جہیز پرلعنت بھیجنے سے پہلے یہ کریں!

جہیز پرلعنت بھیجنے سے پہلے یہ کریں!


ڈاکٹرابراراحمد
اسسٹنٹ پروفیسر، پونا کالج آف آرٹس،سائنس اینڈ کامرس کیمپ، پونے۔411001

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
سب سے پہلے میں عائشہ عارف خان کے ارتکاب خودکشی کی ہزار بار مذمت کرتا ہوں اور تمام بنی نوع انسان کو اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اس دنیا میں مشکلات اور آسانیاں دونوں لازم و ملزوم ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ الشرح میں فرماتا ہے۔ فان مع العسریسرا۔ان مع العسریسرا۔(بے شک ہرمشکل کے ساتھ آسانی ہے۔بے شک ہرمشکل کے ساتھ آسانی ہے)۔ یہ دنیا دراصل دارالامتحان ہے دارالآرام نہیں۔اس لیے اس دنیا میں عیش و آرام والی زندگی کا تصور ہی فضول ہے۔ عیش و آرام کی زندگی اس دنیا کے بعد آخرت میں میسرہوگی ہے جومومنین و مومنات کواس دنیا میں بہترین اعمال کی بنیادپربطور انعام جنت کی شکل میں ملے گی۔ جہاں عیش و آرام کےایسے سازوسامان اور لوازمات موجود ہوں گے جس کاہم تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں اور عیش و آرام کی وہ زندگی ہمیشہ ہمیش کی ہوگی۔ جب دنیا دارالامتحان ودارالعمل ٹھہری تو انسان کو ہر لمحہ ایک نئے ٹاسک کے لیےتیار رہنا چاہئے اور ہر آزمائش ومشکل کاسامنا بحسن و خوبی کرنا چاہئے. اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے ہی آگاہ کردیاہے کہ وہ اپنے بندوں کومختلف آزمائشوں میں ڈال کرامتحان لے گا۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورہ البقرہ میں فرماتاہے۔ولنبلونکم بشی ٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشرالصٰبرین۔(بے شک ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدرخوف، بھوک اورمالوں،جانوں وپھلوں کی کمی سے اوران ثابت قدموں کوخوش خبری سنادو)۔ اس لیے انسان کوہرحال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔ ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ بیش قیمتی سرمایہ ہے اسے کسی انسان کوخوش کرنے یاسبق سکھانے کے لیے ضائع کرنانہایت ہی احمقانہ عمل ہے۔انسان کوہمیشہ وہ کام کرناچاہیئے جس سےاللہ خوش اورراضی ہو۔اگراس کے کسی ایک عمل سے پوری دنیا ناراض ہواوراللہ تعالیٰ نے اسے کرنے کاحکم دیاہوتوپوری دنیاکی پرواہ کیے بغیراسے اللہ کی خوشنودی و رضا کے لیے وہ عمل کرناچاہیے۔ اس لیے میں تمام انسانوں اوربالخصوص نوجوان لڑکے اورلڑکیوں سے درخواست کرتاہوں کہ وہ کسی مشکل سے گھبراکراپنی زندگی کو ختم نہ کریں بلکہ اس مشکل کوختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ کوئی دوسرااس مشکل میں نہ پڑے۔ان کی یہ حقیرکوشش دوسروں کی اورخودان کی اپنی زندگی کو سنوارنے کاسبب بن سکتی ہے۔
عائشہ عارف خان اس دنیاسے چلی گئیں لیکن اپنے پیچھے ہندستانی مسلم سماج پر کئی ان کہے سوال چھوڑ گئیں۔وہ سوالات اتنے بنیادی اوراہم ہیں کہ اگران کوبروقت حل نہ کیاگیاتومعاشرہ میں اس سے بھی زیادہ سنگین نتائج برآمدہوسکتے ہیں، جس کی تلافی شاید صدیوں میں بھی ممکن نہ ہو۔ موجودہ ہندوستانی مسلم معاشرہ میں وہ ساری خرابیاں ، توہمات اوربرائیاں نئے روپ میں موجود ہیں جو دور جاہلیت میں عربوں کے یہاں مروج تھیں۔بعض خرابیاں توایسی ہیں کہ دور جاہلیت کےعرب اگر اسے دیکھیں تووہ بھی دنگ رہ جائیں ۔ان بعض خرابیوں میں سےایک شادی بیاہ اور طلاق کامعاملہ ہے جسے ہم لوگوں نے اتنا پیچیدہ بنا دیا ہے کہ ایک عورت کو اس سے نکلنے کے لیے موت کے سوا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا ہے۔ ہم نے ہندستان میں ایک ایسا مسلم معاشرہ قائم کیاہے جہاں بیوہ اور مطلقہ عورت سماج اور گھروالوں پرایک بوجھ کی حیثیت رکھتی ہے۔مسلم نوجوانوں میں چار شادیوں کا چرچا توزوروشور سےہوتا ہے لیکن ان کو چاروں بیویاں باکرہ یعنی کنواری ،ان ٹچ ایبل چاہئیں۔ بیوہ اور مطلقہ ان کےنزدیک سیکنڈ ہینڈ ،مستعمل اورمنحوس ہیں. اس لیے ان سے نکاح ثانی کا تصورمعدوم ہوتا جارہا ہے. اس سے موجودہ مسلم معاشرہ کی ذہنیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔افسوس تواس بات کاہے کہ یہ حالت اس قوم کی ہے جس کادعویٰ ہے کہ اللہ کے بعد وہ سب سے زیادہ نبی کریم حضرت محمدﷺ سےمحبت کرتاہے اس کی تعلیمات کے لیےاگر اپنی جان کی قربانی پیش کرنی پڑی تو وہ ہمہ وقت اس کے لیے تیارہے لیکن عملاً ان کی تعلیمات اوردین کی کھلے عام دھجیاں اڑاتا پھر رہاہے ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں ایک ایسامسلم معاشرہ قائم کیاتھاجہاں بیوہ ومطلقہ اپنی عدت پوری کرنے کے بعد تنہاوبے سہارازندگی گزارنے پرمجبورنہیں ہوتی تھیں بلکہ صحابہ کرام ؓ خودایسی عورتوں کے لیے شادی کا پیغام لےکرجاتے تھے اور صحابیاتؓ اپنی مرضی اور پسند سے جسے چاہتیں منتخب کرتی تھیں۔خود رسول اللہ ﷺ کی گیارہ ازواج میں سے صرف حضرت عائشہؓ کنواری تھیں باقی دس ازواج ایک، دویاتین شوہروں کی بیویاں رہ چکی تھیں اوررسول اللہ ﷺ ان کے دوسرے، تیسرے اورچوتھے شوہرتھے۔ آج کے عاشقان رسول کاحال یہ ہے کہ اسم رسول ﷺ کو چپل کے تلے پر دیکھ کران کاخون جوش مارنے لگتا ہے لیکن جب ان لوگوں کو اسوۂ رسولﷺ پر عمل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو انھیں اپنی سماجی رسم و رواج یاد آتی ہیں۔ لوگ کیا کہیں گے، باپ داداکی روایات کو کیسے ترک کر دیں۔ سماجی دباؤ اس قدرحاوی ہوجاتا ہے کہ لوگ اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر غیر اسلامی روایات پرعمل کرنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔
موجودہ ہندستانی مسلم معاشرہ کی دوسری بڑی خرابی ذات وبرادری کاتصورہے ۔ہندستانی مسلمانوں میں اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ لوگ اس پر بات کرنے سےبھی ڈرتے ہیں. اگرکسی نے اس پرلب کشائی کی جرأت کی تواسے قاسم ملت ،دشمن قوم اور فارق امت جیسے لیبل لگاکرامت بدرکردیاجاتاہے۔حالانکہ جوقوم پہلے سےہی ذات وبرادری میں اس حد تک بٹی ہوئی ہو کہ ایک برادری کی شادی دوسری برادری میں نہ ہواسے مزید کیابانٹاجاسکتاہے۔بعض علاقوں میں تو قبرستانیں بھی الگ ہوتی ہیں یعنی یہ تفریق اتنی گہری ہے کہ مرنے کے بعد بھی لوگوں کوایک ساتھ رہنے نہیں دیتی۔خدا جانے یہ لوگ جنت میں ایک ساتھ کیسے رہیں گے۔
اس غیراسلامی روایت کوچھوڑکر اگر کوئی شخص دوسری برادری میں شادی کرتا ہے تو اس کی ہمت افزائی کے بجائےہرسطح پراس کی پرزور مخالفت کی جاتی ہے اور اس رشتے کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ حد تو تب ہوتی ہے جب اس نکاح کو مفتیوں کے فتویٰ کے ذریعے غیراسلامی اورفاسد قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود بھی اگر وہ ان کی بات کو نہیں مانتا ہے تو اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے بچے اور بچیوں کی شادی کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ ان کے بچوں کو دوغلی نسل کی اولاد کہہ کر سماج میں مشتہر کیا جاتا ہے۔اس کے حسب ونسب اورکردارسے متعلق طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں ۔ساتھ ہی اشراف وارذال اورپاک وناپاک خون(Pure and Impure Blood) کی ایک لایعنی بحث شروع کی جاتی ہے، جس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسا اس لیے کیاجاتا ہے تاکہ کوئی دوسرا اس روایت کو توڑنے کی جرأت نہ کرسکے۔ حال آں کہ  بحیثیت مسلم ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس دنیاکے تمام انسان حضرت آدم ؑوحواؑ کی اولاد ہیں. یہ ہمارے ایمان کاجزوہے ۔اگرکوئی شخص اس بات پرایمان نہیں رکھتاہے تو اسے اپنے ایمان کامحاسبہ کرناچاہیے کہ وہ کتنے فی صد مسلمان ہے۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایک ہی ماں باپ کی اولادکاخون ، پاک وناپاک خون(Pure and Impure Blood) میں کب اورکیسےتبدیل ہوگیا؟اس کا مدلل جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
یہ سماجی دباؤ اتناشدیدہے کہ علماء کرام ،مفسرین قرآن ، محدثین عظام اورمفتیان دین سب کے سب جانتے بوجھتے اس کے سامنے بے بس ولاچار ہیں ۔ان کی بے بسی اورلاچاری کااندازہ ان واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔آج سے تقریباًبیس بائیس سال پہلے کی بات ہے ، ہندستان کے ایک مشہورمدرسہ کے شیخ الحدیث اپنی بچی کے لیے رشتہ تلاش کررہے تھے. انھوں نے اپنے ساتھیوں سے اس کاذکرکیاکہ کوئی دین دارلڑکانظرمیں ہوتوبتانا،ان کے ایک ساتھی نے شیخ الحدیث کے شاگرد خاص کانام لیا۔شیخ الحدیث نے کہاکہ لڑکادین داراور سلجھاہواہے میں اس کے گھروالوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوں لیکن وہ ہماری برادری کانہیں ہے۔پھرخود ہی بولے کہ یہ برہمنی اورہندووانہ روایت ہندستانی مسلم معاشرہ میں اتنی مستحکم ہو گئی ہے کہ اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظرنہیں آرہی ہے۔قوم کے امراءوروساء پہل کریں تویہ غیراسلامی روایت ختم ہوسکتی ہے اگر میں کرتاہوں توسماج میری غربت کامذاق اڑائےگا اور میری آنے والی نسلیں ایک ناکردہ گناہ کاعذاب جھیلنے پر مجبورہوں گی۔اسی طرح ایک روز میرے ایک عالم وفاضل ساتھی ملے، علیک سلیک کے بعد بولے یار!میرے ایک جاننے والے ہیں ان کی بچی کے لیے کوئی مناسب رشتہ ہوتو بتانا،لڑکی پڑھی لکھی، عالمہ وفاضلہ ہے ۔گھر کاماحول بھی اسلامی ہے۔میں نے کہا ٹھیک ہے کوئی مناسب رشتہ ہوگاتو ضروربتاؤں گا ۔ سلسلہ کلام کو منقطع کرتے ہوئے میں نے پوچھا،یار!تم کب شادی کررہے ہو؟کہنے لگاگھروالے رشتہ تلاش کررہے ہیں ،مناسب رشتہ ملتے ہی تم کوولیمہ کھلاتاہوں ۔ میں نےکہا، تم ہی اس لڑکی سے شادی کرلو،دوستی رشتے داری میں بدل جائے گی ۔تم اس لڑکی اوراس کے گھروالوں سے اچھی طرح واقف بھی ہو۔تمہیں ایک اچھی بیوی اورانھیں تم جیسا پڑھالکھادامادمل جائے گا۔وہ اچھل کردوقدم پیچھے ہٹا اورکہنے لگاکہ میں اس سے شادی نہیں کرسکتاہوں ۔میں نے کہاکہ ابھی تھوڑی دیرپہلے تم اس کی اوراس کے گھر والوں کی بڑی تعریفیں کررہے تھےاور اس کی شان میں قصیدے پڑرہے تھے۔جب خود کی باری آئی توپیچھے ہٹنے لگے ۔ ایسی کیاخرابی ہے جسے تم مجھ سے چھپارہے ہو اورخود اس سے شادی کرنے سے انکارکررہے ہو۔کہنے لگا، اس لڑکی میں اوراس کے گھروالوں میں کوئی خرابی نہیں ہے۔اس سے شادی نہ کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ میری برادری کی نہیں ہے۔غیربرادری میں شادی کرنے کے نقصانات سے تم توواقف ہو۔میں نے کہا،یار!تم بھی ان خرافات کومانتے ہو۔کہنے لگا،کیاکروں،نہ چاہتے ہوئے بھی کرناپڑتاہے ۔مجھے اورمیرے گھروالوں کو اسی سماج میں رہنا ہے ۔ سماجی رسم ورواج سے الگ میں کیسے جا سکتا ہوں۔ان واقعات سے آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ سماجی دباؤ اسلامی معاشرہ کے قیام میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے. جب تک اسے معاشرتی سطح پرختم نہیں کیاجاتاہے اس وقت تک اسلامی معاشرہ کاتصورناممکن ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نبی کریمﷺ نے سب سے پہلے حسب ونسب ،رنگ ونسل ،سرداری وغلامی ،قومیت و علاقائیت کی بنیادپررائج ہرطرح کےامتیاز وتفریق کو ختم کرکے ایک صالح اسلامی معاشرہ کاقیام کیاتھا، جہاں اعلیٰ وبرتر ہونے کاصرف ایک پیمانہ تھا،تقویٰ اوربہترین اعمال وکردار،انہی کی بنیادپرکوئی اچھا یا برا قرارپاتاتھا۔آپﷺ نے عرب کے مختلف قبائل(بنو عزی، بنو عامر، بنو تیم، بنو عدی، بنو ہلال، بنو مخزوم، بنو اسد، بنومصطلق، بنو ہارون، بنو امیہ، بنوعیلان) میں شادی کرکے قبائلی تفاخر کو ختم کیااورلوگوں کویہ پیغام دیا کہ شادی بیاہ کے لیے ذات، برادری اورقبائل کی کوئی شرط نہیں ہے اورنہ ہی یہ کفومیں آتے ہیں لیکن ہندستانی مفتیان کے یہاں ذات اوربرادری کفو کی پہلی شرط ہے۔اس کےبعدایک ایسا معاشرہ وجود میں آتاہے جہاں اسلامی اصول خرافات و بدعات میں کہیں کھوجاتے ہیں اورلوگ خرافات وبدعات کوہی اصل دین سمجھنے لگتے ہیں ۔آج ہم ایک ایسے ہی معاشرہ میں جی رہے ہیں جہاں بدعات وخرافات اسلامی تعلیمات پرحاوی ہیں ۔
اس مسلم معاشرہ کے قیام میں ہندستان کے تمام مسلمان برابرکے شریک ہیں ،یہاں کے عالم و فاضل ،مولوی و مولانا،مفتی و قاری ،صوفی ودینی مبلغین ،دینی مدارس ومکاتب ،مسلم کالجزو یونیورسٹیز،خانقاہیں وعبادت گاہیں ،اسلامی جماعتیں وتحریکیں غرض ہرایک یکساں طورپراس کاذمہ دارہے ۔اس کاخاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب ان تمام سطحوں پراس کوختم کرنے کی کوشش کی جائے ورنہ جہیزپرلعنت بھیجنے سے کچھ نہیں ہونے والاہے۔اگرہم اب بھی نہیں جاگے،نکاح وطلاق کواسلام کےمطابق آسان اورسماج کی اس ذہنیت کوبدلنے کی کوشش نہیں کی توہمیں اس سے بھی بھیانک اوربرے نتائج و مسائل کاسامناکرنے کے لیے تیاررہناچاہیئے۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے