جے شری رام کے نعرے کی سیاست

جے شری رام کے نعرے کی سیاست

مسعود بیگ تشنہ

کولکاتا میں نیتا جی سبھاش چندر بوس کی جینتی کے موقع پر 23 جنوری 2021 کو وزیراعظم کی سبھا میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کے تقریر کرنے سے پہلے جے شری رام کے نعرے بی جے پی کے چناوی پلان کا حصہ معلوم ہوتے ہیں. یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ ایودھیا کوچ رتھ یاترا میں بابری مسجد میں براجمان کی گئی شری رام کی مورتی کو آزاد کرانے کے مقصد سے جو جے شری رام کےنعرے لگائے گئے تھے اور ساتھ میں اور اشتعال انگیز نعرے بھی جیسے ‘بھارت میں گر رہنا ہوگا – خود کو ہندو کہنا ہوگا’ ،’بھارت میں گر رہنا ہوگا، وندے ماترم کہنا ہوگا’ ، ایک ہندو وادی راشٹر کی بنیاد رکھنے کے لئے لگائے گئے تھے اور جس کا فوری انجام تاریخی  بابری مسجد کا انہدام تھا.
جے شری رام کا نعرہ محض ایک دھارمک نعرہ نہیں رہ گیا ہے. یہ ایک سیاسی نعرہ بن کر اپنی تہذیبی اور دھارمک پہچان بنا چکا ہے. راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سیاسی اولاد بھاجپا( جو کبھی جن سنگھ کے نام سے جانی جاتی تھی) ایک ہندووادی سیاسی پارٹی ہے اور ہندو مذہب اور قدیم ہندو تہذیب (نہ کہ مشترکہ گنگا جمنی ہندی تہذیب) ہی کو باعثِ افتخار اور باعثِ تفریق سمجھتی ہے. نعروں اور نفرت کی سیاست کرتے کرتے اس نے بھارت کے سیاسی نقشہ پر اپنے پاؤں مضبوطی سے جما لئے ہیں. اس سیاسی سفر میں آر ایس ایس کی تقریباً ایک صدی کی زمینی کوششیں بار آور ثابت ہوئی ہیں جو اس کی سارے بھارت میں پھیلی لاکھوں شاکھاؤں سے ممکن ہوا ہے. اور سادھوؤں کی دھرم سنسد، وشو ہندو پریشد اور تقریباً چالیس ہندو وادی زیلی تنظیموں سے. بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد سب سے بڑی شدت پسند مددگار تنظیم ہے. دور دراز کے آدی واسی علاقوں میں تعلیمی مرکز کھول کر تعلیم دینے کے نام پر آر ایس ایس اپنا اصلی ایجنڈا بھی چلاتی ہے. مہاراشٹر میں شیو سینا ایسی ہی ایک شدت پسند تنظیم ہے جو مراٹھوں کے گورو (عظمت) مراٹھا سردار چھتر پتی شیوا جی مہاراج کو سینے سے لگا کر چلتی ہے. شیواجی مہاراج اپنے خود مختارانہ مراٹھا راج کے لئے مغلوں سے بر سرِ جنگ تھے اور گوریلا لڑائی (دھوکہ سے کی جانے والی) کے بنیاد گزار تھے. بعض تاریخ نگاروں نے انہیں پہاڑی چوہا کے خطاب سے بھی نوازا ہے. شیو سینا ایک الگ سیاسی پارٹی ہے جس کے بانی بالا صاحب ٹھاکرے تھے یہ پارٹی مہاراشٹر تک محدود ہے. اس نے مہاراشٹر میں بھاجپا کے ساتھ مل کر چناو لڑا تھا مگر وزیر اعلیٰ شیو سینا کا ہو اس کے لئے اڑ گئی تھی. یہ کانگریس و شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس سے مل حکومت چلا رہی ہے. .
ہاں تو بات جے شری رام کے نعرے کی ہو رہی ہے تو اس سے پہلے ایک بات اور بتاتا چلوں. جے شری رام کا نعرہ ہی سیاست کرنے کے لئے کافی نہ دیکھ بھاجپا نے ہند کی بڑی تاریخ ساز شخصیتوں کو اپنا بنا کر اپنا دکھا کر ہائی جیک کرنا شروع کیا. پہلے سردار پٹیل کو اپنا ہیرو بناکر پیش کیا کہ وہ بھی آر ایس ایس کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور آر ایس ایس کی کئی نامی شخصیات و سویم سیوکوں کو کانگریس میں داخلہ دلایا تھا اور چاہتے تھے کہ یہ سویم سیوک کانگریس میں رہ کر کام کریں. دوسری عظیم شخصیت سوامی وویکانند کی ہے جنہیں بھاجپا نے ہندو چہرہ بناکر پیش کیا کہ وہ قدیم ہندوستانی تہذیب کے پیروکار تھے اور اسے عظیم سمجھتے تھے اور روحانیت اور دھرم کو اس سے جوڑ کر دیکھتے تھے. وہ ایک عظیم ہندو مصلح قوم تھے. جنہوں نے سو سال پہلے شکاگو عالمی کل مذہبی کانفرنس (امریکہ) میں برطانوی ہندوستان سے ویدک دھرم کے نمائندے کے طور پر دیارِ مغرب میں قدیم ہندوستانی تہذیب، ویدک دھرم اور روحانیت کا پرچم بلند کر تہلکہ مچا دیا تھا اور ہندوستان کا نام روشن کیا تھا. ان کی یادگار تقریر لیڈیز اینڈ جینٹل مین کے تخاطب کے بجائے پیارے بیاری بہنوں اور بھائیوں سے شروع ہوا تھا جس نے امریکیوں کا اور سب کا دل موہ لیا تھا. یاد رہے کہ اسلام کی وحدانیت اور غیر بت پرستی کی تعلیم سے متاثر ہوکر آریہ سماج نے ویدک دھرم کی وحدانیت و غیر بت پرستی کو از سرِ نوع دریافت کیا. یہ الگ پہلو ہے کہ مسلمان دینی علماء و عیسائی دینی علماء سے بھی کافی مذہبی مناظرے آریہ سماجیوں نے کئے. تیسری شخصیت جسے اپنانے کی تازہ کوشش چل رہی ہے وہ آزاد ہند فوج کے بانی اور عظیم مجاہد آزادی نیتا جی سبھاش چندر بوس کی ہے. کانگریس نے کیوں کہ اہنسا (عدم تشدد، غیر بغاوتی، غیر فوجی ) کے طریقے کو آزادی پانے کے لئے اپنا سیاسی نصب العین بنا لیا تھا اس لئے نیتا جی کانگریس کا دامن چھڑا کر الگ اپنی راہ ہو گئے. وہ جاپان سے مدد لینے گئے تھے. وہاں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوئے. ان کا مشہور انقلابی نعرہ تھا ‘تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا’. دو سال پہلے سے بھاجپا بنگال میں بھی قدم جمانے کی جی توڑ کوشش کر رہی ہے. نیتا جی کے خاندان سے بھی کچھ لوگوں کو بھاجپا کا ہم نوا بنا لیا ہے.
جن تین شخصیات کی ہائی جیکنگ کی بات کر رہا ہوں ان میں پہلی شخصیت سردار پٹیل کا یادگار مجسمہ اسٹیچو آف یونیٹی (اتحاد کا مجسمہ) 3000 کروڑ کا زرِ کثیر خرچ کر سمندر میں گجرات میں بنایا ہے اور اسے ایک اہم پکنک اسپاٹ کے طور پر ہوائی اور ریلوے لنک سے بھی جوڑ دیا ہے. دوسری شخصیت سوامی وویکانند فاؤنڈیشن کے نام سے ایک عظیم ادارہ غیر سرکاری فلاحی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے. جو بھاجپا کا تھنک ٹینک ہے جس میں زعفرانی نظریہ رکھنے والی قابل ہستیوں کو شامل کیا گیا ہے جو سرکار کی دفاعی اور خارجہ پالیسی بنانے میں بلا واسطہ مددگار ہیں. تیسری شخصیت نیتا جی سبھاش چندر  بوس کی ہے. جس کے لئے ان کی جینتی کے موقع پر کولکاتا 23 جنوری 2021 کو سیاسی بساط بچھائی گئی.
یہ دیکھنے کی بات ہوگی کہ دو سال سے بنگال میں بھی جے شری رام کے نعرے کی گونج لگا لگا کر اور بھاجپا کے جھنڈوں کے ساتھ ساتھ زعفرانی جھنڈے لہرا لہرا کر اور آر ایس ایس کے بنیاد گزار شیاما پرساد مکھرجی کے بنگال میں بھاجپا کس حد تک اپنی زعفرانی پہچان بنا پاتی ہے. جہاں بنگال نیتا جی سبھاش چندر بوس جیسے جیالے مجاہد آزادی کا وطن ہے وہیں نیتا جی کے بھائی کا بھی وطن ہے جنہوں نے دھرم کے نام پر برطانوی بنگال کی تقسیم کی حمایت کی تھی. رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک بار کہا تھا کہ اگر انسانی بھائی چارہ اور قوم پرستی میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو وہ قوم پرستی کو چھوڑ کر انسانیت اور انسانی بھائی چارے کو پسند کریں گے.
شیاما پرساد مکھرجی نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر بنگال میں عارضی سرکار بنائی تھی. یاد رہے دونوں تنظیمیں سیاست میں مذہبی تشخص کی علم بردار رہی ہیں. جہاں تک نیتا جی سبھاش چندر بوس کا تعلق ہے وہ ایسے کسی دقیانوسی بنیاد پرست مذہبی بھرم جال میں پھنسے شخص نہ تھے اور ایک طرح سے ریشنلسٹ تھے. جہاں نیتا جی آزادی کے لئے انگریزوں سے فوجی طور پر لڑ رہے تھے اور انگریزوں کی غلامی کے خلاف اکسا رہے تھے، وہیں آر ایس ایس کھلے بندوں انگریزوں کے ساتھ کھڑی تھی. کھلے ذہن کے لوگوں کی آج بھی کمی نہیں ہے جو سچوں اور منافقوں میں تمیز کر سکے. سیاسی گھوڑوں کی خرید فروخت کے کاروبار کو 2014 میں مرکز اقتدار میں آنے کے بعد سے بھاچپا لگاتار فروغ دے رہی ہے اور یہ کاروبار اب عروج پر پہنچ گیا ہے اور ایک ضروری بدعت کے طور پر بلا اختصاص ہر پارٹی میں پھیلتا جا رہا ہے. وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے نیتا جی جینتی کے موقع پر ان کی تقریر سے پہلے جے شری رام کے نعروں پر اپنا سخت احتجاج جتا کر باہری (بھاجپائی) بنام بنگالی تہذیب کی جنگ کو حتمیٰ شکل دے دی ہے. 
مغربی بنگال میں ہونے والے یہ ریاستی چناؤ ملک کی سیاست کی دِشا (حالت) اور دَشا (سمت) دونوں کا تعین کر سکتے ہیں. یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ کیا تریمول کانگریس کے ساتھ کانگریس ، لیفٹ فرنٹ، سی پی ایم چناوی گٹھجوڑ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹ کٹوا بن کر بھاجپا کو کتنی کامیابی دلاتی ہے؟

مسعود بیگ تشنہ کی غزل یہاں ملاحظہ فرمائیں :رات اتری تھی درمیانی شب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے