ڈاکٹر منصور فریدی کی منفرد نعت گوئی

ڈاکٹر منصور فریدی کی منفرد نعت گوئی


طفیل احمد مصباحی


کولرج نے شاعری کو خدا کے تخلیقی عمل جیسا کام بتایا ہے اور کہا ہے کہ شاعری با معنیٰ حسن کی ایک شہ کار تخلیق ہے، جو بہت با معنیٰ الفاظ میں کی جاتی ہے۔ اسی طرح کولرج نے عمدہ الفاظ کے ساتھ ارفع و اعلیٰ خیالات کو شاعری کا جزوِ لاینفک قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نثر میں الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کیے جاتے ہیں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ایجاد و تخلیق جیسی اصطلاح کو خدائے قادر و قیوم کے ساتھ خاص مانتے ہوئے شاعری کے متعلق کولرج کے مندرجہ بالا قول کی صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعری کی سحر طرازی و مرصع کاری مسلّم ہے۔ شاعری، حسنِ الفاظ و رعنائیِ افکار کا ایک ایسا حسین سنگم ہے جس کی زیریں لہروں میں فصاحت و بلاغت اور حقائق و معارف کی نہریں رواں ہیں۔ شاعری کو آخر العلوم اور جملہ فنون کا تکملہ کہا گیا ہے۔ سیماب اکبر آبادی کے بقول: "شاعری آخر العلوم ہونے کی حیثیت سے ایک ایسا جامع علم ہے جس کے کلیات و جزئیات کی تشریح مشرق و مغرب کے لا تعداد مفکرین و فیلسوف ( فلسفی ) کر چکے ہیں، لیکن حریمِ سخن کے پردۂ اسرار سے ہنوز ” ھل من مزید ” کی صدائیں آ رہی ہیں۔ ہر ناقد اپنی معلومات کے مطابق، ہر مفکر اپنی بساطِ فکر کے متوازن اور ہر مفسر اپنے فہم و ادراک کے موافق فنِ شعر اور آیاتِ ادب کی تشریح کرتا ہے اور کر رہا ہے، مگر اس بے پایاں سمندر کی تھاہ ( گہرائی ) کسی کو نہیں ملی۔ بڑے بڑے قیمتی موتی اس سمندر سے نکالے گئے، مگر معلوم ہوا کہ ” ہنوز آں ابرِ رحمت دُر فشاں است ” ۔

( دستور الاصلاح ، ص : 7 ؛ مکتبہ قصر الادب ، آگرہ )


معنیٰ خیز شاعری وہی ہے جس میں الفاظ و معانی کا حسن پوری طرح نمایاں ہو اور یہ فرق کرنا دشوار ہو کہ آیا الفاظ زیادہ حسین ہیں یا افکار و معانی۔ الفاظ و معانی کے حسنِ امتزاج کے ساتھ اگر ندرتِ اسلوب اور جدتِ بیان بھی شامل ہو تو شاعری، ساحری کا روپ دھار لیتی ہے اور انسانی قلوب و اذہان پر دیر پا اثرات چھوڑتی ہے۔ تخیّل و محاکات، کثرتِ الفاظ و مطالعۂ صحیفۂ کائنات اور وزن و قافیہ، ان اجزائے ستّہ کی باہمی ترکیب و ترتیب سے ہی اعلیٰ درجے کی شاعری وجود میں آتی ہے۔ حضرت علامہ سید سلیمان اشرف بہاری ( سابق پروفیسر و صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ ) نے اپنی مایۂ ناز تنقیدی کتاب ” الانھار معروف بہ مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ” کے ابتدائی صفحات میں شعر کے اجزائے ترکیبی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ باعتبارِ حقیقت شعر کے دو اجزا ، دو لوازم اور دو شرائط ہیں۔ محاکات و تخیل شعر کے اجزا ہیں۔ اکثارِ الفاظ و مطالعۂ صحیفۂ کائنات اس کے لوازم ہیں اور وزن و قافیہ اس کے لیے شرط ہیں ۔

شاعری کے جملہ انواع و اقسام میں مذکورہ بالا اصول و شرائط کی رعایت ضروری ہے، ورنہ صرف مروجہ اوزان و بحور کی پابندیوں پر مشتمل کلام الفاظ و فقرات کا پشتارہ تو ہو سکتا ہے، لیکن اسے شاعری کہنا درست نہ ہوگا۔ مقامِ شکر و اطمینان ہے کہ غزل اور دیگر اصنافِ سخن کی طرح آج نعتیہ شاعری بھی کافی عروج پر ہے۔ موضوع، مواد اور اسلوب و منہج کے لحاظ سے نت نئے تجربے ہو رہے ہیں اور بہ شکلِ نعت اردو ادب کے ذخیروں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اساتذۂ قدیم کی غزلیہ زمینوں پر نعت کے پودے اُگائے جا رہے ہیں اور بالخصوص صنفِ نعت کے فکری و فنی مباحث پر محققینِ ادب کتب و رسائل تصنیف کر رہے ہیں۔ یونیورسیٹیوں میں نعت اور متعلقاتِ نعت پر ایم . فل . اور پی . ایچ . ڈی . کے مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ نعت گو شعرا کی علمی و ادبی خدمات پر کتابیں وجود میں آرہی ہیں۔ غرض کہ اس حوالے سے ہند و پاک میں بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اردو کے جن باکمال اور نام ور نعت گو شعرا نے اس مبارک صنف کو عروج بخشا ہے اور ” فنا فی النعت ” کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت بنائی ہے، ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر منصور فریدی صاحب ( ساکن ڈونا ٹانڑ ، ضلع گریڈیہہ ، جھارکھنڈ ) کا بھی ہے۔ دینی و عصری علوم کے باہمی امتزاج نے ان کے فکر و فن اور نعتیہ شاعری کو مقامِ اعتبار و افتخار بخشا ہے۔ وہ عصرِ حاضر کے مایۂ ناز عالم و فاضل، ممتاز محقق و ناقد، اعلیٰ نثر نگار، استاذ شاعر اور اردو زبان و ادب کے بے لوث خادم ہیں۔ علاوہ ازیں نہایت وسیع الاخلاق، منکسر المزاج، حلیم الطبع، کشادہ قلب اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ نعت اور صرف نعت ان کا وظیفۂ حیات ہے۔ نعتیہ ادب کے فروغ و استحکام میں ان کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ نعت گوئی سے کامل انہماک، عشق و وارفتگی، جذبات کا تلاطم، موضوعات کا تنوع، والہانہ انداز اور اسلوبِ بیان کی جدت و ندرت، ان کی نعت گوئی کے بنیادی علائم و اجزا ہیں۔ طویل مشق و مزاولت اور فطری ملکۂ شعر گوئی نے آج ان کے فکر و تخیّل کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ وفورِ جذبات و قرینۂ اظہار ( جن کو نعتیہ شاعری میں امتیازی حیثیت حاصل ہے ) کے فن سے کماحقہ آشنا ہیں اور ان کا سہارا لے کر وہ اپنے کلام کو فکر و فن کا اعلیٰ نمونہ بنا دیتے ہیں اور یہ ثمرہ ہے اس جذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ان کے سینے میں موجود ہے۔

انجم کمالی صاحب لکھتے ہیں :

ادیبِ ربانی، سخن ورِ لاثانی، عطائے رسول حضرت مولانا ڈاکٹر منصور فریدی صاحب دام ظلہ العالی اس سلسلے کی اس پاکیزہ کڑی کا نام ہے، جن کی زندگی کا محور، فکر کا مرکز فقط نعت ہے۔ انہیں نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور جنوں کی حد تک لگاؤ ہے ، بلکہ ان کا اوڑھنا بچھونا تک نعت ہے۔ میں سمجھتا ہوں اللہ رب العزت کا بے پایاں کرم اور فضل و احسان ہے کہ ان کا دامن نعتیہ ادب جیسی لازوال دولت سے مالا مال ہے اور نعت سے حد درجہ لگاؤ نے ہی انھیں منصور فریدی بنا رکھا ہے ۔

( تخئیلات ، ص : 38 )


ڈاکٹر منصور فریدی کی حیثیت ” فنا فی الرسول و فنا فی النعت ” کی ہے اور ان کی نعتیہ شاعری فکر و فن کا اعلیٰ نمونے ہونے کے ساتھ ” معیاری ، مقصدی و حقیقی نعتیہ شاعری ” کے زمرے میں آتی ہے اور وہ اس طرح کہ بنیادی طور پر نعت کی تین قسمیں ہیں : – ( ١ ) رسمی نعت ( ٢ ) حقیقی نعت ( ٣ ) اصلاحی یا تعمیری نعت۔ رسمی نعت سے مراد محض حصولِ برکت کے لئے تبرکاً لکھی گئی نعت ہے، جو بالعموم قدیم اساتذۂ سخن کے دواوین و کلّیات کے شروع میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ حقیقی نعت یہ ہے کہ مطلع سے لے کر مقطع تک جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہو۔ اصلاحی یا تعمیری نعت سے مراد وہ بامقصد اصلاحی کلام ہے جس سے فرد اور اسلامی معاشرے کی تہذیب ہو سکے۔ معیاری نعت گوئی کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

” خالص نعت کے طور کہے گئے وہ مشروع کلام جس میں فکر و فن مجروح نہ ہوا ہو ۔ الوہیت و رسالت نیز عبد و ” عبدہ ” کے فرق کے علاوہ معبود و محبوب کی عظمتوں کے پیش نظر سچی محبت، دلی جذبات، کمالِ محبت اور حد درجہ عجز و ادب سے کہے گئے پُر تاثیر اور ادبی خوبیوں سے مالامال کلام ” ۔

( اردو نعت کا ہیئتی مطالعہ ، ص : ٣٢ ، مطبوعہ : پنجاب یونیورسٹی ، لاہور )

اس بنیادی تقسیم کے علاوہ نعتیہ ادب کے محققین نے نعت کے مندرجہ ذیل انواع و اقسام بیان کیے ہیں:

( ١ ) ضمنی و ثانوی نعت ( ٢ ) رسمی و روایتی نعت ( ٣ ) معیاری نعت ( ٤ ) غیر معیاری نعت ( ٥ ) مقصدی نعت ( ٦ ) سوانحی نعت ( ٧ ) درود و سلام پر مشتمل نعت

مندرجہ بالا اقسامِ نعت کے حوالے سے جب ہم ڈاکٹر منصور فریدی کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ہمیں صرف ” حقیقی، معیاری اور مقصدی نعت ” کے جلوے نظر آتے ہیں۔ موصوف کی حقیقی، معیاری اور مقصدی نعت گوئی کا اندازہ لگانے کے لیے ان کی ذاتی زندگی، شب و روز کے علمی و ادبی مشاغل، نعتیہ سرگرمیوں میں حصہ داری اور بالخصوص ان کے نعتیہ مجموعۂ کلام ” تخئیلات ” کا مطالعہ مفید ہوگا۔

ڈاکٹر منصور فریدی کی نعتیہ شاعری کے رنگ وآہنگ اور ان کے شعری منہج و اسلوب بڑے دل آویز اور جاذبِ فکر و نظر ہیں۔ اصطلاحِ ادب میں نظم و نثر کے صوتی حسن کو ” آہنگ ” کہتے ہیں۔ زبان و بیان کی جدت و ندرت ان کی خاص پہچان ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں، عشق و عقیدت میں ڈوب کر بڑے سلیقے سے کہتے ہیں۔ ان کے نعتیہ کلام میں فصاحت و بلاغت، نفاست و سلاست، جدت و ندرت، لسانی بانکپن اور معنوی حسن کے ساتھ ” صوتی حسن ” بھی پایا جاتا ہے ، جو قارئین پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ موصوف کا نعتیہ دیوان ” تخئیلات ” کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے کے بعد راقم الحروف اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری میں زبان و بیان کے لحاظ سے وہ تمام ادبی و فنّی خصوصیات موجود ہیں جو ایک کامیاب اور قادر الکلام شاعر کے فن پارے میں ہوا کرتی ہیں۔ غرض کہ موصوف عمدہ فکر، اعلی تخیل اور گہری بصیرت کے حامل نعت گو شاعر ہیں۔ ان کی نعتیہ شاعری میں الفاظ و معانی کی لطافت، فکر و فن کی پاکیزگی و شیفتگی، شعور کی پختگی، پیرایۂ بیان کی عمدگی اور اثر آفرینی کی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے امتیازی پہلوؤں میں سے موضوعات کا تنّوع ، اسالیب کا نیا پن، لفظیات کی مقناطیسی کشش اور معنیات کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جا بجا نظر آتا ہے۔ مذکورہ بالا فکری و فنی خصوصیات سے آراستہ چند منتخب اشعار دیکھیں اور ہمارے دعویٰ کی صداقت ملاحظہ کریں :


دُر نعت کا دُرجِ گہر افشاں سے نکالا
ہر لفظِ ثنا، پیکرِ جاناں سے نکالا

منزلِ شوق سے آئے گا ابھی اذنِ سفر
زادِ دل ناقۂ امید پہ کس جانے دو

گر عرش فشاں ہو غمِ محبوب میں شبنم
ہو جائے یمِ عشق سے غنچوں کا بدن پھول


نذرِ خزاں نہ ہوگا مری فکر کا چمن
شاداب اس میں فصلِ بَہارانِ نعت ہے

فجرِ فردا لیے ” و الفجر ” کے جلوے آئے !
میری امید نے پڑھ لی ہے عشا آج کی رات

ساغرِ ” اوحیٰ الیٰ عبدهٖ ما اوحیٰ ” سے
رب نے محبوب کو سرشار کیا آج کی رات

نصیبِ فکر نہ بنتی ثنا کی اونچائی
سفر میں عشقِ نبی میرا ہم رکاب ہوا

منشأِ محفلِ الست ، مقصدِ حشر بھی یہی
دولتِ کائنات کا خسروِ نام دار ایک

صحرا نوردِ ہجر تمہارا ہی شوق ہے
مشکِ وصالِ قلبِ غزالاں تمہیں تو ہو

کوہِ ستم کو کاٹنا ٹھہری ہے شرط آج
کیا سوچتے ہیں عشق کا تیشہ اٹھائیے

ان اشعار میں فصاحت و بلاغت ، عشق و عقیدت ، معنیٰ آفرینی اور سلاست و روانی کے ساتھ لفظیات و معنیات کا وجد آفریں پیرایہ، مناسباتِ شعری کا زریں سلسلہ اور اسلوبِ بیان کی جدت و ندرت پوری طرح نمایاں ہے، جو شاعر کی فکری مہارت اور فنی صلابت کو اجاگر کرتی ہے ۔ ورڈزورتھ ( Wordsworth ) نے مضبوط تخیل ، مستحکم افکار اور طاقتور احساسات کے بے ساختہ بہاؤ کو شاعری کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے بھی ڈاکٹر منصور فریدی کی نعتیہ شاعری اپنی مثال آپ ہے ۔ اعلیٰ افکار اور لطیف جذبات و احساسات کو جب وہ کوثر و تسنیم میں دُھلے الفاظ سے ادا کرتے ہیں تو مشک و عنبر کے شبنمی جھونکوں سے صفحۂ قرطاس مہک اٹھتے ہیں اور شاعری، ساحری کے دل آویز جلوؤں سے معمور نظر آتی ہے۔ ذیل کے معنیٰ خیز اشعار دیکھیں اور شاعر کے توانا فکر و احساس کے بے ساختہ بہاؤ کا نظارہ کریں:


ہر حرف تازہ پھول بہ عنوانِ نعت ہے
قرآن اک شگفتہ گلستانِ نعت ہے

مرغِ خیال آج بھی پہنچا نہیں وہاں
تعمیر جس بلندی پہ ایوانِ نعت ہے

جس کی چمک پہ دن کے اجالے نثار ہیں
کیا خوب تابناک شبستانِ نعت ہے

ہر گوشہ کائنات کا مہکے گا تا ابد
ہر وقت عطر بیز یوں گلدانِ نعت ہے

جمالِ عارض و گیسو سے صبح و شام خجل
بتاؤ حسنِ نبی بے مثال ہے کہ نہیں

فریدی حسنِ نبی کی بہار کے صدقے
چمن کی مہکی ہوئی ڈال ڈال ہے کہ نہیں

کھُلا ہوا مری تخئیل کا دریچہ ہے
یہیں سے شہرِ نبی کا مجھے نظارہ ہے

جہانِ حسن مرے ہاتھوں بِکنے آتا ہے
حضور آپ نے جب سے مجھے خریدا ہے

درود پڑھتی ہوئی سلسبیل ہے کہ نہیں
کہ محوِ نعتِ نبی دل کی جھیل ہے کہ نہیں

پھر نغمہ بار ہوگی یقیناً نوائے نعت
پھر ارتعاش سا ہے مرے دل کے تار میں

برائے درسِ جہاں سازی و چمن بندی
سوائے شرعِ محمد کوئی نصاب نہیں

فکر کیا نذر گذاروں تری زیبائی کو
سارا قرآن ہے جب اس کی پذیرائی کو


معزز قارئین ! مندرجہ بالا سطور میں پیش کردہ کلامِ فریدی سے آپ نے اس بات کا اندازہ لگا ہی لیا ہوگا کہ ڈاکٹر منصور فریدی ایک اعلیٰ فکر و تخیل کے مالک اور جدت طراز نعت گو شاعر ہیں ۔ شعر و سخن کے لحاظ سے موصوف الفاظ کی جادو گری، اسلوب کی شائستگی اور بحرِ معانی کی غواصی میں طاق ہیں۔ وہ الفاظ و معانی کے حسنِ امتزاج اور ان دونوں کے مابین تناسب کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ خیال عمدہ اور فکر انوکھی پیش کرتے ہیں اور بسا اوقات پامال مضمون میں بھی اپنے پُر شکوہ الفاظ و اسلوب کی روح پھونک کر اس میں جان ڈال دیتے ہیں اور اس میں جدّت پیدا کر دیتے ہیں، جو در اصل ان کی قوتِ متخیّلہ کا کمال ہے۔ شاعری میں تخیل اور معنیٰ آفرینی کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم زبان کی فصاحت، معانی کی بلاغت، اسلوب کی عمدگی، بندشِ الفاظ و تراکیب، والہانہ طرزِ ادا اور ترتیب و تناسب کی خوبیاں بھی اپنے اندر بڑی اہمیت رکھتی ہیں کہ یہی چیزیں شاعری کی جان اور معیارِ کمال ہیں۔ ماشاء اللہ ! ڈاکٹر منصور فریدی صاحب کی منفرد شاعری ان معیارات پر کھری اترتی ہے۔

نمونہ پیش کرنے سے قبل مرزا واجد حسین یاس عظیم آبادی کا یہ اقتباس بغور مطالعہ کریں :


قوتِ متخیّلہ جہاں خیالات میں باریکیاں پیدا کرتی ہے ، وہاں الفاظ بھی ایسے الہامی اور اچھوتے ڈھونڈ کر لاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قوتِ متخیّلہ کا تصرف جس قدر خیالات پر ہوتا ہے، اتنا ہی الفاظ پر بھی ہوتا ہے۔ حسنِ الفاظ کے متعلق کسی محقق کا قول ہے کہ لفظ بمنزلۂ قالب کے ہے اور معنیٰ اس کی روح ہے۔ دونوں ( لفظ و معنی ) میں روح و قالب جیسا ارتباط ہے کہ وہ کمزور ہوگا تو یہ بھی مضمحل ہوگی۔ معنی میں اگر خوبی ہو اور لفظ میں نقص ہو تو بھی شعر کے لیے عیب ہے۔ جس طرح لنگڑے اور لنجے میں روح ہوتی ہے، لیکن بدن میں عیب ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر لفظ اچھے ہوں اور معنیٰ برے ہوں تو بھی شعر اچھا نہ ہوگا۔ معنیٰ کی خرابی الفاظ پر اور الفاظ کی خرابی معنیٰ پر اثر ڈالتی ہے۔ جس طرح مُردے کا جسم کہ بادی النظر میں ہاتھ، پاؤں، آنکھ، ناک سب سلامت ہیں ، مگر ٹٹولو تو کچھ بھی نہیں یا تصویر کہ سارا مجسمہ بلکہ خط و خال تک موجود ہے، مگر روح نہیں۔ اسی طرح مضمون اچھا ہو اور الفاظ برے ہوں تو بھی کوئی حاصل نہیں، کیوں کہ روح بغیر جسم کے نہیں پائی جاتی ….. لیکن زیادہ تر اہلِ فن کا مذہب یہی ہے کہ حسنِ الفاظ کو حسنِ معنیٰ پر ترجیح دی جائے۔ اس گروہ ( حسنِ الفاظ کو حسنِ معانی پر ترجیح دینے والے ) کا قول ہے کہ مضمون تو سب پیدا کر سکتے ہیں، لیکن شاعری کا معیارِ کمال یہی ہے کہ مضمون کن الفاظ میں ادا کیا گیا ہے ۔ بندش اور اندازِ بیان کیسا ہے ….
شعر وہی ہے جو جذبات یا تخیلات کو الفاظ کا جامہ پہنا سکے اور اگر جامۂ الفاظ ہی قطع نہ ہو سکا یا قطع ہوا مگر درست نہ ہوا تو وہ شعر نہیں ہے ۔ اسی بنا پر خوبیِ الفاظ کا التزام مقدم ہے ( یعنی حسنِ لفظ کو حسنِ معنیٰ پر ترجیح و تقدم حاصل ہے ) ۔ اگر اظہارِ جذبات کے لیے الفاظ مناسب نہ ملیں تو بگڑی ہوئی صورت میں شعر پیش کرنا نہیں چاہیے۔ ایسے وجودِ ناقص سے حالتِ عدم ہی بہتر ہے۔ مولانا شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ در حقیقت شاعری اور انشا پردازی کا دار و مدار زیادہ تر الفاظ ہی پر ہے۔ گلستاں میں اور میر انیس کے کلام میں جو مضامین اور خیالات ہیں، وہ ایسے اچھوتے اور نادر نہیں ہیں کہ اوروں کی فکر وہاں تک نہ پہنچ سکے، لیکن الفاظ کی فصاحت، اندازِ بیان کی جدت اور ترتیب و تناسب کی خوبیوں نے سحر پیدا کر دیا ہے ۔ انہیں مضامین کو معمولی الفاظ میں ادا کیا جائے تو کچھ اثر پیدا نہ ہوگا۔


( چراغِ سخن ، ص : 3 ؛ 4 ، مطبوعہ : گلشنِ ابراہیمی ، لکھنؤ )


جناب منصور فریدی کی فکرِ رسا اور جدت طراز طبیعت نے مندرجہ بالا شعری اصول کو اپناتے ہوئے فضائے شعر و سخن کو معطر کیا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری میں شعریت و معنویت سے لبریز سینکڑوں اشعار موجود ہیں۔ انہوں نے حسنِ الفاظ و معانی سے جا بجا اپنی عروسِ سخن کو سجایا ہے۔ فصاحتِ الفاظ، لسانی بانکپن، جدتِ ادا، طرفگیِ بیان، اچھوتی بندش اور سحر انگیز اسلوب، ان کا وہ طرّۂ امتیاز ہے، جو دیگر نعت گو سے شعرا انہیں ممیز و ممتاز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ردیف ” روح ” پر ان کے یہ اشعار دیکھیں کہ نعت کے عام موضوعات کو انہوں نے جدتِ ادا، انوکھی بندش اور ندرتِ اسلوب کے سہارے کتنی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے:

تڑپ رہی ہے مسلسل گذارشات کی روح
بس اک نگاہ کہ تشنہ ہے التفات کی روح

ریاضتوں پہ یقیں ہے توہمات کی اصل
بھروسہ ان کے کرم پر تیقّنات کی روح

نبی سے عشق ہو وارفتگی کی حد سے پرے
یہی ہے دین، یہی سارے دینیات کی روح

ہر اک وجود میں جاں بن کے نور ہے ان کا
مرے حضور ہیں در اصل کائنات کی روح

ہر اک دعا میں اسے آزما لیا جائے
درودِ پاک ہے سارے مجرّبات کی روح

ہر ایک ذرۂ نایابِ خاک پائے رسول
زمانے بھر میں فریدی نوادرات کی روح

اس کلام میں ردیف بھی منفرد ہے اور قافیے بھی منفرد اور جاذبِ فکر و نظر ہیں۔ توہمات، تیقنات، نوادرات، مجربات اور دینیات جیسے مشکل قوافی آج کی شاعری میں ناپید نظر آتے ہیں، لیکن منصور فریدی کی انفرادی فکر نے یہاں بھی اپنا کمال دکھایا ہے اور انہیں بڑی خوب صورتی کے ساتھ شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ پہلے شعر میں ایک عام اور سادہ مفہوم ( گذارش، تمنا، چشمِ عنایت ) کو جس والہانہ اور شاعرانہ لب و لہجے میں بیان کیا گیا ہے، اس سے بہتر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے شعر میں اس حقیقت کی ترجمانی کی گئی ہے کہ توہمات یعنی وہم و خیال کی دنیا میں کسب و ریاضت کو ہی کامیابی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جو شاعر کی نگاہ میں درست نہیں ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ کسب و ریاضت سے کچھ نہیں ہوتا، اذعان و یقین کے مکتب میں ریاضت سے زیادہ اللہ و رسول کے فضل و کرم اور چشمِ عنایت کا درس دیا جاتا ہے۔ اس شعر میں اسلوب کی جو چاشنی ہے، با ذوق قارئین اسے بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ تیسرے شعر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی اہمیت بتائی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنون و وارفتگی کی حد تک بلکہ اس سے بھی زیادہ عشق و عقیدت ہونی چاہیے کہ یہی حاصلِ دین و ایمان ہے۔ طرزِ ادا کا بانکپن یہاں بھی قابلِ دید ہے۔ چوتھے شعر میں جانِ کائنات حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی وسعت و ہمہ گیری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حدیثِ پاک : اول ما خلق اللہ نوری و کل الخلائق من نوری کے مطابق پوری کائنات اور جملہ مخلوقات کی تخلیق آپ کے نور سے ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ممکنات و موجودات میں آپ کے نور کی شعائیں بجلی کی مانند دوڑ رہی ہیں۔ ندرتِ بیان اور جدتِ ادا میں یہ شعر اپنا جواب نہیں رکھتا۔ پانچویں شعر میں درود شریف کی فضیلت و برکت بیان کی گئی ہے، جو حسنِ زبان و بیان کا ایک نادر نمونہ ہے۔ چھٹے شعر میں حضور شہنشاہِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے اقدس کے روشن و تابناک ذرّوں کو ” نوادرات کی روح ” بتا کر شاعر نے اپنی اعلیٰ فکر کے ساتھ اپنی بے مثال جدت طرازی کا بھی ثبوت دیا ہے ۔

علاوہ ازیں مندرجہ ذیل اشعار میں شاعر نے جو مضامین و خیالات ادا کیے ہیں، وہ اگر چہ قدیم اور میدانِ سخن میں پامال تصور کیے جاتے ہیں، لیکن محض جدتِ اسلوب، طرزِ ادا کے بانکپن، ترتیب و تناسب اور بندش کی چستی و دلکشی کے باعث نئے معلوم ہوتے ہیں۔ کمالِ فکر و فن اور جمالِ شعر و سخن کے لیے یہ چیزیں حسنِ معانی سے زیادہ اہمیت و افادیت کی حامل ہیں، جیسا کہ شبلی نعمانی و یاس عظیم آبادی نے اس کی صراحت و وضاحت کی ہے ۔ بہر کیف ! اشعار دیکھیں :


دورِ خزاں جفاؤں کا دور دلوں سے کیجیے
فیض سے آپ کے حضور مہکے وفا چمن چمن

رب سے فریدی مانگیے شادابیاں تو دیکھیے
مہکے گی ایک دن ضرور یہ بھی دعا چمن چمن

رہِ وفا میں مرے حوصلے نہ سرد ہوئے
انیسِ جاں تھی مرے شوق ہم رکاب کی دھوپ

یہ رحمتِ تمام کی رحمت کا ہے کمال
نکلے ہیں جو الجھ کے غمِ دو جہاں سے ہم

زلزلے کیا کہوں عشق کے
عقل زیر و زبر ہو گئی

ڈھل گئی عقل کی شام جب
عشق کی دو پہر ہو گئی

نقش مدحت کے ہیں تابندہ ثنا کار کے پاس
انجمن کیسی نرالی ہے سزاوار کے پاس

سکوں نواز پئے قلبِ سوگوار درود
خزاں رسیدۂ غم کے لیے بہار درود

خلد مہکی ، گنبدِ بے در میں دروازہ ہوا
اہتمامِ سیرِ محبوبی شبِ اسریٰ ہوا

زلف ان کی شانۂ حسرت پہ یوں بکھری کہ بس
آج تک ماحول ہے گھر کا مرے مہکا ہوا


شاعرِ باکمال جناب ڈاکٹر منصور فریدی کے نعتیہ شہ پارے فکری محاسن اور فنی خصوصیات کے حامل ہیں۔ زبان و بیان کے فن کارانہ استعمال اور نعت گوئی کے شرعی حدود و قیود سے وہ بخوبی آگاہ ہیں۔ نعت کو غزل کا پیرہن عطا کرنا اور غزل کے پردے میں نعت کے سرمدی نغمات سے فضائے شعر و سخن کو معطر کرنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نعت میں بھی غزل کی سادہ و سلیس زبان استعمال کرتے ہیں۔ نت نئے قوافی لاتے ہیں اور نوع بہ نوع ردیفیں تراشتے ہیں اور ان سب کو نعت کے سلکِ مروارید میں اس طرح پِروتے ہیں کہ سامعین و قارئین مچل اٹھتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ موصوف جدت طراز نعت گو شاعر ہیں۔ ان کی سیماب طبیعت اور عرش آشیاں طائرِ فکر ہمیشہ نت نئے جہان کی سیر کرتا ہے۔ نئے قوافی اور نئی ردیفیں ڈھونڈ کر نکالنا اور کمالِ مہارت کے ساتھ انہیں شعر کا حریری جامہ پہنانا، کوئی ان سے سیکھے۔ یہاں یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ نت نئی ردیفیں منتخب کرنا اور چیدہ چیدہ قوافی لغت سے نکال کر استعمال کرنا، کمال نہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ شاعر ان کو کما حقہ نبھا لے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ شعرا حضرات ردیف و قافیہ تو بڑا اچھا ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور شروع میں دو چار شعر اچھا کہتے ہیں، اس کے بعد ” قافیہ تنگ ” اور ” چکّا جام ” والا محاورہ ان پر صادق آنے لگتا ہے۔ مقامِ مسرت ہے کہ منصور فریدی صاحب اس معاملے میں بھی ” فریدِ عصر ” واقع ہوئے ہیں کہ وہ قوافی کا بحسن و خوبی استعمال بھی کرتے ہیں اور ردیف کو نباہنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ردیف اور قافیے شعری حسن میں چار چاند لگا دیتے ہیں، بشرطے کہ انہیں سلیقے سے برتا جائے۔ شعر کا آخری جز ہونے کی حیثیت سے ردیف کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ پورے مضمون کی ادائیگی اسی پر منحصر ہوتی ہے۔ ردیف، مضمونِ شعر کو اس طرح پیش کرتی ہے کہ معنوی ربط و تسلسل میں کوئی فرق نہ آئے اور اگر ردیف منفرد ہو تو اس وقت شاعر کو مزید احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے۔ قادر الکلام شاعر منفرد ردیفیں بآسانی نبھا لیتے ہیں، لیکن مبتدی اور متوسط درجے کے شاعر اس مقام پر ٹھوکر کھا جاتے ہیں یا پھر شعری معنویت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔

ڈاکٹر منصور فریدی کے نعتیہ کلام میں خوب صورت قوافی اور منفرد ردائف ( ردیف کی جمع ) کہکشاں کی مانند صفحۂ قرطاس پر جگمگاتی ہیں۔ موصوف نے اپنے نعتیہ مجموعہ ” تخئیلات ” میں منفرد ردیفوں کا استعمال ایک تو اپنی جدت پسند فکر و طبیعت کے باعث کیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کے اس شعری مجموعے کی حیثیت ” دیوان ” کی ہے اور اصطلاحی اعتبار سے ” دیوان اس شعری مجموعہ کو کہتے ہیں جس کی تمام غزلوں یا نظموں کی ردیفیں الف سے یاء تک حروفِ تہجی پر مشتمل ہوں۔ ویسے اب یہ پابندی متروک ہو چکی ہے اور اب ہر قسم کے مجموعۂ کلام کو ” دیوان ” کہہ دیا جاتا ہے ۔

فرہنگِ ادبیات میں ” دیوان ” کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

کسی مدتِ زمان میں لکھا گیا کلام جس کی تدوین میں تخلیقی زمانے کے بجائے ابجدی ترکیب ( حروفِ تہجی ) کے طریقے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ مثلاً: تمام غزلیں جن کی ردیفیں حرفِ الف پر ختم ہوتی ہوں ۔ پھر حرفِ ” با ” پر ختم ہونے والی ردیفوں کی غزلیں اور ان کے بعد ” پ ” ؛ ” ت ” ؛ ” ٹ ” ؛ ” ث ” وغیرہ کی غزلیں شامل رہتی ہیں۔ یہ ترتیب الف سے یاء تک قائم ہونا ضروری ہے۔ کبھی ردیف کے ساتھ ہی قوافی کی تہجی ترتیب پر بھی دیوان تیار کیا جاتا ہے۔ آج کل اس قسم کی تدوین نہ بھی ہو تو ہر مجموعۂ کلام جس میں نظمیں اور غزلیں وغیرہ شامل ہوں ، دیوان کہلاتا ہے ۔


( فرہنگِ ادبیات ، 363 / 364 ؛ مطبوعہ : مالیگاؤں ، مہاراشٹر )


منصور فریدی صاحب نے اپنے نعتیہ مجموعہ ( تخئیلات ) میں مندرجہ ذیل منفرد اور دشوار ترین ردیفوں کا استعمال بڑی فنی چابک دستی اور بڑے فنکارانہ انداز میں کیا ہے، جس سے ان کی فکری و فنی مہارت کا پتہ چلتا ہے:

گلاب، عجیب، دھوپ، رات، صورت، مسکراہٹ، کروٹ، اثاث، باعث، سج دھج، آج ، سورج، سچ، سوچ، صبح، روح، طرح، شاخ ، رخ، چاند، امید، درود، ڈھونڈ، تعویذ، کاغذ ، میسر، خاطر، چھوڑ، ساز، سبو تاژ، پاس، خواہش، ہوش، مخصوص، خاص، غرض، احتیاط، لفظ، اجتماع، موقع، چراغ، مختلف ، عاشق، ایک، دل، چمن، رنگ، پھول، چوکھٹ، دائرہ، نگاہ، آمین، عشقِ رسول، نکتۂ لولاک، کیسی، سی رہی، شوخی دیکھ ، یا رسول اللہ، حضور ہیں، کی بات ہو، دیکھو، ہے کہ نہیں، تک، ہو نہ ہو، جانے دو ، وغیرہم۔


ہم یہاں گلاب، پھول، شاخ، چراخ، چوکھٹ، چمن، دھوپ، مخصوص، خواہش، احتیاط، درود، کاغذ، امید، تعویذ، اثاث، روح، سج دھج اور مسکراہٹ جیسی منفرد اور دشوار ترین ردیفوں پر بطورِ نمونہ ایک ایک شعر نقل کرتے ہیں، تاکہ شاعر کی فکر و نظر کی جدت و انفرادیت کا حال معلوم ہو سکے۔

دورِ خزاں جفاؤں کا دور دلوں سے کیجیے
فیض سے آپ کے حضور مہکے وفا چمن چمن

رب سے فریدی مانگیے شادابیاں تو دیکھیے
مہکے گی ایک دن ضرور یہ بھی دعا چمن چمن

رہِ وفا میں مرے حوصلے نہ سرد ہوئے
انیسِ جاں تھی مرے شوق ہم رکاب کی دھوپ

سکوں نواز پئے قلبِ سوگوار درود
خزاں رسیدۂ غم کے لیے بہار درود

زلفِ کرم سمیٹیے چہرۂ پاک سے حضور
شامِ الم سے چار سو کچھ بھی نہیں بچا اثاث

شبِ سکوں ہیں جو زلفیں تو رخ ہے صبحِ طرب
تمام عمر کی پاتی ہے شاعری سج دھج

ہیں چمکتے نئے نئے سورج
میرے شعروں میں نعت کے سورج

ہوئی قبلۂ عاشقی ان کی چوکھٹ
ہماری خودی بے خودی ان کی چوکھٹ

سحر دم شبنمی قطرے تھے یا اشکِ حسرت
کہ جن کا لمس پا کر گل کی مہکی مسکراہٹ

صاف شفاف دھلا عشق کا ستھرا کاغذ
نعت لکھنے کے لیے بیٹھا ہوں کورا کاغذ

ہم نے ہرگز نہ کسی غیر کا پہنا تعویذ
ہر نفس آپ کی یادوں کو بنایا تعویذ

آنکھ بھر کر جسے دیکھوں وہی شیدا ہو جائے
دل میں پنہاں ہے مرے عشقِ نبی کا تعویذ

وہ چاہ لیں گے تو ہو جائے گا سفر آساں
شکستہ پائی کی مشکل کشائی ہے امید

تڑپ رہی ہے مسلسل گذارشات کی روح
بس اک نگاہ کہ تشنہ ہے التفات کی روح

قرطاس پہ احساس رقم کرتا ہوں دل کے
ہے نظمِ عقیدت مرے اشعار کی خواہش

دل گلشن میں بادِ بہاری لائی نئی نویلی شاخ
یاد کا ان کی بادل برسا اور نکلی یہ ہزاری شاخ

ارضِ طیبہ ہے یہاں کرتے ہیں واصل احتیاط
ہے تماشائی کی خاطر کارِ مشکل احتیاط

اک آلِ نبی نے مجھے میخانہ بنایا
نظروں سے دیا عشق کا وہ جرعۂ مخصوص


نعت گوئی کا بنیادی محرک جذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے ۔ عشقِ رسول کی حرارت و شدت ہی شاعر کو نعت گوئی کی طرف کھینچ لاتی ہے اور فکری و فنی بے سر و سامانی کے باوجود اسے اس میدان کا مسافر بناتی ہے ۔ ڈاکٹر منصور فریدی ایک با صلاحیت عالم و فاضل اور ممتاز ادیب و شاعر ہونے کے ساتھ ایک سچے عاشقِ رسول بھی ہیں۔ ایک عظیم خانقاہ سے جڑے ہوئے ہیں اور خود کو عطائے آلِ رسول کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں دیگر فکری و فنی خوبیوں کے علاوہ عشق و عقیدت کی سرمستیاں اور حبِّ شہِ بطحا کی جلوہ سامانیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ وفورِ جذبات اور کمالِ عشق و عقیدت سے لبریز یہ اشعار دیکھیں :


تمہارے عشق کی سینے میں یوں خوشبو اتر جائے
قیامت تک مری ہر پشت میں اس کا اثر جائے

میسر ہو مدینے کی گذر گاہوں میں یوں چلنا
ہو آگے آگے دل اور پیچھے پیچھے میرا سر جائے

مَلیں خاکِ درِ سرکار ہم جو اپنے چہروں پر
تو اپنی زندگی کا اور آئینہ نکھر جائے

ہر ایک سانس کی بس ہے پکار عشقِ رسول
ہمارے دل کا ہے نقش و نگار عشقِ رسول

اے کاش مجھ پہ چڑھ جائے ان کی ذات کا رنگ
چھپا ہوا ہے اسی میں مری نجات کا رنگ

اپنی تقدیر ہم اُجالیں گے
ان کی چوکھٹ پہ رکھ کے سر کا چراغ

آس ہے ، آہ ہے ، ارماں ہے سحر ہونے تک
دشت پیمائی میں ہوں طیبہ میں گھر ہونے تک

عشق و عقیدت، ربودگی و طرفگی ، تخیل و بلند پروازی اور معنیٰ آفرینی و جدت طرازی کے علاوہ سلاست و روانی، صفائی و برجستگی اور سادگی و پرکاری بھی کلامِ فریدی کا ایک اہم اور منفرد ادبی پہلو ہے۔ موصوف کی زبان و بیان پر کامل دسترس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ ہر قسم کے مضامین کو اتنے دل نشیں اسلوب میں ادا کرتے ہیں کہ اشعار کی سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے۔ ان کے بعض کلام اتنے سادہ و سلیس اور برجستہ ہیں کہ انہیں ” سہلِ ممتنع ” کے زمرے میں جگہ دی جا سکتی ہے ۔ مثالیں ملاحظہ فرمائیں:


ضو فشاں ہے نبی کے در کا چراغ
کیوں نہ روشن ہو بحر و بر کا چراغ

کب جلا ہے فقیر کے آ گے؟
بادشاہوں کے کرّ و فر کا چراغ

سر میں سودائی کے فروزاں ہے
ہر گھڑی ان کے سنگِ در کا چراغ

اپنی تقدیر ہم اُجالیں گے
ان کی چوکھٹ پہ رکھ کے سر کا چراغ

روغنِ عشق بھی ضروری ہے
نہیں جلتا فقط ہنر کا چراغ

ماہِ طیبہ پہ فخر چاند کرے
فلکِ پیر خم کمر کا چراغ

نوکِ نیزہ پہ شام تک آیا
کربلا کی وہ دو پہر کا چراغ

انفرادیتِ فریدی کو
چاہیے آپ کی نظر کا چراغ

اجالوں کے جتنے مِنارے کھڑے ہیں
رسولِ خدا کے سہارے کھڑے ہیں

ملک ، کہکشاں ، چاند ، سورج ، شفق اور
درِ مصطفیٰ پر ستارے کھڑے ہیں

مرے مصطفیٰ کا جمال اللہ اللہ
جمالِ جہاں سب کنارے کھڑے ہیں

ہزاروں گِرے منہ کے بل کربلا میں
بہتّر ہی میدان مارے کھڑے ہیں

قلتِ وقت اور تنگیِ صفحات مانع ہے ، ورنہ ڈاکٹر منصور فریدی کی نعتیہ شاعری کے مزید فکری و فنی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ۔ خیر اتنا بھی غنیمت ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ شعر و ادب کے اس قیمتی ہیرے کی چمک دمک کو ہمیشہ باقی رکھے ۔ آمین ۔


طفیل مصباحی کی پچھلی نگارش:
سیّد الشعراء سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے