ذات میں تیری فنا ہوں تجھ میں ہی شامل ہوں میں

ذات میں تیری فنا ہوں تجھ میں ہی شامل ہوں میں

عمران عطائی، ممبئی



ذات میں تیری فنا ہوں تجھ میں ہی شامل ہوں میں
تو ہے دریائے محبت اور ترا ساحل ہوں میں

تیری باتیں تیری یادیں ہر جگہ ہے تو ہی تو
یہ مقام عشق ہے اور عشق میں کامل ہوں میں

کیا بتاؤں اس طرف کتنی اذیت ہے صنم
عشق میں ٹوٹا ہے دل زخموں سے بھی گھائل ہوں میں

ٹوٹ کر چبھ جائے گا یہ خواب تو میرے نہ دیکھ
"اپنی آنکھیں مت گنوا اک خواب لا حاصل ہوں میں”

کیوں نہ ہوتا دل مرا گھائل تری دیدار سے
تو سراپا حسن ٹھہرا اور سادہ دل ہوں میں

تجھ کو یادوں میں بسا کر چومتا ہوں تیرے لب
ایک طرفہ پیار میں بھی اس طرح شامل ہوں میں

لوگ کہتے ہیں عطائی عقل سے کچھ کام لے
عقل کہتی ہے یہ مجھ سے عشق کا قائل ہوں میں

شاعر کا مختصر تعارف :
نام : محمد عمران انصاری انور حسین
قلمی نام : عمران عطائی

تعلیمی لیاقت : بارہویں کامرس

عمر: ٢٨ سال

شاعری کی ابتداء : ٣١ اگست ٢٠١٧ کو پہلا شعر لکھا اور تب سے لگاتار غزلیں اور اشعار لکھنے کی عادت ہوگئی ہے..

اساتذۂ کرام جن سے خاص طور پر استفادہ ہوا :
عباس عرش، عزیز ساگر، صدیق اکبر، ڈاکٹر رضی شطاری وغیرہ

رہائش : دھاراوی، ممبئی
رابطہ نمبر : 9076645008

مزید دو غزلیں
1_

وہ جدائی کی گھڑی وہ سانحہ کیسا لگا
"ٹوٹ کر بکھرا ہوا وہ آئینہ کیسا لگا” 

حسن جو دیکھا ہے تونے وہ بتا کیسا لگا
عشق کی تفسیر کا وہ سلسلہ کیسا لگا

حسن کی تصویر تھی وہ یا تھی وہ کوئی غزل
وہ سحر آمیز دل کش دل ربا کیسا لگا

بے وفائی کر کے تونے دل کو زخمی کر دیا
توڑ کے دل کا کھلونا بے وفا کیسا لگا

تجھ کو بھی اے دل ہوا تھا اس کے آنے کا یقیں
تیری اس امید پر پانی پھرا کیسا لگا

دل سے دل کی تھی محبت اور نہ تھی کچھ ہوس
سچے عاشق کا یہ تجھ سے رابطہ کیسا لگا

تیرے حسن ناز کو اس نے بنایا ہے غزل
اس عطائی کی محبت کا صلہ کیسا لگا


2_
ہے اس نادان کا قصہ تمھارے دل لگانے سے
کبھی نظریں چرانے سے کبھی نظریں ملانے سے

ہماری جان لینے پر تکلف یوں نہ فرمائیں
ہماری جان جاتی ہے تمہارے مسکرانے سے

ہماری زندگی کیا ہے تمھاری ہی امانت ہے
یہ لے لو زندگی واپس تمھارے اس دوانے سے

تمھاری ذات کے آگے ہماری شخصیت کیا ہے
ہمیں تو خوف آتا ہے فقط آنکھیں دکھانے سے

تمھارا روٹھ جانا بھی حقیقت میں قیامت ہے
زمانہ ہیچ لگتا ہے تمھارے روٹھ جانے سے

دل ناشاد کا قصہ تمھاری ہی بدولت ہے
بہت ہی کیف ملتا ہے مجھے تجھ کو منانے سے

عطائی کیوں ستاتا ہے تو اپنی جان کو پاگل
تجھے کیا لطف آتا ہے اسے ایسے ستانے سے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے