ملت کی پریشانی :حل ہے قربانی

ملت کی پریشانی :حل ہے قربانی


حسین قریشی 


ہمیں سمجھنا ہے کہ جس طرح مسلمان جانور کی قربانی سے اللہ عزوجل کو راضی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور دوزخ کی آگ سے نجات پاتے ہیں۔ اسی طرح ہماری دنیاوی زندگی کے رنج و الم ،مصیبت و پریشانیوں اورمسا ئل سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے حال جاری کے میسر وسائل کو قربان کرنے کی عادت اختیار کرنا ہوگا۔ یعنی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اپنے پاس موجود وقت،پیسہ،تجربات اور علم کو استعمال کرکے ، قربان کرکے روز مرہ کے معمولات کا مخصوص چکر  بدلنا ہوگا۔


مذہب اسلام میں قربانی کی نہایت ہی موثر اہمیت ہے۔ اللہ رب العزت کو مسلمانوں کی قربانیاں بہت پسند ہے۔اور اس کی اہمیت بھی اتنی ہی ہے،کیوں کہ کہ قربانی معزز، قابل اور پسندیدہ لوگوں سے ہی مانگی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ بندوں سے قربانی طلب کی۔ قربانی جان کی ، قربانی مال کی،قربانی پسند کی،قربانی موافق حالات کی، قربانی اپنے عزیزواقارب کی اور قربانی اپنے وقت کی۔ ہم تمام جانتے ہیں کہ جو جتنا قریب ترین ہوتا ہے۔ جو جتنا عزیز ہوتا ہے۔ اور جس کا جتنا بلند مقام و مرتبہ ہوتا ہے۔ اس سے قربانیاں بھی اسی شدت سے لی گئی ہیں۔ اس کی سب سے عمدہ مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ میں نے تمام انبیاء علیہ سلام سے زیادہ صبر بھی کیا اور قربانیاں بھی پیش کی۔کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ بھی سب سے بلند و بالا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ قربانی ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ آج کے حالات پر غور کرے۔ اور اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ تو آج وقت پھر مسلمانوں سے اپنی قابلیت کی، اپنی شہرت کی، اپنے تجربات کی، اپنے وقت کی، اپنے مال کی ،اپنی صلاحیتوں کی قربانی چاہتا ہے۔ اگر ہم قربانی پیش کرتے ہیں تو حالات درست و موافق ہو سکیں گے،ورنہ نہیں۔ ہم بہت ورکشاپ ، سیمینار ، پروگرامس کا انعقاد کر رہے ہیں۔ لیکن ان منصوبوں پر عمل آوری کے لئے، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے قربانی دینا ہوگا۔ تب جا کر حالات میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ آج امت کے تعلیم یافتہ و بر سرِ روز گار اور خاص طور پر نوجوانوں کو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کریں. یکسوئی میں غوروفکر کریں۔ سوچیں کہ میرا مقصد کیا ہے؟ میں کس منزل کا راہ گیر ہوں؟ میرے راستے میں کون کونسی رکاوٹیں حائل ہیں؟ اور میں ان سے نپٹنے کے لیے کیا قربانیاں پیش کر رہا ہوں؟ ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم نے منصوبے تیار کر لیے ہیں۔ مقاصد طے کر لیے ہیں ، مگر ان کے حصول کے لئے اپنے پاس وجود ذرائع ، وسائل،لوازمات ،تجربات اور نظریات کی قربانی جس قدر اور جس انداز سے دینا چاہیے تھا،ویسے نہیں دے رہے ہیں۔ عالمی سطح کے اسکولر، ماہرین نے بتایا کہ دنیا میں دو طرح کے انسان بستے ہیں۔ایک بڑے بڑے خواب رکھنے والے اور اسے پورا کرنے کے لئے اپنی جان تک لگانے والے۔اور دوسرے وہ لوگ جو بڑے خواب تو رکھتے ہیں، مگر جو بھی ان کے پاس موجود ہے، اسے قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے روز مرہ کے معمول میں تبدیلی نہیں کرتے ہیں۔ اس دوسری قسم میں زیادہ تر لوگوں کا شمار ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو قربانی کرتا ہے، کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے۔اور ایسے ہی لوگوں نے تاریخ مرتب بھی کی ہے اور بلند مقام پر اپنا لوہا منوایا ہے۔ کسی نے طے کیا کہ مجھے آئے اے ایس افسر بننا ہے۔ اب اسے اس کی مکمل بامنصوبہ طرز پر اپنے پاس موجود وقت ، روپیہ پیسہ، تجربات ،مشاہدات اور دیگر لوازمات کو استعمال کرنا ہوگا ۔اس میں کمی و بیشی کسی دوسرے کو اس کا عہدہ عطا کر دے گی۔اصل میں قربانی ہی کی بدولت دنیا و آخرت کی کامیابی کا حصول ہوتا ہے۔اسے ہمارے نوجوانوں کو بخوبی سمجھ کر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔  دین کے لئے بھی اور ہماری دنیاوی زندگی کو کامیاب ترین بنانےکے لئے اپنے آپ کو قربان کرے،وقف کرے۔ آج ہمارے نوجوان خود کو کم زور ، ناکامیاب ،پریشان حال اور مسائل میں گرفتار محسوس کرتے ہیں۔ تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے اطراف کے ان حضرات کی طرف نظر کریں، جنھیں وہ کامیاب و پر مسرت تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے حالات تفصیل سے معلوم کریں۔ان کی زندگی کی تاریخ کی اوراق گردانی کریں۔ یقیناً ان کی کامیابی کے پیچھے جو راز تم پر افشاں ہوں گے وہ تمھیں ضرور بہ ضرور قربانی پیش کرنے کی موثر ترغیب دیں گے۔ تمھیں اپنے روٹیشن کے افعال میں تبدیلی کرنے کا جنون دیں گے۔ کیوں کہ ہر کامیابی کا زینہ درجہ بہ درجہ مشکلات سے ہی تو گزرتا ہے۔اور مشکلات کی چاہت یہی ہوتی ہے کہ اب تم اپنے افعال کو تبدیل کرو۔ مزید محنت،مزید جدوجہد کرو،اپنے عیش و آرام کو قربان کرو تاکہ تمھیں طویل مدت کے لیے شہرت ، برتری،کامیابی،مسرت اور شادمانی میسر آئے ۔ یاد رکھو وقت پر لیا گیا فیصلہ ہی ایک مدت تک پچھتاوے سے بہتر ہے۔ انسان میں بہت سی صلاحتیں موجود ہیں۔ لیکن یہ مخفی صلاحیتیں اس وقت تک اجاگر نہیں ہوتیں جب تک ہم مشکل یا پریشانی میں نہ پڑیں۔ یعنی ایک نئی الجھن میں خود کو داخل نہ کر لیں۔ تب ہی تو راستہ ملتا ہے۔ اور یہی راستہ اپنے پسندیدہ مقام،اپنے مقصد کی منزل کی تکمیل کرتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے مقصد ، اپنی منزل کو حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بند طریقے سے اپنے موجودہ حال کو وقت کے تقاضوں پر قربان کرنے کی ذہنی تیاری کرنا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ قوی عزم کریں کہ، ہم اپنے دلوں سے آپسی رنجش و عداوت،بغض و کینہ، حسد جلن،نفرت،اور منافقت کی ہمیشہ کے لئے قربانی دے کر اتحاد کے ساتھ قوم وملت کی ترقی کی دلی کوششیں کریں۔ اللہ عزوجل ہمیں دونوں جہان کی خوشیاں و کامیابی عطافرمائے۔آمین
غم و الم سے جو تعبیر کی،خوشی میں نے
بہت قریب سے دیکھی ہے زندگی میں نے

حسین قریشی کی پچھلی نگارش یہاں پڑھ سکتے ہیں : خاموشی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے