی دیواروں کے سائے ‘ پڑھ کر احساس ہوا کہ سورج جب نصف النہار پر ہوتا ہے تو سائے کوتاہ قد ہوجاتے ہیں یا پھر معدوم ہو جاتے ہیں ۔ یہ افسانہ چند خطوط پر مشتمل ہے ۔ اس نہج کے افسانے دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی لکھے ہیں ۔ ماں کی مامتا پر عمر اور وقت اثر انداز نہیں ہو تا مگر بیٹے کا فرض بتدریج غروب کی طرف گامزن ہوتا جاتا ہے اور گرتی دیواروں کے سائے میں بھی اسے اپنی پناہ کی امید باقی رہتی ہے ۔ آخری خط کا یہ جملہ پورے افسانے کی روح ہے ۔۔۔۔ ” کاش تم نے پہلے ہی چھت مرمت کروا لیا ہوتا ” ۔ خطوں کا افسانہ ہو جانا بھی ایک تخلیقی کرامت ہے ۔

افسانہ ‘ گوتم ‘ انحراف کا افسانہ ہے ۔ افسانہ کی ابتدائی سطریں پڑھ کر کرشن چندر کا افسانہ ‘ کالو بھنگی ‘ کی یاد تازہ ہو گئی ۔ مگر اس افسانہ کا موضوع اور ٹریٹمنٹ الگ ہے ۔ کچھ گوتم صرف نام کے گوتم ہوتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں کوئی سایہ دار درخت نہیں ہوتا ۔ چلچلاتی دھوپ ان کا مقدر ہوتی ہے ۔وہ کسی کی ترحم آمیز نگاہوں کا مستحق بھی نہیں ہوتا ۔ اسے بس ایک چونّی چاہئے جو اس کی پوری کائنات ہوتی ہے ۔ ہم یہ چونّی اس سے نفرت کے عوض میں دیتے ہیں ، محبت یا ترس کھا کر نہیں کہ ذہن کی بھوک پیٹ کی بھوک سے زیادہ کرب ناک ہوتی ہے ۔
افسانہ ‘ نجات کے راستے ‘ میں احسان قاسمی نے نجات پسندی کا ایک بالکل ہی انوکھا اور نیا ڈائمینش پیش کیا ہے ۔ یہ افسانہ ہمارے سماج کے طبقہء اشرافیہ کی ذہنیت پر گہرا طنز ہے ۔ افراطِ زر نے انسان کے مذہبی اخلاقیات کو فرسودہ روایات میں جکڑ رکھا ہے ۔ پیروں ، فقیروں اور مزاروں پر آسودہ اور خوش حال لوگوں کا انبوہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انہیں اپنی نجات کا وسیلہ چاہئے ۔ انہیں سماج میں ایک ایسا طبقہ چاہئے جو سڑکوں پر بھیک مانگتا ہوا نظر آئے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو وہ بھیک منگوں کے سماج کی تشکیل کے لئے غیر انسانی فعل بھی انجام دے سکتے ہیں ۔
افسانہ ‘ سیاستِ جدید عرف سفید ہاتھی ‘ کو احسان قاسمی نے قدیم داستانی فارمیٹ میں لکھا ہے ۔ شاید اس لئے بھی کہ موضوع سیاست ہے اور زمانہ بادشاہی طرزِ حکومت کا ہے ۔ افسانہ اس بات کا خلاصہ کرتا ہے کہ کس طرح بادشاہ عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا شاہی خزانہ بھرتے رہتے تھے. دورِ حاضر میں ہم ایک جمہوری نظامِ حکومت میں جی رہے ہیں مگر دیکھا جائے تو یہاں بھی بادشاہ ( پرائم منسٹر ) اور وزیر موجود ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ انہیں عوام منتخب کرکے بھیجتی ہے ۔ اس طرزِ حکومت میں بھی سفید ہاتھی کا کھیل جاری ہے ۔ ہر سیاسی پارٹی کے پاس اپنا ایک مینی فیسٹو ہوتا ہے جو بالآخر سفید ہاتھی ہی ثابت ہوتا ہے ۔
‘ گڑیا ‘ ایک بے حد جذباتی افسانہ ہے ۔ افسانے میں ایک باپ کو اپنی بیٹی کی موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں تھا ۔ انجانے خدشات کو ذہن میں سمیٹے ایک باپ کا اسپتال پہنچنا ، وہاں غیر متوقع طور پر اپنی بیٹی کی لاش کو دیکھنا اور بیٹی کی موت پر غم زدہ ایک شناسا کے دلی جذبات کی ترجمانی کرنا ایک درد آشنا فن کار ہی کر سکتا ہے ۔ یہ افسانہ ختم ہوکر بھی ختم نہیں ہوتا اور ایک الم ناک موت پر قاری یاس انگیز تاثر میں ڈوبا رہ جاتا ہے ۔
‘ المیہ ‘ اور ‘ اشرف المخلوق ‘ مختصر ترین افسانے ہیں ۔ ‘ المیہ ‘ کا پس منظر فرقہ وارانہ فساد ہے جس میں یہ ایک اہم نکتہ ابھر کر آتا ہے کہ دلوں کے فاصلوں کو آپسی بھائی چارگی اور مذہبی رواداری سے ہی گھٹایا جا سکتا ہے ۔ فاصلوں کی عمیق کھائی پر پُل بنانے کا یہی موثر طریقہء کار ہے ۔
‘ اشرف المخلوق ‘ میں انسان کی ابتری کو درشایا گیا ہے ۔ اس ابتری کے وجوہات کو وسیع تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔

ترقی پسند تحریک اشتراکی نظام کا حمایتی تھا جس میں انسان اور انسان کے خارجی عوامل کو اوُلیت حاصل تھی ۔ یہ نظام خدا کے وجود کو اشتباه کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مذہب کو افیون کا نشہ سمجھتا ہے ۔ جدیدیے فلسفہء وجودیت کے حامی تھے اور اپنی ذات کے نوحہ گری کو ہی اوّل و آخر سمجھنے پر مصر تھے ۔ ما بعد جدید ادب فرد کے ہمہ جہت تشخص پر اصرار کرتا ہے ۔ اس میں حیات و کائنات کے تمام مرئی اور غیر مرئی اشیاء اور عوامل شامل ہیں ۔
احسان قاسمی کے افسانہ ‘ پیپرویٹ ‘ کو میں مابعد جدید ادب کا ایک نمائندہ افسانہ سمجھتا ہوں ۔ خدا کے وجود کا اقرار یا انکار انسان کے عقیدے سے جڑا ہوا ہے ۔ انسان اپنی محنت سے لان تیار کر سکتا ہے ۔ اس لان میں انواع و اقسام کے پھول پتیاں اگا سکتا ہے لیکن ان پھولوں میں اپنی پسند کا رنگ نہیں بھر سکتا ۔ یہ کام قدرت کا ہے اور قدرت کا کام انجام دینے والا خدا ہے ۔ اس افسانہ میں احسان قاسمی نے اپنی تخلیقی قوت کو تخلیقی تموج سے آشنا کر دیا ہے ۔ یہ افسانہ مسرت انگیز بھی ہے اور بصیرت افروز بھی ۔
احسان قاسمی کے افسانے فکری رو میں گردش کرتے ہوئے اپنے اختتام تک پہنچتے ہیں ۔ کفایت لفظی ان کا خاص شعار ہے ۔ بڑے کینوس کے موضوعات کو کیپسول سائز میں اس طرح پیش کر دینا کہ افسانے کا حق ادا ہو جائے ، فنّی مہارت کا ثبوت ہے ۔ ان کے افسانوں کی زبان موضوع ، ماحول اور کرداروں کی مناسبت سے خلق ہوتی ہے اور یہ تخلیقی پاس داری کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں ۔ کرداروں کی تحلیل نفسی افسانوں کے متن سے از خود ابھر کر سامنے آ جاتی ہے ۔ تقسیمِ ملک اور فرقہ وارانہ فسادات کے موضوع پر اردو ادب میں بے شمار افسانے لکھے گئے ہیں جن کی اپنی قدر و قیمت ہے ۔ افسانہ ‘ مہاجر ‘ اسی موضوع پر ایک انتہائی موثر افسانہ ہے ۔ اس مختصر افسانہ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں تقسیمِ ملک کا الم ناک پہلو بھی ہے اور اندرونِ ملک فرقہ واریت کی دہشت ناکی کا بھی بیان ہے ۔ اس افسانہ کا فکری پہلو یہ ہے کہ مہاجر صرف وہ نہیں ہیں جو دیگر ممالک کو ہجرت کر گئے بلکہ ہم اپنے ہی ملک میں مہاجر کی طرح رہ رہے ہیں ۔
احسان قاسمی نے افسانچے بھی تحریر کئے ہیں ۔ المیہ ، سیڑھی ، لفٹ ، آخری قسم ، اپنا اپنا حق ، رنگ ، اشرف المخلوق اور محبت ان کے تحریر کردہ افسانچے ہیں جو اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کے لحاظ سے قاری کے ذہن میں پیوست ہو جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
احسان قاسمی کے ادبی سفر کا آغاز ۱۹۷۶ء سے ہوا اور شروع میں انہوں نے تیز رفتاری کے ساتھ کئ اچھے افسانے بھی لکھے مگر بینک کی مصروفیات کی وجہ سے یہ تیز رفتاری تادیر قائم نہ رہ سکی ۔ خوشی کی بات ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ادبی دنیا میں ان کی واپسی ہوئی ہے اور ان کے قلم سے ‘ ایک خط ہزار داستان ‘ اور ‘ شلپی ‘ جیسے کامیاب افسانے دوبارہ نکلنے لگے ہیں ۔ اگر وہ اپنا سفر یونہی جاری رکھیں تو یقیناً افسانوی ادب میں بیش بہا اضافہ ہو سکتا ہے. 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے