(غزل) ہجر کی شب خواب میں وہ مجھ کو تڑپانے لگے

(غزل) ہجر کی شب خواب میں وہ مجھ کو تڑپانے لگے

رضوان ندوی


ہجر کی شب خواب میں وہ مجھ کو تڑپانے لگے
کرکے وعدہ وصل کا وہ دل کو بہلانے لگے
گردشِ دوراں نے مجھ کو کردیا یوں پائمال
جتنے اپنے تھے جہاں میں، سب ہی بیگانے لگے
اس ستم گر کے ستم کا یہ بھی اک انداز ہے
زخم دے کر دل کو میرے پھر وہ سہلانے لگے
مدّتوں سے آشنائی تھی مری جن سے، وہی
اس بھری محفل میں بالکل مجھ کو انجانے لگے
بزم میں ان کی ہوئی آمد کچھ اس انداز سے
جتنے فرزانے تھے اس میں سب ہی دیوانے لگے
گلشنِ دل پر گری ہیں بجلیاں اتنی کہ بس
پھول میری زندگی کے سارے مرجھانے لگے
اس طرح رضواں ؔ! ہوئے ہیں ہم حوادث کے شکار
بزم میں سب کی نظر میں ہم تو دیوانے لگے



تعارف شاعر:
نام: محمد رضوان ندوی
قلمی نام: رضوان ندوی
والد: قاضی حامد حسن
والدہ: عذرا خاتون
تاریخِ پیدائش: 3/3/1979 
جائے پیدائش: مقام قاضی ٹولہ بھاگ طاہر(ہری پور) پوسٹ امور، وایا بائسی، ضلع پورنیہ، بہار
شریکِ حیات: کہکشاں ریاض
اولاد: قاضی محمد تابش، ادیبہ ناز، الیفہ ناز
تعلیمی لیاقت:
دینی علوم: عالم، فاضل
عصری علوم: ایم۔ اے (اردو) ، بی۔ ایڈ
مشغلہ: درس وتدریس:
ملازمت: استاد اردو، ایس۔ ایس ہائی اسکول، تیلتا، بلرام پور، کٹیہار
رابطہ نمبر 7004999654/ 9955984127

تصنیفات و تالیفات:
مطبوعہ کتابیں:-۱۔کلامِ قاضی جلال ہری پوری، ،۲۔باقیاتِ قاضی جلال ہری پوری،۳۔ آئینہ ء خیال(مکتوباتِ قاضی جلال ہری پوری) ۴۔ارمغانِ قاضی نجم ہری پوری،۵۔قاضی نجم ہری پوری اور قاضی جلال ہری پوری: فکر وفن، ۶۔ غنچہء عشق(فارسی شعری مجموعہ مع اردو ترجمہ قاضی نجم الدین رسواؔ ہری پوری)، ۷۔ باقیاتِ قاضی نجم ہری پوری، ۸۔ یادِ رفتگاں (مصنف قاضی نجم الدین ہری پوری)
غیر مطبوعہ کتابیں:- ۱۔ دیوانِ غالب کا عروضی مطالعہ،۲۔کلیاتِ اقبال کا عروضی مطالعہ،۳۔ مشہور شعرا کے منتخب کلام کا عروضی مطالعہ۔

رضوان ندوی کی مزید غزلیں :

غزل
تیرگی کے شہر میں یہ روشنی اچھی لگی
غم کے ماروں سے یہ ان کی دوستی اچھی لگی
چل رہا تھا دشت میں اک اجنبی کے ساتھ میں
راستے میں مجھ کو ان کی رہبری اچھی لگی
قافلہ دل کا اگر، لٹ ہی گیا تو کیا ہوا
اس حسیں پیکر کی، لیکن رہزنی اچھی لگی
عمر ساری کٹ گئی دشتِ جنوں کی سیر میں
اس پری پیکر کو، میری بے گھری اچھی لگی
گرچہ میں معتوب ہوں رضواں ؔ! نگاہِ یار میں
مجھ کو، لیکن ان کی طرزِ بے رخی اچھی لگی


غزل
جسے ہو خوف دریا سے، شناور ہو نہیں سکتا
جو دل پُر ہو محبت سے، وہ پتھر ہو نہیں سکتا
ضروری ہے کہ رہبر آشنائے دشت و صحرا ہو
جو ناواقف ہو منزل سے، وہ رہبر ہو نہیں سکتا
زمیں پر بکھرے ہیں ہر سو مناظر حسن و خوبی کے
مگر اس ماہِ تاباں کے برابر ہو نہیں سکتا
مرے مولیٰ مجھے کر آشنا تو رازِ فطرت سے
جو ہو ناآشنا اس سے، سخن ور ہو نہیں سکتا
چراغِ داغِ دل سے ہے منوّر میرا کاشانہ
کسی کا گھر مرے گھر کے برابر ہو نہیں سکتا
مجھے امیّد ہے رضوانؔ! اب بھی اپنے دلبر سے
مرا دلبر و جانِ جاں ستم گر ہو نہیں سکتا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے