انسان ہونے کی شرط

انسان ہونے کی شرط

جاوید اخترذکی خان

میں تعمیر کروں

یا کروں تخریب

میرے انساں ہونے کی
اولین شرط کون رکھے گا
تم
یا پہلی شرط میں خود ہی رکھ لوں
آج تنہا میں، اپنے من کے آنگن میں کھڑا
ضمیر کے روشن آفتاب کی تپش کو
محسوس کر رہا ہوں
اس کی تمازت مجھ کو جھلسائے دے رہی ہے
یہ دریچے جو وا ہونے لگے ہیں
جسم کے تہ خانے سے جو تعفن اٹھ رہا ہے
ان لفظوں کے مصنوعی خوشبو سے
اسے میں کیسے چھپاؤں
میری ذات کی تاریکی
تمہیں بھی مدفون کر دے گی
میں ابن آدم
اب شرمندگی محسوس کرتا ہوں
میری ذات میں
کب کستوری کی افزائش ہوتی تھی
جو اب نہ ہونے کا غم کروں
ماتم کروں، سینہ کوبی کروں

شیئر کیجیے

2 thoughts on “انسان ہونے کی شرط

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے