رفیع حیدر انجم: تعارف، فن اور افسانہ

رفیع حیدر انجم: تعارف، فن اور افسانہ

مرتب: احسان قاسمی

تعارف:
نام : محمد رفیع حیدر
قلمی نام : رفیع حیدر ا نجم
تاریخ پیدائش : 6 اکٹوبر 1955
مقام پیدائش: بھا گلپور ( بہار )
والدین : محمد شفیع حیدر ، حمیرہ خاتون
آبائ گاوں : ڈانگول ، کٹیہار ( بہار )
تعلیم : ایم ۔ اے
شریک حیات : نیلوفر پروین
ثمر حیات : نایاب ہارون ، نوید انجم
وسیلہ ء حیات : شعبہ ء اردو اے ، ایم ڈگری کالج ، ارریہ
پہلا طبع زاد افسانہ : شمع ہر رنگ میں ( مطبوعہ ما ہنامہ خو شبوئے ادب ، کلکتہّ 1977)
افسانو ں کا مجموعہ : بے ارادہ ( 1998 )
پتہ : گا چھی ٹولہ ، وارڈ نمبر 24 ، ا رریہ ۔ 854311 ( انڈیا )
—————-

رفیع حیدر انجم کے افسانوں پر مشاہیر ادب کی رائے:

ڈاکٹر خواجہ نسیم ا ختر
’’رفیع حیدر انجم کے افسانوں میں معاصر عہد کے مختلف النوع مسائل چاہے URBANISATION کے نتیجے میں یہ مسائل سراُ ٹھاتے ہیں ، اس کا فن کا رانہ بیان ہو یا پھر ذات کی شکست یا پھر تشخیص کا مسئلہُ جو اس عہد کا بنیادی مسئلہ ہے یا پھر INFLATION OF SE LF کا ردعمل کی عکاسی سے عبارت کوئی تخلیق ، موصوف کے افسانوں کا مطا لعہ یا محاسبہ ان باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔‘‘

ڈاکٹر احمد دانش
’’ رفیع حیدر انجم جدید ماحول کے پر وردہ ہیں ۔ انہوں نے تخلیقی مراحل میں کہانیوں کے جدید عناصر سے کام لیا ہے یعنی علا متیں ، اشارے کنائے ، کشمکش ، اضطراب اور روح کی گھٹن ان کے افسانوں کے لوازمات ہیں ۔‘‘

اقبال واجد
’’رفیع حیدر انجم بیسویں صدی کی آٹھ ویں دہائی کے فعال ، حساس اور زمہ دار فن کار ہیں ۔ زندگی کو بحیثیت مجموعی اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہوئے وہ کبھی علامتوں ، استعاروں اور تجرید کا سہارا لیتے ہیں اور کبھی اسے سادگی اور صفائی  کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔ ان کے یہاں اپنی شناخت کا رویہّ ایک مصنوعی صورت حال پیدا کرتا ہے اور قاری کو زندگی کے علائق سے گہرے طور پر وابستہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چنانچہ علائق کے ساتھ وابستگی کی لا شعوری کو ششیں رفیع حیدر انجم کے تخلیقی شعور کو زندگی کے ان در پردہ رموز سے آشنا کرتی ہیں جن سے آج ہماری نسل کے بیشتر افسانہ نگار واقف نہیں ہیں ۔‘‘

حقا نی القاسمی
’’رفیع حیدر انجم نے اپنی ایک الگ تخلیقی دنیا بسائی ہے ۔ انھیں اپنی تخلیقی قوت اور فن پر پورا اعتماد ہے ۔ اس لیے  وہ شہرت کے بینڈو گن پر سوار نہیں ۔ انہوں نے LITERARY GIMMICKS کا کبھی سہا را نہیں لیا ۔ وہ ادبی اُٹھائی گیروں اور آ رگنائزڈ مافیا سے ہمیشہ دور رہ کر کنج تنہائی میں اردو فکشن کی آبیاری کرتے رپے ۔ ” بے ارادہ ” میں 22 افسانے شامل ہیں اور یہ تمام افسانے ایک نئے سماجی تہزیبی منطقے دریافت کرتے ہیں ۔
رفیع حیدر انجم کے افسانوں میں داخلی کشمکش ، ذہنی تناوُ ، باطنی کرب ، انسان کی بے حسی ، بے مروتی ، استحصال ، جبر اور قصبآتی زندگی کے مسائل اور المیوں کا سچا بیان ملتا ہے‘‘

مشرف عالم ذوقی
’’رفیع حیدرانجم کا مطالعہ وسیع ہے ۔ ان کےپاس منفرد اسلوب اور وژن ہے ۔ ساتھ ہی ایک مخصوص آیئڈ یا لوجی بھی اور اس کے سہارے ہی وہ اپنی خو بصورت با معنی کہا نیوں کی عمارت کھڑی کرتے ہیں. مجھے یہ احساس بھی ہے کہ پچھلے 25 برسوں سے مسلسل اور بے تکان لکھنے کے باوجود ان پر گفتگو کے دروازے نہیں کھلے.

شہنواز قریشی ، لکھنوُُ ، 18 جون 1984
آپ کا افسانہ ” خواب خواب زندگی ” نیا دور ، اپریل 1984 کے شمارے میں شائع ہو گیا ہے ۔ یہ اس افسانے کاحسن اور اس کی اہمیت ہی ہے ۔ جس نے اسے اتنی جلد شامل اشاعت کرادیا ہے ۔آپ کے اس افسانے سے میں ذاتی طور پر بھی متا ثر ہوا ہوں اور یہ آپ کا پہلا افسانہ ہے جو میری نظروں سے گزرا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تازگی اور نیا پن ہوتے ہوئے بھی اس میں کہیں ابہام نہیں ہے ۔‘‘

شاہد جمیل ، سہسرام ، 20 جولائ 2000
’’میرا خیال ہے ، کہانی کی رگ اب باقاعدہ آپ کے ہاتھ آگئ ہے اور کوئی بھی پلاٹ ہو وہ آپ تک پہنچ کر فن پارہ بننے میں تاخیر نہیں برتے گا ۔ یہ ضرور ہے کہ خود آپ دلیپ کمار کی طرح دو دو برس بعد منظر عام پر آئیں ۔‘‘

خالد عبا دی ، دربھنگہ ، 31 اکتوبر 1982
’’آپ کی کہانی ” شاعر ” کے افسانہ نمبر می دیکھی ۔ پسند آئی ۔ علا متوں کو کامیابی کے ساتھ برت لینا بچوں کا کھیل نہیں مگر آپ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ ایک طرح کی بزرگی کے حامل ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ افسانہ تر سیل کی حد سے آگے کی منزل تک کسی بیانیہ سے زیادہ کامیاب ہے‘‘

اقبال حسن آزاد ، مو نگیر ، 2011
’’ر فیع حیدر انجم کا بیا نیہ بڑا رچا ہوا ہوتا ہے ۔ جس سے قاری کی دل چسپی افسانے کے پہلے پیرا گراف سے ہی شروع ہو جاتی ہے ۔غیر ضروری طوالت سے گریز ان کا خاصہ ہے ۔ موضوع کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں ۔کم لکھتے ہیں مگر اچھا لکھتے ہیں ۔‘‘

شاہد اختر ، کانپور ، 25 جنوری 1992
’’کتاب نما کے فروری کے شمارے میں آپ کی کہانی ” بےارادہ ” پڑھی ۔ بھئ بہت خوبصورت کہانی لکھ دی آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔ افسانے کی بنت ، موضوع سب سے شاندار ہے اور اچھی کہا نیاں جو میرے ذہن میں ہیں ، اس میں آپکی ‘ بے ارادہ ‘ بھی شامل ہے ۔‘‘

شوکت حیات ، پٹنہ ، 12 ستمبر 1990
’’ایوان اردو میں ‘ قرار داد ‘ پر آپ کی رائے پڑھی تھی ۔ میں نے کئ بار شدت سے محسوس کیا ہے کہ آپ میں افسانے کی تجز یاتی تنقید لکھنے کی بے پناہ قوت مضمر ہے ۔کاش آپ ا فسانہ لکھنے کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی باضابطہ رجوع کرتے۔‘‘

رضا نقوی واہی ، پٹنہ ، 12 اپر یل 1990
’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کے افسا نے نہیں پڑھے ۔ ترقی پسندی کے زوال کے بعد 1960 سے افسانوں اور شاعری پر ایسا پیغمبری وقت آیا کہ فنکار اور قاری کارشتہ ایک دوسرے سے منقطع ہو گیا تھا ۔ اس دور میں میں نے عا فیت اسی میں سمجھی کہ نا قابل فہم تحریریں پڑھ کر خواہ مخواہ دماغ کو بو جھل نہ بناوں ۔ یہ الرجی دس بارہ برس تک رہی ۔ آپ کے افسانے اسی دور ابتلاء میں چھپتے رہے جنھیں نہ پڑ ھنے کا جرم مجھ سے سرزد ہوتا رہا۔

———-
افسانہ

سفر ایک شہر کا
میں ابھی ابھی اس شہر میں وارد ہوا ہوں اور شام سے قبل لوٹ جاؤں گا ۔ یہ ایک خوبصورت شہر ہے لیکن اس عروس البلاد کی پر شکوہ عمارتوں ، پر ہجوم سڑکوں اور بارونق بازاروں کے درمیان مجھے اپنا وجود بے کراں سمندر میں گم ہوتی ہوئی کشتی کی طرح محسوس ہوتا ہے ۔ کیا یہ وپی شہر آرزو ہے جو کبھی میرے دل کی بستی میں خوشگوار یادوں کی طرح خیمہ زن تھا ؟ لیکن وہ خیمہ تو طوفان حوادث میں اجڑ چکا ہے اور اب یہاں جلی ہوئی رسیّ اور خالی صراحی کے نشان تک باقی نہیں رہے ۔ دل کی بستی ویران ہوئی تو تمام نشانیاں سوکھے ہوئے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گیئں ۔ اس شہر کی نئ تبدیلیاں اپنی پر اشتباہ نگاہوں سے میرے ذہن و دل کے گو شوں کو کرید رپی ہیں اور مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ تو کون ہے اور یہاں کس جستجو میں آیا ہے ؟ میں اپنا خالی کا سہ دکھا کر آگے بڑھ جاتا ہوں لیکن فصیل شہر کی اجنبی آنکھیں میرا تعاقب کرتی ہوئی مجھ تک پہنچ جاتی ہیں اور مجھ سے میرا شانختی کارڈ طلب کرتی ہیں ۔
میں نے اپنی تمام جیبوں کی تلاشی لے لی ہے لیکن چند سکوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا ۔ ان سکوں سے کیا ہو سکتا ہے ؟ ———-
ٹی وی ، فریج ، اسکوٹر ، لڑکیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔سڑکیں ، گلیاں ، پوسٹر ، جلوس ، نکڑ اور چوراہے ۔۔۔۔۔۔۔ ان سکوں کی کیا اوقات ؟
ہاں ! ایک کپ چائے دو بسکٹ ، مٹھی بھر چنے یا پھر مونگ پھلی کا ایک ٹھونگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یکا یک میں خود کو بہت تھکا ہوا محسوس کرتا ہوں ۔مجھے اب لوٹ جانا چاہیے ۔ یوں بھی شناختی کارڈ کے بغیر اس شہر میں زیادہ دیر رہنا اخلاقی جرم کے مترادف ہے ۔
تھوڑی دیر کے لئے ایک چوراہے پر ٹھہر کر سوچتا ہوں کہ اس شہر کی تبدیلیوں نے لوگوں کو کتنا اجنبی اور لاتعلق بنا دیا ہے ! ہر شخص مشینی انداز میں کسی انجانی منزل کی سمت نگاہیں جمائے تیز رفتاری سے فاصلہ طے کر رہا ہے ۔
بھائی ۔۔۔۔۔۔۔آپ کہاں جا ئیں گے ؟ ……..
ایک دراز قد اور خوش لباس شخص سے پوچھنا چاہتا ہوں جو میری ہی طرح بس کے کیو میں کھڑا ہے لیکن پوچھنے کی ہمت نہیں پڑتی کہ وہ شخص متواتر اخبار کی سرخیوں کو چاٹ رہا ہے ۔ کیا خبریں اتنی دلچسپ ہیں کہ اس تپش بھری دوپہر کو مسافروں کی بھیڑ ، شوروغل اور حبس زدہ ما حول میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔؟
میری پر اشتیاق نظریں اخبار کے جلی حروف کا احاطہ کرتی ہیں :
پولیس اور تخریب کاروں کے مابین جھڑپ ، انتہا پسندوں کے ذریعہ قتل کی واردات ۔ کمسن بچی کی آبروریزی ۔ کراسن تیل ، ڈیزل اور پانی کا بحران ۔۔۔۔۔میں گبھرا کر اپنی نگاہیں ہٹالیتا ہوں ۔ یہ خبر نامہ ہے یہ حشر نامہ ؟ کیا اس شہر میں یہی سب کچھ ہورہا ہے ؟ وہ سونے کی چڑیا کہاں اُڑ گئ ؟ ،چین کی بانسری کون چرالے گیا ؟ سفید کبوتروں کی ٹولیاں کیا ہوئیں ؟ اناج کی منڈیاں سونی کیوں ہیں ؟ لوگوں کے چہروں کی تازگی کہاں گم ہو گئی ہے ؟ ——— میں دوبارہ اس شخص کو دیکھتا ہوں جو بڑے انہماک سے اخبار کی خبروں میں کھویا ہوا ہے ۔ عدم تحفظ کے اس ما حول میں اس کی آسودگی پر مجھے رشک آتا ہے ۔
تیز دھوپ میں کھڑا ہوا میں پسینے سے شرابور ہو رہا ہوں ۔ ہر شخص حبس سے پریشان ہے ،اور سب کے چہروں پر ایک ہی سوال لکھا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بس کب آئے گی؟ ……..شائد ابھی وقت نہیں ہوا ہے اور وقت گزاری کے لئے لوگ اخبار پڑھ رہے ہیں ۔ خوب صورت ، جوان اور فیشن ایبل جسموں کو گھور رہے ہیں ۔ آئس کریم کھا رہے ہیں ۔ پوسٹروں سے الجھ رہے ہیں اور سیا سی اٹکلیں لگا رہے ہیں ۔
میں کیا کر وں ؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ اخبار سے دل اچاٹ ہو گیا ہے ۔ شہر کی لڑکیاں مصنوعات کی وجہ سے اپنا فطری حسن کھو چکی ہیں لہذا تھوڑی ہی دیر میں اُ کتاہٹ ہونے لگتی ہے ۔ آئس کریم کھا کر اپنا گلا خراب نہیں کرنا چاہتا ۔ پوسٹروں کی نیم عر یاں تصویروں میں فنی رچاوُُ نظرنہیں آتا اور سیا سی گفتگو فضول ہے ۔ میں کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔
عجیب سی الجھن ہوتی ہے ۔جی چاہتا ہے ، ایک ایک آدمی سے پوچھوں وہ کہاں جانا چاہتا ہے ؟
اس کی منزل کیا ہے اور یہ کہ اس شہر سے اس کا کیا تعلق ہے ؟ لیکن اپنے ہی خیالوں پر ندامت محسوس ہوتی ہے کہ اگر میں واقعی ایسا کرنے لگوں تو لوگ مجھے نیم پاگل سمجھیں گے ۔
اچانک لوگوں میں ہلچل مچ جاتی ہے ۔ ایک لمبی چوڑی اور چمک دار بس آکھڑی ہوئی ہے اور ہر آدمی اس کے اندر سما جانے کی جدو جہد کرنے لگا ہے ۔ مسا فروں کی لمبی کیو ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور افراتفری کے عالم میں یوں لگتا ہے جیسے یہ بس کسی دہشت گرد کی طرح لوگوں کے درمیان آکھڑی ہوئی ہے ۔ ۔۔۔۔میں بھی اس بھیڑ میں شامل ہوں اور اپنی زور آزمائی کی بدولت بس کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا ہوں ۔ بس کی سیٹ پر بیٹھ کر اطمینان کی سانس لیتا ہوں جیسے کوئی بڑا معر کہ سر کر لیا ہو ۔ اس خیا ل کے آتے ہی ایک لمحہ کے لئے میں حیران ہوا کہ مجھ جیسے کمزور آدمی میں اتنی طاقت کہاں سے آگئ کہ بھیڑ کو کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔؟
اس طاقت کے پسِ پشت میری مجبوری تھی یا خود غرضی ؟ کیا میں خود غرض آدمی ہوں ؟
کیا اب تک میں نیک چلن ، شریف اور ایمان دار ہونے کا ڈھونگ کرتا رہا ہوں ؟ دوسروں کو د ھکے دے کر آگے بڑھ جانا کیا میرا اخلاقی جرم نہیں تھا ؟
بس آگے بڑھ چکی ہے اور شہر پیچھے چھوٹتا جا رہا ہے لیکن میرے سوالات مجھے ہی اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ میرے بغل میں بیٹھا ہوا آدمی اطمینان سے سگریٹ پھونک رہا ہے ۔ مجھے اس کی بو بری لگتی ہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ بس میں سگریٹ نوشی ممنوع ہے ، میں خا موش رہتا ہوں ۔
دوسروں کو دھکے دینا بھی تو اخلاق کے منافی ہے ۔ نہیں مجھے اس شخص کو سگریٹ نوشی سے روکنے کا کوئی حق حا صل نہیں ہے ۔ یہ سو چ کر میں اُداس ہو جاتا ہوں اور کھڑکی سے باہر قصبے میں اُ ترتی شام کے مناظر میں اپنا انتشار چھپانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
تیز رفتاری سے دوڑتی ہوئی بس ، آہستہ آہستہ پھیلتے ہوئے شام کے دھندلے سائے ا ور سڑک کے کنارے درختوں کی طرف لوٹتے ہوئے دن بھر کے تھکے ہارے پرندوں کا جھنڈ دیکھ کر دل میں بوجھل پن سا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔بس کے اندر کی لاتعلقی اور باہر کے بےکیف منظر سے اداسی اور گہری ہو چلی تھی کہ دفعتا” مجھے اپنے بائیں کا ندھے پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا ۔ میں نے گھوم کر دیکھا ، میرے بغل والا آدمی جو کچھ دیر قبل سگریٹ نوشی کر رہا تھا اب اونگھنے لگا تھا اور لا شعوری طور پر اس کا سر میرے کاندھے سے آٹکرایا تھا ۔ مجھے عجیب سی بد مزگی اور جنھجھلاہٹ محسوس ہوئی ۔ اس شخص کا اُ ونگھنا مجھے بےحد نا گوار لگا ۔ اس شہر کے لوگ اتنے غیر مہذب ہوگئے ہیں کہ انھیں سفر کے آداب بھی نہیں معلوم ۔۔۔۔۔۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ اسے مزید اُ ونگھنے سے روک دوں گا کہ وہ بار بار میرے کاندھے سے ٹکرارہا تھا اور میری خفگی بڑھتی ہی جارہی تھی ۔۔۔۔ آخر ایک مسافر کو دوسروں کے آرام کا خیال تو رکھنا ہی چاہیے.
بس پر بیٹھنے کی جگہ ہے ، سونے کی تو نہیں ۔ یہ درست ہے کہ میں بھی زیادہ اچھا آدمی نہیں ہوں اور مجھ سے بھی اخلاقی جرم سرزد ہوا ہے لیکن جب بس کے تمام مسافر جاگے ہوئے ہیں تو پھر یہ شخص سونے کی کوشش کیوں کر رہاہے ۔؟
میرا ذہنی ردّ عمل شدید احتجاج کی صورت اختیار کرتا جارہا تھا اور عین ممکن تھاکہ میں اس کا سر اپنے کا ندھے پر سے جھٹک دیتا ، مجھے یاد آیا کہ ایک بار اسی طرح میرے ہم سفر دوست کو نیند آنے لگی تھی اور وہ اپنا سر میرے کاندھے پر ٹکائے اطمینان سے سو گیا تھا ۔۔۔۔مجھے اچھا لگا کہ میں نے اپنے دوست کو آرام پہونچنے میں مدد دی تھی ۔۔۔۔۔ایک لمحہ کے لئے پرانی یاد تازہ ہوا کے خوش گوار جھونکے کی طرح بس کی کھڑکی سے در آئی اور مجھے چھوتی ہوئی گزر گئ ۔۔۔۔۔میں نے اپنے بغل والے مسافر کو غور سے دیکھا اور یہ محسوس کرکے حیران ہوا کہ اس نوجوان کا چہرہ غیر معمولی طور پر میرے اسی دوست سے مشابہ ہے جس کی شیریں یاد نے چند ثانیہ قبل کی ساری تلخی مٹادی تھی ۔ اس شخص کے چہرے پر بھی ویسی ہی معصومیت ہے ۔۔۔۔۔ویسی ہی گھنی سیاہ مونچھیں ، پتلے پتلے ہونٹ اور پلکوں کے غلاف سے ڈھکی بڑی بڑی آنکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔نیند میں کھوئے اس نوجوان اورمیرے دوست میں کیا فرق ہے ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔تو پھر مجھے اس کے اُ ونگھنے پر غصہّ کیوں آنے لگا تھا ؟
یہ خوب صورت اور صحت مند نو جوان بھی شاید روزی روٹی کی تلاش میں اس شہر کی خاک چھان کر اپنے گھر کو لوٹ رہا ہوگا ۔ وہاں اس کی بیوی منتظر ہوگی، بچے ہوں گے ۔ ماں باپ اور بھائ بہن اس کی راہ تک رہے ہوں گے ۔ان سب کے لیے اس نو جوان نے خوابوں کا گھروندا بنا یا ہوگا اور اس وقت بھی شاید ۔۔۔۔۔۔۔نہیں ! مجھے اس نوجوان کا خواب چھین لینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ بس خواب ہی تو رہ گیا ہے اس کے پاس ، ہمارے پاس ۔۔۔۔۔۔میں ایک بار پھر اس نوجوان کی طرف محبت آمیز نظروں سے دیکھتا ہوں جو میرے کاندھے پر اپنا سر رکھے بے فکری کی نیند لے رہا ہے ۔مجھے اس کا پر سکون چہرہ دیکھ کر عجیب سی خوشی ہوتی ہے جیسے اسے نہیں ، مجھے نیند آگئ ہے ۔ میں سو رہا ہوں اور وہی خواب میری آنکھوں میں بھی اُ تر آیا ہے ۔ میرے ہو نٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے ۔
باہر شام بہت گہری ہو چکی ہے لیکن میرے چہرے سے اُ داسی کی لکیریں مٹ گئ ہیں *****

رفیع حیدر انجم کا پچھلا افسانہ یہاں پڑھیں:

مکڑجال(Cobweb)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے