اردو تنقید کا شمس :  شمس الرحمن فاروقی

اردو تنقید کا شمس : شمس الرحمن فاروقی


محمد منظر حسین
شعبہء اردو
مولانا آزاد کالج، کولکاتا

اردو میں تنقید کے ابتدائی نقوش اردو تذکروں میں ملتے ہیں۔ جب کہ اس کا باقاعدہ آغاز حالی کے مقدمہ شعر و شاعری سے ہوتا ہے۔ اور اسی کتاب نے اردو ادب میں تنقید کو باقاعدہ ایک صنف کے متعارف کرایا۔ پوری ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی حالی اور ان کی کتاب ”مقدمہ شعر و شاعر ی“ کو وہی مقام حاصل ہے جو ابتدا میں تھی۔ یعنی اس کتاب کی اہمیت اردو ادب میں بوطیقاکی سی ہے۔ حالی اور ان کے مقدمہ شعر و شاعری پر شروع سے آج تک تنقید و تنقیص جاری ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغازایک تخلیق کار کے طور پر ہوا.  لیکن آگے چل کر یہی تخلیق کار ایک ایسا تنقید نگار بن جاتا ہے جس پر نہ صرف اردو تنقید بلکہ پورے اردو ادب کو ناز ہے۔ان کی تنقیدی روش کو دیکھتے ہوئے حسن عسکری جیسے معروف و مشہور ناقدکہتے ہیں کہ اب لوگ فاروقی کا نام حالی کے ساتھ لینے لگے ہیں۔ حسن عسکری کے اس جملے کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس سے حالی اور فاروقی دونوں کی ہی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

فاروقی کسی ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک دبستان، تحریک اور عہد کا نام ہے۔ آج کے تنقیدی عہد کو ہم فاروقی کا عہد کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ گذشتہ ساٹھ برسوں میں اردو میں کوئی قابل ذکر بحث ملتی ہو اور اس میں فاروقی کا ذکر نہ ہو ممکن ہی نہیں۔اس لیے آج فاروقی کو LEGEND بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی عہد ساز شخصیت کے تعلق سے چودھری ابن النصیر اپنے مضمون ”شمس الرحمن فارقی نئی شعری روایت کا امین“ میں لکھتے ہیں:
”بعض شخصیتیں اپنی زندگی میں ہی عہد اور روایت کا نام پا جاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کے لا زوال کارناموں سے ان کی شخصیت کی تعبیر اسی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ایسی شخصیتیں اپنے ہی عہد میں LEGEND ہوجاتی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جن کے ساتھ ایک مخصوص شعری اور تنقیدی روایت جڑی ہوئی ہے۔ انہیں اگر LITERARY LEGEND کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔“
(شمس الرحمن فاروقی نئی شعری روایت کا امین، (چوہدری ابن النصیر) کتاب نما، صفحہ: ۱۷۱)


شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی تصورات کے بے شمار پہلو ہیں۔ اور یہ پہلو اتنے وسیع تر ہیں کہ انہیں کسی ایک مقالے میں سمیٹنا ممکن ہی نہیں۔ بہر حال میں ان کے تنقیدی مباحث کے چند پہلو ؤں کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ فاروقی کی سب سے بڑی خوبی ان کا استدالالی انداز گفتگو ہے۔ وہ اپنی استدلال کے ذریعے کسی بھی تحریر میں منطقی ربط پیدا کرنے کے ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں۔ وہ کبھی بھی خلا میں باتیں نہیں کرتے بلکہ ادب میں رہتے ہوئے ادب کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ اپنی باتوں کو مثالوں اور دلیلوں کے ذریعہ اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایمان لانے کو جی چاہتا ہے۔ ان کے بارے میں شروع سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ وہ مغربی نقادوں سے بہت متاثر ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن انہوں نے کبھی بھی دوسرے نقادوں کی طرح اندھی تقلید نہیں کی۔ انہوں نے مغربی تنقید کے جدید رجحانا ت، اسلوبیات، ساختیات ہئیت وغیر ہ کا نہ صرف بغور مطالعہ کیا بلکہ اس سے استفادہ بھی کیا۔مغربی تنقید کے ساتھ وہ مشرقی تنقید کے بھی قائل ہیں۔
اردو میں اگر ہم تنقیدی دبستان کی بات کریں تو فاروقی کا شمارہئیتی اور جدیدنقاد کے طور پر ہوتا ہے۔ اگر ہم ہیئت کا مطالعہ کرتے ہیں توہمیں پتہ چلتا ہے کہ ادبی تنقید میں ہئیت کو ہم دو معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اول کسی بھی ادبی صنف کی ظاہری شکل و صورت اور دوم اس کی داخلی ترتیب اور اس کے مختلف اجزا کے درمیان توازن و تناسب، ربط و آہنگ کو بھی ہئیت قرار دیا جاتا ہے۔ فاروقی کا خیال ہے کہ خارجی ہئیت ہمارے فن پارے کے عام معنوی حدود کو متعین کر دیتی ہے۔ لیکن یہ فن پارے کے اصل معنی کی طرف رہنمائی نہیں کرتی ہے۔ اس کے برعکس داخلی ہئیت ہمیں اصل معنی کی طرف لے جاتی ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
”خارجی ہیئت ہمارے فن پارے کے عام معنوی یا تاثراتی حدود کو متعین کردیتی ہے۔ اور ایک طرح ہمیں پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے کہ فن پارے کا مطالعہ کس سطح پر اور کس نقطہ نطر سے کریں۔ لیکن خارجی ہیئت فن پارے کی اصل معنی کا انکشاف نہیں کرتی۔ داخلی ہئیت ہمیں اصل معنی کی طرف لے جاتی ہے۔ داخلی ہیئت سے میں وہ مسئلہ یا مباحثہ مرادلیتا ہوں جو فن پارے کے جسم میں روح کی طرح پنہاں رہتا ہے اور جو الفاظ کے ذریعہ اپنی شکل ظاہر کرتا ہے اور مختلف منازل اور سد راہ سے گزرتا ہوا آخر میں کسی منظم ترکیب Synthesis یا حل Solution تک پہنچتا ہے۔ داخلی ہئیت فن پارے کی اس مکمل معنوی شکل کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ فن کار اپنے تجربہ کو ظاہر کرتا ہے۔ لہٰذا داخلی ہئیت فن پارے کے موضوع اور شکل و صورت میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ موضوع تجربہ ہے اور فن پارہ محصل موضوع یعنی تجربہ کا جو حصہ نظم یا کسی فن پارے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اس محصل موضوع اور تجربہ کے درمیان ٹکنیک یا خارجی ہئیت ایک باہمی رشتہ یا پل کا کام کرتی ہے۔ موضوع وہی ہے جو ہئیت بن کر ظاہر ہوا اور ہئیت وہی کچھ ہے جو فن کار نے محسوس کیاتھا۔“
(لفظ و معنی شعر کی داخلی ہئیت(شمس الرحمن فاروقی)، ہئیتی تنقید: محمد حسن، صفحہ: ۳)


مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر حالی نے اردو میں باضابطہ تنقید کی بنیاد ڈالی۔ حالی نے پہلی مرتبہ اردو تنقیدکو ایک ذہن دیا۔ انہوں نے اردو ادب کو نظری اور عملی تنقید سے بھی روشناس کرایا۔ وہ خود بھی شاعر تھے لیکن ان کا ذوق شعر و نقد دوسروں سے بالکل مختلف تھا۔حالی کے اندر شعر گوئی کے ساتھ ساتھ شعر فہمی بھی تھی جس کا بین ثبوت ان کا مضمون ”نیچرل شاعری“ ہے۔ بعض افراد نے ان کی تنقیدی صلاحیتوں پر قلم بھی اٹھایا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اردو تنقید کی خشت اول حالی نے ہی ڈالی، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب ان کے پیش نظر نہیں تھی۔ جدید تنقید کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تنقید نے حالی کی تنقیدی بصیرت اور مقدمہ شعر و شاعری میں پیش کیے گئے نکات کا گہرائی سے جائزہ بھی لیا ہے۔ ان ہی جدید نقادوں میں سے شمس الرحمن فاروقی، حالی کے پارکھ بن کر سامنے آئے ہیں۔ فاروقی نے اپنی ایک کتاب ”انداز گفتگو کیا ہے“ میں ایک مضمون بہ عنوان ” سادگی، اصلیت اور جوش “ لکھا ہے۔ اس مضمون میں فاروقی نے حالی کے ذریعہ مقدمہ شعر و شاعری میں سادگی،اصلیت اور جوش کے تعلق سے پیش کیے گئے نظریات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ان کا مضمون اس جملے سے شروع ہوتا ہے:
”حالی نے نئی شاعری کی عمارت جن بنیادوں پر استوار کرنی چاہی تھی انہیں تخیل، سادگی، اصلیت اور جوش کا نام دیا جا سکتا ہے۔“
(سادگی، اصلیت اور جوش(انداز گفتگو کیا ہے)شمس الر حمن فاروقی، صفحہ: ۵۸۱)

اس اقتباس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ حالی نے مذکورہ نکات کی طرف توجہ کیوں کی جب کہ انہوں نے خود غالب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ اس زمانے میں غالب، مومن اور بہادر شاہ ظفر جیسی شخصیتیں شاعری کر رہی تھیں۔ان سے قبل میر، سودا، درد ،حاتم اور آبرو وغیرہ اردو غزل کی زلف سنوار رہے تھے۔ولی اور سراج اردو غزل  کی آبرو بن چکے تھے۔باوجود اس کے حالی نے تخیل، سادگی، اصلیت اور جوش کی بات کیوں کی۔میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ بزرگوں کے علاوہ حالی کے زمانے میں جو لوگ شاعری کررہے تھے ان کے اندر ان باتوں کی یقینا کمی محسوس کی جا رہی تھی۔جس سے غزل مجروح ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ جس کی طرف حالی نے اشارہ کیا ہے۔ اس لیے اگر مقدمہ شعر و شاعری کے دوسرے مباحث کو نظر انداز کر کے صرف حالی کے ذریعے پیش کیے گئے تخیل، جوش، اصلیت اور سادگی کی نوعیت کو اچھی طرح سے سمجھا جائے تو حالی کے تنقیدی افکار سامنے آئیں گے۔ اس لیے فاروقی نے اس مضمون میں ان چار موضوعات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لے کر ایک نئی بحث قائم کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
” ملٹن کو کولرج کے توسط سے پڑھنے کی بنا پر حالی نے جو نتائج نکالے تھے وہ اس لیے غلط تھے کہ کولرج نے ملٹن کے تصورات کو من مانے انداز میں بیان کیا تھا۔ وہ نتائج اس لیے بھی غلط تھے کہ خود حالی نے کولرج کو ٹھیک سے سمجھا نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ بعض باتیں حالی کی اپنی تھیں اور انہوں نے ان کو یورپین محقق کا پردہ رکھ کر بیان کیا۔“
(انداز گفتگو کیا ہے: شمس الرحمن فاروقی، صفحہ: ۴۸۱)
فاروقی اس مضمون میں آگے چل کر مزید لکھتے ہیں؛
” اس مختصر مضمون میں یہ دیکھنا مقصود ہے کہ ملٹن کے نزدیک Simple ،Sensuous اورpassionate کے کیا معنی ہو سکتے تھے۔ اور کولرج نے انہیں کیا سمجھا اور حالی نے انہیں کیا جامہ پہنایا۔ “
(انداز گفتگو کیا ہے : شمس الر حمن فاروقی، صفحہ: ۵۸۱)


اردو کی پوری تنقیدی تاریخ میں مختلف روایتوں، ذہنی رابطوں اور زمانوں کا ایسا ملاپ فاروقی کی تحریروں میں ملتا ہے کہ اس کی مثالیں دوسروں کے یہاں بہت کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ فاروقی کے یہاں قدیم و جدید، مشرق و مغرب، روایتی اور غیر روایتی تصورکا حسین امتزاج ملتا ہے۔ان کا تنقیدی شعور ہمیشہ متحرک رہا ہے۔ انہوں نے اپنی تنقیدوں میں ادب سے متعلق عام بنیادی مباحث کے علاوہ اردو شاعری، اردو فکشن کے بارے میں بھی تفصیلی نظریاتی بحثیں قائم کی ہیں۔ ان کی تنقیدوں سے جہاں ایک جانب ہمیں کسی مخصوص صنف ادب کی تفہیم اور تعین قدر کے لیے نظریاتی بنیا دیں فراہم ہوتی ہیں وہیں دوسری طرف اس صنف کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں اور گمراہیوں کا ازالہ بھی ہوتا ہے۔
اردو ادب میں غالب کی شخصیت مسلم ہے۔ ہر چھوٹے بڑے ناقد نے غالب کے فن پر طبع آزمائی کرنے میں فخر محسوس کیا ہے۔ لیکن ان میں بہت کم ہی لوگوں نے غالب کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ غالب کے فکر و فن پر اب تک صدہا مضامین قلم بند کیے جا چکے ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر مضامین میں تکرار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے مضامین کی تعداد بہت کم ہے جس میں کچھ نئی بات ہوں۔ غالب کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے ابتدائی دور کا کلام اشکال اور اہمال کا شکار تھا۔ لیکن دوستوں کی فرمائش اور کچھ مخالفین کی مخالفت کی وجہ سے غالب نے مشکل پسندی کو چھوڑ کر عام روش میں شاعری کی۔ اس تعلق سے فاروقی لکھتے ہیں۔:
” ”مسترد شدہ دیوان اگر واقعی یا وہ گوئی پر مبنی ہے تو معنی آفرینی پر بار بار اصرار کیوں؟ اس بات پر ضد کیوں کہ ”مولوی صاحب ! کیا لطیف معنی ہیں؟ ”یہ دعویٰ کیوں کہ شعر میرا مہمل نہیں، اس سے زیادہ کیا لکھوں“۔ اس پر مباہات کیوں کہ ”جملے کے جملے مقدر چھوڑ گیا ہوں۔“ یہ شکایت کیوں کہ”بھا ئی مجھ کو تم سے بڑا تعجب ہے کہ اس بیت کے معنی میں تم کو تامل رہا۔“ یہ جملے منظور شدہ اشعار کے بارے میں ہیں۔ اگر صفائی اور واشگافی ہی بہت بڑا ہنر تھا تو ان جملوں کا محل نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب شروع سے آخر تک ایک طرز کے پیرو رہے۔ ان کا ارتقاء خوب سے خوب تر کی طرف ہوا۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ فارسی کے غیر عام اور محاورے سے خارج الفاظ کا بوجھ، جو انہوں نے اپنے اردو کلام میں محض اس وجہ سے روا رکھا کہ ان کے باپ دادا کی زبان اردو نہ تھی اور انہیں مروجہ اردو محاورے پر مکمل دسترس نہ تھی، وہ بوجھ اردو محاورے سے پیہم مزاولت کی وجہ سے کم ہوتا گیا۔ ورنہ سوال جہاں تک اشعار کے مشکل ہونے کا ہے، ان کا دیوان سراپا مشکل ہے۔“
(کتاب نما صفحہ: ۲۵۱)


فاروقی کے اس قول سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہمارا شعر و ادب ایک زمانے سے غالب کے تعلق سے غلط فہمی کا شکار رہا ہے۔ اس غلط فہمی کے طلسم کو پہلی مرتبہ فاروقی نے توڑنے کی کوشش کی۔ فاروقی نے غالب کی تفہیم وتعبیر میں بھی روش عام سے ہٹ کر اپنی الگ راہ نکالی ہے۔ فاروقی کی غالب فہمی کے تعلق سے ظفر احمد صدیقی اپنے مضمون ”فاروقی ناقد غالب میں رقم طراز ہیں:
”غالب سے متعلق شمس الر حمن فاروقی کی تنقیدوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی حیثیت تنقید کے صحرا میں نخلستان کی ہے۔ فاروقی کا نشان امتیاز یہ ہے کہ وہ ہمارے ناقدین میں تنہا شخص ہیں، جن کا رشتہ غالب اور کلام غالب کے ساتھ مستحکم اور استوار ہے۔ انہوں نے غالب کا نہایت باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور چوتھائی صدی سے غالب پر مسلسل کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہیں۔ حالی کی طرح و ہ غالب کے معتقد بھی ہیں، ناقد بھی اور شارح بھی۔ یہ تینوں حیثیتیں ہمارے عہد میں کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔سخن فہمی و غالب شناسی کے ساتھ ساتھ ایک عہد آفریں اور نظریہ ساز ناقد کی حیثیت سے بھی انہیں حالی سے زبردست مماثلت و مشابہت حاصل ہے۔ان کا تنقیدی اسلوب بھی وضاحت، قطعیت اور استدلال کے لحاظ سے حالی سے قریب تر ہے۔“
(فاروقی ناقد غالب(کتاب نما: شمس الرحمن نمبر) ظفر احمد صدیقی، صفحہ: ۱۵۱)


اردوادب میں لفظ ” تنقید “ کے تعلق سے بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ ”تنقید “ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ لفظ ہمیں نہ عربی زبان میں دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی فارسی زبان میں۔ عربی زبان میں عام طور سے تنقید کی جگہ نقد، مناقدہ، انتقاد، اور نقاد وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اردو تنقید کی ابتدائی زمانے کی کتابوں میں محمد حسین آزاد کی کتاب ” آب حیات “ مولانا حالی کی کتاب ” مقدمہ شعر و شاعری “ اور امداد امام اثر کی کتاب ”کاشف الحقائق “ کو اعتبار حاصل ہے۔ لیکن ان کتابوں کے مصنفین نے کہیں بھی اپنی کتابوں میں نقد، مناقدہ، انتقاد، اور نقاد جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا ہے۔جب کہ ان لوگوں کے سامنے عربی و فارسی زبان و ادب کے نمونے موجود تھے اور اس سے ان لوگوں نے استفادہ بھی کیا اس کے باجود بھی ان لوگوں نے اپنی تحریروں میں کہیں بھی لفظ ” تنقید “کا استعمال نہیں کیا ہے۔ اس تعلق سے فارقی کا کہنا ہے کہ لفظ ” تنقید “ اردو والوں کی اپنی ایجاد ہے اور یہ اردو کا ہی لفظ ہے۔ اردو میں لفظ تنقید کا پہلی مرتبہ استعمال مہدی افادی نے ۰۱۹۱ میں کیا ہے۔اس تعلق سے شمس الر حمن فاروقی لکھتے ہیں:
”ایسا نہیں ہے کہ یہ حضرات ”نقد ادب“ کے تصور سے نا آشنا رہے ہوں۔ بجا کہ لفظ ”تنقید‘[ عربی فارسی میں نہیں ہے اور تفعیل کے وزن پر یہ لفظ اردو والوں کا ایجاد کیا ہوا ہے۔ لیکن ”نقد“ ،”مناقدہ“ ، ” انتقاد “ ، اور ”نقاد‘[ تو عربی میں موجود ہیں۔ حالی و آزاد سے تقریباً ہزار برس پہلے قدامہ ابن جعفر نے اپنی شہرہ آفاق کتابیں ”نقد الشعر“ اور ”نقد النثر“ لکھی تھیں۔ ”نقد النثر تو نا پید ہے،لیکن ”نقد الشعر“ موجود ہے۔ حالی، اثر اور آزاد تینوں بلا شبہ اس کتاب سے واقف رہے ہوں گے۔ ان کے یہاں ”نقد“ اور اس سے مشتق اصطلا حات کا عدم استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ خود اپنی نظرمیں وہ نقاد نہ تھے، مورخ، مصلح، مبلغ، سوانح نگار، کچھ بھی رہے ہوں۔ ”تنقید“ کا لفظ ہمارے یہاں سب سے پہلے مہدی افادی نے 1910 میں استعمال کیا۔ بلکہ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر ” تنقید عالیہ “ کی اصطلاح بنائی، جو ان کے خیال میں کسی انگریزی اصطلاح High Critcism کا ترجمہ تھی۔“
(تنقیدی افکار، شمس الرحمن فاروقی، صفحہ: ۷۴۲)


اردو ادب اور خاص طور سے اردو تنقیدمیں شمس الرحمن فاروقی کی بیش بہا خدمات ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اردو کے اکثر و بیشتر اصناف پر نہ صرف اپنی طائرانہ نگاہ ڈالی ہے بلکہ اس کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔ ان کے ادبی کارنامے کم و بیش ساٹھ برسوں پر محیط ہیں۔ اس دوران انہوں نے غزلیں بھی کہیں، نظمیں بھی لکھیں، ناول اور افسانوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ تنقید کو انہوں نے وقار بخشا ہے۔ان کی خدمات کا جہاں  بیش تر لوگوں نے اعتراف کیاہے۔ وہیں کچھ لوگوں نے انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ فاروقی کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں میں لطف الرحمن اور وارث علوی کا نام سر فہرست ہے۔ ان لوگو نے نہ صرف فاروقی کو نشانہ بنایا ہے بلکہ ان کے ہم عصر مابعد جدیدت کے بانی گوپی چند نارنگ کو بھی نہیں بخشا ہے۔ ذیل میں ان دونوں صاحبان کی تحریریں فاروقی اور نارنگ کے سلسلے میں پیش کی جا رہی ہیں۔ لطف الرحمن لکھتے ہیں:
”نئی تنقید کے دو مشہور نام ہیں۔ فاروقی اور نارنگ، دونوں FAKE ہیں۔ تنقید بھی ایک وجدانی عمل اس سے دونوں بے خبر ہیں،افسوسناک حد تک بے خبر۔ دونوں ادب و نقد کی آکاش بیل ہیں،جنہوں نے اپنے بازار چمکائے، کاروبار پھیلائے، لیکن ادب کے رگ و ریشے کا خون چوس لیا۔ ان کا مقصد اعزازات و انعامات کا حصول ہے۔خود تشہیری میں کوئی کسی سے کم نہیں۔ مخلص کوئی نہیں۔ دونوں ہی منافق ہیں، ادب و تہذیب کے دشمن۔ دنیا کے کسی ادب پر ایسا پیغمبری کا وقت کبھی نہیں آیا ہے۔ نہ ادب و فن اس طرح ہوس کے شکار ہوئے۔ یہ ادبی جلاد مسیحائی کے ساتھ سامنے آئے۔ ایک نے ادب پر شب خون مارا، دوسرے نے ادب کا بھگوا کرن کرنے کی کوشش کی۔ گوہر شاہ اور خزف ریزوں میں تمیز سے عاری یہ دونو ہی ادب میں چنگیزی کردار ادا کرتے ہیں۔
(تنقیدی مکالمے، لطف الرحمن، صفحہ: ۱۱)

وارث علوی لکھتے ہیں:
”بات دراصل یہ ہوئی کہ شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے ورود مسعود سے پورا اردو ادب شخصیت پرستی کا شکار ہوا۔ فاروقی اور نارنگ نے وہ کر دکھایا جو دنیا کے کسی اور نقاد سے ممکن نہ ہو سکا۔ گروہ بندی کو انہوں نے پیری مریدی میں بدل دیا، اور مریدوں نے انہیں لات و منات کی طرح پوجا۔ ان کے بھگتوں نے زبان نقد میں ان کے لیے ایسے بھجن اور استوتیاں گائیں کہ میں تو لکھنے لکھانے کا کام چھوڑ کر شر نارتھیوں کی جوتیاں سنبھالنے بیٹھ گیا۔کیوں کہ جب آستانے قائم ہوجاتے ہیں تو صف نعلین بھی ایک مقام رکھتی ہے۔“
بہر حال یہ رائیں فاروقی کے تعلق سے لطف الرحمن اور وارث علوی صاحبان کے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان لوگوں کی ان باتوں سے اتفاق کیا جائے۔ کیوں کہ کسی کی باتوں سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر الزام تراشی نہیں کی جا سکتی ہے۔ایسا ہو سکتا ہے کہ فاروقی کی تحریروں میں کہیں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن ان کی خدمات سے یکسر انکار کر دینا سراسر نا انصافی ہے۔ کیوں کہ فاروقی کی تنقیدی و تحقیقی خدمات اردو ادب میں ایسے خزانہ کی سی ہے جن کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ نا مکمل ہے۔ میں اپنا یہ مقالہ شمس الرحمن فاروقی کے ہم عصر ناقد پروفیسر شمیم حنفی کی باتوں پر مکمل کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں:
”فاروقی کی علمیت اور وسعت مطالعہ حیران کن ہے۔ ان میں تجزیہ کاری اور ترکیب کاری کے اوصاف یکجا نہ ہوتے تو ان کی تنقید میں استدلال کا وہ منفرد انداز بھی پیدا نہ ہوتا جو ہر حقیقت کے حصے بخرے کرنے اور حقیقت کے مختلف عناصر کے امتزاج سے ایک نیا مرکب بنانے کی یکساں استعداد رکھتا ہے۔ فاروقی کی تنقید صرف متاثر نہیں کرتی، قائل بھی کرتی ہے۔ حواس کو محض روشن نہیں کرتی، انہیں متحرک اور آپ اپنے طور پر بھی آمادہ کرتی ہے۔ چناچہ فاروقی کی تنقید نے ادب کے طالب علموں کو EDUCATE کرنے کا رول تن تنہا انجام دیا ہے، وہ نئی تنقید کے مجموعی رول سے کم اہم نہیں اور اثر آفریں نہیں رہا۔ یہ تنقید صرف اردو تنقید کی روایت کو ہی نہیں بلکہ ہماری مجموعی ادبی اور معاشرتی روایت کو ایک نئی جہت دیتی ہے۔ مشرقی اور مغربی پیمانوں اور میزان اقدار کے فرق کو یہ تنقید مٹاتی نہیں، نہ انہیں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ٹھہراتی ہے۔ اس تنقیدنے مغرب سے اپنے اکتسابات کے ذریعہ مشرق کو نئے سرے سے سمجھنے کا ایک جواز مہیا کیا ہے۔ ایک نئے زاویے کی تشکیل کی ہے اور تنقید کے منصب اور مقصد کا معیار اور منہاج کا ایک ایسا تصور وضع کیا ہے جسے ہم شاہد صرف فاروقی سے ہی منسوب کرسکتے ہیں۔“
(فاروقی کی تنقید نگاری سے متعلق چند باتیں (کتاب نما: شمس الرحمن فاروقی نمبر) پرفیسر شمیم حنفی، صفحہ:۶۳۱)


شمس الرحمن فارقی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کے تعلق سے ظفر احمد صدیقی کے خیالات سے بھی اتفاق کیا جاسکتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر جمیل جالبی نے ”تاریخ ادب اردو“ میں شاہ مبار ک آبرو سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر دور کا بڑا اور اہم شاعر صرف ایک ہوتا ہے، بقیہ شعرا اس کی آواز میں آواز ملاتے ہیں۔ راقم حروف اس پراضافہ کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ نہ صرف شاعری بلکہ تنقید کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ آج کی ہر قابل ذکر تنقید میں فاروقی کی صدائے باز گشت صاف محسوس ہوتی ہے۔“
(فاروقی ناقد غالب(کتاب نما: شمس الرحمن نمبر) ظفر احمد صدیقی، صفحہ:۳۶۱)

 Download pdf file 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے