دریچہ

دریچہ


جاوید اختر ذکی خان

مستقبل میرا
ماضی، آہوں اور غموں کی
دھند کے پردے کے پیچھے سے
ہی آشکار ہوگا
یقین کا چھوٹا سا ہی
ایک دریچہ
جو لوگوں کے چہروں کو
پڑھنے دیتا ہے
اس دریچے سے ہی تو میں
اپنی آرزوؤں کے ہیجان
اور
دل کی امنگوں کی صدائیں
خاموش آسمان کی طرح سنتا ہوں
میں نے اسی دریچے سے
زندگی کا ہر رنگ دیکھا ہے
میں نے اپنے ویرانے سے
پرے جھانک کر جب بھی دیکھا
مجھے چہروں، انسانی چہروں میں
بے پایاں تحیر
مبہوت کن اسرار
اور مستور خزانے
نظر آتے ہیں
میں انسانی چہرے پر
تمام آثار دیکھتا ہوں
میں اس دریچے سے
متحرک دنیائیں
اجرام فلکی کے جھرمٹ
آفتاب و مہتاب
اور ثابت و سیار ستارے
کی کشمکش کو بھی دیکھتا ہوں
میں اس دریچے سے
عالم گیر قانون کی زنجیر
بھی دیکھتا ہوں
جس کی ابتدا اور انتہا
اسرار اور حقائق سے
واقف ہی نہیں

نظم نگار کی پچھلی نگارش :

اے ہم نفس

شیئر کیجیے

One thought on “دریچہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے