کسان تحریک کو کچلنے کےلئے عدلیہ کاسہارا

کسان تحریک کو کچلنے کےلئے عدلیہ کاسہارا



✒️سر فراز احمدقاسمی،حیدرآباد 

رابطہ: 8099695186

دہلی کی سرحدوں پر لاکھوں کسانوں کا احتجاج جاری ہے. اس احتجاج کو ابتک 50دن ہوچکے ہیں،لیکن احتجاجی مظاہروں میں شامل کسان لیڈروں نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس متنازع قانون کی واپسی کے علاوہ دوسری کوئی چیز ہرگز منظور نہیں ہے، ان تینوں بل کی واپسی ہی مسئلہ کا واحد حل ہے،ورنہ یہ احتجاج جاری رہےگا. کسانوں کی اس تحریک کو ڈیڑھ ماہ سے زائد ہوچکے ہیں لیکن اس کے با وجود ان کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ ہر روز اس میں شدت ہی پیدا ہورہی ہے. کسانوں نے پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کردیاہے ،اور اس کے لئے وہ ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے پرعزم ہیں. کسانوں کی اس تحریک کو ناکام بنانے کے لئے اب تک بہت ساری کوششیں کی گئیں. ان کی تحریک کو بدنام کرنے اور ختم کرنے کے لئے بہت سے حربے آزمائے گئے لیکن حکومت کو اس میں ناکامی ہی ہاتھ آئی. اس آندولن کو ختم کرنے کے لئے برابر سازشیں رچی گئیں لیکن کسانوں کے منظم، مثالی اور حکمت عملی سے پر اس تحریک کو کچلنے میں کامیابی نہیں ملی. حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا افسوسناک رویہ اور ان کی ہٹ دھرمی کسانوں کے مسائل کے حل میں بڑی رکاوٹ پیدا کررہی ہے، جویقینا افسوسناک ہے. 60 سے زائد کسانوں کی موت ہوچکی ہے کئی ایک نے تو خودکشی کرلی، لیکن ان سب چیزوں سے اس بےشرم حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا. حکومت نے 8 بار کسان لیڈروں کو بات چیت کے لئے بلایا لیکن کوئی مسئلہ حل نہ ہوسکا. یہ سمجھئے کہ جتنی بار کسانوں کوبات چیت کے لئے بلایاگیا بات چیت کے نام پر انکا وقت ضائع کیا گیا. تاحال اس احتجاج کو نا کام بنانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں، جس طرح شاہین باغ تحریک کو کچل دیا گیا، کیا کسان آندولن کو بھی اسی طرح طاقت کے نشے میں کچل دیاجائےگا؟ یہ سوال اہم ہوتا جا رہا ہے. گذشتہ ماہ کسان تحریک کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست داخل کی گئی تھی، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کسانوں کو سر حد سے ہٹایا جائے. راستہ بلاک کرکے مظاہرہ کرنا شاہین باغ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری گائڈ لائن کے منافی ہے. اس حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مظاہرے اور روڈ جام کی وجہ سے روزانہ 3500 کروڑ کا نقصان ہو رہا ہے اور خام مال کی قیمت میں 30فیصد اضافہ ہوگیاہے. اس درخواست کی بنیاد پر عدالت عظمی نے مرکزی حکومت سے جواب طلبی کے لئے نوٹس جاری کیا تھا اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اشارہ دیا تھا ،لیکن اسی درمیان مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا نیا حلف نامہ داخل کرتے ہوئے عجلت میں کہا تھا کہ یہ قوانین جلدبازی میں نہیں بنائے گئے، بلکہ یہ دو دہوں کے غور و خوض کا نتیجہ ہیں اور ان کی منسوخی غیر منصفانہ یا نا قابل قبول ہوگی. حکومت کے اس اٹل موقف اورہٹ دھرمی کے بعد تازہ خبر کے مطابق عدالت عظمی نے ان متنازع قوانین پر تاحکم ثانی روک لگادی، اور تعطل ختم کرنے کے لئے 4 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی، لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس کمیٹی میں شامل چاروں ارکان پہلے سے ہی ان تینوں قوانین کی حمایت میں ہیں. پھر یہ لوگ کسانوں کی بات کیسے سنیں گے؟ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ پہلے سے ہی حکومت کے فیصلوں کے حامی ہیں ایسے لوگوں کو ہی اس کمیٹی کے اراکین میں شامل کیوں کیا گیا؟ کیا یہ سب حکومت کے اشاروں پر تو نہیں ہو رہا ہے؟ کیا کسانوں کے احتجاج کو ختم کرنے کے لئے عدالت کا سہارا لیا جا رہا ہے؟ یہ اور اس طرح کے درجنوں سوالات لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں، جس کا ازالہ بہت ضروری ہے. بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے روک لگا کر اور کمیٹی تشکیل دے کر حکومت کے فیصلے پر ساڑھے تین ماہ بعد ہتھوڑا چلا دیا ہے، لیکن یہ بات اس لئے بھی ہضم نہیں ہوتی کہ عدالت عظمی نے 6 سال میں ایک بار بھی موجودہ حکومت کے فیصلے کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور نہ کوئی سرگرمی دکھائی. چھ سالوں میں کئی ایک ایسے فیصلے کئے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اب تک کرنا پڑ رہا ہے لیکن ایک بار بھی سپریم کورٹ نے ان فیصلوں کی مخالفت نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کا بھروسہ عدلیہ سے اٹھتا جارہا ہے، جو جمہوری نظام کےلئے انتہائی خطرناک ہے. ایک ایسے وقت جب کہ ملک شدید بحران کا شکارہے، اور جمہوریت پر خطرہ منڈلا رہا ہے ایسے میں جمہوریت کے تحفظ کے لئے عدالت کی ذمہ داریاں بڑھتی جارہی ہیں. ایسے میں جمہوریت کوتحفظ فراہم کرنا ملک کے ہر شہری اور ہر ادارے کی بنیادی ذمہ داری ہے، ملک کا میڈیا تو اپنا وقار اور اعتماد کھو چکا ہے، میڈیا کی طرح اگر عدالت بھی اپنا وقار محفوظ نہ رکھ سکے تو یہ اس ملک کی بدقسمتی ہی کہلائے گی، جس کا نتیجہ انتہائی خوفناک ہوگا. کسانوں سے بات چیت کے لئے سپریم کورٹ نے جس چار رکنی کمیٹی کی تشکیل کی ہے، کسان لیڈروں نے یہ صاف کر دیا ہے کہ وہ اس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے. 8 جنوری کو جب آٹھویں دور کی بات چیت حکومت اور کسانوں کے درمیان بے نتیجہ ختم ہوگئی تو حکومتی نمائندوں نے اسی وقت یہ کہا تھا کہ "قانون واپس نہیں ہوگا آپ عدالت میں جاؤ” کسان لیڈروں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عدالت نہیں جائیں گے، ہمیں عدالت سے کوئی امیدنہیں ہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے 6سالوں میں ایک بار بھی حکومتی فیصلوں کی مخالفت نہیں کی. جب کہ اس دوران دسیوں فیصلے ملک مخالف اور عوام مخالف ہوئے اس کے با وجود عدالت عظمی نے اس کی مخالفت نہیں کی. لہذا ہم عدالت نہیں جائیں گے اور ہمارا یہ احتجاج جاری رہے گا، سپریم کورٹ نے جس چار رکنی کمیٹی کی تشکیل کی ہے یہ کمیٹی سوالات کے گھیرے میں ہے اور اس پر اعتراضات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے. کانگریس سمیت مختلف اپوزیشن پارٹیوں نے اس پر سوال اٹھایا ہے. رندیپ سرجے والا جو کانگریس کے ترجمان ہیں انھوں نے کہا ہے کہ”ہم سپریم کورٹ کی طرف سے اظہار تشویش کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن جو چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ چونکا دینے والی ہے. یہ چاروں ارکان پہلے ہی سیاہ قوانین کے حق میں اپنی حمایت ظاہر کرچکے ہیں، پھر وہ کسانوں کے ساتھ انصاف کیسے کرسکیں گے؟ چاروں ارکان مودی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ انصاف کیا کریں گے؟ ایک رکن نے حمایت میں مضمون لکھا تھا، ایک رکن نے میمورنڈم دیا تھا، اور تیسرے نے حکومت کو مکتوب روانہ کیاتھا "دوسری طرف کسان تنظیمیں عدالت کے فیصلے پر رضا مند نہیں ہیں. کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا ہے کہ” ملک کے کسان عدالت کے فیصلے سے مایوس ہیں. اشوک گلاؤٹی کی سربراہی میں کمیٹی کی سفارش کی گئی ہے، گلاؤٹی نے زرعی قوانین کی حمایت کی تھی، معزز سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے تمام ارکان اوپن مارکیٹ کے نظام یا قانون کے حامی ہیں. اشوک گلاؤٹی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے ان قوانین کو لاگو کرنے کی سفارش کی تھی. اس فیصلے سے ملک کا کسان مایوس ہے. کسانوں کا مطالبہ قانون کو منسوخ کرنے کا ہے اور کم سے کم قیمت کو ایک قانون بنانے کا ہے” احتجاجی کسان تنظیموں نے دوٹوک اندازمیں یہ کہاہے کہ سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے ہم ہرگز پیش نہیں ہونگے، کیوں کہ یہ کمیٹی موافق حکومت ہے. زرعی قوانين کی منسوخی کے علاوہ ہمیں کوئی بھی فیصلہ منظور نہیں. سنگھو بارڈر پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کسان لیڈر بلبیر سنگھ راجے وال نے کہا کہ کمیٹی میں شامل ارکان کی غیر جانب داری مشکوک ہے. کسانوں نے سپریم کورٹ سے کبھی بھی کمیٹی کی تشکیل کامطالبہ نہیں کیا، تاکہ یہ مسئلہ حل ہوجائے. جونئی صورتِ حال پیش آئی ہے یہ حکومت کا ہی سیاسی کھیل ہے. انھوں نے یہ بھی کہا کہ اصولی طور پر وہ کمیٹی کے قیام کے مخالف ہیں. کیوں کہ احتجاج سے توجہ ہٹانے کے لئے حکومت کا یہ ایک اور حربہ ہے. ہمارے طے شدہ منصوبے کے مطابق 26 جنوری کو ٹریکٹر مارچ بھی ہوگا اور پوری دہلی میں کسانوں کا احتجاجی جلوس نکالا جائےگا” سوراج انڈیا کے سربراہ یوگیندر یادو نے کہاہے کہ متحدہ کسان مورچہ پہلے ہی ایک بیان جاری کر چکا ہے کہ ہم اس کمیٹی کے عمل میں حصہ نہیں لیں گے. عدالت میں ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی تھی جس میں کمیٹی بنانے کے لئے کہا گیا ہو. کمیٹی کانام جاری ہونے کے ساتھ ہی ہمارے خدشات واضح ہوگئے ہیں. یہ ایک سرکاری کمیٹی ہے. زرعی قوانین پر عارضی پابندی عائد کردی گئی ہے جسے کسی بھی وقت اٹھایا جاسکتا ہے. اس بنیاد پر تحریک کوختم نہیں کیاجاسکتا” سوال یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے اگر چہ ان تینوں قوانین پر عارضی پابندی تو لگادی ہے لیکن جب یہ پابندی ختم ہوجائے گی اس کے بعد کیاہوگا؟ کیا وہی ہوگا جو حکومت چاہتی ہے؟ یعنی پھر زبردستی اس کالے قانون کو سر پر تھوپ دیا جائے گا اور نافذ کردیاجائےگا، جب تک کسانوں کایہ آندولن ختم ہوچکا ہوگا. آپ کو یاد ہوگا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے فیصلے پر جس طرح پہلے سپریم کورٹ نے روک لگادی تھی پھر بعد میں عدالت نے اس کی اجازت دے دی تھی، کیا کسانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر حکومت کی منشاء تو پوری ہوہی رہی ہے عوام کے مسائل حل ہوں، ان کے مطالبے پورے ہوں یہ کیاضروری ہے؟
نومبرکے اواخر میں شروع ہونے والی کسانوں کی یہ تحریک شدید سردی میں جاری ہے. حکومت کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ کسانوں کو مطمئن کرتی ان کے مطالبات کوتسلیم کیا جاتا اور لاکھوں بزرگ اور خواتین جو کسان تحریک کا حصہ ہیں انھیں واپس اپنے گھر بھیجا جاتا، لیکن افسوس ناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ کبھی ان پر الزام تراشی کی جاتی ہے تو کبھی بہار اور ہریانہ میں پولس کے ذریعے ظلم وبربریت کا معاملہ کیا جاتا ہے. پولس کے ذریعے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرنے کے بعد ان پر مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے. شدید سردی میں کبھی احتجاجی کسانوں پر پانی کی بوچھار کی جاتی ہے تو کبھی اورکچھ. ہریانہ کے کرنال میں اس وقت ہنگامہ ہوگیا جب کیملاگاؤں میں کسانوں نے وزیر اعلی کھٹر کے ریلی کی مخالفت کی. پولس نے کسانوں کو روکا تو جھڑپ شروع ہوگئی. ہنگامہ اس قدر بڑھا کہ کسانوں کو روکنے کے لئے آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے اور پانی کی بوچھارکی گئی،اور اب خبر یہ ہے کہ ان احتجاجیوں کے خلاف ہریانہ حکومت نے تقریباً سو لوگوں کےخلاف کیس درج کرلیاہے. اس واقعے کے بعد ہریانہ میں سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے اور حکومت پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں. وہاں کی بی جے پی حکومت کسی بھی وقت گرسکتی ہے، کیوں کہ اس کی اتحادی جے جے پی کے قائد اور نائب وزیر اعلی دشنیت چوٹالہ ان دنوں دہلی میں خیمہ زن ہیں اور کل انھوں نے راج ناتھ سنگھ اور امیت شاہ کے علاوہ مودی سے بھی ملاقات کی اور تقریباً ایک گھنٹے مودی سے تبادلہ خیال کیا. سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ حکومت بچانے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے. اسی درمیان یہ خبر بھی آرہی ہے کہ ہریانہ کے 60گاؤں میں بی جے پی اور جے جے پی کے لیڈروں کاداخلہ منع ہے یہ فیصلہ وہاں کی کھاپ پنچایت نے جاری کیا ہے. اخباری رپورٹ کے مطابق بیس ہزار مقامات پر زرعی قوانین کی کاپیاں کسانوں نے کل جلائی ہیں. آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی نے دہلی کے آس پاس کے 300کیلو میٹر کے تمام اضلاع کے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دہلی میں یوم جمہوریہ ٹریکٹر پریڈ کی تیاری کریں اور سرحدوں پر جمع ہوں. یہ شدت سپریم کورٹ کی کمیٹی تشکیل دینے کے بعد پیداہوئی ہے. آگے نتیجہ کیا ہوگا اس بارے میں کچھ کہنا ابھی مشکل ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ کسانوں کی اس ملک گیر تحریک کو کچلنے کےلئے اب عدالت کا سہارا لیا جا رہا ہے. عدالت عظمی کا اگلا فرمان کیا ہوگا اس کے لئے ابھی ہمیں انتظار کرنا ہوگا، کیوں کہ عدالت کے ذریعے تشکیل دی گئی کمیٹی کے سامنے کسانوں نے پیش ہونے اور بات چیت کرنے سے مکمل انکار کر دیا ہے. مرکز کی ہٹ دھرمی اور ضد پر کسانوں نے تویہاں تک واضح کردیا ہےکہ”ہم مریں گے یا جیتیں گے”۔

(مضمون نگارکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے