مری آنکھوں کے دریا سے سمندر ٹوٹ جاتا ہے(غزل)

مری آنکھوں کے دریا سے سمندر ٹوٹ جاتا ہے(غزل)

وارث جمال ممبئی




مری آنکھوں کے دریا سے سمندر ٹوٹ جاتا ہے
مقدر کو جو دیکھوں تو مقدر ٹوٹ جاتا ہے

بہت ڈرتا ہوں اپنے پیار کا اظہار کرنے سے
جو ہوتا پیار دو طرفہ وہ اکثر ٹوٹ جاتا ہے

بہت جی چاہتا ہے لے کے اُڑ جاؤں غم دنیا
مگر کوشش ہی کرنے میں مرا پر ٹوٹ جاتا ہے

بہت نازک سی لڑکی ہو زرا بچ کے چلا کیجے
یہ نازک دور ہے شیشے سے پتھر ٹوٹ جاتا ہے

تصور میں کبھی جب تم ذرا سا پاس آتے ہو
مرے غم کا مقدر مجھ پہ آ کر ٹوٹ جاتا ہے

لکھی تاریخ ایسی ظالموں نے قطرہ خوں سے
جب آئے چھے دسمبر تو کیلنڈر ٹوٹ جاتا ہے

وارث جمال کی دوسری غزلیں اور تعارف :

یہ دل تمہارے دل کا پتہ پوچھ رہا ہے (غزل)
شیئر کیجیے

One thought on “مری آنکھوں کے دریا سے سمندر ٹوٹ جاتا ہے(غزل)

  1. Bht khoob
    Maashallah
    ✨🔥🔥🔥🔥
    Is dour me jahan sab chote bade log shayar bane phir rahe hain
    Jinko ek misra likhne ki tameez nhi hai
    Wahan par ek itna umda shayar hai jisko bht zada mash-hoor hona chiye
    Hum sabka farz banta hai
    Waris bhai ki is ghazal ko zada se zada share krein taaki ye unlogo tak pahoche jo shayri k naam par mazak krre hain
    Aur unko bhi pata chle ki ghazal kisko kehte hain ♥️🙌🏻

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے