مغربی بنگال کے انتخاب میں مسلم پارٹیوں کا ڈر کیوں

مغربی بنگال کے انتخاب میں مسلم پارٹیوں کا ڈر کیوں

محمد شمشاد


ہندوستان میں مغربی بنگال، آسام، کیرالہ،اتر پردیش،مہاراشٹرا اور بہار یہ ایسے صوبے ہیں جہاں کی جیت اور ہار ملک کی سیاست کے رخ کو طے کرتی ہیں. بہار اسمبلی کا الیکشن ہو چکا ہے. کچھ ہی دنوں میں مغربی بنگال اور آسام میں انتخاب ہونا ہے. اس کے بعد کیرالہ اور اترپردیش میں بھی انتخابی عمل شروع ہو جا ئے گا. 
بھاجپا صرف مغربی بنگال ہی نہیں ہر صوبائی اور قومی الیکشن کو کسی بھی قیمت پر جیتنا چاہتی ہے چاہے اس کے لئے اسے کچھ بھی کرنا پڑ ے. ایک طرف وہ ووٹروں کے درمیان ہندو،مسلم، سیکھ،عیسائی اور لو جہادکا نعرہ دے کر فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا چاہے گی جب کہ دوسری جانب ہندوتوا کے کارڈ کھیل  کرہندو ووٹروں کا پولرائزیشن کرنا چا ہے گی، تاکہ ہندوؤں کا زیادہ سے زیادہ ووٹر اندھ بھکت بن کران کی جھولی میں جا سکے. اس کے علاوہ بھاجپا اس بات کی بھی پوری کوشش کرتی ہے کہ کسی بھی طریقہ سے سیکولر ووٹر تقسیم ہو. 
ملک کی سبھی پارٹیاں بھاجپا کے اس منصوبہ سے باخبر ضرورہیں کہ وہ سیکولر ووٹوں میں تقسیم چاہتی ہے اس کے باوجود وہ متحد ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتی ہیں. انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم سے سیدھے طورسے بھاجپا کو فائدہ پہونچے گا اور انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھا نا ہو گا. لیکن ہر انتخاب میں ان سبھی سیکولر پارٹیوں کی نگاہیں مسلمانوں پر مرکوزہوتی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کاصد فی صد ووٹ صرف اسے ہی ملے. جب کہ وہ مسلمانوں کو من پسند امیدوار بھی دینا نہیں چاہتیں اور نہ ہی انہیں کوئی مقام. اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کو اپنی حکومت میں حصہ دار یا ساجھی دار بھی نہیں بنانا چاہتی ہیں. آخر ایسا کیوں؟ 
 سوال یہ ہے کہ کیااس ملک کا مسلمان صرف ووٹ دینے کے لئے پیدا ہوا ہے. کیا وہ صرف ایک بندھوا ووٹر بن کر رہ گیا ہے کہ جب جس کا جی چاہے ایک دو لبھاونے دے کر اسے اپنی پالے میں کرلے جائے. دوسراسوال یہ بھی اٹھنا لازمی ہے کہ کیا مسلمان اپنے کو اتنا طاقت ور اور مضبوط نہیں بنا سکتے ہیں کہ ان پارٹیوں کو مسلما نوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جاسکے کہ وہ ان کی شرائط کو قبول کریں. مسلم حلقوں میں مسلمانوں کے مطابق، ان کے من پسند اور سیکو لرامیدوار وں کو میدان میں اتار سکے. ساتھ ہی ان مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لئے کوئی مستحکم منصوبہ و پالیسی تیار کر سکے. 
کشمیر کے علاوہ ملک بھر میں مسلمانوں نے کئی پارٹیاں بنائی ہیں. یہ سبھی پارٹیاں سیکولر ہیں. جہاں ہندوستان کی خواتین، دلت،پسماندہ ذاتوں کو مناسب نمائندگی دینے کی وکالت کی گئی ہے، ان پارٹیوں میں مذہب وملت اور ذات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتی جاتی ہے. اسدالدین اویسی کی اتحادالمسلمین(MIMI) جو کبھی صرف اندھرا پردیش تک محدود تھی، اس وقت تلنگانہ حکومت کی ساجھی دار بھی ہے، اس نے اب مہاراشٹرااور بہار کا راستہ طے کرتے ہوئے مغربی بنگال اوراتر پردیش کا رخ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے. انڈین یونین مسلم لیگ (IUML)، جس کے بغیر برسوں سے کیرالا کی حکومت نہیں بنتی ہے، اب وہ صرف کیرالا میں سمٹ کر رہ گئی ہے. بدرالدین اجمل کی آل انڈیا یونائٹیڈڈیمو کریٹک فرنٹ(AIUDF) آسام میں اپنی قوت دکھا چکی ہے. سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI)جو دہلی، تمل ناڈو، کرناٹک اور کیرالہ کے بلدیاتی انتخاب میں اچھی کار کردگی پیش کرتی رہی ہے. پیس پارٹی اور علما کاؤنسل اتر پردیش میں زور آزمائش کر رہی ہے. اس کے علاوہ ویلفیر پارٹی آف انڈیا (WPI) نے بھی ملک کے کٹی حصوں میں اپنی موجودگی دکھانے کی کوشش کی ہے، لیکن مسلمانوں کی اتنی ساری پارٹیاں ہونے کے باوجودانہیں اس ملک یا کسی بھی ریاست کی پالیسی بنانے میں کوئی حصہ داری،حیثیت یا مقام نہیں حاصل ہے ایسا کیوں؟
کیا ان سیکولر پارٹیوں کو نہیں چاہئے کہ وہ ان مسلم پارٹیوں کے درمیان مل بیٹھ کر کوئی متحدہ منصوبہ تیار کریں. کیرالا میں کسی پارٹی کو بھی مسلم لیگ سے ملنے یا ہاتھ ملانے میں کوئی عتراض نہیں ہے لیکن کیرالا سے باہراس سے پریشانی ہے. اسی طرح آندھرا اور تلنگانہ میں اویسی سے ملنے میں کسی کو پریشانی نہیں ہے جب کہ باہر میں سبھی پارٹیاں اس سے پرہیز کرتی ہیں. بدرالدین اجمل کی آل انڈیا یونائٹیڈڈیمو کریٹک فرنٹ (AIUDF)کے بنا آسام میں حکومت حاصل کرنا کانگریس کے لئے لوہے کا چنا چبانے کے برابر ہے لیکن کانگریس انہیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی ہے. اس کا مطلب صاف ہے مسلمان ان سیکولر پارٹیوں کو ایک بندھوا ووٹر کی طرح ووٹ دیتا رہے، آنکھ بند کر کے ان کی حمایت کرتا رہے اور انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرتا رہے تو بہت اچھی بات ہے. وہ وفادار ہے. ہندوستانی ہے. اور وطن پرست بنا رہتا ہے. لیکن جیسے ہی وہ کسی مسلمان کو اپنا لیڈر یا قاید بنانے کا تصور کرتا ہے اسی وقت وہ آتنک وادی، دیش دروہی،فسادی اور پاکستانی بن جاتا ہے. اور ان کی قیادت کرنے والا شخص سلاخوں کے پیچھے قید کردیا جاتا ہے. ان کی بنائی ہوئی یونیور سیٹیوں، مدرسے اور بڑے بڑے اداروں کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے. ہزاروں مسلم نوجوان صرف اس بنا پر برسوں سے سلاخوں میں قید و بند ہیں کہ انہوں نے اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لئے  آواز بلند کی تھی. آخر ایسا کیوں؟
 ایک مسلم نوجوان صرف مسلمان کا لیڈر بننا چاہتا ہے، ہندوستانی ایوان اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کے مسائل کو پیش کرنا چاہتا ہے، اور حکومت کے سامنے مسلمانوں کے مطالبات کو رکھتا ہے، ان کی فلاح و بہود کی بات کرنا چاہتا ہے، وہ اپنا حق مانگتا ہے، اس سے کہاں ایسی کوئی بو آجا تی ہے جس سے اس ملک کو یا اس ملک میں رہنے والوں کو کوئی خطرہ لاحق ہو. سوال یہ ہے کہ کیا اپناحق مانگنا گناہ ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کب تک مسلمان ان کے نوالے کی جانب اپنی امیدیں اور نگاہیں بچھائے بیٹھا رہے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مسلمانوں کو اپنی قیادت قائم کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھ سکے؟ بہار کی 50 مسلم اسمبلی میں سے صرف 20 سیٹیں اویسی کی اتحادالمسلمین یاجنتا دل راشٹروادی پارٹی مانگ رہی تھیں، انہیں نہیں دیاگیا، تو اس نے اپنی پانچ 5 اسمبلی جیت کر مہا گٹھبندھن کو 20 – 22 پر نقصان پہنچا دیا. اگر مغربی بنگال میں ویلفیر پارٹی اور اتحادالمسلمین کو 30 – 40 سیٹیں نہیں ملتی ہیں تو وہاں ترنمول کو کم سے کم 50 – 60 سیٹوں کانقصان ہونا طے ہے. اب سیکولر پارٹیوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں؟ مغربی بنگال میں بھاجپا کو لانا ہے تو وہ اویسی اور ویلفیر پارٹی کو در کنار کردیں یا انہیں اپنے ساتھ لے کر اپنی حکومت برقرار رکھیں. 
مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 27.01%فیصد ہے. اس کی294 اسمبلی میں سے 218 سیٹیں ایسی ہیں جہاں کافی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور ان کی جیت، ہار میں اثر رکھتے ہیں. واضح رہے کہ مغربی بنگال میں 125 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کے بنا کوئی جیت نہیں سکتا ہے. قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ان 125 حلقوں میں سے 90 اسمبلیوں پر 2016 میں ترنمول کانگریس کی جیت ہوئی تھی. 
ایک فیصد یہ مان لیا جائے کہ اسدالدین اویسی بھاجپا کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان پر بے تکااور بے بنیاد الزام ہے جسے بھاجپا ئی رہنما دبے لفظوں میں بیان کرتے ہیں، ہر کوئی مانتا ہے کہ اب تک بھاجپا اس بات کی کوشش کرتی رہی ہے کہ کسی طرح اتحادالمسلمین ہر الیکشن میں حصہ لیتا رہے تاکہ  ان کے بڑبولے و جذباتی بیانات کو اچھال کرسیکولر حکومتوں کو ہرانے میں اسے مدد ملتی رہے. یہ حقیقت ہے کہ بہار میں پانچ اور مہاراشٹرا میں دو سیٹوں پر کامیابی ملنے کے بعداسدالدین اویسی اور ان کے مقامی رہنماؤں کے حوصلے بلند ضرورہیں اور انہوں نے اس ملک کی کئی ریاستوں میں الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے، جس میں مغربی بنگال بھی شامل ہے، لیکن اس کا مطلب قطعی یہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ وہ بھاجپا کے اشارے پر ہر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں. 
اتحادالمسلمین کے اویسی اورویلفیر پارٹی کے قاسم رسول الیاس سے بھی یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ انہیں یکایک مغربی بنگال کے مسلمانوں کا خیال کیسے آگیا اور وہ بھی الیکشن کے زمانے میں ہی کیوں یاد آگئے ہیں؟ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے دور حکومت میں چھوٹے بڑے بہت سارے فسادات ہوئے ہیں. اس کے علاوہ  ممتا بنرجی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے ملی، سماجی و ثقافتی، سارے مسائل اب بھی جوں کے توں ہیں لیکن اس وقت مسلمانوں کے مسائل کو دیکھنے اور سننے والا کوئی نہیں تھا. نہ پیر کا پتہ تھا نہ ہی کوئی مرید کی خبر تھی اورنہ کسی رسول کا، آخر ایسا کیوں؟کہاں تھے وہ سارے لوگ؟۔
اسدالدین اویسی کو بھاجپا کا مد مقابل کھڑا کرنے میں گودی میڈیا کا بڑا رول رہا ہے. اس سے کہیں زیادہ ان کے بھائی اکبرالدین اویسی اور ان کی پارٹی کے بڑبولے ترجمان وارث پیٹھان جیسے لوگوں کا بھی بڑا کارنامہ رہا ہے. یہ حضرات صرف مسلمانوں کو ہی نہیں ہندو فرقہ پرستوں کو بھی بے مطلب للکارتے رہتے ہیں. حیدرآباد کا بلدیاتی الیکشن ہو یا بہار اور مہاراشٹرا کا اسمبلی الیکشن ہو، اس میں دوسری سیکولر پارٹیاں بھاجپا کے مقابلےمیں  تھیں لیکن پولرائزیشن کے لئے اسدالدین اویسی بلا وجہ مودی، یوگی، امیت،شاکشی،سوریا کو للکارتے رہے اور ان کے اس جذباتی بیانات کوہوا دے کر بھاجپاووٹ پولرائز کرنے میں کامیاب ہو گئی. اوراس پولرائزیشن سے بھاجپا کوزیادہ سے زیادہ سیٹیں مل گئیں. ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کوایسا محسوس ہوتا ہو کہ بھاجپا اور اتحادالمسلمین ایک دوسرے کی ضرورت ہیں جو بالکل غلط ہے
اگر کچھ مسلمان اسدالدین اویسی، بدرالدین اجمل، سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی یا ویلفیرپارٹی کو جتانا چاہتے ہیں تو اس میں بری بات کیا ہے. یہ  ان کا حق ہے وہ جسے چاہیں اپنا لیڈر بنائیں. ہو سکتا ہے اویسی اور ویلفیر پارٹی کے آنے کے بعد مغربی بنگال کا بھی وہی حال ہو جو بہار کا ہوا ہے. انہیں بنگال کی دو چار سیٹوں پر کامیابی مل بھی پائے گی یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے. مگر جس طرح مہاراشٹرا میں اتحاد المسلمین کے بنا پر کانگریس اور راشٹروادی کانگریس کو حکومت بنانے میں مشکل آئی ہے اسی طرح بہار میں اتحادالمسلمین کو صرف پانچ سیٹیں  ہی مل پائی ہیں، لیکن اس نے راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کو بہار کی اقتدار سے کوسوں دور کردیا ہے. شاید اب انہیں اس بات کا احساس ہوچکا ہو گا. ویسے دبے الفاظ میں تیجسوی یادو اس بات کا اقرار بھی کر رہے ہیں کہ انہوں نے اویسی کو اپنے ساتھ نہ لے کر بڑی بھول کی تھی. 
اس طرح کے اقدام کو مسلمانوں کے لئے بہت بڑا نقصان کا سودا تسلیم کیا جاسکتا ہے، اگر مسلمان عقل اور حکمت سے کام نہیں لیں گے اور گزشتہ الیکشن کی طرح ہوش اور حکمت سے کام لے کر متحد ہوکر ووٹ نہیں کریں گے تو ممتا بنرجی کی حکومت سے بھی بہت زیادہ ان پر ظلم و ستم بڑھ جانے کا اندیشہ ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک مسلم عوام اور مسلم قایدین  ہاتھ پر ہاتھ رکھ کران سیکولر پارٹیوں کی راہ دیکھتے رہیں گے؟ 
محمد شمشاد
A-169/2,A.F.Enclave-2,Jamia Nagar,New Delhi-110025
موبائل نمبر +91-70115959123 – 9910613313:



شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے