اکیسویں صدی میں اردو ناول اور ہمارا معاشرہ

اکیسویں صدی میں اردو ناول اور ہمارا معاشرہ


محمد منظر حسین
شعبۂ اردو، مولانا آزاد کالج،کولکاتا

اکیسویں صدی میں اردو ناول اور ہمارا معاشرہ پر قلم اٹھانے سے پہلے ہمیں خود کے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ کیا اکیسویں صدی اردو ناول کی صدی ہو سکتی ہے یا نہیں۔کیوں کہ ڈپٹی نذیر احمد کے بنائے ہوئے راستے پر آج کا ناول چل پڑا ہے، سر پٹ بھاگ رہا ہے یا ابھی بھی رینگنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہر حال حالات جیسے بھی ہوں ہم اسی معاشرے کی پیداوار ہیں۔
جب ہم اردو ناولوں میں معاشرہ یا تہذیب کی بات کرتے ہیں تو ہمارا ذہن سب سے پہلے اپنی پیاری زبان اردو کی جانب جا تا ہے کہ جس کی خود کی پیدائش ہی سماجی، معاشی و تہذیبی تقاضوں اور عوام کی ضرور ت کے تحت ہوئی ہے۔جو مختلف تاریخی مراحل طے کر تے ہوئے ترقی کی جانب بڑھتی رہی۔کبھی اسے دکنی یاگجری کا نام دیا گیا،کبھی دہلوی یا ریختہ اور کبھی ہندی یا ہندوی کا نام دیا گیا۔ اور بعد میں یہی اردو کے نام سے پورے ملک میں پھیل گئی اور آج اس کی وسعت بیرون ممالک تک جا پہنچی ہے۔شروع میں اس کے ادب کا دائرہ محدود ہی رہا ہو لیکن عوام کے جذبات اور تہذیبی و معاشرتی اثرات کی نمائندگی اس زبان کو ہمیشہ سے حاصل رہی ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
”اردو زبان ہماری پچھلی کئی صدیوں کی کمائی ہے۔ ایسی کمائی جس سے کوئی انصاف پسند، ِِِ نظر نہیں چرا سکتا۔ اہل ظرف جانتے ہیں کہ اردو جینے کا سلیقہ، سوچنے کا ایک طریقہ بھی ہے۔ اردو محض زبان نہیں ایک طرز زندگی، ایک اسلوب زیست بھی اور مشترکہ
تہذیب کا وہ ہاتھ بھی جس نے ہمیں بنایااور سنوارا ہے اور شکل دی جسے ہم آج اپنی پہچان کی ایک منزل سمجھتے ہیں“۔
اسی بات کو ڈاکٹر سجاد حسین اپنے انداز میں کہتے ہیں۔
”اردو کوعالمی زبانوں میں اس لیے منفرد و ممتاز مقام حاصل ہے کہ اسے مختلف قوموں نے اپنا خون جگر دے کرپروان چڑھایا ہے۔اس کے پس منظر میں صدیوں کی ادبی،علمی،تہذیبی اور ثقافتی تاریخ بھی ہے جوہماری قومی وحدت کی میراث اور کثرت میں وحدت کی علامت ہے۔“
میرے مقالے کا موضوع ہے اکیسویں صدی میں اردو ناول اور ہمارا معاشرہ۔ یہ جواردو ناول اور ہمارا معاشرہ کے درمیان میں اور آ گیا ہے جو بظاہر دو نوں کو جوڑتا ہے لیکن کبھی کبھی توڑتا ہوا بھی لگتا ہے۔توڑتا ہوا اس لیے لگتا ہے کہ اور کا مطلب یہ بھی ہو تا ہے کہ اردو ناول اور ہمارا معاشرہ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ہم دو متضاد چیزوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن ایسا ہر گز نہیں کیوں کہ معاشرہ ناول کا ہی ایک حصہ ہے اور ہر ناول کسی نہ کسی معاشرے کی نمائندگی ضرور کر تا ہے۔ممتاز انگریزی نقاد ڈی۔ایچ۔ لارنس نے اس سلسلے میں لکھا ہے۔
”فن کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گرد وپیش پائے جانے والی کائنات کے مابین جو ربط موجود ہے اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے،چوں کہ نوع انسانی قدیم روابط کے رنج و محن میں ہر لحظہ جد و  جہد کر تی رہی ہے اس لیے فن ہمیشہ وقت کے ادوار سے آگے ہوتا ہے جو زندہ لمحے سے منزلوں پیچھے ہوتے ہیں۔“
مزید لکھتے ہیں:
”ناول اس ربط باہم کی جو انسان نے دریافت کیا ہے سب سے اونچی مثال ہے۔“
اس طرح ہم بہ آسانی کہہ سکتے ہیں کہ ہر ناول میں کسی نہ کسی معاشرہ، سماج، تہذیب کی نمائندگی ضرور ہوتی ہے۔ بلکہ ان کے بغیر ناول کا وجود ہی ممکین نہیں ہے۔رچرڈ چیز نے امریکی ناولوں اور اس کی روایات سے بحث کر تے ہوئے نمائندہ امریکی ناولوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
”وہ تخیل جس نے سب سے اچھے اور سب سے نمائندہ امریکی قصوں کی تخلیق کی ہے۔ امریکی تہذیب کے تضادات کی بدولت وجود میں آئے ہیں نہ کہ تہذیب کی یک جہتوں اور ہم آہنگیوں کی بدولت۔“
مذکورہ خیال کو اردو کے ادیب انور پاشا یوں بیان کر تے ہیں:
”یوں تو شعر و ادب خواہ کسی بھی عہد کا ہولازمی طور پر تہذیبی و سماجی سروکار کا پابند ہوتا ہے۔لیکن ناولوں کو اس ضمن میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
ناول کے متعلق یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بغیر تہذیبی و سماجی سروکار کے ناول کی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ناول اپنے آغاز سے ہی انسانی تہذیب و معاشرت کے مشاہد کے ترجمان کی حیثیت سے دیگر اصناف پر فوقیت رکھتا ہے۔“
ناول اور تہذیب و معاشرہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خواہ وہ ناول کسی بھی زبان، ملک، تہذیب و تمدن یا معاشرہ میں لکھا گیا ہو۔تہذیب و معاشرہ کے بغیر ناول کا تصور بھی تقریباً ناممکن ہے۔اردو ناول کی تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ یہ صنف کبھی بھی تہذیبی و معاشرتی ضرورتوں سے غافل نہیں رہی۔ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر آج تک کے سبھی ناول نگاروں نے ان باتوں کا نہ صرف اظہار کیا ہے بلکہ اردو ناولوں کو نئے تہذیبی و معاشرتی ضرورتوں سے مزین کیا ہے۔حتیٰ کہ جب جدیدیت کی تحریک بام عروج پر تھی اور اس وقت ہر قسم کے کمٹمنٹ اور سروکار سے انکار کیا جا رہا تھا اس وقت بھی اردو ناول نے تہذیبی ومعاشرتی ضرورتوں سے اپنا رشتہ ہم وار رکھا۔
بہر کیف جہاں تک اردو ناول کے آغاز و ارتقا کی بات ہے تو اس کی ابتد پہلی جنگ آزادی یعنی ۷۵۸۱؁ء کے بعد ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃالعروس کی اشاعت کے ساتھ ہی ۹۶۸۱؁ء ہو جاتی ہے۔گرچہ نذیر احمد نے اس ناول کو گھریلو ضرورت و اصلاح کی مقصد سے لکھا تھا لیکن اس کے اندر جس اصلاح کو مد نظر رکھا گیا تھا۔ وہ صرف کسی ایک گھر کی ضرورت نہیں تھی بلکہ پورے معاشرے کی ضرورت تھی۔اور اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول کسی ایک گھر کی نہی بلکہ پورے معاشرے کی نمائندگی کر تا ہے۔مجھے عظیم الشان صدیقی کے خیال سے بالکل اتفاق نہیں ہے۔:
”فسانہ آزاد اردو کا پہلا معاشرتی ناول ہے۔ جس میں پہلی مرتبہ معروض کے موضوع اور افراد کے بجائے تہذیب و معاشرت کوناول کا موضوع ومقصد بنایا گیاہے اور ایک وسیع کینوس پر زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔“
ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃالعروس سے اردو زبان و ادب میں ناول نگاری کی ابتدا ہو ئی۔ اس کے بعد مختلف ناول نگار تہذیب و معاشرے کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ناول تحریر کر تے رہے۔ اس دوران حالات اور زمانے کے تغیر نے تہذیب ومعاشرے میں بھی زبردست تبدیلی پیدا کر دی۔ جسے دوسری زبانوں کے ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے ناول نگاروں نے بھی بحسن و خوبی قبول کیا۔
آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں اور یہ صدی پورے طور پر سائنس وٹکنا لوجی کی صدی ہے۔پورے معاشرے میں موبائل،کمپیوٹر،انٹرنیٹ،ٹیلیویژن کا دور دورہ ہے۔سائنس کے ان حیرت انگیز انکشافات نے تمام عالم کی تہذیب ومعاشرے کو نہ صرف متحیر کیا ہے بلکہ یکجا کر دیا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم صرف انٹرنیٹ کے ایک کلک سے سارے عالم کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں اردو زبان میں ناول لکھنے والوں میں پیغام آفاقی، غضنفر، مشرف عالم ذوقی، سید محمد اشرف، شموئل احمد، علی امام نقوی، ساجدہ زیدی، ترنم ریاض، عابد سہیل، نورالحسنین، رحمن عباس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ نئی صدی نے ہمیں بے شمار ترقیاں عطا کی ہے۔ جس سے کم وقتوں میں زیادہ کام ہوتا ہے لیکن اس ترقی نے بیروزگاری میں اضافہ کر دیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی کا ناول ”ذبح“ معاشرے میں پھیلی ہوئی بیروزگاری کی ہی نمائندگی کرتا ہے۔ ناول کے دو کردار چودھری عبدالرشید اور عبدل کا مکالمہ ملاحظہ فرمائیں۔
”مزدوروں نے چاپا کل سے گندے پانی کی دھار نکال دی تھی اب مزدور شور مچارہے تھے۔
چاپا کل عبدل کو خبیث کی طرح نظر آرہا تھا۔
آتے رہنا۔
عبدل کی آواز لڑکھڑائی …… میں کہاں جاؤں گا چودھری صاحب ……
میرا کیا ہوگا؟
تم دیکھتے نہیں ترقی ہورہی ہے۔
چودھری رشید نے خوش ہوکر کہا۔
اب چھوٹے چھوٹے شہرپانی اور بجلی کے معاملے میں خودکفیل ہونے لگے ہیں۔
ترقی ہوگی تو نئی چیز پرانی پڑے گی۔ ایک نئی چیزآئے گی۔
دیکھتے نہیں پہلے جوتے چمار سے خریدتے تھے اب الگ الگ کمپنیاں آگئی ہیں۔ نئے نئے ماڈل کے جوتے۔“

ذوقی کا ہی ناول ”پوکے مان کی دنیا“ نے قارئین کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے کیوں کہ اس کے اندر ایک بہت ہی زیادہ ترقی یافتہ معاشرہ کو دکھایا گیا ہے جہاں چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ والدین اس ٹیکنالوجی کے دور میں اتنا زیادہ مصروف ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچوں کے لئے بھی وقت نہیں جس کے ردعمل میں بچے بھی وقت سے قبل ہی بالغ ہوکر بے راہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذوقی کے ناول ”پو کے مان کی دنیا“ میں جب اس قسم کا کیس جج سنیل کمار کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ بچے کو سزا دینے کی بجائے اس معاشرہ کے خلاف فیصلہ سناتے ہیں۔“
”میں پورے ہوش و حواس میں یہ فیصلہ سناتا ہوں کہ تعزیرات ہند دفعہ ۲۰۳؎ کے تحت میں اس نئی ٹکنالوجی، ملٹی نیشنل کمپنیز کنزیومر ورلڈ اور گلوبلائزیشن کو سزائے موت دیتا ہوں۔ہینگ ٹل ٹو ڈیتھ“۔
آج ہم ایک ایسی صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ جہاں سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے لگا ئے جارہے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ جن حقیقتوں کو پریم چند نے اپنے ناولوں میں اجاگر کیا تھا وہ حقیقتیں آج بھی ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ آج  اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے معاشرے میں امیری غریبی، اونچ نیچ، چھوت چھات کی حکومت اب بھی قائم و دائم ہے اور اس وجہ سے آج کے ناولوں میں بھی اس طرح کے موضوعات  اپنائے جارہے ہیں۔ غضنفر کے ناول ”دویہ بانی“ کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
”ہون کنڈ کے چبوترے کے نیچے پتھریلی زمین پر جھگڑوکسی بلی چڑھنے والے جانور کی مانند پچھاڑیں کھارہا تھا۔“
اور جب یہ کربناک غیرانسانی منظر کو انسان کا ہی ایک معصوم بچہ دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے اور سوال کربیٹھتا ہے۔
”بابا اسے پیٹرت کیوں کیا گیا؟
بیٹے اسے دنڈ دیا گیا۔
دنڈ
ہاں دنڈ۔
پر کیوں بابا؟
اس نے اپرادھ کیا ہے ودھان کو توڑا ہے۔ مریادا کو بھنگ کیا ہے۔
کون سا ودھان، کون سا مریادا
اس کا جواب بابا کے پاس نہیں تھا۔ شاید کسی رشی منی کے پاس بھی نہیں۔ “
تقسیم ملک نے ہمارے ادیب کو ایک موضوع عنایت کیا تھا اور ایک زمانے تک اس موضوع پر افسانے اورناول لکھے جاتے رہے۔ لیکن اس تقسیم سے جو دو قوموں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی گئی تھی آج تقریباً ٧٠/سال کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی جوں کا توں برقرار ہے۔ اور اس میں اکثریتی فرقے کے ذریعہ اقلیتی فرقے کو طرح طرح سے ستایا جارہا ہے جسے آج کے تقریباً تمام ناول نگار اپنے ناولوں کا موضوع بنارہے ہیں۔ غضنفر کے ناول ”وش منتھن“ کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

”یہ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں آخر ہم نے ان کا بگاڑا کیا ہے۔ کیوں یہ ہمیں آئے دن ذلیل و خوار کرتے رہتے ہیں۔ کیوں ہمیں اس ملک کا دشمن سمجھتے ہیں۔ کیوں ہمیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔“
بٹو پھر آگے بولتا ہے۔
بھیج دیجئے تھانے میں۔ دے دیجئے پولس کو میں نہیں ڈرتا تھانہ پولس سے اور کیوں ڈروں میں نے کوئی کرائم نہیں کیا ہے۔ عجب دھاندلی ہے جس جس نے مجھے گالی دی۔ جتنوں نے مجھے ٹارچر کیا۔ مار مار کے میرا منھ سجادیا۔ میری پیٹھ زخمی کردیا۔ ان سے تو کچھ نہیں کہا جارہا ہے الٹا مجھ بے قصور کو تھانہ پولس کی دھمکی دی جارہی ہے۔“
آج ہندوستان میں روز بروز مسلمانوں کے لئے زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ انہیں دہشت گرد تصورکیا جارہا ہے۔ انہیں شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ ہمارے ساتھ ہماری زبان بھی تعصب کی شکار ہورہی ہے یہی وجہ ہے کہ  عوامی جگہ جیسے بس ٹرین وغیرہ میں اگر آپ کے ہاتھوں میں اردو اخبارو رسائل ہے تو مختلف نگاہیں عجیب و غریب انداز میں تکنے لگتی ہیں۔ نیز ملک کی تقسیم کا ہمیں ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور ہمیں ملک دشمن اور باہری بتایا جاتا ہے۔غضنفر کے ناول وش منتھن کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”ہمیں بار بار یہ احساس کیوں دلایا جاتا ہے کہ ہم یہاں کے نہیں ہیں؟ ہماری بات پر یہ یقین کیوں نہیں کرتے کہ ہم بھی یہیں کی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں جنم دینے والی کوکھ کہیں باہر سے نہیں آئی ہے۔ اس کا جسم تو یہیں کی مٹی سے تیار ہوا تھا۔ اس کے خون میں یہیں کا رنگ شامل تھا۔“
اس ناول میں تضاد و تصادمات ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف بٹو اور اس کے والدین ہیں جو کہ اقلیتی و مظلوم فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں تو وہیں دوسری جانب دینو اور اس کے گرانڈ پا ہیں جو کہ اکثریتی فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دینو، بٹو کا ہم جماعت ہے اور  جب اس کے دادا مسلمانوں کے خلاف  اس کے ذہن میں زہر گھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہی ہماری مذہبی عمارتوں کو مسمار کیا، عورتوں کی عزتیں لوٹیں تو اس کا ذہن ان باتوں کو قبول نہیں کرپاتا۔ہاں اس کے ذہن میں مسلمانوں کے ذریعے تعمیر کی گئی چند عمارتیں آجاتی ہیں اور وہ اپنے گرانڈ پا سے سوال کربیٹھتا ہے۔
”گرانڈپا! ہمارے لوگوں نے اپنی عورتوں کی عزتیں کیوں لٹنے دیں؟ انہوں نے ان کو بچایا کیوں نہیں؟ وہ اتنے زیادہ تو نہیں رہے ہوں گے کہ ان سے اپنی عورتوں کی عزت بچاناImpossible تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن عورتوں کی عزتیں لٹیں ہم انہیں بچانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ سننے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ہم خود بھی ان کی عزت سے کھلواڑ کیا کرتے تھے اور ہمارے ہی ڈر سے وہ ان کی پناہ میں گئیں۔“
آج کی نسل ہر چیز میں انٹرٹینمنٹ تلاش کرتی ہے۔ اور وہ اپنے ماحول ومعاشرے میں کبھی بھی یکسانیت نہیں چاہتی ہے بلکہ ہمیشہ اس میں تبدیلی چاہتی ہے اور ان باتوں کا پورا پورا خیال ہمارے ناول نگاروں نے رکھا۔ مثال کے طور پرہم فہمیدہ ریاض کے ناول ”گوداوری“ کے درج ذیل اقتباس کو دیکھ سکتے ہیں جس میں انہوں نے قدرت کی عکاسی کی ہے۔
”دائیں طرف دور جامنوں کا جھنڈ تھا جن پر لنگور قلانچیں بھر رہے تھے۔ احاطے میں سہ پہر کی کمزور پڑتی دھوپ پھیلی تھی۔ اس نے (ماں نے) احاطے کی وسعتوں پر نظر ڈالی۔ ارے یہاں تو ایک جھولا بھی ہے۔ بچپن کی کوئی امنگ سرک کر اس کے بدن میں سماگئی۔ ما جھولے میں جھولی۔ اس وقت یہاں کوئی نہ تھا۔ مگر انجان بدن نے امنگ بھرے دل کا ساتھ نہیں نبھایا۔ لمبی اور اونچی پینگ لینے سے ماں کا سر چکرانے لگا۔ جھولے سے اتر کر وہ گھاس کے تختے پر بیٹھ گئی، جو خودرو، سبز چیتھروں کی طرح ادھر ادھر بکھری تھی۔ سرخ مٹی میں، اسے سبزہ بہت خوبصورت لگا۔ اس نے ولا پر نظر دوڑائی۔ ولا سے متصل آؤٹ ہاؤس تھے۔ دو میں تالا پڑا تھا۔ ایک کوٹھری کھلی ہوئی تھی جس کی چمنی سے دھواں اٹھ رہا تھا“۔
اکیسویں صدی میں اردو کے سب سے اہم ناقدشمس الرحمن نے بھی ناول نگاری کے فن میں طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے اردو ادب کو ”کئی چاند تھے سر آسماں“ جیسا ضخیم ناول دیا ہے۔ یہ ناول اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ہند اسلامی تہذیب و معاشرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ جس میں اس وقت کے تمام سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی حالات کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا۔ مغل بادشاہوں کا بھی ذکر آیا ہے۔ ناول کا ایک بڑا حصہ فارسی اور اردو شعر و ادب سے بھرا ہوا ہے۔ اور اس زمانے کے علم و ادب کا ذکر بھی بہت ہی اچھے انداز میں کیا گیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
”حق یہ ہے کہ عرفی کے مضمون کی نزاکت، اور اس سے بڑھ کر معنی کے امکانات کی وسعت ایسی ہے کہ داغ کا شعر بظاہر پھیکا اور گھریلو معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہی گھریلو پن اس معاملے کی جان ہے۔ اور ”انداز“ کے لفظ گھریلو پن ”شیوا“ کے مقابلے اپنے حسن کو منوا رہا ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر جی جانتا ہے اس قدر بے تکلف اور محاورتی زور رکھتا ہے کہ زبان ہندی کے اعجاز اورہندی کے شاعر کے اعجاز پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ سہل ممتنع کا جو طرز بعد میں داغ کی شاعری کا امتیازی نشان بنا، درحقیقت شروع ہی سے ان کے یہاں موجود تھا۔ جس کی وجہ سے غالباً فاطمہ کا عشق ہی تھا کہ جوانی کے برگ و بار لاتے ہوئے قادرالکلامی کے مزے اٹھاتے ہوئے اس نوبادۃء حدیقہء شعر و سخن کا جی چاہتا تھا کہ غیر پیچیدہ اور غیر استعاراتی، غیر رسمی زبان اپنے معشوق سے اپنے دل کا حال کہے۔“
پروفیسر محمد حسن نے ٢٠٠٣ء میں ”غم دل غم وحشت“ کے عنوان سے ناول لکھا۔ یہ ناول اردو کے سوانحی ناولوں میں سے ایک اہم ناول ہے جو دراصل اسرارالحق مجاز پر لکھا گیا ہے۔ اس میں نوجوانوں کے جوش و لولے میں بدلتے ہوئے رحجان کی عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح سے ہر کوئی اپنے معاشرے میں پریشان ہے۔ لیکن اگر کسی کے پاس اس پریشانی کا حل بھی ہے تووہ اپنی ہی زندگی میں مصروف ہے۔ اسے اپنے معاشرے، تہذیب اور سماج کی کوئی فکر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب ایک مشاعرہ میں مجاز، آل احمد سرورؔ کو شکست دیتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ تو معمولی شکست ہے۔ زندگی کو کس طرح شکست دیا جائے۔ اس طرح سے اس ناول میں ایک نیا احساس اور ایک نیا مسئلہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
”سمندر کی گہرائی اور Atmosphere کی دبازت ناپنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسانی زندگی کی گہرائیوں کو ناپا جائے۔ کہاں تک دکھ کی پنہائی۔ کس منزل تک جاتا ہے درد اپنی انتہائی شکل میں اور اس کا رشتہ کیا ہے نشاط سے اور یہ درد و نشاط کے رشتے کیسے اور کہاں ملتے ہیں۔ زندگی کے معنی ان رشتوں کی دھوپ چھاؤں میں سمجھے جاسکتے ہیں۔“

عبدالصمد نے بھی ہمارے اردو ادب کو کئی شاہ کار ناول دیئے ہیں جس میں سب سے اہم ”دو گز زمین“ہے۔ اس کے علاوہ ”مہاتما“،مہا ساگر، خوابوں کا سویرا۔دھمک۔ ان تمام ناولوں میں اس وقت کی سماجی، معاشرتی، سیاسی، تعلیمی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔لیکن ناول ”مہا تما“ کا موضوع دوسرے تمام ناولوں سے جد ا ہے۔ اس میں ”درس گاہوں کا پامال ہوتا ہوا تقدس“ کو موضوع بنایا گیا ہے۔طلبا،اساتذہ اور انتظامیہ کے درمیان ہونے والے اختلاف سے جو تعلیمی نقصان ہوتا ہے اسے بہت ہی تیکھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اور شاید اس کی سب سے بڑی وجہ مصنف کا خود بھی درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہونا ہے۔اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے وہ خود بھی کافی عرصے تک انتظامیہ میں شامل رہے۔ لیکن جب وہ تعلیمی میدان میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکے تو ذہنی طور پر پریشان ہو کر پرنسپل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔اور انہی باتوں کو ناول ”مہاتما“ میں پیش کیا ہے۔ بطور نمونہ اقتباس پیش کر رہا ہوں۔
”آج سماج میں خاص کر تعلیمی اداروں میں جو سچویشن پیدا ہو گئی ہے اسے روکنا یا اسے کوئی دوسرا موڑ دینا ہمارے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔“
اس ناول کا مرکزی کردار،راکیش جب تعلیمی اداروں میں ہونے والی بدعنوانی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو تعلیمی اداروں کے مافیا اسے بھی بدعنوانی کے جال میں پھنسا دیتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
”راکیش ایک کنویں میں گر کر پھر وہاں سے رستم کی طرح تڑپ کر کے باہر نکلا۔۔۔۔۔۔اسے کیا معلوم تھا کہ گھاس پھوس کے پیچھے خسرونے مسلسل سات کنویں کھدوا رکھے ہیں۔اکیسویں صدی کے بڑے سے پھاٹک پر پڑا بڑا سا تالہ لگا تھا کیوں کہ راکیش اور اس کے ساتھیوں کو اکیسویں صدی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
آج ہمارا معاشرہ مکمل طور پر جنسیت کا شکار ہے۔ہر جانب جنسی بے راہ روی عام ہے۔آئے دن اخبارات اور ٹیلی ویژن میں اس طرح کی خبروں کی سرخیاں نظر آتی رہتی ہیں۔ اس طرح کے جو بھی واقعات رو نما ہو رہے ہیں اور عورتیں یا بچیاں اس کی شکار ہو رہی ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ شکار کرنے والے اکثر لوگ اپنے قریبی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں۔ہم آج بھی دہلی کے اس خوف ناک حادثے کو نہیں بھلا پا رہے ہیں اور آج بھی روزانہ،نہ جانے اس قسم کے کتنے حادثات رونما ہو رہے ہیں۔مشرف عالم ذوقی نے اپنے ناول ”لے سانس بھی آہستہ“ میں جنسیت کو اجاگر کیاہے۔اس کہانی میں ناول کا کر دار نور محمد اپنی ذہنی معذور بیٹی”نگار“ کے ساتھ مباشرت کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے۔اور اس کا ذمہ دار ایک ایسا لڑکا ہے جسے نور محمد نے اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دی۔ حیرت ہے نور محمد نے ایسا صرف اس لیے کیا کہ اس نے اپنی بیوی کو مرتے وقت وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی تمام خواہشات کو پوری کرے گا۔ مشرف عالم ذوقی نے معاشرے میں ہونے والی جنسی بے راہ روی کی عکاسی کر کے ہمارے سماج پر بھر پور طمانچہ مارا ہے۔
سیاست کا ذکر کیے بغیر اکیسوں صدی کا معاشرہ مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔آج ہمار ا معاشرہ بہت زیادہ ہی سیاست زدہ ہو گیا ہے۔ہر فرد سیاست زدگی کا شکار ہے۔یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔جہاں لڑائی جھگڑا، فسادات وغیرہ ہو رہے ہیں۔معروف ناول نگار ”عبدالصمد“ نے اپنے ناول ”دھمک“ میں معاشرے میں سیاست کی موجودگی کو بہت ہی اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
”آج کی زندگی میں سیاسی عوامل کا بہت گہرا دخل ہے،کیوں کہ یہ ایوانوں اور فکروں میں مقید ہیں۔ہر وہ سانس جو انسان کے اندر جاتی ہے اور ہر وہ سانس جو اندر سے باہر آتی ہے سیاسی عوام سے متاثر ہے،چوبیس گھنٹوں میں ہم کتنی بار ان کے بارے میں سونچتے اور باتیں کر تے ہیں۔ سیاست انسان کو بہت عزیز ہے اور سیاست سے وہ نفرت بھی کرتا ہے۔ سیا ست نے آج ہم کو چاروں طرف سے یوں حصار میں لے لیا ہے کہ ہم اس سے بھاگنا بھی چاہیں تو نہیں بھاگ سکتے۔“
آخر میں میں اس بات کے ساتھ اپنا مقا لہ مکمل کر تا ہوں کہ آج ہمیں ایک ایسے معاشر ے کی ضرورت ہے جہاں ایسی نسل تیار ہو جس کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا ہو کیوں کہ افسوس اس بات کا ہے کہ نئی نسل خواب تو بہت اونچا دیکھتی ہے لیکن اس کی تعبیر کے لیے کوشش نہیں کرتی۔ امید ہے کہ اکیسویں صدی میں لکھے جانے والے ناولوں کے ذریعہ ہماری نئی نسل کی ذہنی آبیار ی ہو گی تا کہ اس صدی کو نئی نسل کی صدی کے ساتھ ساتھ ناولوں کی صدی کہنے پر ہم خود کو مجبور کر سکیں۔


Md. Manzar Hussain
Department of Urdu
Maulana Azad College, Kolkata

موصوف کا پچھلا مضمون یہاں پڑھ سکتے ہیں : اردو تنقید کا شمس : شمس الرحمن فاروقی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے