ہم ادیب، شاعر اور نقاد : زندگی کی جانب

ہم ادیب، شاعر اور نقاد : زندگی کی جانب

جاوید اختر ذکی خان
جب کوئی ادیب، نقاد اور شاعر کسی نشہ آور شے خواہ وہ شراب، سگریٹ، تمباکو، حقہ اور پان وغیرہ سے کسی قسم کا تعلق ہی نہیں رکھتا ہو تو اس کی کیفیت کے بارے میں کیا لکھ سکتا ہے. جب کہ وہ اس کیفیت سے کبھی گزرا ہی نہیں ہے۔ وہ سرور وہ نشہ جس سے اس کی کبھی آگاہی ہوئی ہی نہیں ہو، وہ کیا بیان کرے کہ میں اس سرور کی لذت کیا ہے۔اور پھر اچانک اسے کچھ لکھنا پڑ جائے تو وہ اپنے ذاتی مشاہدے سے نہیں بلکہ تصورات کو، تخیل کو قوت پرواز بخشتا ہے۔ لیکن مجھ جیسا ادب کا طالب علم ایک نشے کا عادی ہوتا ہے یعنی جسمانی محنت کا، جو ذہن میں بھی ایک سرور دیر تک قائم رکھنے کی سعی کرتا ہے ۔
ضروری نہیں ہے کہ ادیب ایڈکٹ بنیں اور منٹو کے نقش قدم پر ہی چلیں. آپ جوش کے نقش قدم پر بھی چل سکتے ہیں. لیکن اس کے لیے یہ لازمی ہے کہ آپ کے پٹھے اور ہڈیاں مضبوط ہوں، جو آپ کے جسم اور ذہن دونوں کو ہی سنبھال سکیں اور آپ اپنے وجود کے ساتھ کھلتے رہیں ہر موسم میں. میں جانتا ہوں بہت سارے لوگ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں. لیکن انتخاب کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ کیا سلیکٹ کرنا ہے اس کا فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے. ان چیزوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کبھی یہ مت سوچیں کے چلو ایک بار پی کرکے، چکھ کے دیکھتا ہوں۔کیا ہو گا ایک بار کر لینے سے۔ بس یہاں سے ہی آپ اس کے عادی بن جاتے ہیں۔اور آپ کی غلامی کا آغاز اور دور شروع ہو جاتا ہے. اگر کبھی یہ کیفیت آپ پر حاوی ہونے لگے تو آپ یوں کریں کہ دو کلومیٹر تیز تیز چل لیں، تھوڑا دوڑ لگا لیں اور جو مضبوط ہیں، طاقت ور ہیں وہ ایک گھنٹہ ورزش کر لیں. جسم کے تمام اعضاء کھل اٹھیں گے.
لیکن اس میں بھی آپ کی قوت ارادی کا ہی کمال ہوگا. کچھ لوگ کہتے عمر ہوگئی ہے اب یہ نہیں ہو سکتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ عمر فقط ایک نمبر ہے اس سے زائد کچھ بھی نہیں. زندگی لفظوں میں گر جی لی جاتی تو ہم سب آج لفظوں میں سانس لے رہے ہوتے. اب سانس آہستہ لینے کی ضرورت نہیں ہے. آج سے ابھی سے آپ اپنے Respiratory Rate کو بڑھائیں. پھیپھڑے کے Alveoli کو خالص آکسیجن سے بھریں اور Haemoglobin کو Oxygenated کریں. جب آپ یہ سب کرتے ہیں تو یقین جانیں آپ اپنی فیملی کو آگے کے لیے خوشیاں ہی دے رہے ہوتے ہیں ۔بس ایک ذرا سی قوت ارادی کی ضرورت ہے. اب ٹی وی، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے چپکے ہی نا رہیں باہر بھاگیں. ہر کام Bipedal Locomotive کے ذریعے ہی انجام دیں. اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارا مستقبل پھیل کر تیزی سےہمارے ماضی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ امید اور خواہش وہ واحد خواب ہے جس کے لیے زندگی گزاری جا سکتی ہے. وہ یہ ہے کہ آپ جب زندہ ہوں تو پوری طرح زندہ ہوں اور جب مریں تو صرف اس وقت جب موت آجائے. یہ یقینا ایک پیش آگہی ہی ہے جسے کچھ تسلیم کریں گے اور کچھ نکار دیں گے۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے