جیفری چاسر: انگریزی زبان کا پہلا شاعر

جیفری چاسر: انگریزی زبان کا پہلا شاعر


وقاراحمد ملک

جیفری چاسر انگریزی ادب کا پہلا بڑا شاعر ہے جس نے انگریزی زبان کی منفرد پہچان میں اہم کردار ادا کیا۔ چاسر کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ اس کی تعلیم کے بارے کچھ معلوم نہیں۔کچھ دستیاب ڈاکومنٹس سے ایک موہوم سی تصویر بنتی ہے جس کے مطابق چاسر کی پیدائش 1340 میں اور وفات ساٹھ سال کی عمر میں 1400 میں ہوئی۔چاسر کا والد ایک معولی شراب کا تاجر تھا لیکن 1349 میں پھیلنے والی خوفناک اور تباہ کن طاعون کی وباکی بنا پر اس کے قریبی عزیز کا انتقال ہوا اور چاسر کے والد کو ایک بڑی رقم ورثہ کے طور پر ملی جس سے اس کی زندگی بدل گئی۔ اس دولت نے نوجوان جیفری کو خاندانی پیشے یعنی تجارت سے باز رکھا۔جیفری چاسر نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور ترقی کرتے کرتے شاہ ایڈورڈ سوم کے دربار تک رسائی حاصل کی۔
چاسر کے زمانے میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہور سو سالہ جنگ لڑی گئی ۔ اس جنگ میں چاسر نے سپاہی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ چاسر ایک پڑھا لکھا شاعر تھا۔ وہ بیک وقت فرانسیسی، اطالوی، لاطینی اور انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتا تھا۔ اپنی اس قابلیت کی بنا پر وہ دو دفع اٹلی میں سفیر کے طور پر بھیجا گیا۔ غالب امکان ہے کہ ان دو دوروں میں اس کی ملاقات اٹلی کے اس دور کے قومی شاعر بوکیچیوسے ہوئی ہو گی۔ جس کی تحریروں نے بطور شاعر چاسر کی کافی حد تک معاونت کی۔
چاسر کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ جاتے ہوئے زمانے یعنی قرونِ وسطیٰ اور آنے والے روشن دور نشاة ثانیہ کی درمیانی دہلیز پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی شاعری میں دونوں زمانوں کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی شاعری کی خاص بات اپنے زمانے سے مطابقت ہے۔ چاسر کی مشہورِ زمانہ نظم PROLOGUE TO THE CANTERBUY TALES چودھویں صدی کے برطانیہ کی حقیقی معنوں میں عکاسی کرتی ہے۔ اس نظم کو پکچر گیلری بھی کہا جاتا ہے جس میں اس دور کی ایک ایک تصویر سجا دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی تاریخ کا رسیا چودھویں صدی کے بارے جاننا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ ایک نظم ہی اس کے علم کی پیاس بجھانے کو کافی ہے۔ اس نظم کے انتیس کردار درحقیقت اس دور کے لندن کے چلتے پھرتے عوام ہیں۔ ہر میدان، پیشے اور گروہ کا کم از کم ایک نمائندہ اس نظم میں موجود ہے۔ چاسر نے اس نظم میں انتہائی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے ہر کردار کو حقیقت کے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ہر کردار کو انسان کی بنیادی فطرت کے سانچے میں ڈھال کر تیار کیا گیا ہے ، یوں یہ نظم ہر دور کے لیے جدیدہے اور ہر خطے کے لیے موزوں ہے۔
جیفری چاسر نے 74 نظمیں لکھیں۔ ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاوٗلز سات سو مصرعوں پرمبنی ہے۔یہ نظم ایک ڈریم وژن پر مبنی ہے۔1374 میں سینٹ جارج ڈے کے موقع پر اس وقت کے حکمران شای ایڈورڈ سوم نے چاسر کے لیے زندگی بھر کے لیے ایک عجیب وظیفہ مقرر کیا۔ یہ وظیفہ شاعر کی باقی ماندہ زندگی کے لیے روزانہ ایک گیلن شراب کی فراہمی کا تھا۔ لیکن یہ وظیفہ چار سال بعد شراب کی بجائے کرنسی میں بدل دیا گیا۔ جیفری چاسر نے سیاست کے میدان میں بھی اپنا سکہ جمایا اور 1386 میں برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بنا۔ ان دنوں پارلیمنٹ کا اجلاس سال میں صرف دو مہینے یعنی اکتوبر اور نومبر میں منعقد ہوتا تھا۔
جیفری چاسر کی وفات کا سال 1400 کہا جاتا ہے۔ اس کے کتبہ پر تاریخِ وفات پچیس اکتوبر مذکور ہے۔ چاسر کو لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے کے گوشہ شعرا(poets corner) میں دفن کیا گیا۔ اس گوشے میں ٹینی سن، سپینسر، شیریڈن، کپلنگ،سیموئل جانسن، ہارڈی، ڈرائڈن، چارلس ڈکنز اور ڈرایٹن جیسے نامور ادیب مدفون ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیفری چاسر پہلا شاعر تھا جو اس گوشہ شعرا میں دفن ہوا۔

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں :

وقار احمدملک
ایم اے اردو۔ ایم اے انگریزی ادب۔ ایم فل انگریزی ادب
افسانہ نگار۔ ناول نگار۔
پہلا افسانہ 2000 میں لکھا۔
مکان نمبر N53, محلہ شیرمان خیل میانوالی
لائبریرین گورنمنٹ کالج میانوالی
تخلیقات
سرخ بتی ( افسانوی مجموعہ )
جنگل میں گاؤں ( افسانوی مجموعہ )
رات، ریل اور ریستوراں (ناول)
آدھی رات کا چاند (افسانوی مجموعہ)
علم و عرفان پبلشر ۔ اردو بازار لاہور
جہاں افسانے شائع ہوئے
تسطیر۔ ادب دوست۔ بیاض۔ فانوس۔ اردوڈائجسٹ۔ فیملی میگزین۔ ادبیات۔ سنڈے میگزین نوائے وقت و دنیا اخبار وغیرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے