ویلنٹائن ڈے: فریب خوردہ ذہنیت کے غلاموں کا دن

ویلنٹائن ڈے: فریب خوردہ ذہنیت کے غلاموں کا دن


محمد قاسم ٹانڈؔوی

09319019005


تہذیب مغرب کے دل دادہ اور فریب خوردہ ذہنیت کے حامل لوگوں کے پسندیدہ ایام میں سے سال کا ایک خاص دن "ویلنٹائن ڈے” کہلاتا ہے، جس کا انتظار مکر و فریب کے شکست خوردہ اس حیوان نما ٹولہ کو شمسی سال نو کے آغاز ہونے کے بعد شدت و بےصبری سے ہونے لگتا ہے، اور پھر دوسرے مہینے کی 14/تاریخ کو کھلے عام قانون فطرت سے بغاوت، اخلاقی اقدار و روایات کی خلاف ورزی اور سب سے بڑھ کر مذہبی اصول و قیود کا پاس و لحاظ کئے بغیر یہ حیوانی ٹولے کے افراد جن کا شمار انسانی معاشرہ کے رکن رکین کے طور پر ہوتا ہے، وہ پورے سماج کی فوز و فلاح کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اور ایک منظم و صحت مند معاشرے کی تشکیل و ترکیب سے کھلواڑ کرتے ہوئے شرم و حیا کے پردہ کو چاک کرنے کی ہمت و جسارت کرتے ہیں. اس دن سرپھرے لڑکے اور لڑکیوں کا بےمحابہ میل جول اور باہمی طور پر اپنے پیار و محبت کا اظہار و اقرار کرنا، ناجائز و حرام طریقوں کو اختیار کرنے کے بعد فواحش و منکرات کا فروغ اور بےحیائی پر مبنی رسوم کو پروان چڑھا کر جھوٹی محبت کی قول قسمیں اٹھائی جاتی ہیں. اختلاط مرد و زن کی تمیز کئے بغیر چوک چوراہوں پر نیم برہنہ حالت میں ناچ گانے اور حلال و حرام کے مابین کسی بھی قسم کی فصیل قائم کئے بغیر ہوٹل و بار کے اندر باہم بوس و کنار ہونا، کھلے پارک اور عمومی چہل پہل کےلئے مخصوص مقامات پر بیٹھ کر شراب نوشی اور ٹھنڈے گرم مشروبات سے لطف اندوز ہونا، شباب و کباب کی منڈیوں میں پہنچ کر عشق و محبت کی وادی میں غوطہ زنی کرنا اور جھوٹے و من گھڑت قصہ کہانیوں کے بہانے عریاں تصاویر کی نمائش اور برہنہ اجسام کے مناظر کی تشہیر اور فلم بینی کرنے کے بعد ایک دوسرے کو اپنانے کےلئے نامناسب طریقے سے سعی لاحاصل اور ناکام کوششیں کی جاتی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہےکہ: "عریانیت و فحاشی سے منسوب اور نسلِ نو کو ضلالت و گمراہی میں ڈھکیل دینے والے اس دن کا ثبوت نہ تو ہمارے ملک ہندوستان میں رائج کسی بھی مذہب میں ملتا ہے اور نہ ہی دنیا بھر کے مروجہ ان ادیان و مذاہب میں ملتا ہے جن کے ماننے والے کسی بھی کتب و صحیفے کو آسمانی سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوتے ہوں”۔ البتہ اس سلسلے میں جو مبنی بر حقیقت ہے، جس کی تفصیل و توضیح میں ‘وکی پیڈیا’ ایک مہذب معاشرے کی تشکیل جدید، انسانی سماج کو زنا و حرام کاری سے پاک ماحول فراہم کرنے اور عزت و عصمت کی فضا پروان چھڑانے میں پوری انسانی برادری کی جس بہتر انداز میں راہنمائی اور معاونت کرتا ہے وہی سب سے درست اور بھلی بات معلوم ہوتی ہے، اور وہ یہ ہےکہ:
"اس (14/فروری، ویلن ٹائن ڈے) کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں ہے، البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان یہ پائی جاتی ہےکہ تیسری صدی عیسوی میں ‘ویلنٹائن’ نام کے ایک پادری تھے، جو ایک راہبہ کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہوئے، چوں کہ مسیحیت میں راہبوں اور راہبات کےلئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن (راہب) نے اپنی معشوقہ (راہبہ) کی تشفی کےلئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہےکہ 14/فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر اس میں کوئی راہب یا راہبہ صِنفی ملاپ بھی کر لیں تو اس میں گناہ نہیں سمجھا جائےگا۔ چنانچہ راہبہ نے راہب پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں وہی سب کر گزرے، جو آج کا بدمست و سرپھرا نوجوان ٹولہ اس دن کرنے کے فراق و جستجو میں سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ سنئے! کلیسا (مسیحی عبادت گاہ) کی روایات کی اس طرح دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے اس ویلن ٹائن نامی (زانی راہب) کو ’شہیدِ محبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے اس گھنونے کام پر پردہ ڈالنے کے لئے 14/فروری کا دن متعین کیا اور اس کی یاد منانا شروع کر دی۔ چرچ نے اس خرافات یا اس جیسے دیگر گندے و گھنونے کام کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بےراہ روی کی تبلیغ پر مبنی فعل قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس خلاف امر کے واقع ہونے پر مسیحی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت ترین بیانات جاری کئے، یہاں تک کہ "بینکاک سٹی” میں تو ایک مسیحی پادری نے بعض افراد کو اپنے ہم راہ لےکر اس دوکان ہی کو نذرِ آتش کر دیا تھا جس پر ویلنٹائن ڈے کارڈ فروخت ہو رہے تھے”۔
مگر کہتے ہیں ناں کہ "نیکی ایک کوس اور برائی نو کوس چلتی ہے، دوسرے نیکی کو پھیلانے اور اس کو فروغ دینے کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ برائی از خود پھیلتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنے پھلنے پھولنے میں زمان و مکان کی قید سے آزاد، مذہب و علاقہ کی حد بندی سے پاک اور قوم و ملک کی طرف سے عائد کی گئی بندشوں کو قبول کرنے سے عاجز ہوا کرتی ہے، جس کی وجہ سے وہ دن دونی اور رات چوگنی کے حساب سے انسانی سماج کے تمام طبقات و افراد کو اپنی چپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ اس رسم بد کو فروغ دینے، اسلامی تہذیب و تمدن کے دشمن اور فطری کلچر و ثقافت سے خدا واسطہ کا بیر رکھنے والوں نے خفیہ پروپیگنڈے کے تحت عشق و محبت کے نام پر ہمارے ملک ہندوستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں اس کھلی فحاشی اور عریانیت پر مبنی کام کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گئے، جس کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں سے ہمارے یہاں بھی یہ حیا سوز عمل اور قانون فطرت سے متصادم فعل کی انجام دہی ہونے لگی ہے۔
مزید افسوس کی بات یہ ہےکہ: برادران وطن اور دین و مذہب سے بےزار لوگوں کی دیکھا دیکھی کچھ ہمارے بھی مسلم بھائی بہن، خاص کر وہ طبقہ جو عصری درس گاہوں اور اسکول و کالج میں زیر تعلیم ہے، بہت تیزی کے ساتھ ‘ویلن ٹائن ڈے’ کی اس منحوس و مذموم رسم و حرکت کو منانے یا اس تعلق سے منعقد ہونے والی محفلوں میں شرکت کر ویسے ہی گھنؤنے کردار نبھانے اور نمائندگی درج کرانے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، جہاں جھوٹی شان و شوکت اور فضول و بکواس کرکے اولاً ان کو سبز و شاداب باغوں کی سیر کرائی جاتی ہے، اس کے بعد قوم کی کم سن و نوخیز دوشیزاؤں کو عشق و محبت کی پالکی میں جھولا جھلا کر ان کے نازک جسموں کے ساتھ من مانے طور پر کھلواڑ کیا جاتا ہے اور ان کی عزت و عصمت کی چادر کو باری باری سے تار تار کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے "محبت کی منزل زنا نہیں نکاح قرار دی گئی ہے” اور اس سلسلے میں یہاں تک لوگوں کو باخبر کیا گیا ہےکہ: آج کے دن (مکر و فریب والے دن) کا انتظار اگر تم کسی کی بہن بیٹی کو پھول دینے کے واسطے کر رہے ہو تو یاد رکھنا تمہاری بہن بیٹی کو بھی ویسے ہی کوئی اور پھول دینے کا منتظر و خواہش مند ہے۔ بقول حضرت امام شافعیؒ: "زنا ایک قرض ہے، اس کا صدور اگر آج تم سے ہوگا تو کل تمہاری نسلوں سے اس کا بدلہ لیا جائےگا”۔ بےشمار واقعات کتابوں میں ایسے نقل کئے گئے ہیں، جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ زانی اپنے مرنے سے پہلے اس جرم کی نحوست و کراہت کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ضرور دیکھتا ہے، جو اس کے عمل کا ردعمل ہوا کرتا ہے۔ اس مناسبت سے نواز دیوبندی صاحب نے کیا ہی خوب عکاسی کی ہے؂
بدنظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب
اپنی بیٹی کا خیال آیا تو دل کانپ اٹھا

زنا کی اس برائی اور دیگر فواحش و منکرات کے خاتمے نیز گم راہی کی دلدل میں پھنسی انسانیت کو بچانے کےلئے قرآن کریم میں ایک جگہ صاف ارشاد فرمایا گیا ہے، ترجمہ: اور تم زنا کے قریب بھی مت جاؤ، کہ وہ کھلی ہوئی بُرائی اور بُری راہ ہے۔
حرام کاری اور بدفعلی کے سلسلے میں قرآن حکیم کی روشن تعلیمات؛ ہمارے لئے مینارۂ نور ہیں، احادیث مبارکہ میں بیان کردہ ممانعت؛ ہمارے لئے کافی ہیں، اور اس ضمن میں اکابر و علماء کی تشریحات و توضیحات؛ ہمارے لئے نمونۂ عمل ہیں۔ مزید شعبہ صحت و تندرستی پر مامور تنظیموں اور سماجی خدمت گزاروں کی سروے رپورٹس؛ جن کے نقصانات سے آئے دن ہمیں واقف و باخبر کرایا جاتا ہے، اور بار بار انسانی معاشرے کو بیدار و متنبہ کیا جاتا ہےکہ: قانون فطرت سے بغاوت اور حکم شرع کی خلاف ورزی سے دین و دنیا کے نقصان اور چند لمحوں کی لذت کے سوا کچھ اور حاصل ہونے والا نہیں، مبنی بر حقیقت اور چشم کشا فوائد و نقصانات سے پُر معلومات ہوتی ہیں، جن کی گندگی سے بہر طور اپنے دامن کو محفوظ رکھنا اور اپنی ذات کو ان سب منکرات و فواحش سے دور رکھنے ہی میں دنیا و عقبی کی فوز و فلاح مضمر و پوشیدہ ہے۔
(باری تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے، ہمیں صراط مستقیم پر گام زن فرمائے اور صحیح و غلط کے درمیان ہمیں تمیز کرنے والا بنائے، آمین)
(mdqasimtandvi@gmail.com)

محمد قاسم ٹانڈوی کی گذشتہ تحریر : مسائل کا تصفیہ بھی ہوگا اور ملک خوشحال بھی!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے