زندگی شہر طلسمات میں رکھی گئی ہے

زندگی شہر طلسمات میں رکھی گئی ہے

 

افضل الہ آبادی 

زندگی شہر طلسمات میں رکھی گئی ہے
اک عبارت کئی صفحات میں رکھی گئی ہے

ایک تصویر بظاہر نہیں دیکھا جس کو
میرے خوابوں کی حکایات میں رکھی گئی ہے

اس تجلی سے ہیں محروم یہ ماہ و انجم
وہ تجلی جو مری ذات میں رکھی گئی ہے

بہرہ ور جس سے فرشتے بھی نہیں ہو پائے
وہ ندامت مرے جذبات میں رکھی گئی ہے

میرے لہجے میں سمٹ آیا ہے اس کا لہجہ
اس کی خوشبو مری ہر بات میں رکھی گئی ہے

تذکرے سے ترے ملتی ہے ہمارے دل کو
ایسی لذت جو مناجات میں رکھی گئی ہے

زندگی تیری حقیقت بھی یہی ہے شاید
ایک قندیل جو برسات میں رکھی گئی ہے

اس کے ماتھے سے ہی ابھرے گا یہ سورج افضل
وہ سحر جو شب ظلمات میں رکھی گئی ہے

شاعر کا مختصر تعارف :

نام : افضال احمد
قلمی نام : افضل الہ آبادی
پیدائش: 5 اکتوبر 1984
تعلیم : گریجویٹ، پوروانچل یونیورسٹی جون پور
آغاز شاعری : 2003
تلمیذ : حضرت قاسم ہنر سلونی
تصنیف : (چراغوں میں لہو) شعری مجموعہ
پیشہ : تجارت
مکمل پتہ: رضا گنج، لعل گوپال گنج، پریاگ راج الہ آباد، یوپی، پن کوڈ 229413

مزید تین غزلیں :
1.
گیت رادھا کو سناتا ہے چلا جاتا ہے
بانسری کوئی بجاتا  ہے چلا جاتا ہے

دیر تک گونج سی رہتی ہے حریم دل میں
کوئی آواز لگاتا ہے چلا جاتا ہے

چھیڑ دیتا ہے مرے دل کے سبھی تاروں کو
وہ مجھے وجد میں لاتا ہے چلا جاتا ہے

روز آتا ہے وہ جھرنے میں نہانے کے لئے
آگ پانی میں لگاتا ہے چلا جاتا ہے

میری تعمیر مکمل نہیں ہونے پاتی
کوئی بنیاد ہلاتا ہے چلا جاتا ہے

ڈال دیتا ہے سیاہی مری تحریروں پر
داستاں اپنی سناتا ہے چلا جاتا ہے

دوڑ کر آتا ہوں دروازے پہ دستک سن کر
کوئی زنجیر ہلاتا ہے چلا جاتا ہے

ریت پر روز بناتا ہوں خدو خال اس کے
کوئی آتا ہے مٹاتا ہے چلا جاتا ہے

روز آتا ہے وہ دریا کے کنارے افضل
ایک تصویر بناتا ہے چلا جاتا ہے

2.
جزیرہ ہائے الم سے ہے سامنا میرا
سمندروں سے نکلتا ہے راستہ میرا

یہ کس مقام پہ پہنچی ہے میری گامزنی
سمٹ رہا ہے جو قدموں میں راستہ میرا

میں اس کی راہ کے اڑتے ہوئے غبار میں ہوں
جو ان ستاروں میں رہتا ہے تذکرہ میرا

وہ بزم ارض و سما ہو کہ بزم انجم ہو
کہاں کہاں نہیں روشن ہے نقش پا میرا

تمام رات وہ پہلو نشیں رہے میرے
تمام رات تھا ان سے مذاکرہ میرا

وہ اپنی ذات کا عرفان ہی نہیں جن کو
سمجھ نہ پائیں گے ہرگز وہ مرتبہ میرا

مرا خدا ہی کوئی راستہ نکالے گا
منافقوں نے کیا ہے محاصرہ میرا

بچھادی اس نے بھی قالین اپنی رحمت کی
سمندروں میں جو اترا ہے قافلہ میرا

جو اپنی پیاس کو پہنچا میں لے کے دریا تک
تو میری پیاس نے دامن پکڑ لیا میرا

سوائے اس کے کرے کون میری دل جوئی
سوائے اس کے سنے کون ماجرا میرا

اک ایک لفظ میں معنی ہزار رکھتا ہوں
غزل سے ہوتا ہے جب بھی مذاکرہ میرا

ہوا کے دوش پہ روشن ہوئے ہیں جو افضل
انھیں چراغوں سے ملتا ہے سلسلہ میرا

3.
ہر نغمہء پر درد ہر اک ساز سے پہلے
ہنگامہ بپا ہوتا ہے آواز سے پہلے

دل درد محبت سے تو واقف بھی نہیں تھا
جاناں ترے بخشے ہوئے اعزاز سے پہلے

اب میری تباہی کا اسے غم بھی نہیں ہے
جس نے مجھے چاہا تھا بڑے ناز سے پہلے

شعلوں پہ چلاتی ہے محبت دل ناداں
انجام ذرا سوچ لے آغاز سے پہلے

اب راز کی باتیں نہ بتا دے وہ کسی سے
یہ خوف نہیں تھا کبھی ہم راز سے پہلے

شاہین وہ کہلانے کا حق دار نہیں ہے
جو سوئے فلک دیکھے نہ پرواز سے پہلے

تھی میر تقی میر کی نوحہ گری مشہور
افضل کی سسکتی ہوئی آواز سے پہلے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے