قاضی جلال ہری پوری کی نعتیہ شاعری

قاضی جلال ہری پوری کی نعتیہ شاعری

ہشدار کہ نتواں بیک آہنگ سرودن
نعتِ شہِ کونین و مدیحِ کے و جَم را
عرفیؔ! مشتاب ایں رہِ نعت ست نہ صحرا ست
آہستہ کہ رہ ہر دم تیغ است قدم را

نعتیہ شاعری کے تعلق سے عرفی کے یہ اشعار رہنما اصُول(Guide Lines) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے سرِ مُو انحراف کرنے پر خطرات کا اندیشہ ہے۔ خطرہ وہ بھی جان کا نہیں ایمان کا۔یعنی کسی فکر و خیال کو فنّی پیکر عطا کرتے وقت اس کو سوبار احتیاط کی چھلنی میں چھان لینا چاہیے. مجھے خوشی ہے کہ قاضی جلال ہری پوری نے نعت گوئی کے فنّی تقاضوں کا بہر طور لحاظ رکھا ہے۔وہ واقعی محبّتِ رسولؐ میں غرق تھے، اور حدیثِ پاک: لایُوْمِنُ احدُکُمْ حتیٰ اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلیہِ منْ وَّلَدِہ وَ وَالِدِہ والنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ: کے مطابق حُبِّ رسولؐ کو ایمان کی جان اور شان سمجھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے کہا ہے:
سلطانِ رُسُل ہادیِ ذیشاں ہے محمدؐ
ہے کعبہء دیں، قبلہء ایماں ہے محمدؐ
جانا ادب سے گنبدِ خضریٰ میں اے صبا!
جبریلؑ پر بچھاتے ہیں اس آستان میں
سب نبی ان کی آمد کی لائے خبر
سارے نبیوں کا سلطاں ہمارا نبیؐ

حضور انورصلی اللہ علیہ و سلم سید الجن و الانس ہیں اس پر تمام کلمہ گویوں کا ایمان ہے. قاضی جلال ہری پوری بھی سوادِ اعظم کے اس عقیدہ ومسلک سے کامل اتفاق رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
نجاتِ اُخروی ممکن نہ تھی صنفِ مُکلَّف کی
اگر تو رہنما بن کر نہ آتا جنّ و انساں کا
مصرعِ اول میں صنفِ مکلف سے مرادجن و انس کا عاقل وبالغ طبقہ ہے. شاعرِ محترم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر آپؐ ہمارے ہادی و رہنمابن کر تشریف نہیں لاتے تو نجاتِ اُخروی کا تصوُّر بھی محال تھا۔ آپؐ کے دامنِ کرم سے وابستگی کے نتیجے میں ہم کل عرصہء محشر میں نجات و مغفرت کی تمنا اور توقع رکھتے ہیں۔
ایک شعر میں قاضی جلال ہری پوری اپنی بلند خیالی اور حقیقت نگاری کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضورؐ کی تشریف آوری کا ہی یہ فیضان ہے کہ خلائق میں رب سبحانہٗ تعالیٰ کا تعارف ہوا اور ہم ربِّ کائنات کی توحید کا غلغلہ بلند کرتے ہیں۔ ان کا اشارہ اس معروف حدیث کی طرف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا (کنتُ کنزاً مخفیاً الخ)تو میں نے چاہا کہ خلائق مجھے پہچانے تو میں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پیدا فرمایا۔ اس تناظر میں شاعر کا یہ خیال بہت ہی بلند و ارفع ہے ملاحظہ ہو:
خدائی میں، خدا کی کس کو ہو سکتی شناسائی
نہ آتا تو اگر پیغام لے کر دین و ایماں کا
اس نعت کایہ شعر بہت ہی اہم اور توجہ کش ہے کہ:
اجابت سے قریں ہرگز نہ ہوتی توبہء آدم ؑ
وسیلہ پا نہیں سکتے اگر حضرتؐ کے احساں کا
یعنی سیدنا آدم علیہ السلام سے جو لغزش سرزد ہوئی، اس کے غم میں وہ ایک طویل مدت تک آہ و اشک باری کرتے رہے، لیکن رحمتِ خداوندی متوجہ نہیں ہوئی، مگر جب نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ و واسطہ دیا تو آپ کی تقصیر معاف ہوگئی۔ مولانا عبد الرحمان جامیؔ نے کیا خوب کہا ہے:
اگر نامِ محمد را نیاوردے شفیع، آدمؑ
نہ آدمؑ یافتے توبہ، نہ نوحؑ از غرق نجیّنا
(اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو حضرتِ آدم ؑ شفیع نہ بناتے تو نہ حضرت آدمؑ توبہ کو پاتے نہ حضرتِ نوحؑ غرقابی سے نجات پاتے)

تمام خوش عقیدہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے اگرچہ اس دھرتی پرکچھ بددین و بد بخت بھی ہیں جو حضورِ پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے توسُّل کو شرک قرار دیتے ہیں۔ قاضی جلال ہری پوری نے اپنے مقدس اسلاف واکابرکے تتبُّع میں بہت خوب کہا ہے. اس طرح سے حضرتِ جلال نے مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے اس عقیدہ اور خیال کو بھی بڑے حسین پیرایے میں نظم کیا ہے کہ:
لولاک کے خلعت سے نوازا اسے حق نے
ممدوحِ خد ا، عرش کا مہماں ہے محمدؐ

اس شعر میں بڑی گہرائی، تہہ داری اور طرح داری ہے پہلے مصرعے میں لفظ لولاک سے انھوں نے اس معروف حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ: لَوَْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَفْلاکَ: اس کا صاف اور سلیس ترجمہ یہی ہے کہ محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ علامہ اقبال نے بھی لولاک کی صداقت پر یوں مہر لگائی ہے:
عالَم ہے فقط مومنِ جاں باز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
دوسرے مصرعے میں ’ممدوحِ خدا‘ کی ترکیب بھی بہت پُر معنی اور بلیغ ہے۔ غالبؔ نے بھی کیا خوب کہا ہے:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است

آیتِ پاک ”وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ“ اس پر شاہد ہے کہ آپ ممدوحِ خدا ہیں. اسی لیے حضرتِ جلال نے بہت حق کہا ہے، سچ کہا ہے۔ مصرعہء ثانی میں عرش کا مہمان کہہ کر حضورِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے سفر معراج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایک شعر میں تین اہم امور کی طرف توجہ دے کر حضرتِ جلال نے اپنی زبر دست فنکارانہ بصیرت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے سمند ر کو قطرے میں سمونے کا فنکارانہ عمل پیش کیا ہے۔
اس نعتِ پاک کا آخری شعر بھی فکرِ بلند اور فنِ لطیف کا نقیب ہے:
اس رحمتِ عالم کا ترحُّم بھی عجب ہے
امت ہے گنہہ گار، پریشاں ہے محمدؐ
یہاں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ رحمۃ العالیمینی اور شفیع المذنبینی بڑے مختصر مگر مؤثر پیرایے میں بیان کیا گیا ہے۔ احادیثِ پاک کا ذخیرہ اس امر پر ناطق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امتِ مرحومہ کی نجات کے غم میں ہمیشہ روتے بلکتے رہے۔ اما م احمد رضا بریلوی ؒ نے اس حقیقت کی یوں ترجمانی کی ہے:
آہ! کل عیش تو کیے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
تاریخ و سیر کی کتابیں اس امر پر شاہد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ربِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ کہتے ہوئے پیدا ہوئے اور حیاتِ ظاہری کاخلعت اتارتے وقت بھی اپنی گنہ گار امت کو یاد کرتے رہے، اس شفقت و کرم کی کوئی مثال نہیں۔
آفتاب کی ردیف میں حضرتِ جلال نے جو نعت کہی ہے وہ بھی فکری و فنی لحاظ سے بہت اچھوتی اور لاجواب ہے مطلع ہی دیکھئے کتنا زوردار ہے:

مانا مہ و نجوم کا سرور ہے آفتاب
جھوٹا ہے جو کہے تم سے بہتر ہے آفتاب

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حسنِ عالم گیر کے سامنے آفتاب کی کیا بساط ہے؟ وہ تو آپؐ کے حکم کا بندہ ہے مقامِ صہباء میں آپؐ نے اشارہ فرمایا، ڈوبا ہوا سورج پھر سے نکل آیا اور عالم تمام مطلعِ انوار ہو گیا. دوسرے یہ کہ اس کی روشنی آپؐ کے رخِ تاباں کی خیرات ہے اسی لیے آفتاب آپؐ کے رخِ زیبا کے سامنے آنے کی ہمّت بھی نہیں کرسکتا۔ اس شعر میں تغزُّل کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے. دوسرا مصرع بالکل الہامی رنگ کا ہے اور بولتا ہوا ہے۔ اس طرح سے قاضی جلال ہری پوری کا یہ شعر بہت ہی بلند اور ایمان افروز ہے:

مانا مہ و نجوم کا سرور ہے آفتاب
جھوٹا ہے جو کہے تم سے بہتر ہے آفتاب

دوسرے مصرعے میں جو قطعیّت کی شان پائی جاتی ہے اس کاکوئی جواب نہیں. اندازِ بیاں اہلِ ذوق سے داد طلب ہے:
کافر کو ہے صداقتِ اسلام پر شبہ 
ورنہ تمہارا روئے مُنوّر ہے آفتاب

حضرتِ آسیؔ غازی پوری ؒ نے بھی اس مضمون کو اپنے مخصوص اندا ز میں یوں باندھا ہے:

تمہارے حسن کی تصویر کوئی کیا کھینچے
نظر ٹھہرتی نہیں عارضِ منوّر پر

حضرتِ جلال کا ایک نعت کا مطلع ہے:

میرے نبی سا کون ہے کون و مکان میں
عظمت ہے جن کی بعدِ حق دو جہان میں


’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘کی یہ حسین تشریح ہے۔ حضرت امیر خسرو ؒ کی ایک مشہور غزل کے مطلع میں بھی کچھ اہلِ دل حضرات نعت رنگ کی نشان دہی فرماتے ہیں جو بعد از خدا بزرگ توئی کی تفسیرِ جمیل ہے ملاحظہ ہو:

آفاقہا گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام لکن تو چیزے دیگری

یعنی پوری کائنات میں آپ ؐ سارے اچھوں میں اچھا اور اونچوں میں اونچا ہیں. بالفاظِ دگرقدرت کی ایسی شاہ کار تخلیق جو حسنِ صورت اورحسنِ سیرت دونوں میں لاجواب و بے مثال ہے۔ اسی لیے حضرتِ جلال نے بہت خوب کہا ہے اور عشقِ رسولؐ میں ڈوب کر کہا ہے۔ اسی لیے وہ یہ بشارت بھی دیتے ہیں کہ: 

جو صدق سے حضورؐ پہ پڑھتے رہے درود
پائے مٹھاس قند کی، اپنے دہان میں


یعنی اخلاصِ نیت اور قلب کی طہارت درود خوانی کی اہم شرط ہے اور مندرجہ ذیل شعر پر بھی عمل کرنے کی توفیق مل جائے تو کیا کہنا:


ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبی ست


حضرتِ جلال کی اپنے آقا و مولاصلی اللہ علیہ و سلم سے بے پایاں عقیدت و شیفتگی کے مظہر یہ دونوں شعر بھی ہیں:
قدموں کو ان کے چوم کے کہنا مرا سلام
طیبہ کا کوئی شخص جو بادِ صبا! ملے
مرا دل چاہتا ہے چوم لوں تیرا قدم حاجی!
غباروں میں ترے پاؤں کے، خوشبوئے مدینہ ہے


مدینہ طیبہ کے مسافروں کے قدموں کی دھول کو چوم لینے کی تمنا کرنا عشقِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہا ہے۔ ایک عاشقِ صادق کا ہمیشہ یہی شعار رہا ہے۔ ایک عربی شاعر نے بھی کیا عمدہ بات کہی ہے:


ومِنْ مَذْ ھَبِیْ حُبُّ الدَیَارِِ لاھلِہَا
وللنَّاسِِ فیما یعشِقُوْنَ مَذَاھِبُ


(میرے مذہب میں دیار سے محبت کرنا صاحبِ دیار کی وجہ سے ہے اور عشق میں لوگوں کے الگ الگ مذاہب ہوا کرتے ہیں۔) اعلیٰ حضرت بریلوی ؒ نے بھی اس مضمون کو باندھا ہے. انھوں نے اپنی فکر کو تو اور بھی ہمدوشِ ثریّا کر دیا ہے۔ یہاں کسی شخص کے نہیں، سگ کے پاؤں چومنے کی بات کہی گئی ہے جو ظاہر ہے بالکل اچھوتا خیال ہے اور عشقِ رسولؐ کی معراج پر دال ہے:


رضاؔ کسی سگِ طیبہ کے پاؤں بھی چومے
تم اور آہ کہ اتنا دماغ لے کے چلے


سگ کا مضمون حضرتِ جلال کے یہاں بھی ملتا ہے اور بڑے سلیقے اور محبت سے اسے نظم کیا گیا ہے:


گو سراپا خوار ہوں تُودہء عصیاں ہوں میں
پھر بھی آقا آپؐ کے در کا سگِ درباں ہوں میں


حضرتِ جلال کی معصوم سی تمنا بھی لائقِ رشک ہے کہ:
مرنا بھی سہل ہوئے آساں ہو جینا بھی
فردوس بداماں ہے صحرائے مدینہ بھی


صحرائے مدینہ کو فردوس بداماں قراردینا بہت پاکیزہ خیال ہے۔ راقم الحروف نے بھی اپنے ایک شعر میں اس خیال کو باندھنے کی کوشش کی ہے:


ہمارے واسطے کافی ہے صحرائے مدینہ بھی
وہیں ہو ختم سانسوں کا سفر آہستہ، آہستہ


مختصر یہ ہے کہ حضرتِ جلال ہری پوری ایک کامیاب اور کہنہ مشق شاعرِ نعت ہیں انھوں نے بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ نعتیں کہی ہیں۔ اسی لیے’از دل خیزد و بر دل ریزد‘کی صداقت سے وہ مملو اور منوّر ہیں۔ ان کے بعض شعروں میں شعری جمالیّات کا بھی پرتو نظر آتا ہے۔ اس لیے ان کو اردو کے ممتاز ومحترم نعت گویوں کی صف میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ ان کا سرمایہء کلام بہت قلیل ہے۔ اس کے باوجود ان کا کلام بقامت کہتر بقیمت بہتر کا مصداق ہے۔ میں ان کے نعتیہ اشعار سے بے حد متاثر ہوں، مولاتعالیٰ بطفیلِ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قلمی کاوشوں کو قبول فرماکر جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین۔!

 

مضمون نگار کا تعارف:

نام : فاروق احمد صدیقی

نام والدین : سلیم الحامدی مرحوم ، بی بی آمنہ خاتون مرحومہ

آبائی وطن : پوکھریرا، سیتامڑھی، بہار

تعلیم: ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں

اعلی تعیلم: بہار یونیورسٹی مظفر پور میں ( ڈبل ایم ۔ اے پی ایچ ڈی (اردو) )

ملازمت: بہار یونیورسٹی مظفر پور صدر شعبہ اردو، بہار یونیورسٹی سے سبکدوش ہوئے ۔

تصانیف :

افہام و تفھیم

تفھیم و تجزیہ

مقالات فاروقی

احساس و ادراک (مذکورہ کتابیں تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہیں)

ازھار مدینہ ( نعتیہ شعری مجموعہ)

سبشتان نعت ( اردو کے مشاہیر نعت گو شعرا کے نعتیہ کلام کا انتخاب مع کوائف)

قلمی سفر جاری ہے سیمناروں اور مشاعروں میں شرکت محبوب مشغلہ ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے