عبدل بھائی کی معلمی

عبدل بھائی کی معلمی

طیب فرقانی 


عبدل بھائی نے تعلیم سے فراغت کے بعد جب معلمی کا پیشہ اختیار کیا تو ان کے شاگردوں میں بھی کئی ایک ’’عبدل بھائی ‘‘ تھے ۔ذہین ،تیز طراراور بال کی کھال نکالنے والے ۔بال کی کھال نکالنا ان طلبا کے لئے ویسے بھی آسان تھا کیوں کہ وہ جس زمانے اور ماحول میں تھے وہاں گرل فرینڈ آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں ۔جو اکثر اپنے بالوں سے نوازتی رہتی ہیں ۔پہلے بال کی کھال نکالنا اس لئے بھی دشوار تھا کہ گرل فرینڈ تو تھیں نہیں ،بیویاں ہوتی تھیں وہ بھی ایک عدد۔اور کسی نے اگر دو عدد بیویاں رکھ بھی لیں تو اسے اپنی ہی کھال بچانے کی فکر لگی رہتی تھی ۔اب تو گرل فرینڈ کا معاملہ یہ ہے کہ بسا اوقات وہ خود ہی چھوڑ کر دوسرے سے چپک جاتی ہے ۔اور رنڈوا کہلانا کسے پسند ہے ۔اس لئے بوائے فرینڈ بھی دوسرے سے چپک جاتا ہے ۔خیر قصہ کوتاہ ۔بات چل رہی تھی عبدل بھائی کی معلمی اور ان کے شاگردوں کی ۔اب وہ زمانہ تو رہا نہیں جب استاد ۵۶ گروں میں سے ایک بچا کر رکھتا تھا ،اورضرورت پڑنے پر اسی ترپ کے پتے کو استعمال کرکے رستم و سہراب کہلاتا تھا ۔اب تو بچے گرو  کو ہی گر سکھا دیتے ہیں اور ایسے موقعے پر گرو جی کا جی چاہتا ہے کہ وہ گڑ کی پوری بھیلی ہی نگل لیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ اب گڑ بھی صرف سردیوں میں ہی کوئی کسان شہر کو لاکر دوچار پیسے کما لیتا ہے ۔ رہی مصری کی ڈلی تو وہ بھی بٹلہ ہاؤس کے منگل بازار میں ہی ملتی ہے ۔اس لئے اب گڑ کھاکے گل گلے سے پرہیز کا زمانہ لد گیا ۔اب سگریٹ پی کے سسکاری مارنے کازمانہ ہے ۔چنانچہ ایک دن ایک طالب علم اپنے استاد عبدل بھائی کے سامنے ہی سگریٹ پینے لگا ۔عبدل بھائی کو ایسا لگا جیسے اس نے مشرقی تہذیب پر کالک نہ پوت کر اسے سگریٹ کے دھوئیں سے اجلا اور سفید کر دیا ہو ۔بالکل سفید ۔کورا۔عبدل بھائی اسے دیکھ کر خون کا گھونٹ بھی نہ پی سکے کیوں کہ ان کے جسم میں موٹاپے کی وجہ سے اتنی چربی تھی کہ ڈر تھا کہ کہیں چربی پگھل نہ جائے اور خون کی ندیاں بہنے کے بجائے چربی کی ندی بہہ نکلے ۔عبدل بھائی کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو خون نہیں ایسی حالت میں انھیں صرف ایک شعر یاد آیا


کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی


یہی شعر انہوں نے پڑھ دیا ۔پھر تو گویا علمی و ادبی محفل ہی گرم ہوگئی ۔شرم کا لفظ سن کے حاضرین محفل کا خون ہی تو گرم ہوگیا ۔تو شروع ہوگئی فلسفیانہ گفتگو ۔ایک بولا جناب شرم کسے کہتے ہیں ؟عبدل بھائی کے جسم میں اتنا پانی تو تھا کہ وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتے یا ضرورت پڑنے پر ایک چلو پانی میں ڈوب مرتے ۔اس لئے انھوں نے ایک طویل فلسفیانہ تقریر کی ۔’’شرم ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کو برائی سے روکتا ہے ۔جب تمھیں احساس ہوکہ تمہارے اندر شرم نہیں رہی تو سمجھ لینا کہ اب تم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہو۔شرم کا لفظ تین حروف سے بنا ہے ۔شین سے مراد ہے شرافت ۔رے سے مراد ہے ردا یعنی چادر اور میم ۔۔۔میم ۔۔۔۔‘‘ عبدل بھائی وفور جذبات میں میم کی مراد بھول گئے ۔اس بھول پر انھیں بڑی شرم آئی اور پھر وہ جھنجھلاگئے ۔تبھی ایک طالب علم نے لقمہ دیا ’’جناب میم سے محبت ۔‘‘اس پر عبدل بھائی کو اور غصہ آیا ۔’’محبت !


ہونٹ کی شیرینیاں کالج میں جب بٹنے لگیں
چار دن کے چھوکرے کرنے لگے فرہادیاں


محبت کا مطلب تم لوگ کیا جانو۔ ارے محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے ۔یہ ماں سے بھی ہوتی ہے ،بہن سے بھی ہوتی اور بیوی سے بھی ہوتی ہے ۔‘‘پھر کسی طالب علم نے ٹوکا ’’اور جناب گرل فرینڈ سے ؟‘‘’’تمہاری اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ گرل فرینڈ انگریزی لفظ ہے ۔انگریزوں کی یہ ناپاک سازش رہی ہے کہ گرل فرینڈ کو اس طرح پیش کرو کہ ساری دنیا سے محبت کا اصل مطلب ہی اٹھ جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جناب محترم حالی مرحوم کو غزل سے سنڈاس کی بو آتی تھی ۔‘‘’’جناب یہ سنڈاس کیا ہوتی ہے ؟‘‘ ’’ہوتی ہے نہیں ہوتا ہے ۔یہ وہی ہوتا ہے جسے آج شہری زندگی میں واش روم اور ٹوائلٹ کہا جاتا ہے جب کہ دیہات اور شرفا کے یہاں پاخانہ اور بیت الخلا کہاجاتا ہے ۔ لیکن ٹوائلٹ کلینر پرفیوم استعمال کر کے اپنی گندگی چھپانے والے کیا جانیں کہ ہمارے بزرگوں نے سنڈاس کی کیسی بھیانک بدبو برداشت کر کے ہمیں ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں ہم نے شرم و حیا کی چادر کو تار تار کر دیا ہے ۔‘‘ اب پھر عبدل بھائی شرم کے موضوع پر لوٹ آئے ۔’’شرم انسان اور حیوان میں خط امتیاز ہے ۔یہ ایک انمول نعمت ہے جسے مل جائے وہ سنبھال کے رکھے ۔‘‘ پھر ایک طالب علم بولا ۔ نہیں جناب اگر وہ ہمیں کیمپس میں کہیں ملے گی تو ہم اس سے کہہ دیں گے کہ آپ نے اسے یاد کیا ہے ۔‘‘ ’’ارے یہ نعمت کسی لڑکی کا نام نہیں ہے ۔نعمت مطلب خدائی انعام ۔‘‘ اب کے ایک فلسفی نما طالب علم بولا ’’ جناب ! انعام اللہ ان لوگوں پر فرماتا ہے جو سیدھے راستے پر چلیں ۔‘‘ ’’بالکل صحیح ۔ شاباش! ‘‘ یہ جواب سن کر عبدل بھائی کے اندارکا انقباض کچھ کم ہوا اور ماحول کے دھندلا پن میں روشنی کی ایک لکیر پھوٹی تو عبدل بھائی کو میم کی مراد یا د آگئی اور انھوں نے کرخدار آواز میں کہا’’شین سے شرافت ،رے سے ردا اور میم سے موت ۔یعنی جو ردائے شرافت اتار دے اس پر موت واقع ہوجاتی ہے ۔اور جو شرم و حیا کی چادرمیں لپٹا ہو موت کا ہاتھ اس کے گریبان تک کبھی نہیں پہنچتاہے ۔یہ مت سمجھنا کہ مرنا تو سبھی کو ہے ۔ہر گز نہیں ۔مرتا وہی ہے جو شرم وحیا سے عاری ہوجائے ۔ صاحب شرم مر کے بھی زندہ رہتا ہے ۔غالب نے اپنے شعر


موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی


میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو لوگ بے شرم ہوجاتے ہیں انھیں راتوں کو نیند نہیں آتی ۔وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ انھیں حقیقی موت نہ آجائے ۔او ر۔۔۔۔آہا ہا۔۔۔ذوق نے بھی کیا خوب کہا ہے ۔
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے ‘‘


موت کے ذکر نے فضا کو سوگوار کر دیا ۔تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی ۔تبھی ایک ٹپکا ۔’’جناب! یہ جو کہتے ہیں کہ موت کے منہ سے نکل آیا تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟‘‘ ’’یہ دراصل موت نہیں ایک احساس ہے ۔ جب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا ۔اس کا بھی تعلق زیادہ تر بے شرمی سے ہی ہے ۔جب لوگ بے شرم ہوجاتے ہیں تو ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔جمع خوری کرتے ہیں ۔اور پھر جب سی بی آئی کا شکنجہ کستا ہے تو جوڑ توڑ میں لگ جاتے ہیں ۔اگر یہ لوگ معمولی حیثیت کے ہوں تو سی بی آئی کا شکنجہ خونی قاتل بن جاتا ہے اور ان کا انت بے عزتی اور جیل کی شکل میں ہوتا ہے جو ایک شریف آدمی کے لئے موت سے کم نہیں ۔لیکن اگر یہ لوگ بڑی کمپنیوں کے ہوں ،اونچی دوکان والے ہوں (چاہے پکوان پھیکا ہی کیوں نہ ہو) تو وہ اپنے اثرو رسوخ اور سیاسی پارٹیوں کو دئے گئے چندوں اور حمایتوں کے عوض موت کے منہ سے نکل آتے ہیں ۔یاد رکھو شرم نیکی اور برائی کو پرکھنے کا ایک بہترین آلہ ہے ۔جس کام میں تمھیں شرم محسوس ہو سمجھو وہ کام برا ہے۔‘‘ پھر ایک ٹپکا ۔’’جناب !یہاں میں آپ سے اختلاف کروں گا ۔وہ یہ ہے کہ برائی کی تعریف سب کے نزدیک الگ الگ ہے ۔ایک چیز کو کوئی برا سمجھتا ہے تو اسی کو کوئی اور فیشن سمجھتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک عورت گھر سے نکلنے کو بھی برا سمجھتی ہے وہیں دوسری عورت کینیڈا میں خوب پورن فلمیں بناتی ہے اور جب انڈیا آتی ہے تو لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور میڈیا اس کے گن گاتی ہے ۔لوگ اس کے قصے سنتے سناتے ہیں ۔یا اسی سگریٹ والے مسئلے کو لے لیں یہ اپنے والد کے سامنے پیتا ہے تو اس کے والد کچھ نہیں کہتے جب کہ آپ برا مان گئے حالاں کہ آپ ایک اعتبار سے اس کے باپ کے بھی باپ یعنی دادا ہیں ۔‘‘ عبدل بھائی کو اس ذکر پر پھر غصہ آگیا ۔اور وہ وہاں سے یہ کہہ کر چل دئے کہ


جب بھی والد کی جفا یاد آئی

اپنے دادا کی خطا یاد آئی 

پھر رکے ایک شعر اور پڑھا


علم میں جھینگر سے بڑھ کر کامراں کوئی نہیں
چاٹ جاتا ہے کتابیں امتحاں کوئی نہیں


پھر چل دئے ۔۔۔۔۔….. 

طیب فرقانی کا پچھلا انشائیہ نام میں کیا رکھا ہے!
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے