فرضِ وفا کو دل سے نبھاتا رہا ہوں میں (غزل)

فرضِ وفا کو دل سے نبھاتا رہا ہوں میں (غزل)

رضوان ندوی

فرضِ وفا کو دل سے نبھاتا رہا ہوں میں
زخمِ جگر کو سب سے چھپاتا رہا ہوں میں
گلشن کو جان و دل سے سجاتا رہا ہوں میں
خاکِ وطن کو سرمہ بناتا رہا ہوں میں
آلامِ روزگار کی زد میں بھی آکے یوں
رب کے حضور سر کو جھکاتا رہا ہوں میں
شیریں زباں کی خوبی سے دنیا میں دوستو!
دشمن کو بھی صدیق بناتا رہا ہوں میں
امت ہے محوِ خواب زمانے سے بے خبر
خوابِ گراں سے اس کو جگاتا رہا ہوں میں
رضوانؔ! میری ذات ہے مانند شمعِ راہ
بن کے چراغ رستہ دکھاتا رہا ہوں میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے