وائرس

وائرس


تنویراحمد تماپوری

ریاض، سعودی عرب 


سمارٹ فون پہلے ضرورت تھا۔ اب عادت بن چکاہے۔ جب تک اس کا وجود نہیں تھاانسان کا حافظہ بہت مضبوط ہوا کرتا تھا۔ پچاس پچاس نمبر ازبر ہوا کرتے تھے ۔اب تو بیوی کا نمبر بھی سیری سےپوچھنا پڑتا ہے۔ ماضی میں عاشق کے دماغ معشوق کی گلیوں کا گوگل ہوا کرتے تھے۔ حال کا یہ حال ہے کےخود اپنے گھر کاراستہ بھی جی پی یس سے ہوکر گزرتا ہے۔آج صبح میری آنکھ ایک بری خبر کے ساتھ کھلی ۔ میرا فون ہینگ ہوچکا تھا۔ شایدنیچےگر کریا پھر کسی وائرس کا شکار ہو کر۔ نا ماننے کی ضد پکڑ چکا تھا۔ کافی ٹھونک بجا کر دیکھا ۔بیٹری کی چھان پھٹک کرلی۔متعدد بار ری اسٹارٹ بھی کرلیا۔مگر افاقہ نہ ہوا۔
اتوار کے دن دوپہر سے پہلے بستر چھوڑنے کا مطلب عموماً کوئی ناگہانی افتاد ہوتی ہے۔ فون کا خراب ہونا بھی ایک آفت ہی تھی۔ اورپورے گھر کے لئے تھی۔ بیگم کا موڈ خراب تھا۔ بچے الگ بسوررہے تھے۔بہت دنوں بعد یہ پہلا اتوار تھا جس دن مجھے ناشتہ نہیں ملا۔ ماتم نے گھر کا راستہ ڈھونڈ لیا ۔یہ فون میری فیملی کے لئے جینے کا اساس تھا۔ لائف اسٹائل کا پورا پیٹرن ۔ بیوی کا نیٹ فلکس، بیٹی کے لئے فلٹر کیمرہ اور بیٹے کے لئے آئی پی ایل اسٹیڈیم ۔ سب کھ اسی سے منسلک تھا۔ ایسابھی نہیں تھا کے یہ گھر کا اکلوتا فون ہومگر چوں کہ آئی فون تھا۔ اس لئے گھر کی ساری ایلیکٹرانک ذمہ داریاں پینسٹھ ہزار کے اس کے بیش قیمت کندھے اٹھارہے تھے۔یہ دراصل فون کی شکل میں علاالدین کا چراغ تھا۔ گھر کی ساری خوشیاں اس کی گھسائی میں مضمر تھیں۔ ظاہر ہے اداسی کو پورے گھر پر ایک آسیب کی طرح پسرنے سے کون روک سکتا تھا۔
باہر سڑکیں اتوار ہونے کے سبب ویران تھیں ۔ یا پھر میرے گھر کے اندر کا سناٹا باہر نکل آیا تھا۔ اتوار کی صبح رہائشی علاقے ویسے ہی طوفان سے پہلے والی خاموشی کی زد میں ہوتے ہیں ۔ چہ جائے کہ میراعلاقہ تو مضافات میں شامل تھا۔ کرونا کرفیو جیسا ماحول یہاں کا حق تھا۔موسم آج گرم بھی زیادہ تھا۔حبس زدہ ماحول میں لوگ باہر نکلنے سے ویسے ہی کتراتے ہیں۔ میں نے علاقے کی ایک بڑی موبائل شاپ میں اپنا مقدمہ پیش کیا۔ پیشی کےلئے اگلی تاریخ کے بجائے اگلی دکان ملی۔ جس کے لئے مجھے شہر کے ایک تجارتی مرکز کی طرف کوچ کرنا پڑا۔ تعطیل کی صبح بڑی کسلمند اور بھاری ہوتی ہے۔ ممبئی شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی بھی اس سے مبرا نہیں تھی۔نقل و حمل کے ذرائع بھی معمول سے ہٹ کریہاں سست ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر صبح کے اوقات میں تین منٹ کے دورانئے سےچلنے والی لوکل بھی اتوار کے دن بیس ،پچیس منٹ کا وقفہ لیتی ہےپہلے رکشہ پھر ٹرین ، ڈیڑھ گھنٹے بعدمیں کرلا میں تھا۔
یہ علاقہ شہر کےان حصوں میں سے ایک ہے جہاں دن اور رات کے بیچ کا فرق نا ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آٹھوں پہر اور ساتوں دن یہاں ایک میلا سا لگا رہتا ہے۔جم غفیر معمول کے مطابق بھاگتا رہتا ہے ۔ کرلا ویسٹ میں پولیس چوکی کی عقبی گلی، علاقے کا ایک مشہور بازار تھی۔ یہاں بہت ساری موبائل کی دکانیں بھی تھیں۔ ایک کو میں نے چن لیا۔ میرا چوں کہ آئی فون تھا اس لیے اس کی مرمت ذرا مشکل امرتھی ۔پہلی دکان میں منشا پوری تو نہیں ہوئی تاہم ایک دوسری جگہ کا پتا ضرورملا۔
اگلی گلی میں موجود وہ دکان خلاف معمول خالی تھی ۔ مجھے لگا دکان کا مالک میر اہی منتظرتھا۔ مدعا سننے کے بعداس شاطر شکل شخص نے اثباتی ہنکارہ بھرا ۔ اس کی بڑی بڑی مٹیالی آنکھوں میں تجربے کا کائیاں طوطی بول رہا تھا۔ چہرے کے کرخت پیٹرن باطن کے سارے بہی کھاتوں کا اظہاریہ تھے۔رنگ پکاتھا۔ کھوپڑی کا آدھا حصہ صاف تھا۔پچھلے حصے سےچپکے ہوئے بال ایک جھالر کی شکل میں لٹک رہے تھے۔ اس نے ایک آنکھ پر گھڑی ساز کا عدسہ لگایا اور میرے فون پر پل پڑا۔ کچھ منٹ میرے لئے کافی صبر آزما رہے۔ پندرہ منٹ اور دوہزار روپیوں کی قربانی،ایپل کے ایک سو اٹھائیس گیگااونٹوں پر لدا میرا گمشدہ خزانہ مجھے واپس دے گئی ۔ یا کم سے کم مجھے ایسا لگا جو بعد میں خیال خام ثابت ہوا۔ کیوں کہ اگلےلمحے اسپیکرکے خراب ہونے کا عقدہ میرامنتظر تھا۔ یہ تو اچھا ہوا کے میں ابھی تک وہیں تھا۔ نہیں تو پھر نئے سرے سے دھکے کھانے کا سلسلہ الگ شروع ہوجاتا۔ میری جیب پر اس شاطر انسان کا اگلا سرجیکل اسٹرائیک اسپیکر کی بحالی کے لئے تھا۔ جس کا کولاٹرل نقصان مزید تین ہزار روپئےکی شکل میں جھیلنا پڑا۔اس بار فون کے گونگے پن کا علاج ایک نئی بیماری کو راہ دے گیا۔ نیا وقوع پذیر مسئلہ بڑا عجیب تھا۔ نمبر چاہے جو بھی ڈائل کیا جائے۔ کنکشن صرف آخری ڈائل شدہ نمبر سے ہوپا رہا تھا۔
جب کرلا کی ساری دکانیں اس نئی "گوگلی "کے سامنے چیں بول گئیں تب مجھے میرے دوست مکند کی یا د آئی ۔اس طرح کے عجیب و غریب مسائل سے چھٹکارے کا چورن اسی کے پاس ملتا تھا۔ اور خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ میرا فون اس وقت صرف اسی سے رابطے میں تھا۔ کیوں کہ آخری ڈائل شدہ نمبر کی شرفیت اسی کے کھاتے میں تھی۔مکند مہتا ایک کامیاب بنکر اور ہوشیار تاجر تھا۔ مالیات میں مہارت گجراتیوں کا اختصاص ہوتی ہے۔ لہذا”منی میاٹرز "اس کے بھی تگڑے تھے۔ روکڑے سے جڑے تمام راز و نیاز کو سمجھنے اورسمجھانے میں ید طولی رکھتا تھا۔ خاص کر ایلیکٹرانک گھپلے کی پہچان اور تدارک اس کا میدان تھے۔ میں نے اپنا معاملہ بھی اس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ کافی دیر تک ہنستا رہا۔ آئی فون دس کا خوب مذاق اڑاتا رہا۔ اسے ایک معمولی چونے کی ڈبی سے تشبیہ دی۔ بہت ساری ٹانگ کھنچائی کے بعد ایک نئی لوکیشن اور ڈھیر سارے مشوروں پر میرا معاملہ نپٹایا۔ یہ تو اچھا تھا کہ میرے فون کا واٹس اپ اور نیویگیشن اب بھی موثر تھے۔ میں نے اگلے مطلوبہ پتے تک پہنچنے کے لئے جی پی ایس پر اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لی۔ اور سنٹرل ریلوےکی ٹکٹ کھڑکی کی طرف چل دیا۔
سورج سوا نیزے سے آگے نکل چکا تھا۔ دوپہرگذرے دیر ہوچکی تھی۔ سڑکوں پر بھیڑبڑھ رہی تھی طمازت گھٹ رہی تھی۔ تاہم پسینے کی بوندیں اب بھی ناگواری کے زون میں ہی تھے۔کبوتر خانہ ممبئی کا اکلوتا ایسا علاقہ تھا جو اسم بامسمی تھا۔ ورنہ اس شہر میں گھاٹ کے بغیرایک گھاٹ کوپرہے۔ چکا چوند روشنی اور فلمی ستاروں کی کہکشاں ہونے کے باوجود ایک علاقہ یہاں اندھیری بھی کہلاتا ہے ۔ مگر کبوتر خانے میں کبوتر بھی تھے اور ان کا خانہ بھی۔ اس وقت میں لوکل اسٹیشن سے باہر نکل کر اسی کی طرف جارہا تھا۔ چاروں طرف انسانوں کا سیلاب تھا۔ سب کے سب یہاں اپنی کھال میں مست اور مشغول تھے۔شہر کے اس حصے میں اتوار کو تہوار کی طرح منایا جاتا ہے۔ پاس پڑوس کے سارے مکین خریداری کے لئے یہاں اسی دن کا انتخاب کرتے ہیں۔ کیوں کہ کبوتر خانےمیں سوموار کے دن تعطیل ہوتی ہے۔ لوگوں کے اس جنگل سے بچ بچا کر نکلنا اور اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچنا دراصل ایک بڑا چیلینج ہی ہوتا ہے۔اس کے بعد بھی مطلوبہ چیز نا ملےتو کوفت بنتی تھی ۔مہاویر ٹریڈرس میں شاید کسی عزیز کی موت ہوگئی تھی۔ اس لئے دکان بند ملی۔
میرے پاس اگلی لوکیشن محمد علی روڈ کی تھی۔وہاں تک پہنچتے پہنچتے جیب کی ساری نقدی اور شہر میں موجود نقل و حمل کے تمام ذرائع میرے استعمال میں آچکے تھے۔ سنٹرل اور ہاربر ریلوے پہلے ہی جھیلی جاچکی تھی۔اب ویسٹرن کی باری تھی۔ گرانٹ روڈ پر اترا اور آگے کے لئے ٹیکسی کرلی۔ محمد علی روڈ کافی گہما گہمی والاعلاقہ تھا۔ مکندکی بتائی ہوئی جگہ تک پہنچتے پہنچتے شام کے سائے بھی لمبے ہونے لگے تھے۔ ٹیکسی چھوڑ کر کچھ دور پیدل بھی چلنا پڑا۔وہ ایک نہایت پتلی سی گلی تھی ۔جس کے مدخل پر ایک بہت بڑی اور علاقے کی مشہور ہوٹل تھی۔ ہمہ اقسام کے ذائقے میں لپٹی ہوئی بو اس حبس بھرے ماحول کو قدرے ناگوار بنا رہی تھی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کے گوہر مقصود ہمیشہ اسی طرح کے پر پیچ راستوں اور سنکری گلیوں میں ملتاہے۔ آخرکار وہ بوسیدہ عمارت مل گئی ۔ جو میری ممکنہ منزل تھی ۔تین سیڑھیاں چڑھ کر میں دو بائی آٹھ کے ایک مسطح چبوترے پر پہنچ گیا۔سامنے المونیم کی فریم میں کانچ کا ایک نیا اور خوب صورت دروازہ نسب تھا۔میں اندر داخل ہوا ۔بائیں طرف ایک کاونٹر تھا۔ عمارت باہر سے جتنی بوسیدہ تھی اندر سے اتنی ہی پرکشش اور نئی نویلی نکلی ۔میرے دماغ میں کسی دکان یا ورکشاپ کا تصور تھا ۔مگر وہ تو ایک آفس جیسی کوئی جگہ تھی۔ سامنے ایک دیودار سے بنی کنگ سائز میز لگی ہوئی تھی ۔جس پر ایک کمپیوٹر اور کچھ فائل رکھے ہوئے تھے ۔اس کے دائیں بائیں دو چرمی کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ چہار جانب کی چمک دمک، روشنیاں ، دیوار پر لگی پینٹنگز اور دیودار کا فرنیچر اس کمپنی کے بیلنس شیٹ کی قصیدہ خوانی کررہے تھے۔
چاند کو لوگوں نے اکثرپہاڑوں یا بادلوں کے اوٹ سے نکلتے دیکھا ہوگا۔ لیکن میں نے اسے میزکے عقب سے نکلتے دیکھا تھا۔ شاید وہ اب تک میز کے نیچے ایلکٹرک کے کسی پلگ سے نبرد آزما تھی۔ طرح دارسراپا، گول مٹول چہرہ ، غزالی آنکھیں۔ گلابی ہونٹ اور اس پر کالا تل ۔ سب کچھ منفرد تھا۔ شاید وہ نئی بھرتی تھی۔ جاب کے لئے بھی اور ممبئی کے لئے بھی۔ اس کے سراپے اور زبان میں کوئی یارہ نا تھا ۔ اس کے الفاظ پر ملیالی مانجھا چڑھا ہوا تھا۔پھر بھی بھلے لگ رہے تھے۔ کیوں کہ ان میں شہد کی مقدارمعمول سے زیادہ تھی۔ زبان آئے ، نا آئےخوب صورت چہروں کو اپنی بات سمجھانےاور منانے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی۔ روم نمبر تیرہ کے دروازے تک میں بھی گلابی ہونٹ اوراس کے کالے تل کے زیر سایہ ہی پہنچا ۔
فرنیچر ،پینٹ ، چھت پر لگا جھومر اور سامنے بیٹھا سولنکی، کمرہ نمبر تیرہ کی ہر چیز سے امارت ایسے جھلک رہی تھی، جیسے سب کچھ نوٹ چھاپنے کی مشین سے برآمد ہو ئے ہیں۔بے داغ ارمانی سوٹ ، مکھن جیسا تمتما تا چہرہ، سنہری کمانی کی عینک۔ چھوٹی چھوٹی ترشی ہوئی ہرشد مہتا چھاپ مونچھیں۔ سولنکی نے روایتی تاجرانہ مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا۔ اس سے پہلے کے میں اپنا تعارف کرواتا اس نے پر تپاک انداز میں سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا، اور کہا۔
” معلوم ہے معلوم ہے۔۔۔۔بیٹھو ، آپ کو مکند بھائی نے بھیجا ہے، بروبر نا ۔۔۔۔ لاو اپنا فون دو ۔ "
وہ ایک کاروباری آدمی تھا ۔ کاروباری آدمی زیادہ بولنا اورسننا گھاٹے کا سودا سمجھتے ہیں۔
میرا فون لےکر اس نے چیک کیا۔ اپنا نمبر ڈائل کیا ۔اپنی سیکریٹری کا نمبر ڈائل کیا۔ پھر اپنے کسی دوست کا اور ہر بار گھنٹی مکند کے یہاں بجی۔ دس منٹ انتظار کا کہہ کر وہ اندرونی حصے میں کہیں غائب ہو گیا ۔ جاتے جاتے چائے بھیجنا نہیں بھولا تھا۔ چائے کے ساتھ ریسپشن والی لڑکی بھی آگئی ۔ کچھ کاغذات سولنکی کی میز پر رکھ کر واپس جانے لگی۔ جاتے جاتےخوب صورت اور پیشہ ور مسکراہٹ کی کچھ ادرک میری چائے میں ملا گئی۔چائے نے دماغ کو تر و تازہ کردیا ۔ جب تک چائے ختم ہوتی سولنکی بھی واپس آگیا۔ میرا فون بن چکا تھا۔ آج علاوالدین کے چراغ کو اس کا اپنا جن مل گیا تھا۔فون بھی مل گیا اور محنتانہ بھی بچ گیا۔واہ بھائی مکند تیرے تعلقات شان دار ہیں ۔
میرے پاس بہت سے سوال تھے۔ بہت سی فکریں تھیں۔ بے تحاشہ حیرت بھی تھی۔باہر نکلتے ہی مکند کو فون کرنا بنتا تھا۔
"ہاہا ۔ کچھ نہیں تمھارے فون پر ایک ضدی وائرس کا حملہ ہوا تھا۔ مبارک ہو۔ سولنکی نےاسے نکال دیا ہے۔ اور پانچ سال کے لئے اینٹی وائرس ڈال بھی دیاہے۔ٹینشن نئیں لینے کا ؟ میں ہوں نا۔” دوسری طرف خالص بمبیا اسٹائل میں مکند کے قہقہے تھے۔
"وہ تو ٹھیک ہے۔ مگر وہاں موبائل کی دکان یا ورکشاپ نہیں تھی” مجھے بہت حیرت تھی۔
"بروبر ہے۔ وہ موبائل کی دکان نہیں تھی۔۔۔ مگر وائرس کا کارخانہ تو تھا۔”
” میں سمجھا نہیں۔ ” میری حیرت مزید بڑھ گئی۔
” فکر نا کرو موٹا بھائی۔۔۔۔۔ تم آم کھاو ، پیڑ بہت گنتے ہو” اس نے پھر قہقہہ لگایا۔
” مطلب۔۔۔؟”
"وہ ایک سافٹ ویر کمپنی اور ورکشاپ کے سلسلے کا کنٹری ہیڈ آفس ہے ۔ وہاں ایلکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مرمت ہوتی ہے۔ اس کا سافٹ ویر بنتا ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ افسانہ نگار کے بارے میں :
 نام :تنویر احمد تماپوری
حال مقیم : ریاض سعودی عرب
افسانہ نگار
ہندوپاک کے تمام مقتدر جراید میں افسانوں کی اشاعت ہوتی رہتی ہے
"تریاق” ممبئی اور "اردو فاونڈیشن” ممبئی کے رائیٹرس کلب کی رکنیت حاصل ہے 
"آئی ایف سی ریاض” کے ادبی فورم کے فاونڈنگ ممبر

"دبستان تماپور” کی ادبی تنظیم کے فاونڈنگ ممبر
جراید جن میں اشاعت ہوئی ہے
آج کل —– نئی دلی
ایوان اردو
انشا۔۔۔۔۔ کلکتہ
انتساب
ثالث
شاعر ۔۔۔۔۔۔۔ ممبئی
تریاق
نیاورق
ادب گاوں
تصنیف:”زمین سے بچھڑے لوگ”، جسے اساتذہ اور قاری نے یکساں طور پر سراہا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے