عوامی احتجاج اور جمہوریت : سیاسی و معاشی منظر نامہ

عوامی احتجاج اور جمہوریت : سیاسی و معاشی منظر نامہ

مسعود بیگ تشنہ، اندور ،انڈیا


جمہوریت میں کئی احتجاج سیاست کی دِشا (سمت) اور دَشا (حالت) دونوں کو بدل دیتے ہیں. 1992 کی رتھ یاترا اور رام جنم بھومی آندولن اس کی ایک بہترین مثال ہے. یہ الگ بات ہے کہ جو چار سو سال میں محسوس نہ ہوا تھا وہ گذشتہ سو پچاس سال میں محسوس کرا دیا گیا. دوسری مثال جے پی آندولن کی ہے جب جے پرکاش ایمرجنسی کی زیادتیوں کے خلاف جن نایک کے طور پر ابھر کر آئے تھے. تیسری مثال شہریت ترمیمی بل /قانون اور نیشنل سیٹیزن شپ رجسٹر کے خلاف فروری 2020 سے شروع ہوا شاہین باغ احتجاج ہے جس کے اثرات کا ابھی نتیجہ آنا باقی ہے. چوتھی مثال حالیہ کسان آندولن ہے جو ابھی چل رہا ہے. رام جنم بھومی آندولن اپنی کامیابی حاصل کر چکا، مسلمانوں کو ایک طرف ڈالنے کا موجودہ ہندو وادی سرکار کا رجحان جو این پی آر این سی آر کی شکل میں نظر آ رہا تھا، ابھی دبا ضرور ہے ختم نہیں ہوا ہے.
گلوبلائزیشن اور گیٹ سمجھوتے کانگریس کی نرسمہا راؤ سرکار کی دین ہے. جس سے بے شک ترقی تو ہوئی مگر گھریلو صنعتوں کو نقصان پہنچا کر. پیپسی کولا، کوکا کولا نے سارا کھیل الٹ دیا، چینی غیر معیاری مگر سستے پلاسٹک کے سامانوں نے کھلونا صنعت، سائکل صنعت، مراد آبادی برتن صنعت کی ارتھی اٹھا دی، گیس کنوؤں کی کھدائی میں سرکار کی ONGC کو پس پشت ڈال کر امبانیوں کو تیل کی دولت لوٹنے کی اجازت مل گئی. سرکاری BSNL کو کھوکھلا کرکے 2G, 4G کی لوٹ مچائی گئی اور آخر BSNL کو بند کرکے اس کی بیش قیمتی زمینوں پر قبضہ کے لئے پونجی پتیوں کے حوالے کردیا. آج چالاکی سے امبانی کے جیو کو غیر شکست بنا دیا گیا ہے. دوسرا امبانی جو دیوالیہ ہونے والا تھا یا ہو گیا تھا اسے سرکاری HAL کمپنی کے بجائے ڈیفینس پروڈکشن کے ٹھیکے میں بیک ڈور داخلہ دے دیا جس کی ڈیفینس پروڈکشن کمپنی ابھی ٹھیک سے وجود میں بھی نہیں آئی تھی. میرا اشارہ رافیل ہوائی ڈیفینس طیاروں کی خریدی کے معاملے سے ہے. یہ خریدی گھوٹالہ سطح پر آنے کے بعد بھی عدالت سے با عزت کلیر کروا لیا گیا. ریزرو بینک کے ریزرو کو لے کر اوپن مارکیٹ میں جھونک دیا گیا اپنی مرضی سے، اور اتنا اوور ڈرافٹ کروا لیا، سونا اٹھوا لیا کہ بساط سے باہر.
اب دو رجحانات حکومت سازی کے ابھر کر آ رہے ہیں ایک پورے ملک کی معیشت کو اپنے خیر خواہوں میں اونے پونے بیچ دو، دوسرے ملک میں امیر غریب اور ہندو مسلم کے بھید کو بہت بہت بڑھادو. زرعی معیشت جو زیادہ تر غیر مسلموں کے ہاتھ ہے ابھی تک برباد ہونے سے بچی ہوئی تھی یعنی بڑے کارپوریٹ کھلاڑیوں سے. اب چہیتے کارپوریٹس کو لگا یہ ایریا بھی کیوں چھوڑا جائے. گیٹ سمجھوتہ نے پہلے ہی سب آسان کر دیا ہے. کیا باہری کیا ملکی پڑے پونجی پتی ملک کی کل معیشت کل دولت کو اپنے ہاتھ میں کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہوتے نظر آ رہا ہے. مگر کسانوں کے لئے یہ جینے مرنے جیسا معاملہ ہے وہ اپنی موجودہ مالکانہ حیثیت کو ذرا سے فائدے کے پیچھے ختم نہیں کرنا چاہتے. دوسرے مسلم کشی میں شدت اختیار کرو.
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والا وقت کیا دن دکھاتا ہے. کیا شاہین باغ تحریک کامیاب رہے گی؟ کیا کسان آندولن کامیاب رہے گا؟
نوٹ بندی کے کھیل کے بعد معیشت کو بہت حد تک بدلنے والا سب سے بڑا کھیل نئے کسان قانونوں کا ہے. جیسے جی ایس ٹی کو سرکار نے تکلیف دہ بنا دیا تھا وہ اپنی ضد میں لگتا ہے نئے کسان قانونوں کو بھی کسانوں کے لئے تکلیف دہ بنانا چاہتی ہے. سرکار کا بڑا عجیب کہنا ہے کہ کسان بچولیوں سے بچیں گے، نہیں بچنے والے چھوٹے بچولیے بھی تو اپنے ہی بھائی ہیں وہ کہاں جائیں گے. چھوٹے بچولیوں کو تو کسی طرح کنٹرول میں رکھ سکتے ہو، بڑے بچولیوں کو کون دبا سکتا ہے. چناوی فنڈ 95 فی صد حکمراں پارٹی کے کھاتے میں جا رہا ہے اور دھڑلّے سے جا رہا ہے. بے نامی چناو بونڈ سے. جس کی قانونی حیثیت مشکوک ہے. پرائم منسٹر ریلیف فنڈ جو آڈٹ بھی ہوتا ہے، اس کے آڈٹ سے بچنے منمانی طریقے سے کورونا کال کے دوران اسے الگ نام سے لیا گیا پی ایم کئئر فنڈ اس کی بھی قانونی پوزیشن مشکوک ہے…. مگر کیا کیا جائے ہندو مسلم تفریق اور مسلم دشمنی کی افیم میں ابھی دیش اونگھ رہا ہے. جس دن یہ اس افیم سے چھٹکارا پا لے گا جمہوریت کے لئے بھی فالِ نیک ثابت ہوگا.

7 دسمبر، 2020
baig.masood54@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے