فن افسانہ نگاری کا علی بابا : مشتاق احمد نوری

فن افسانہ نگاری کا علی بابا : مشتاق احمد نوری

رفیع حیدر انجم

 

مشتاق احمد نوری کو میں لڑکپن سے پہچانتا ہوں ۔ جوان ہوا تو انہیں کچھ کچھ جاننے لگا اور اب جب کہ جوانی پھسلنے پر آمادہ ہے ، مجھے لگتا ہے کہ انہیں سمجھنے بھی لگا ہوں ۔ اس پہچاننے ، جاننے اور سمجھنے کے تدریجی عمل نے میرے اندر محسوسات و تجربات کی ایک دنیا آباد کر رکھی ہے ۔ ایک ایسی دنیا جس میں طلسم کی پرچھائیاں بھی ہیں اور حقیقت کی رعنائیاں بھی ۔

بات لڑکپن کے تجربوں سے شروع کی جائے تو شاید مشتاق احمد نوری کی ہمہ جہت شخصیت کا محاصرہ آسان ہوگا کہ یہ ایک تہہ دار ( اور طرحدار بھی ) شخصیت کے مالک رہے ہیں ۔ بہت دنوں تک میں مشتاق احمد نوری کے فن اور شخصیت کے متعلق چند معتبر اور غیر معتبر ذرائع سے موصولہ اطلاعات پر بھروسہ کر تا رہا ۔ ان سے ملاقات کا شرف تو تب حاصل ہوا جب وہ خود محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ سے منسلک ہوگئے ۔ ان سے پہلی ملاقات کو میں ادبی یا ذاتی تعلقات کی بنا پر محمول نہیں کر سکتا ۔ یہ ملاقات مشتاق احمد نوری کی ایک سرسری سی جستجو تھی جسے میری تحریری کاوشوں کا نتیجہ کہنا چاہیے ۔ ان دنوں میرے افسانے قابل ذکر ادبی رسائل میں چھپنے لگے تھے ۔ مشتاق احمد نوری کو تجسّس ہوا کہ اس شہر میں دوسرا کون ہے ؟ ادبی دستور کا یہ تقاضا تھا کہ بحیثیت جونیئر رائٹر مجھے اپنے سینیر سے ملنا چاہیے ، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ جب میں نے لکھنا شروع کیا تو بذات خود مشتاق احمد نوری کی شخصیت کے طلسم میں گرفتار تھا اور اس طلسم سے باہر نکلنے کی کوئی کلید میرے پاس نہیں تھی ۔ اگر میں کسی طلسم کی گرفت میں نہیں تھا تو پھر مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا تھا کہ افسانہ نگار ہونے کے لئے مشتاق احمد نوری جیسی شخصیت کا پرتو ہونا لازمی ہے ؟ میں سمجھتا تھا کہ مشتاق احمد نوری بیٹھے بٹھائے افسانہ نگار نہیں ہو گئے بلکہ اس شخص کی زندگی میں جو جو سانحات و واقعات رونما ہوئے ہیں ان سے گذر کر ہی کوئی دوسرا فن افسانہ نگاری کا ‘ علی بابا ‘ ہو سکتا ہے ۔
مشتاق احمد نوری کے متعلق معتبر اور غیر معتبر ذرائع سے موصولہ اطلاعات کا مختصر احوال یہ ہے کہ ان کا تعلق ارریہ ضلع کے ایک گاؤں سے ہے ۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے گردوپیش گاؤں​ کا ماحول دیکھا ۔ گاؤں کے مدرسہ سے تعلیم شروع کی ۔ تعلیمی سلسلہ آگے بڑھا تو ارریہ جیسے چھوٹے شہر میں آگئے ۔ آگے کی تعلیم کے لیے پورنیہ کا رخ کیا اور پھر پٹنہ ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے اندر ادبی ذوق کب اور کیسے پیدا ہوا ۔ اطلاعات بتاتی ہیں کہ کم عمری میں ہی انہوں نے بچوں کیلئے کہانیاں لکھیں اور ماہنامہ ‘ نور ‘ رامپور نے اس شوق کو ہوا دی ۔ اسی رسالے نے انہیں ” نوری ” بنایا ۔ کچھ عشق و عاشقی کی بھی خبریں موصول ہوئیں ۔ ناکامئ عشق سے دل برداشتہ ہوئے اور مجنوں جیسی صورت میں بھی دو ایک بار دیکھے گئے ۔ پورنیہ کالج میں ایک ڈرامہ اسٹیج ہوا جس میں انہوں نے مرزا غالب کا کردار ادا کیا اور اس کی بڑی شہرت بھی ہوئی ۔
تخلیقی نگارشات سے الگ انکی ذاتی صفات کے سلسلے میں متضاد باتیں سننے کو ملی ہیں ۔ مثلاً مشتاق احمد نوری انانیت پسند ہیں ۔ وہ صرف اپنی تعریفیں سننا پسند کرتے ہیں ۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ کسی سے مرعوب نہیں ہو تے بلکہ دوسروں کو مرعوب کرنے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ وہ اپنے عہدہ اور اثرو رسوخ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ان اطلاعات نے میرے ذہن و دل پر مشتاق احمد نوری کی شخصیت کا جو جال بنا وہ کسی طلسماتی دھند سے کم نہیں تھا ۔ ایک دبیز طلسماتی دھند ۔۔۔ لیکن جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی اور آفتاب سوچ کی کرنیں بکھرنے لگیں تو طلسماتی دبیز دھند خود بخود معدوم ہوتی چلی گئی اور میں نے حقیقت کی تلاش میں سرگرداں مشتاق احمد نوری کو ایک عام آدمی جیسا پایا ۔ ہمارے ہی ماحول کا پروردہ لیکن نکھرا نکھرا اور صاف ستھرا ایک شخص جو آج بھی تلاش و جستجو اور جہد مسلسل میں جی رہا ہے ۔ گویا مشتاق احمد نوری ایک اسٹرگلر کا نام ہے اور ہر اسٹرگلر کی طرح ان کی چوڑی پیشانی پر محنت و مشقت کی لکیریں نمایاں ہیں ۔ درمیانہ قد کا یہ افسانہ نگار درمیانہ روی کا قائل ہے ۔ ان کے کتابی چہرے پر غوروفکر سے معمور آنکھیں تخلیقی جوت کا پتہ دیتی ہیں اور مسکراہٹ سے لبریز ہونٹوں پر فاتح ادب کا گمان گذرتا ہے ۔ دنیاداری کے ساتھ ساتھ دینداری کا مسلک ان کے سراپا سے ظاہر ہے ۔
مشتاق احمد نوری کے بیشتر افسانے سماجی حقیقت نگاری کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور جو انہیں نزدیک سے جانتے ہیں انہیں یہ سمجھتے دیر نہیں لگتی کہ یہ اپنے افسانوں میں بذات خود موجود ہوتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہندی کے شہرت یافتہ ادیب پھنیشور ناتھ رینو پورے رینو ساہتیہ میں موجود ہیں ۔ شاید اس لئے کہ رینو گاؤں ( ہنگنا اوراہی ) اور نوری گاؤں ( گوگی پوٹھیا ) کے درمیان فاصلہ بہت کم ہے ۔
میں نے ان کے افسانوں کو لےکر کبھی تبادلہء خیال نہیں کیا ۔ اسکی ضرورت اس لئے نہیں پڑی کہ جس طرح وہ ایک صاف گو انسان ہیں اسی طرح ان کے افسانے بھی صاف گوئی سے اپنا منشا ظاہر کر دیتے ہیں ۔ ان کے افسانے پڑھ کر میں تھوڑی سی بے چینی ضرور محسوس کرتا ہوں ۔ ظاہر ہے حد سے زیادہ بے باکی اور راست گوئی کو آدمی برداشت نہیں کر پاتا ۔ مجھے لگتا ہے مشتاق احمد نوری اپنے قلم سے قاری میں ایک طرح کی بے اطمینانی پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ پیش نظر مسئلہ کی جانب سے لوگ آنکھیں موند کر بے خبری میں نہ پڑے رہیں ۔ ویسے بھی غفلت میں پڑے ہوؤں کو بیدار کرنے کے فن میں انہیں مہارت حاصل ہے ، خواہ وہ انسان ہوں یا انسانوں کا بنایا ہوا کوئی ادارہ ۔ بہار اردو اکیڈمی کے سکریٹری ہوئے تو برسوں سے غیر فعال اس ادارے میں نئ جان ڈال دی ۔ اکیڈمی کے جریدہ ‘ زبان و ادب ‘ کو ادبی میعار و وقار تک پہنچایا ۔ اسی طرح رسالہ ‘ بہار ‘ جس کی طرف لوگ دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے ، بڑے بڑے ادبی شہسواروں کو اس کا انتظار رہنے لگا ۔
مشتاق احمد نوری کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘ تلاش ‘ ہے ۔ دوسرا ‘ بند آنکھوں کا سفر ‘ اور تیسرا ‘ چھت پر ٹھہری دھوپ ‘ ۔ مشتاق احمد نوری نے اپنا پہلا افسانوی مجموعہ میری نذر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ” میں انہیں اپنا ادبی وارث سمجھتا ہوں ” ۔۔۔۔۔۔۔ میری سمجھ سے ادب وراثت میں ملنے والی چیز نہیں ہوتی ۔ ورثہ متروک و متنازعہ شے کا نام ہے ، جب کہ ادب فن کاروں کی سوچ کا مطیع ہوتا ہے ۔ ہر ایک فن کار کا ادبی برتاؤ جداگانہ ہوتا ہے اور اس کے وائرس باہر سے انجیکٹ نہیں کئے جا سکتے ۔ انسانی قدروں کے ساتھ ساتھ ادب میں تغیر و تبدل ناگزیر ہے ۔ لہذا ادب میں یکساں وراثت قایم و دائم نہیں رہ سکتی ۔
مشتاق احمد نوری اپنے مزاج و انداز کے اور اپنے میعار و وقار کے افسانہ نگار ہیں ۔ ان کا موازنہ میں دوسرے افسانہ نگاروں سے کر کے انکی افتادگئ طبع کو مجروح نہیں کرنا چاہتا ۔ میں یہی سوچ کر خوش اور مطمئن ہوں کہ جب بھی مشتاق احمد نوری کا کوئی افسانہ پڑھتا ہوں تو میرے مقابل صرف مشتاق احمد نوری ہوتے ہیں جن کی شخصیت کے طلسماتی حصار میں قید رہنا آج بھی اچھا لگتا ہے.

نوٹ: یہ شخصی خاکہ 2006 میں احسان قاسمی کے رسالہ ‘عکس’ کے لیے لکھا گیا تھا. جسے بعد میں ان کے فیس بک البم ‘سیمانچل ادب کا گہورہ’ پر شائع کیا گیا اور اب اشتراک پر شائع کیا جارہا ہے. اشتراک احسان قاسمی کا شکر گزار ہے.

رفیع حیدر انجم کا تعارف، فن اور افسانہ یہاں پڑھیں:

رفیع حیدر انجم: تعارف، فن اور افسانہ 

شیئر کیجیے

2 thoughts on “فن افسانہ نگاری کا علی بابا : مشتاق احمد نوری

  1. جناب مشتاق احمد نوری پر یہ خاکہ احسان قاسمی نے اپنے رسالہ عکس میں شائع کرنے کے لئے مجھ سے لیا تھا مگر کسی وجہ سے عکس کا وہ شماری نکل نہیں پایا اور میں بھی اسے تقریباً بھول چکا تھا. یہ تو طیب فرقانی صاحب کی محبت ہے جو انہوں نے احسان قاسمی کے توسط سے اسے حاصل کرکے اشتراک میں جگہ عطا کر دی اور مجھے بھی حیران کر دیا. طیب فرقانی ہمیشہ اپنی ان اداؤں سے خوشگوار حیرانی میں ڈال دیا کرتے ہیں اور میں شکریہ کہ کر رہ جاتا ہوں. ان کی محبتوں کا اسیر اور کر بھی کیا سکتا ہے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے