جان ہے تو جہان ہے، پھر دعوت میں لفافہ تو عیادت میں کیوں نہیں!

جان ہے تو جہان ہے، پھر دعوت میں لفافہ تو عیادت میں کیوں نہیں!

تحریر: جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

یہ ایک بہت ہی مشہور کہاوت ہے کہ جان ہے تو جہان ہے یعنی جان سلامت ہے تو سب کچھ ہے جب جان ہی نہیں تو کچھ بھی نہیں. حالاں کہ اس کہاوت کی حقیقت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہنا چاہئیے کہ صحت ہے تو جہان ہے. بڑے بڑے شہروں میں دیکھا گیا ہے آپ کار یا موٹر سائیکل چلارہے ہیں روڈ کے کنارے مختلف قسم کے بورڈ لگے ہوئے ملتے ہیں. کہیں اسپتال ہے تو وہاں بیڈ کا نشان بنا ہوا. وہاں آپ کو آہستہ چلنا ہے. ہوسکتا ہے کوئی جلدی میں دوا لینے کے لئے نکل رہا ہو، وہاں آپ کو ہارن بھی نہیں بجانا ہے کیوں کہ اسپتال کے اندر نہ جانے کیسے کیسے مریض ہیں. آپ کے ہارن کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرانے کی وجہ سے انہیں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے. اس لیے مریض کو بھی بچانا ہے اور دوا لینے جارہے شخص کو بھی بچانا ہےکیوں کہ جان ہے تو جہان ہے. آگے آپ کو اسکول کا بورڈ ملتا ہے اس پر لکھا ہوا بھی ہے کہ برائے کرم آہستہ چلیں اس لیے کہ ہوسکتا ہے کوئی بچہ اچانک آپ کی کار کی زد میں آجائے اور جان گنوا بیٹھے. وہاں پر بھی ہارن بجانے میں احتیاط برتنا ہے اس لیے کہ کہیں کوئی بچہ چکمہ نہ کھا جائے تو آپ کو اس بچے کو چکمہ کھانے سے بھی بچانا ہے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے. آگے آپ کو ریلوے کراسنگ کا بورڈ بھی ملتا ہے وہاں پر آپ کو انتہائی احتیاط سے کام لینا ہے. کیوں کہ جان ہے تو جہان ہے. اور شاعر نے بھی یہی کہا ہے:

تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ

تندرستی ہزار نعمت ہے


اس لیے کہ جان جب تک جسم میں ہے انسان زندہ ہے لیکن جسم میں جان رہتے ہوئے انسان مرض میں مبتلا ہے اور اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے سے مجبور ہے تو کیا اس کے سامنے بھی کہا جاسکتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے. حالاں کہ یہ کہاوت دہرانے اور بار بار استعمال کرنے کا مطلب تو یہی واضح ہوتا ہے کہ جان ہے تو پوری دنیا ہے وہ کہیں بھی جاسکتا ہے، کسی بھی محفل میں شرکت کر سکتا ہے، گھر سے لے کر بیرون ملک تک کا سفر کرسکتا ہے. کیوں کہ اس کے جسم میں جان ہے. تو جب جان ہے تو جہان ہے. اب ایک آدمی زندہ ہے طویل عرصے سے بیمار ہے، بستر پر زندگی اور موت سے جنگ لڑ رہا ہے یعنی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے سال کے بارہ مہینے گزر گئے. محرم سے ذی الحج تک کا مہینہ گذر گیا، دیکھا جائے تو عید و بقرعید، عاشورہ و عید میلاد النبی، شب برات اور پورا رمضان المبارک کا مہینہ بھی آیا اس کی زندگی میں لیکن رمضان میں روزے نہیں رکھ سکا، عید و بقرعید کے موقع پر نماز دوگانہ نہیں پڑھ سکا، کسی سے مصافحہ و معانقہ نہیں کر سکا، کسی کے گھر تہوار کی مبارکباد دینے نہیں جاسکا، خود اس کے گھر پر بھی کوئی آیا تو بستر سے اٹھ کر استقبال نہیں کرسکا، آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے ہیں لیکن سب کچھ کے بعد اس کے جسم میں جان تو ہے لیکن کیا اس کی عیادت کرتے وقت یہ کہا جاسکتا ہے کہ تم بھلے ہی بیمار ہو، بستر پر اپنی زندگی کی سانسیں گن رہے ہو لیکن تم زندہ تو ہو اس لئے کہ تمہارے جسم میں ابھی جان باقی ہے اور جب تمہارے جسم میں جان ہے تو تم یہی سمجھو کہ جان ہے تو جہان ہے. کیا اسے اس طرح سے تسلی دی جاسکتی ہے ہرگز نہیں. ہاں وہ صحت مند ہوتا، تندرست ہوتا تب اس سے یہ بات کہی جاسکتی ہے. ایسی حالت میں اس کے پاس دولت ہے، علاج کر نے کی وسعت ہے اور وہ علاج نہیں کر رہا ہے تب اسے بطور مشورہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تمہارے پاس دولت ہے تمہیں اپنا علاج کرانا چاہئے. کیوں کہ تم جانتے ہو کہ جان ہے تو جہان ہے. اور یاد رکھنا چاہیے کہ وسعت ہوتے ہوئے بیماری کا علاج نہ کرانا بھی غلط ہے اس لیے کہ دوا اور دعا یہ ضروری ہے. اور یہ دینی تعلیم بھی ہے لیکن ہاں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ایک شخص سخت بیمار ہے اور علاج بھی نہیں کرا رہا ہے کسی طبیب، کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جارہا ہے تو آخر کیا وجہ ہے. اور ضروری ہے کہ اس بات کی معلومات انتہائی خفیہ طریقے سے کی جائے تاکہ اس بیمار شخص کی دل آزاری نہ ہو. انسان کی زندگی میں خوشی اور غم دونوں مواقع پیش آتے ہیں. یہ دنیا کا دستور ہے کہ کسی گھر سے دلہن کی ڈولی اٹھتی ہے تو کہیں سے کسی کا جنازہ اٹھتا ہے. ڈولی سجانے کے لیے تو رشتہ دار، اعزہ و اقرباء جوق درجوق آتے ہیں، کسی کو نوشہ اور دولہا بنانے کے لیے بھی آتے ہیں، پھر ولیمہ میں بھی آتے ہیں اور بلائے بھی جاتے ہیں، تحفے تحائف بھی لے کر آتے ہیں، روپیہ پیسہ بھی لے کر آتے ہیں، جہاں سازوسامان ہوا کرتے ہیں وہیں لفافے میں روپے اور پیسے بھی ہوتے ہیں. جب کہ ان رشتہ داروں کو اور دوست احباب کو اور عزیز و اقارب کو یہ خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم یہ سامان نہیں لے جائیں گے اور پیسہ نہیں دیں گے پھر بھی یہ شادی رکنے والی نہیں ہے اس لیے کہ لڑکی اور لڑکے کے سرپرست، والدین، گھر والے سب لوگ شادی کے انتظامات بہت پہلے سے کرتے ہیں وہ اس دن کی تقریبات میں شرکت کرنے والوں کے بھروسے نہیں رہتے ہیں. ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس شادی بیاہ کی تقریبات کے موقع پر جو تحفے تحائف آتے ہیں اور ان میں جو نقد رقم ہوتی ہے وہ تقریبات کے اختتام پر اس تقریبات کا انعقاد کرنے والے کے لیے کچھ راحت کا ذریعہ بنتی ہے. لیکن کوئی پہلے سے اپنی بیماری کے علاج کے لیے تیاری نہیں کرتا. کیوں کہ اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ میری زندگی میں کب بیماری لگے گی اب ایسی صورت میں جو دولت مند ہیں وہ بیماری کی حالت میں بڑے بڑے اسپتال میں جاتے ہیں اور بڑے بڑے ڈاکٹر سے اپنا علاج کراتے ہیں لیکن بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بیماری کی کوئی ذات برادری نہیں ہوتی، بیماری لگنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی. دنیا میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس قدر کمزور ہیں کہ وہ کسی کے گھر جانا تو دور کی بات ہے جس کمرے میں رہتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے کمرے میں نہیں جاسکتے، لیٹے ہیں تو کھڑے نہیں ہوسکتے، مالی حالت اتنی خستہ ہے کہ وہ اپنا علاج بھی نہیں کرا سکتے تو عیادت کے لیے وہی لوگ آتے ہیں جو شادیوں میں تحفے تحائف لے کر آتے تھے، جو لفافے میں بند کرکے پیسے لے کر آتے تھے لیکن آج وہی رشتہ دار، عزیر و اقارب آتے ہیں تو بس خالی ہاتھ جب کہ انہیں معلوم ہے کہ میں جس کی عیادت کرنے آیا ہوں اس کے پاس علاج کرانے کے لئے پیسہ نہیں ہے تو اس موقع پر بھی اسی لفافے میں حسب حیثیت کچھ پیسے لے کر کیوں نہیں آتے. اور اسی طرح بطور امداد لفافے میں پیسے رکھ کر کیوں نہیں دیے جاتے. لہذا اب سے ہمیں یہ طریقہ اپنانا چاہیے کہ کسی مریض کی عیادت کرنے جائیں تو جس طرح پھل فروٹ لے کر جاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ ہم اپنی وسعت کے مطابق لفافوں میں پیسے رکھ کر لے جائیں اور مریض کے جو ذمہ دار ہیں انہیں انتہائی خلوص کے ساتھ دیں اور مریض کی شفایابی کے لیے دعائیں کریں اور مریض سے عیادت کرنے والے لوگ اپنے لئے بھی دعا کرنے کے لیے کہیں. جب ہم ایسا ماحول بنائیں گے تو انشاءاللہ لوگوں کو اپنا علاج کرانے میں آسانی ہوگی، انسانیت کو فروغ حاصل ہوگا، ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگا دنیا میں جہاں بہت ساری رسمیں ایجاد ہوئیں وہیں اس رسم کے ایجاد کی ضرورت ہے رب کریم سب کو سلامت رکھے ہر آفت و بلا و بیماری سے محفوظ رکھے .آمین
– – – – – – – –
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یوپی
رابطہ 8299579972

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے