سلیمانی نثر کی ادبی خصوصیات

سلیمانی نثر کی ادبی خصوصیات

طفیل احمد مصباحی
سبحان پور کٹوریہ ، ضلع بانکا ، بہار
Mob : 7061672959

اچھی نثر لکھنے کے لیے زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت اور دسترس ہونی چاہیے ۔ مطمحِ نظر واضح ہونا چاہیے اور لکھنے کا کوئی جواز ہونا چاہیے ۔ زبان عامیانہ نہیں ، بلکہ عالمانہ ہونی چاہیے ۔ اسلوب ، دل نشیں ، پُر کشش ، حکیمانہ اور حسبِ ضرورت محققانہ ہونا چاہیے ۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہے ، اس کا حق ادا ہونا چاہیے ۔ تحریر میں واضح اور دو ٹوک انداز اختیار کرنا چاہیے تاکہ مدّعا پوری طرح ظاہر ہو جائے اور اس کا کوئی گوشہ مجمل یا مبہم نہ رہنے پائے ۔ مفہوم میں وضاحت و قطعیت اور ایجاز و اختصار اس طرح ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ” ایجازِ مُخل اور اطنابِ مُمل ” کی صورت پیدا نہ ہونے پائے ۔ سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی کا خاص خیال رکھا جائے ۔ ادیب اور نثر نگار کو بلاغت آشنا یعنی اقتضائے احوال کے مطابق کلام ( نظم و نثر ) پیش کرنے والا ہونا چاہیے ۔ اسی طرح الفاظ و تراکیب کے استعمال میں فصاحتِ کلمہ و کلام کا ہر حال میں خیال رکھنا ضروری ہے ۔ ہمیشہ نئے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے اور چبایا ہوا لقمہ تحریر کے پیٹ میں ڈالنے سے احتراز کرنا چاہیے ۔ ہر بار نئے موضوع اور نئے انداز و اسلوب میں گفتگو کرنی چاہیے ۔

ان اصول و شرائط کی رعایت و التزام سے ہی کوئی شاعر و ادیب زندہ رہ سکتا ہے اور اس کی تحریر پائدار ادب کا نمونہ بن سکتی ہے ۔ اس تمہید کے بعد اب ہم اصل موضوع پر آتے ہیں اور علامہ سید سلیمان بہاری ( سابق پروفیسر و صدر شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ) کی تحریروں کی ادبی خصوصیات کا جائزہ پیش کرتے ہیں ۔

سید سلیمان اشرف کی با وقار نثری خصوصیات میں سے ایک قابلِ قدر خصوصیت ” ابہام و اغلاق ” سے اس کا پاک ہونا ہے ۔ ان کی تحریروں میں وضاحت و صراحت کی جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیں ۔ دشوار سے دشوار اور گنجلک موضوعات کو بھی وہ شفاف آئینہ بنا کر پیش کرتے ہیں ، جس کی سب سے مضبوط دلیل ان کی کتاب ” المبین ” ہے ۔ ان کی نثر میں ابلاغِ تام اور اظہارِ کامل کے مظاہر پائے جاتے ہیں ، جو در اصل ان کی فکری صلابت ، فنی پختگی اور زبان و ادب پر ان کی غیر معمولی قدرت و مہارت کا نتیجہ ہے ۔ ان کی تحریر میں حشو و زوائد جیسی قبیح لسانی بدعت نہیں پائی جاتی ۔ وہ ہمیشہ ” ایجازِ مخل ” اور ” اطنابِ مُمل ” کی خار دار وادیوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے اعتدال و توازن کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور منزلِ تحقیق و ادب کی سمت جادہ پیما ہوتے ہیں ۔ الفاظ کا مناسب انتخاب ، جملوں کی برمحل ترکیب و ترتیب ، عبارت کی خوب صورت بندش و چستی ، پیرا گراف کی تقسیم ، مضامین کی ادائیگی کا نوع بنوع اسلوب اور دلکش پیرایۂ بیان سے وہ اپنی تحریر کو واضح اور مستحکم بناتے ہیں ۔

سلیمان اشرف صاحب کی تحریر و نثر کی ایک بڑی خصوصیت نظم و ضبط اور سیاق و سباق باہمی ارتباط بھی ہے ۔ ان کی تحریروں میں دلائل کی فراوانی کے ساتھ نظم و تسلسل اور منطقی ربط پایا جاتا ہے ۔ علامہ موصوف کی نثر کی یہ خوبی بھی کافی اہمیت اور امتیازی حیثیت کی حامل ہے کہ وہ ٹکسالی زبان کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ تحریر کو رنگ و روغن اور حسن و ملاحت بخشنے والے اجزا و عناصر کا استعمال بڑے فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں اور اس ضمن میں زبان و بیان کی صحت و صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں ۔ روز مرہ گفتگو اور ضرب الامثال سے اپنی نثر کو مرصع کرتے ہیں ۔ موقع محل کی مناسبت سے اردو محاورات کا استعمال بھی خوب کرتے ہیں اور تشبیہات و استعارات سے اپنی تحریروں کو حریری جامہ پہناتے ہیں ۔ ان کی نثر ایک سنجیدہ ، پُر وقار ، علمی اور سائنسی نثر ہے ۔ سادہ ، قابل فہم ، متوازن اور دلائل سے بھرپور ان کی نثر میں زندگی و بندگی کی توانائیاں برقی رَو کی مانند دوڑتی اور کوندتی نظر آتی ہیں ۔ ان کے فقرے چُست اور ترکیبیں بڑی موزوں ہوتی ہیں ۔ لطفِ محاورہ اور تشبیہ و استعارہ کے علاوہ تمثیل و کنایہ اور رمز و ایما سے وہ بھر پور کام لیتے ہیں ۔ معیاری نثر کیا ہوتی ہے ؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہیں تو رئیس القلم علامہ سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ کی تحریروں کا مطالعہ کریں ۔

ادب کا کمال یہ ہے کہ اس میں تخلیقی جوہر شامل ہو ۔ وہ ہمیشہ قارئین کے روبرو فکر انگیز خیالات ، حیات بخش افکار ، پاکیزہ تصورات ، تہذیب و شائستگی کی باتیں اور ” ادب برائے زندگی ” کا فارمولہ پیش کرے ، تاکہ بندگانِ خدا کی مناسب رہنمائی اور انسانیت کی سچی خدمت کی جا سکے ۔ علامہ سید سلیمان اشرف کی جمالیاتی حس بہت تیز اور گہری ہے ۔ وہ فطرت کی بوقلمونیوں میں ڈوب کر ان کے نوع بنوع جلووں کی مصوری کرتے ہیں اور جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس میں کوئی نہ کوئی عارفانہ نکتہ ، بصیرت آموز درس اور معلومات افزا پہلو تلاش کرلیتے ہیں ۔ ان کی ادبی تحریر کا اسلوبِ نگارش ، حکیمانہ اور اندازِ بیان عارفانہ و مصلحانہ ہے ۔ دو تین اقتباس ملاحظہ کریں :

"کارخانۂ عالم ایک تعلیم گاہ ہے اور حوادثِ یومیہ کا درس قانونِ قدرت کا زبردست مدرس ہر آن ہمیں دیا کرتا ہے : جس نے صحیفۂ ہستی کا مطالعہ کیا اور سمجھا ، وہ کامیاب ہوا اور جس نے اس سے کچھ بھی چشم پوشی کی ، اس نے ناکامی کی ایسی ٹھوکر کھائی کہ قعرِ نیستی میں گر کر پھر نہ سنبھلا ۔ یہ جابر زبردست مدرس کبھی اس کا خیال نہیں کرتا کہ گِرا کون اور سنبھلا کون ؟ اس کا درس ہمیشہ اسی سرگرمی سے جاری رہتا ہے اور غافل ، سست ، کاہل ، تعیش پسند اور ناعاقبت اندیش جماعت فنا ہو جاتی ہے اور عاقل ، چست ، محنتی ، مآل بیں طبقہ وجود میں آ کر بقا کا لطف اٹھاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا بدیہی مسئلہ ہے ، جس میں نہ کسی برہان کی حاجت ، نہ دلیل کی ضرورت ۔ مشاہداتِ یومیہ اس پر شاہد عدل ہیں ۔”
( البلاغ ، ص : ٢ ، مطبع احمدی ، علی گڑھ )

مناظر قدرت ، تاریخی واقعات اور اسلامی تعلیمات کے ذخیروں سے لطیف اور حکمت پر مبنی نکتہ اخذ کرنے میں علامہ موصوف کو مہارتِ تامہ حاصل ہے ۔ حدیث پاک میں یہود و نصاریٰ کی طرزِ معاشرت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ لیکن کیوں ؟ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے ؟ اس سے ہمارے کان نا آشنا ہیں ۔ موصوف اس پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑے حکیمانہ انداز میں لکھتے ہیں :

"اس میں کوئی کلام نہیں کہ مذہب اسلام درزی کی مقراض سے نہ بنتا ہے اور نہ قطع ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال کر لینے کی بات ہے کہ تہذیب و روشن دماغی کچھ فلپ و رپنکن کی دکان سے سے تیار ہو کر نہیں آ جاتی ہیں ۔ اسلام نے لباس کے باب میں اس قدر ضرور اصلاح کی ہے کہ متکبرانہ و بے ستر و بے حیائی کا جامہ نہ ہو اور یہ ایک کامل مذہب کا فرض تھا …………….. رہیں وہ احادیث جن میں اغیار کی طرز و وضع سے شارع علیہ السلام نے ہمیں منع فرمایا ہے ، اس میں ایک اہم سیاسی نکتہ مخفی ہے ۔ ایک قوم جب دوسری قوم کی وضع اختیار کر لیتی ہے تو اس سے ایک بڑا حصہ دولت کا سمٹ کر اس قوم تک پہنچ جاتی ہے ، جس کی وضع اختیار کی گئی تھی اور آہستہ آہستہ اس قوم ( جس نے دوسری کی تقلید و وضع اختیار کی ) میں جمود و تقلید کا مادّہ پیدا ہو جاتا ہے ، جس سے ( مقلد قوم میں ) صنعت و حرفت کی کساد بازاری اور ایجاد و ااختراع کا استیصال بالکلیہ ہو جاتا ہے ۔ اس امر کی بڑی دلیل خود ہندوستان اور ہندوستانی ہیں ۔ اب جب کہ یورپین تمدن ان پر چھا گیا اور ان کی قومی و ملکی خصوصیات یورپ میں مل کر فنا ہوگئیں ، تب ان کی آنکھیں کھلیں ۔ ”
( البلاغ ، ص : ١٦ ، مطبع احمدی ، علی گڑھ )

جذبۂ شہادت سے متعلق یہ فکر انگیز گفتگو ملاحظہ کریں :

"مسلمانوں میں ایک جذبۂ شہادت ایسا ہے جو ہنوز بالکل ہی مردہ نہیں ہوا ہے ۔ یہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور بالکل سچا عقیدہ ہے کہ دین کی حمایت میں جب کوئی ہم میں سے مارا جائے تو وہ مرتبۂ شہادت پہ فائز ہوتا ہے ۔ شہیدِ ملت کے مدارجِ علیا کی بلندی صرف اس سے سمجھیے کہ ہر میت کو غسل دینا ضروری ہے ۔ جب کوئی نبی یا رسول اس عالم سے نہاں ہوا یا جب کسی غوث و قطب نے اس سرائے فانی کو چھوڑا تو اسے غسل دے کر ، کفن پہنا کر آغوشِ لحد کے حوالے کیا گیا ۔ لیکن ایک مجاہد جب جامِ شہادت سے سیراب ہوتا ہے تو اس کے اعضا و جوارح کا خون یہ حرمت و عزت رکھتا ہے کہ دنیا کا کوئی پانی اسے دھو نہیں سکتا ۔ لہٰذا شہداء کے جنازے پر نماز تو پڑھی جاتی ہے ، لیکن ان کا جسم غسل سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ یہی شہادت کا ذوق جس وقت کسی قلبِ مومن میں پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اس کی ساری کائنات اس کی نظروں میں ہیچ ہو جاتی ہے ۔ یہ جذبہ کسی دوسری قوم میں نہیں پایا جاتا ۔ ”
( النور ، ص : ٣٥ ، ادارہ پاکستان شناسی ، لاہور )

کسی بھی مضمون یا تحریر کی دل کشی اس بات میں مضمر ہے کہ اس کا اندازِ بیان سادہ اور پُر کشش ہو ۔ اس میں کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہ ہو ۔ محض الفاظ و تراکیب اور اسلوب و انداز کا حسین و دل کش ہونا ، تحریر کی عمدگی کی دلیل نہیں بن سکتی ۔ الفاظ و اسلوب کے ساتھ خیالات بھی عمدہ ، فکر انگیز اور پاکیزہ ہونے چاہئیں ۔ علازہ ازیں مصنف یا مضمون نگار کے افکار و خیالات مربوط ہوں ۔ دوسرا جملہ پہلے جملے سے اور ایک پیراگراف دوسرے پیراگراف سے زنجیر کی کڑیوں کی مانند مربوط ہوں ۔ خیالات کا انتشار ، مصنف یا مضمون نگار کی طبیعت کی پراگندگی کو ظاہر کرتا ہے جو بے چارہ قارئین کے لیے اضمحلال و تکدّر کا سبب بنتا ہے ۔
علامہ سید سلیمان اشرف ، تحریر کے اس نمایاں وصف اور معنوی حسن سے بخوبی واقف تھے ۔ ان کی بیش قیمت تحریروں میں جہاں اندازِ بیان سادہ و سلیس اور پُرکشش ہے ، وہاں خیالات بھی فکر انگیز اور باہم مربوط ہیں ۔ علامہ موصوف کے کتب و رسائل کے بیشتر موضوعات ، دینیات ، سیاست ، ادبیات ، لسانیات ، اصولِ تمدّن اور تنقید نگاری پر مشتمل ہیں ۔ وہ ہر مقام پر سادگی و برجستگی اور سادہ و پرکشش اسلوبِ بیان کے ساتھ مربوط اور فکر انگیز خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں اور بلند افکار و معانی کی دنیا آباد کرتے ہیں ۔ کامیاب تحریر کی یہ نمایاں خصوصیت کہ ” وہ سادہ و پُرکشش اندازِ بیان اور فکر انگیز و مربوط خیالات پر مشتمل ہو ” ؛ یہ نثری وصف و حسن علامہ سید سلیمان اشرف صاحب کی معرکة الآراء تصنیف ” المبین ” میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے ۔ اس کتاب نے ادبی ، تحقیقی اور تنقیدی دنیا میں علامہ موصوف کے علمی جاہ و جلال اور ادبی کمال کا وہ سکّہ بٹھایا ہے کہ اس کی کھنک اور جھنکار آج تک سنائی دیتی ہے ۔ اس کتاب پہ تفصیلی روشنی ہم علامہ موصوف کی تنقید نگاری کے ضمن میں ڈالیں گے ۔
دعویٰ بلا دلیل نہ رہ جائے ، اس لیے ( سادہ اسلوب میں عالمانہ و محققانہ گفتگو اور مربوط و فکر انگیز خیالات سے متعلق ) یہاں چند نثری نمونے پیش کیے جاتے ہیں ۔

"حروفِ عربیہ کے متعلق دیگر اصول و ضوابط جن کی تفصیل فنِ تجوید میں موجود ہے ، اگر ان سے قطع نظر کر کے صرف کم و کیف یعنی حروف کے مخارج و صفات کے اقسام پر ایک عالمانہ نگاہ ڈالی جائے تو سب سے پہلے عربی زبان کی یہ خوبی و خصوصیت سامنے آئے گی کہ یہاں نہ صرف الفاظ اور ان کی باہمی ترکیب کے لیے قانون و ضابطہ ہے ، بلکہ حروفِ تہجی اپنی انفرادی حالت میں بھی قانون و ضابطہ کے اندر اپنا صحیح جلوہ دکھاتے ہیں ۔ اس وصف کے عیاں ہو جانے کے بعد شاید اس بیان کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ایسے با اصول حرفوں سے جس لفظ کی ترکیب ہوگی اور پھر ان لفظوں کو باہم ترکیب دے کر جب کوئی جملہ بنایا جائے گا تو اس وقت زبان و بیان کی اَبہَت و رونق کس شان کی ہوگی ۔ یہ ایک کھلا راز ہے ۔
دوسری اہم خصوصیت اس زبان کی یہ معلوم ہوئی کہ نہ صرف جملہ و کلام کے حصص بلکہ لفظ و کلمہ کے اجزاء بھی باہم ایسے ممتاز ہیں کہ کلمہ کے ایک جز کا دوسرے جز سے التباس نہیں ہوتا ۔ یہ ظاہر ہے کہ کلام اور جملہ کی ترکیب الفاظ سے ہوتی ہے ۔ اگر ایک لفظ دوسرے لفظ سے ممتاز نہ ہو ، تو نہ مبتدا معلوم ہو ، نہ خبر ۔ نہ فعل میں آئے ، نہ فاعل ، نہ مفعول ۔ گویا انسان کی بامعنیٰ آواز ایک صوتِ لا یعنی و مہمل کی مرادف ہو جائے ۔ اس لیے کہ محض منہ سے مسلسل آواز نکالنے کا نام کلام نہیں ۔ اس کی قابلیت تو حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ گھنٹوں خاموش نہیں ہوتے ۔ لیکن چوں کہ ایک ہی کم و کیف میں ان کی آواز کے حصص ادا ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے وہ آواز کے مرتبہ سے ترقی پا کر الفاظِ بامعنیٰ کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ پس اگر انسان کے کلام میں بھی امتیازِ الفاظ باقی نہ رہے تو یہ حیوانوں کی آواز ہو جائے گی ۔ پس جس طرح کلام کے حصص یعنی کلام کا ممتاز ہونا ، کلامِ بامعنیٰ کے لیے ضروری ہے ۔ اسی طرح الفاظِ بامعنیٰ کے لیے اس کے اجزا یعنی حرفوں کی صوت ( آواز ) کا ممتاز ہونا بھی ضروری ہے ۔ ”
( المبین ، ص : ١٤ – ١٥ ، دار الاسلام ، لاہور )

علامہ موصوف کی ادبی نثر کا کمال یہ ہے کہ خشک سے خشک اور دشوار تر موضوع پر بھی ان کا قلم حقائق و معارف کے موتی بکھیرتے ہوئے سلاست و روانی کے ساتھ آ گے بڑھ جاتا ہے اور ہر مقام پر ان کے خیالات میں ربط و تسلسل باقی رہتا ہے ۔ اوپر کے اقتباس سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ مزید ایک دو مثال قارئین کی بصارتوں کی نذر ہے :

"الفاظ کے اعراب و حرکات کی وضع بھی ضابطہ و قانون سے خارج نہیں ۔ ماضی و مضارع وغیرہ مشتقات کے حرکات و سکنات اتفاقی یا باہمی مفاہمہ و قرار داد سے مقرر نہیں کر دیے گئے ہیں ، بلکہ تعینِ حرکات میں تناسبِ معنیٰ کا بھی خیال ہے ۔ مثلاً : ماضی کا حرفِ آخر مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور مضارع کا حرفِ آخر مضموم ۔ فعل مضارع ، حال اور استقبال دونوں زمانوں کو متضمن ہے ۔ اس انضمام کی مناسبت سے اس کے لیے ضمہ کی حرکت مقرر کی گئی اور فعل ماضی میں چوں کہ گذشتہ کا حال کھل جاتا ہے ، اس لیے ( اس کا اعراب ) فتحہ مقرر ہوا ، تاکہ حصول و انصرام سے مشعر ہو ۔ لفظِ فتح اور ضم کے معنی کا خیال کیجیے ، پھر اس کی مناسبت ماضی و مضارع کے ساتھ دیکھیے تو مرفوعات ، منصوبات اور مجرورات کے اسرار منکشف ہو جائیں گے ۔ فاعل کی بلندی اس کے مرفوع ہونے کی مقتضی ہے اور مفعول کی اثر پذیری اس کے نصب کی خواہاں ہے ۔ رفع اور نصب کے معنیٰ کا لحاظ فرمائیے ، پھر حقیقتِ فاعل و مفعول پر غور کیجیے اور اس کا اعتراف کیجیے کہ ( عربی زبان میں ) اعراب و حرکات میں حکیمانہ اصول موجود ہے ۔ مضاف الیہ مجرور ہوتا ہے اور اس کے اعراب کو ” جر ” کہتے ہیں ۔ جر کے معنیٰ کھینچنا ہے ۔ مضاف کو یہ اپنی طرف کھینچتا ہے ، اس لیے جر کی حرکت اس کے لیے قرار پائی ۔”
( المبین ، ص : ٢٢ ، دار الاسلام ، لاہور )

قارئین ! مندرجہ بالا اقتباس سے آپ کو ” المبین ” کی تحقیقی عظمت کا اندازہ ہو گیا ہوگا ۔ علاوہ ازیں اس کا ادبی اسلوب بھی اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ ناقدین و محققین کی اصطلاح میں جسے ” ادب ” یعنی ” تخلیقی نثر ” کہتے ہیں ، یہ کتاب ادبی میزان پہ کھری اترتی ہے ۔

مولانا حنیف ندوی کے بقول :

” المبین ” مولانا سلیمان اشرف مرحوم ، سابق صدر شعبۂ علوم اسلامیہ ، علی گڑھ کی معرکة الآراء تصنیف ہے ۔ اس کا موضوع ان تلبیسات و شکوک کا ازالہ ہے جن کو ” فلسفة اللغة العربية ” کے مصنف جرجی زیدان نے عربی زبان کی اہمیت و وقار کو گزند پہنچانے کے لیے وضع کیا ۔ المبین کی حیثیت ایسے ادبی اور تحقیقی شہ کار کی ہے ، جس میں ایک طرف اگر زبان اور اسلوب کا اچھا خاصا چٹخارہ پایا جاتا ہے تو دوسری طرف تحقیق و تفحص کی ایسی نادرہ کاری بھی جلوہ کناں ہے ، جو علمی حلقوں سے خصوصی داد پانے کی مستحق ہے ۔
( المبین ، ص : ٢٦٣ )

اہلِ علم و ادب نے کامیاب تحریر اور اچھی نثر کی متعدد خصوصیات بیان کی ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نثر طویل عبارات اور لمبے لمبے جملوں پر مشتمل نہ ہو ۔ اچھی نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جملے چھوٹے چھوٹے ہوں اور اپنی جگہ مکمل ہوں ۔ مرکب اور طویل جملے ( جو اپنے اندر جملہ در جملہ رکھتا ہو ) نثر کے حسن و دل کشی کو متاثر کرتے ہیں ۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی نثری خوبیاں اپنی جگہ لیکن ان کی تحریروں میں طویل ترین عبارات مرکب جملے ذوقِ سلیم پہ بار گزرتے ہیں ۔ غبارِ خاطر میں اس کی کثیر مثالیں موجود ہیں ۔ اچھی نثر چھوٹے چھوٹے جملوں میں ہی مزہ دیتی ہے ۔ اچھی اور کامیاب نثر کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے جملے اپنی جگہ مکمل ہوں اور اپنے اگلے جملے سے مربوط ہو ۔ نثر میں علمیت اور وضاحت ہونی چاہنے ، نہ کہ الفاظ و عبارات کی طولانی ۔ نثر میں یہ صورت حال پیدا نہیں ہونی چاہیے ۔ طویل ترین جملے اور لمبی چوڑی چند سطری عبارتوں کو ایک جملہ بنانے کی شعوری یا لاشعوری کوشش ایک بڑا ادبی نقص ہے ۔ علامہ سید سلیمان اشرف کی تحریروں میں اگر چہ جوشِ بیان ، خطیبانہ گھن گرج اور منطنقیانہ اندازِ بیان کے ساتھ بعض مقامات پر طویل جملے بھی ہیں ، لیکن یہ طوالت ، اکتاہٹ کا سبب یا تفہیمِ مطالب میں خلل انداز نہیں ہوتی ۔ موصوف کا رواں دواں اسلوب اور زبان و بیان کی صفائی و برجستگی ، ان کے جملے کی طولانی کو حسن و دلکشی میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سلیمانی نثر میں چھوٹے چھوٹے جملوں اور مختصر عبارتوں کی کمی ہے ۔ ان کے یہاں سادہ اسلوب ، عام فہم اندازِ بیان اور چھوٹے چھوٹے جملوں پر مشتمل نثری نمونے بھی موجود ہیں ۔ دو تین نمونے ملاحظہ کریں :

” ( تمدّن کا ) پانچویں اصل یہ ہے کہ افرادِ قوم میں تقسیمِ عمل ہو ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی شخص تمام کاموں کو انجام دے ۔ کوئی صنعت و حرفت میں مشغول رہے ۔ کوئی تجارت میں مصروف رہے ۔ کچھ لوگ زراعت پیشہ ہوں ۔ کچھ افراد علومِ دین کے ماہرین ہوں ۔ علماء ان لوگوں کو جو کاروبارِ دنیا میں مصروف ہیں ، مسائلِ شرعیہ بتائیں ۔ تاکہ انہماکِ دنیا نہ ہونے پائے جو موجبِ ہلاکت ہے ۔ ”
( البلاغ ، ص : ١٣ ، مطبع احمدی ، علی گڑھ )

"مصلحینِ امت نے اصولِ تدریج و آہستگی کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ مصلح کی تقریر ، شفقت و ہمدردی سے لبریز ہوتی ہے ۔ وہ قوم کے ہاتھوں سے جفائیں اٹھاتا ہے ۔ مصیبتیں جھیلتا ہے ۔ لیکن غم گساری و رافت کی روش سے متجاوز نہیں ہوتا ۔ اس کے جلال میں ایک شانِ جمال ہوتی ہے اور اس کے قہر میں رحمت کا جاں نواز پیام ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی میں مظلومیت کے واقعات بکثرت ملتے ہیں ۔ لیکن ظالمانہ حرکات کا اس کے اعمال میں نام و نشان بھی نہیں ہوتا ۔ قوم سے وہ فحش و دل خراش الفاظ سنتا ہے ۔ لیکن جواب میں قولِ معروف ( اچھی بات ) اس کی زبان پر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی ہستی مٹاتا ہے اور قوم کی اخلاقی و مذہبی ہستی قائم کرتا ہے ۔ اس کی پاک و بے ریا زندگی منکرین و معاندین کے گروہ کو بھی آخر کار راستی کا گرویدہ اور حق کا جویندہ بنا دیتی ہے ۔ ”
( النور ، ص : ١٩٩ – ٢٠٠ ، ادارہ پاکستان شناسی ، لاہور )

"جو مذہب اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اور اپنی مامون زندگی کے لیے طاقت روا نہیں رکھتا ، اس کا وجود محالاتِ عادیہ میں سے ہے اور وہ ایک فلسفۂ خیالی سے زائد مرتبہ نہیں رکھتا ۔ وہ ہاتھ جس میں اخلاقِ حسنہ کی کتاب ہو ، نہایت ہی مقدس و واجب التعظیم ہے ۔ اس کو بوسہ دیجیے ۔ آنکھوں پر رکھیے ۔ لیکن سلامت وہی ہاتھ رہ سکتا ہے جس میں خون چکاں شمشیر کا قبضہ دکھلائی دے ۔ اسلام پاکیزہ سے پاکیزہ اخلاق کی ہمیں تعلیم دیتا ہے اور پھر ارتکابِ جرم پر حدّ و تعزیر سے سدّ ِ بابِ عصیاں کرتا ہے ۔ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم کی مقدس زندگی تعلیماتِ اسلامیہ کا کامل نمونۂ علمی و عملی ہے ۔ پھر خلفائے اربعہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا زمانہ انھیں اصولوں پر بسر ہوتا رہا جو ہمارے معلمِ روحی و زمانی نے قائم فرما دیے تھے ۔ روحی فداه و صلوٰة اللہ علیه . ”
( البلاغ ، ص : ٢ – ٣ ، مطبع احمدی ، علی گڑھ )

نثر کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تکلف اور تصنع سے خالی ہو ۔ جو بات کہی جائے ، صاف صاف اور لاگ لپیٹ کے بغیر کہی جائے ۔ تکلف و تصنع پر مبنی گفتگو کو سامع و قاری دل میں نہیں اتارتے ، بلکہ لیڈر کی لچھے دار گفتگو کی طرح دل سے اتار دیتے ہیں ۔ تحریر و تقریر میں یہ وصف جذبۂ اخلاص ، ملی درد مندی ، جماعتی فکر اور اصلاحِ قوم کے جذبۂ بیکراں سے پیدا ہوتا ہے ۔ جو شخص دعوتی مشن لے کر میدانِ عمل میں قدم رکھتا ہے اور گرد و پیش کی دنیا کو دین و مذہب کے اجالوں سے منور کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے ، وہ اپنی تحریر و تقریر میں سادگی و بے ساختگی کا عنصر شامل کرتا ہے اور تکلف و تصنع سے خود بھی بچتا ہے اور اپنے وعظ و خطابت اور تحریر و قلم کو بھی محفوظ رکھتا ہے ۔ کیوں کہ اس کا مقصد محض ابلاغ و ترسیل ہے ، نہ کہ لوگوں کے دلوں پر اپنی زبان دانی و قادر الکلامی کا سکہ بٹھانا ۔

علامہ سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ ایک اخلاص پیشہ معلم اور قوم و ملت کے بے لوث خادم تھے ۔ وہ جب تک بقیدِ حیات رہے ، جہاد بالقلم اور جہاد باللسان کا فریضہ انجام دیتے رہے اور ہمیشہ دینی اقدار اور ملی تحفظات کی جنگ لڑتے رہے ۔ خدا نے ان کی زبان اور قلم میں بے پناہ قوتِ گویائی عطا فرمائی تھی ۔ وہ زبان و بیان کے مختلف اسالیب پر قدرت رکھتے تھے ، جس کا انھوں نے مظاہرہ بھی کیا ہے ۔ لیکن اس کی حیثیت محض ” اسلوبِ نثر ” کی ہے ۔ تاہم انہوں نے تکلف اور تصنع سے کبھی کام نہیں لیا ہے ۔ جو کچھ کہا یا لکھا ہے ، صاف صاف ، دو ٹوک اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے لکھا ہے ۔ ان کی تحریر میں تصنع ، دکھاوا یا آورد کا کہیں شائبہ نہیں ہے ۔

نیچے کی یہ عبارت دیکھیں کہ کس قدر تکلف و تصنع سے خالی ، صاف گوئی اور بے ساختہ پن سے مملو ہے :

"مسلمانوں سے یہ پوشیدہ نہیں کہ کفارِ مکہ سے جنگ بدر میں اوّلین مقابلہ عساکرِ اسلامیہ کا تھا ، لیکن اسی ایک مقابلہ نے جہادِ اسلامی اور حربِ تمدّنی کا فرق ایسا آشکارا کر دیا جس کے زرّیں حروف صفحاتِ تاریخ پر ہمیشہ یادگار رہیں گے ۔ جہاد ، خدا کی ایک ایسی رحمت ہے کہ جس خطۂ زمین پر اس کی حقیقت مشہود ہوئی ، وہاں کی زمین اور زمین کے بسنے والوں نے وہ حیات پائی ہے جو خلقِ وجود کا حقیقی راز اور مایۂ ناز تھا ۔ لیکن اسی کے مقابلہ میں حربِ تمدنی خدا کا ایک ایسا قہر ہے جو گوناگوں قومی ، ملکی ، اخلاقی اور علمی تباہی اپنے ساتھ لاتی ہے ۔ یورپ کو اپنی تہذیب پر ناز ہے ، لیکن وہ آئے اور دیکھے کہ اسلام جب میدانِ جنگ میں اپنی فوجوں کو آراستہ کرتا ہے اور پھر حکمِ الہٰی مجاہدینِ فی سبیل اللہ کی شمشیر و سنان کو جنبش دیتا ہے تو اس کی ہر حرکت کس طرح دائرۂ حکمِ الہٰی میں گردش کرتی ہے ۔ خواہشِ نفس ، ہیجانِ غضب ، شدتِ کینہ ، خیرگیِ حواس اور غیر معتدل جوش کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا ۔”
( النور ، ص : ١٢٣ – ١٢٤ ، ادارہ پاکستان شناسی ، لاہور )

اس قسم کی بے تکلف اور بے ساختہ تحریریں علامہ موصوف کی تقریبا تمام کتابوں میں موجود ہیں ۔

اچھی نثر اور عمدہ تحریر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نہ لفظی تکرار ہو اور نہ معنوی ۔ الفاظ و معانی کی تکرار سے محرّر کے علمی افلاس اور اس کے ذخیرۂ الفاظ میں کمی کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ کمی وسعتِ مطالعہ سے ہی دور کی جا سکتی ہے ۔ ایک بڑے یورپین مصنف کا قول ہے : میں جب کوئی لفظ استعمال کر لیتا ہوں تو وہ میرے لیے ” مردہ ” ہو جاتا ہے اور مردے کو ہاتھ لگانے میں گھِن محسوس کرتا ہوں ۔
سید سلیمان اشرف کی تحریر تکرارِ لفظ و معنیٰ کے عیب سے پاک ہے ۔ وہ عربی ، فارسی اور اردو زبان کے ایک مسلم الثبوت ادیب و نثر نگار تھے ۔ ان کے پاس ان تینوں زبانوں کے الفاظ کا ذخیرہ ہے ۔ عربی و فارسی دانی میں یہ کمال ہی کا نتیجہ ہے کہ بعض مقامات پر ان کی نثر عربی و فارسی تراکیب سے بوجھل نظر آتی ہے ۔ بہر کیف ! ان کی نثر کی ایک خوبی تکرار سے اجتناب ہے ۔ اگر خطیبانہ اسلوب کے بہاؤ میں کہیں اس کی ضرورت پیش بھی آ جاتی ہے تو وہ ایک ہی لفظ کو بار بار لانے کے بجائے اس کے مترافات کا استعمال کر دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لفظی ترکیب سے بچنے کے لیے وہ کہیں ” وفور ” ؛ ” کہیں ” ہیجان ” ؛ اور ” کہیں ” شدّت ” جیسے الفاظ کی ترکیب اپنی نثر میں لاتے ہیں ۔

اختصار و جامعیت :

سید سلیمان اشرف صاحب کی ادبی نثر کی ایک قابلِ ذکر خصوصیت ” اختصار و جامعیت ” بھی ہے ۔ اگر چہ وہ اپنا ادیبانہ شکوہ اور لسانی طمطراق کا جلوہ اکثر مقامات پر بکھیرتے ہیں ، لیکن اختصار و جامعیت کو بہرگام ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں ۔ موصوف کی کتاب ” البلاغ ” میں جہاں ” اسلام اور اصولِ تمدن ” کی فکر انگیز مباحث ہیں ، وہاں انہوں نے اس وصف کا خاص خیال رکھا ہے ۔

مندرجہ ذیل اقتباسات میں راقم کے دعویٰ کی صداقت ملاحظہ کریں :

"موزوں و مناسب الفاظ میں جو حقائق کی تصویر کشی کی جاتی ہے ، وہی شاعری کی سنگِ بنیاد ہے ۔ شاعر خیالات ، جذبات و کیفیات اور محسوسات و معقولات کو چوں کہ اپنے بیان سے اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ سننے والوں کے سامنے ان کا نقشہ کھِنچ جاتا ہے اور دلوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ، اس لیے اسے شاعر کہتے ہیں ۔ اب جس قدر کلام میں یہ وصف ( جذبات اور محسوسات و معقولات کی سچی تصویر کشی ) زیادہ ہوگا ، اسی قدر اس کی شاعری کامل سمجھی جائے گی ۔ لفظِ شاعر کا مادّہ یعنی حروفِ اصلیہ ش ، ع ، ر ، ہے ۔ یہ مادّہ جہاں بھی پایا جائے گا ، اس میں شعور و ظہور کے معنی کا لحاظ ضرور ہوگا ۔ اس لیے عربی میں بال کو ” شَعْر ” کہتے ہیں جو جسم پر ظاہر ہوتے ہیں ۔ جسم سے اوپر جو کپڑا پہنا جائے ، اسے ” شعار ” کہتے ہیں ۔ حواس جو قوتِ مدرکہ کے سامنے موجودات کو ظاہر کرتے ہیں انہیں ” مشاعر ” کہتے ہیں ۔ وہ کلمات جو خیال کے لیے صاف آئینہ ہوں اور واضح شکل میں خیالات کو ظاہر کریں وہ ” شعر ” ہیں ۔ اسی بنا پر وزن و قافیہ کو بعض لوگوں نے شعر کی حقیقت سے خارج رکھا ہے اور اس میں شک نہیں کہ شعر کے یہ اجزا بھی نہیں ، بلکہ اس کے شرائط ہیں ۔ مثلاً :

اکہتر ، بہتر ، تہتر ، چوہتر
پچہتر ، چِھیتر ، ستتّر ، اٹہتّر

دیکھو اس میں وزن و قافیہ موجود ہیں ، لیکن اسے شعر کہنا کیا حماقت نہیں ؟
( مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت – معروف بہ الانھار ، ص : ٤ / ٥ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور )

شعر کے اجزا و لوازم و شرائط :

باعتبارِ حقیقت شعر کے دو اجزا ہیں ، دو لوازم ہیں اور دو شرائط ہیں ۔ محاکات و تخیل شعر کے اجزا ہیں ۔ اکثارِ الفاظ و مطالعۂ صحیفۂ کائنات اس کے لوازم ہیں اور وزن و قافیہ ، شرائط ہیں ۔

محاکات و تخیّل :

محاکات کے معنی نقالی ہیں یعنی جو واقعہ جس طرح دیکھا جائے یا سنا جائے یا جو اثر و کیفیت کہ دل پر گذرے ، اس کو اس طرح ادا کردیا جائے کہ غائب اسے سن کر اپنے کو حاضر سمجھنے لگے ۔ لیکن صرف اسی قدر شعر کے لیے کافی نہیں ہے ۔ مثلاً :

چشمانِ تو زیرِ ابروا نند
دندانِ تو جملہ دردہا نند

بلکہ محاکات کے ساتھ تخیّل کا انضمام ( شمولیت و شرکت ) بھی شعر کے لیے ضروری جز ہے ۔ تاکہ شعر تک بندی کا مصداق نہ ہو ۔
( ایضاً ، ص : ٥ / ٦ )

اکثارِ الفاظ و مطالعۂ صحیفۂ کائنات :

( شاعری میں ) تخیّل و محاکات اس وقت تک اپنا فرض پورا ادا نہیں کر سکتے ، جب تک ان کے ( شاعر ) پاس الفاظ کا کافی ذخیرہ نہ ہو ۔ تاکہ نازک سے نازک پہلو بھی واقعہ کا قلّتِ الفاظ کے سبب چھوٹ نہ جائے یا لطیف سے لطیف جذبہ صرف الفاظ کی کمیابی کی نذر ہو کر ظاہر ہونے سے رہ نہ جائے ۔جیسے کہ بَہار کا موسم جس نے دیکھا نہ ہو یا اس وقت جو سرور و مستی کہ دلوں پر چھا جاتی ہے ، اس سے لذت آشنا نہ ہو تو بَہار کے متعلق اس کی شاعری کیا ہوگی ، منہ چڑھانا ہوگا اور اگر لفظ کی بھی کمی ہو تو پھر بَہار کا نقشہ کھینچنا بالکل ہی نامکن ہو جائے گا ۔ پس حکایت (محاکات ) و تخیل کے لیے اکثارِ الفاظ ( یعنی الفاظ کی کثرت ) و مطالعۂ صحیفۂ کائنات شعر کے لوازم میں سے ہیں ۔
( مرجعِ سابق ، ص : ٦ / ٧ )

بلاغت کا مفہوم :

بلاغت یہ ہے کہ کلام وقت اور حال کے مطابق ہو ۔ انسان میں گوناگوں خیالات و جذبات پائے جاتے ہیں ۔ کبھی غم و غصہ ہے اور کبھی مسرت و مہربانی ۔ ایک وقت بیتابی و بیقراری ہے تو دوسرے وقت راحت و سکون ۔ کبھی مستی و مدہوشی ہے اور کبھی باخودی و ہوشیاری ۔ پس جس حالت و کیفیت کا بیان ہو ، کلام اگر اس میں اس طرح ڈوبا ہوا ہے کہ کہنے والا کہہ رہا ہے اور سننے والے کی آنکھوں کے سامنے اس کا نقشہ کھنچا جاتا ہے ۔ تفصیل کی جگہ وضاحت ہے اور اجمال کی جگہ اختصار ، تو وہ کلام بلیغ کہلائے گا اور اسی کو ” بلاغت ” کہتے ہیں ۔
( ایضاً ، ص : ٨ )

اصلیت اور جوشِ بیان کا مطلب :

اصلیت کے یہ معنی ہیں کہ جس چیز کا بیان ہو ، وہ باعتبارِ واقعہ یا شاعر کے عندیہ میں یا مخاطب کے عقیدے میں ویسا ہی ہو ، جیسا کہ اس کے الفاظ اس کو کہہ رہے ہیں اور اگر ( وہ کلام و بیان جو شاعر پیش کر رہا ہے ) ایسا نہیں ہے تو کلام کا اس قدر نقص اسے بے اثر بنا دے گا ۔
جوشِ بیان کے یہ معنی ہیں کہ شعر سن کر یہ اثر پیدا ہو کہ مضمون نے شاعر کو ( شعر کہنے پر ) مضطر کر دیا ہے ، شاعر از خود مضمون نہیں لایا ہے ۔ یہ وہ امورِ جزئیہ ہیں جن سے شعر کا آب و رنگ کھلتا ہے اور زبانوں سے نکل کر دلوں کو تڑپا دیتے ہیں ۔
( ایضاً ، ص : ١٠ )

سلاست و روانی :

” سلیمانی نثر ” کی سب سے بڑی ادبی خوبی جو ان کی جملہ تصانیف میں نمایاں نظر آتی ہے ، وہ سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی ہے ۔ یہ خوبی ، فصاحت و بلاغت سے پیدا ہوتی ہے ۔ سید سلیمان اشرف صاحب چوں کہ فصیح اللسان اور بلیغ البیان تھے ، اس لیے ان کی نثر میں جا بجا یہ ادبی خصوصیت ابھرے ہوئے نقوش کی طرف نمایاں ہے ۔ چند مثالیں نذرِ قارئین ہیں :

"ہندوستان سے جب مسلمانوں کی رہی سہی سلطنت بھی فنا ہو گئی تو دفعتاً ان کے قلب پر ایسا صدمہ پہنچا کہ دل و دماغ ماؤف ہو گئے ۔ عقل خیرہ ہو گئی اور حواس پراگندہ ۔ اس سراسیمگی میں انھیں قطعاً اس کا احساس نہ رہا کہ کس شے کو اخذ کرنا چاہیے اور کس چیز کو ترک کرنا چاہیے ۔ حیران و ششدر تھے ۔ قوتِ ممیّزہ بیکار ہو رہی تھی ۔ اسی بیہوشی میں بہت سے قابلِ ترک امور اختیار کر لیے گئے اور جنھیں کسی بھی حال میں ترک کرنا روا نہ ہو سکتا تھا ، انھیں قطعا چھوڑ بیٹھے ۔ انھیں فروگذاشتوں کی فہرست میں بہت جلی قلم اور نمایاں حروف میں علومِ اسلامیہ کا ترک بھی مندرج ہو گیا ۔ ”
( السبیل ، ص : ١٧ ، مسلم یونیورسیٹی انسٹی ٹیوٹ پریس ، علی گڑھ )

"تمدّن کا سب سے پہلا اصل ” حرّیت ” ہے ۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ جب تک انسان کو یہ حاصل نہیں ، ہر گز وہ تمدن کی راہ نہیں پا سکتا ۔ اسلام سے پیشتر دنیا جس تاریکی و بد بختی میں مبتلا تھی ، ان بد نصیبیوں میں پہلی بد نصیبی یہی تھی کہ آزادی کا شرف مفقود تھا اور غلامی کی ذلیل و خوار طوق و سلاسل میں جکڑ بند تھے ۔ ہر زبردست نے زیر دستوں کی شرافتِ حرّیہ جو ممتاز جوہر بنی نوعِ انساں کا ہے ، سلب کر کے انہیں اپنا بندہ بنا لیا تھا ۔ ہر ایک اہلِ دولت ، ہر ایک ذی حشمت بجائے خود : ” انا ربکم الاعلیٰ ” کا مدعی تھا اور دیگر ابنائے جنس اس کی پرستش میں مصروف تھے ۔ تمام شریف جذبات اس ذلیل و برباد کن محکومیت نے قوموں سے سلب کر لیے تھے ۔ ”
( البلاغ ، ص : ٩ – ١٠ ، مطبع احمدی ، علی گڑھ )

"اگر دفعِ مصائب کی طاقت مومنین کے دست و بازو میں نہ ہو تو ان کے مولی تبارک و تعالیٰ قادر مطلق کے حکم میں سب کچھ موجود ہے ، جس کا ظہور اس عالم میں بارہا ہوا ہے ۔ پس اس کی کوئی وجہ نہیں کہ ابتلاء و مصائب میں مسلمانوں کی جماعت سوائے حق سبحانہ کے کسی اور طرف اپنا رخ کرے ۔ مسلم ہستی کی زندگی کا محور ہر حال میں وہی ہونا چاہیے جو اس کے پیغمبرِ بر حق صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے ………………. ایک مسلم کی جد و جہد اور اس کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جس میں اللہ کے سوا کوئی اور بھی شریک ہو ۔ اسلام کا یہ وہ سعادت اندوز اصولِ عمل ہے جس نعمت سے بجز مسلمانوں کے سارے اہلِ مذاہب کا دامانِ عمل خالی ہے ۔ ”
( الرّشاد ، ص : ٣ ، مکتبہ رضویہ ، لاہور )

مندرجہ بالا اقتباسات میں سلاست و روانی کا جو ادبی حسن موجود ہے ، وہ اہلِ ذوق سے پوشیدہ نہیں ۔

صفائی و برجستگی :

نثر کا کمال اس کی سلاست و صفائی اور برجستگی و بے ساختگی میں ہے ۔ سید سلیمان اشرف کو نثر کی اس خوبی میں کمال حاصل تھا ۔ وہ دقیق سے دقیق اور خشک سے خشک موضوع کو بھی اپنی مہارتِ فن کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی صفائی و برجستگی کے ساتھ ادا کر دیتے ہیں ۔ چند اقتباس ملاحظہ کریں :

"عربی زبان کے ارتقا کا ایسا کمال جس سے آگے کسی رتبہ یا درجہ کا ہونا خیال میں بھی نہیں آ سکتا ، وہ ” اشتقاقِ کبیر ” ہے ۔ لیکن اس سے پہلے مختصر الفاظ میں ان مراحل و منازل کا بیان کر دینا ضروری ہے جو زبان کے متعلق محققین علمائے السنه نے اپنی تصانیف میں بیان کیے ہیں ، تاکہ واضح ہو جائے کہ اشتقاقِ کبیر ترقی کی ایک ایسی آخری منزل ہے جہاں پہنچ کر قوتِ وہمیہ بھی یہ تجویز نہیں کر سکتی کہ زبان کے کمال کے لیے اب اور کیا ہونا چاہیے ۔
( المبین ، ص : ٨٥ ، دار الاسلام ، لاہور )

عرب کی شاعری ہمیشہ اس عیب سے پاک و صاف رہی کہ اس کی فصاحت و بلاغت اور اس کا جوشِ بیان ، سلاطین و امراء کے خوف و طمع سے مرعوب و مرہون نہ رہا ۔ عربوں میں شاعری کی ابتدا رجز خوانی سے ہوئی اور یہ صنفِ کلام ، کمالاتِ ذاتی چاہتی ہے ، نہ ثنایائے ملوک و اہلِ دُول ۔ اس لیے شعرائے عرب کے قصائد ان کے محاسن و فضائل کے روشن آئینے ہیں ، جن میں جوہرِ ذاتی کے تمام خط و خال جھلک رہے ہیں اور ان پر یہ شعر صادق آ رہا ہے ۔

نے گلم ، نے بلبلم ، نے شمع ، نے پروانہ ام
عاشقِ حسنِ خودم ، بر حسنِ خود دیوانہ ام

( الانھار – مقدمہ مثنوی ہشت بہشت ، ص : ٢٦ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور )

مسلمانوں کی انتہائی بد نصیبی یہی ہے کہ یہ کسی غیر قوم کی طرف اس غرض سے بڑھتے ہیں کہ اپنی حیاتِ دنیا سنوارنے کا طریقہ اس سے سیکھیں گے ، لیکن اس سے پیشتر کہ ان وسائل و اسباب پر انھیں دسترس ہو ، دین و مذہب پہلے کھو بیٹھتے ہیں ۔ مسلمانوں کا ایک عہد عیسائیت کے ساتھ تعشق و شیفتگی کا تھا ۔ مسلمان ہمہ تن اس میں حلول و جذب ہو جانے کے لیے بیتاب تھے ۔ قوم کے لیڈروں نے اس وقت نہایت بلند آہنگی سے یہ صور پھونکا تھا کہ اگر با عزت و حرمت دنیا میں رہنا چاہتے ہو تو یورپ میں جذب ہو جاؤ ۔ مسلم ہستی بذات خود قائم ہو ہی نہیں سکتی ۔ اسلامی انداز جلد سے جلد چھوڑو اور یورپ کا اسلوب اختیار کرو ۔ پھر کیا تھا ! مسلمانوں کی شکل و صورت ، لباس و پوشاک ، طرز ماند و بود ، غرض ہر ایک شعبۂ حیات میں یورپ ہی کی تجلی تھی ۔ حتی کہ نام تک یورپین تلفظ و املا میں شامل کر لیا گیا ۔ ارکانِ اسلام سے بیگانہ وشی لوازمِ تہذیب و تعلیم قرار پائے ۔
( الرشاد ، ص : ١٩ ، مکتبہ رضویہ ، لاہور )

عربوں کی مکالمت ہو یا مراسلت ، مفاخرت ہو یا خطابت ، سب میں یہ رعایت بدرجۂ غایت پائی جاتی ہے کہ مختصر الفاظ میں ایک وسیع مطلب ادا کر دیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کا دماغ روشن ہے ۔ خیالات صاف ہیں ۔ فکر ان کی بلند اور رائے ان کی عمیق ہے ۔ قسّامِ ازل کی طرف سے انہیں زبان ایسی ملی ، جس میں گھلاوٹ ہے ، حلاوت ہے ۔ الفاظ جامع اور حاوی عطا ہوئے ۔ اب جو ان کے عالی خیالات فصیح الفاظ کے پیکر میں آ کر جملہ اور کلام کی صورت اختیار کرتے ہیں تو ان کا کلام ، کلام نہیں رہتا ، بلکہ وہ گوشت و پوست و استخواں سے درست ملکوتی روح پھونکی ہوئی صورتیں ہوتی ہیں ۔ عرب کا خطیب جس وقت تقریر کرتا ہے اور اس کے منہ سے مختصر مختصر مرصع جملے نکل کر جب ہوا کی موجوں میں پھیلتے ہیں تو آبِ حیات کی نہروں کی روانی کا مزہ آ جاتا ہے ۔
( المبین ، ص : ٧٤ ، دار الاسلام ، لاہور )

مرقع نگاری :

سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی پر مشتمل ” مرقع نگاری ” کی ایک اچھوتی مثال یہ بھی ملاحظہ کریں :

"صدرِ مجلس عالی جناب مسیح الملک حافظ محمد اجمل خاں صاحب سے فقیر ذاتی طور پر شرف نیاز مندی رکھتا ہے ، اس لیے یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ اس طرح کی تحریف ہرگز مسیح الملک کے قلم سے نہیں ہو سکتی ۔ پس ایک وہ ذات جو مسلمانوں میں اس وقت متفرد ہو ، جس کی زبردست شخصیت ، عالمانہ قابلیت ، سنجیدگی و پختگیِ اخلاق ، جس کی ذکاوت و فطانت ، جس کی شفقت علی الخلق ، جس کی ہمدردیِ بنی نوعِ انساں اباً عن جدٍ ہر ایک کو تسلیم ہو ، وہ ایسی خفیف و رکیک حرکت کرے کہ کسی شخص کے کلام میں کچھ بڑھا دے یا گھٹا دے اور اس کمی و بیشی سے اپنے حسبِ دل خواہ استدلال کر کے اپنا مدعا حاصل کرے ۔ حاشا و کلا ہرگز نہیں !!”
( الرشاد ، ص : ٢٨ ، مکتبہ رضویہ ، لاہور )

مقصدیت اور مدعا نگاری :

سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ صوبۂ بِہار سے تعلق رکھنے والے بیسویں صدی ( نصفِ اول ) کے قابل قدر مصنفین ، صفِ اول کے ادبا اور باکمال نثر نگاروں میں سے ایک تھے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ سید سلیمان ندوی ، سید مناظر احسن گیلانی اور سید سلیمان اشرف بہاری ، سادات گھرانے سے تعلق رکھنے والے یہ تینوں حضرات ہم وطن ( پٹنہ اور اس کے قرب و جوار کا علاقہ – گیلان ، دیسنہ ، بہار شریف ) اور ہم عصر تھے ۔ علمی ، ادبی اور تحریری و قلمی دنیا میں تینوں کے نام کا ڈنکا بجتا تھا ۔ علم و ادب اور تصنیف و تالیف کے ساتھ سید سلیمان اشرف میدانِ خطابت کے بھی شہ سوار تھے ۔ دینی علوم کے ساتھ ادبیات میں بھی ان کا پایہ بلند تھا ۔ انہیں ” شاہنامۂ ادب و تحقیق ” کا ” فردوسی ” کہنا بجا ہوگا ۔ اور خالص علمی و ادبی نثر لکھنے والے ایک ممتاز صاحبِ قلم ہونے کی حیثیت سے ان کی ذات اور ان کے تحریری اسلوب کو ” فسانۂ عجائب ” کہنا خالی از مبالغہ ہوگا ۔ المبین اور ” مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت – معروف بہ الانھار ” مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، آپ کو موصوف کی علمی ، ادبی ، تحقیقی اور تنقیدی مہارت کا اندازہ ہوجائے گا اور ہمارا دعویٰ آپ کو مبنی بر صداقت محسوس ہوگا ۔ ساحر البیانی ، منفرد طرزِ تحریر اور اپنے قلمِ اعجاز رقم سے انہوں نے تحقیق اور سیاست جیسے خشک موضوعات میں بھی ادب کی چاشنی گھول دی ہے ۔

سلیمانی نثر کی ایک نمایاں خصوصیت ” مدعا نگاری اور ” مقصدیت کا اظہار ” ہے ۔ وہ اپنے سامنے زندگی کا ایک واضح اور متعین تصور رکھتے تھے اور وہ ہے دین و دانش کی ترویج و اشاعت ، قومِ مسلم کی ہدایت و اصلاح ، اسلامی اقدار و روایات کا فروغ و استحکام اور انسانی افکار و خیالات میں انقلاب برپانے کی سعیِ جمیل ۔ وہ جس موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں مذکورہ مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں اور ان سے سرِ مو تجاوز نہیں کرتے ۔ وہ تادمِ حیات قوم مسلم کو اسلام کے اصول و قوانین کے مطابق زندگی کا نقشہ مرتب کرنے اور اس میں اعمالِ حسنہ کا رنگ بھرنے کی تعلیم و تلقین کرتے رہے ۔ اصلاحِ فکر و عمل ان کی داعیانہ زندگی اور قلمی نگارشات کا ماحصل ہے ۔ قرآن مقدس نے جو انسان کی زندگی کا مقصد ” عبادت ” قرار دیا ہے ، علامہ موصوف ہمیشہ اپنی تحریر و تقریر سے بندگانِ خدا میں جذبۂ عبادت و اطاعت بیدار کر کے انہیں دین و مذہب میں جذب کرنے کی شعوری کوشش کرتے رہے ۔ مقصدیت سے لبریز موصوف کا یہ اندازِ تحریر دیکھیں :

تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب دنیا میں علومِ عقلیہ کے ساتھ لوگوں نے حد سے زائد غلو پیدا کیا تو وہ عبادت میں غافل و متہاون ہوگئے ۔ لیکن اس دورِ ایام کو کیا کہیے کہ ایک طرف تو جہالت کی گھٹا چھائی ہوئی ہے ، دوسری طرف تدین سے دامانِ عمل خالی ہے ۔ عامۂ مسلمین کی حالت کا اندازہ کر جاؤ تو خود معلوم ہوجائے گا کہ ہم راہِ مستقیم سے کس قدر منحرف ہوگئے ہیں ۔ مساجد ہیں ، لیکن نمازی نہیں ۔ قرآن کی جلدیں متعدد ہیں ، لیکن تلاوت نصیب نہیں ۔ تجوید و عربی لحن سے قرآن پڑھنا آتا ہے ، لیکن اس پر عمل کی توفیق نہیں ۔ عبادتیں ویران ، معاملات تباہ ، تعلقات پراگندہ ، اخلاق ردّی ۔ پھر بھلائی کی کیا امید کی جا سکتی ہے !! اصلاحِ قوم کے لیے کوئی تجارت کی رغبت دلاتا ہے ۔ کوئی علومِ مغربی کے سحر آفریں فضائل سناتا ہے ۔ کوئی علومِ مشرقی کی ہدایت کرتا ہے ۔ کوئی صنعت و حرفت کی طرف مائل کرتا ہے ۔ لیکن خدا تو یہ فرماتا ہے کہ تم میرے مطیع ہوجاؤ ، پھر سب چیزیں تمہاری تابعِ فرمان ہو جائیں گی ۔

تو ہم گردن از حکمِ داور مپیچ
کہ گردن نہ پیچد ز حکمِ تو ہیچ

تم اللہ عز وجل کے ہوجاؤ ، تمام چیزیں تمہاری ہوجائیں گی ۔ تم اللہ سے پھر جاؤگے ، تمام نعمتیں تم سے منہ موڑ لیں گی ۔
( الخطاب ، ص : ٢٣ / ٢٤ ، انسٹی ٹیوٹ پریس ، علی گڑھ )

اللہ رب العزت نے موصوف کو بے پناہ علمی و ادبی صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔ سیال قلم کے مالک تھے ۔ اگر وہ چاہتے تو منظم طریقے سے ادب و شاعری اور تحقیق و تنقید کے میدان میں اتر کر سینکڑوں ادبی و تحقیقی شہ پارے یادگار چھوڑ سکتے تھے ، لیکن ادب سے زیادہ انہیں دین و مذہب عزیز تھا ۔ قوم و ملت کی فکر دامن گیر تھی ۔ اصلاحِ معاشرہ اور نئی نسلوں کی تعلیم کا خیال تھا ۔ بایں ہمہ ادب و تحقیق اور لسانیات و تحقیق کی جو قابلِ قدر خدمت انجام دی ، وہ مختصر سہی ، لیکن جامعیت کی حامل ہے اور ” بقامت کہتر ، بہ قیمت بہتر ” کی مصداق ہے ۔ علامہ سید سلیمان اشرف مرحوم کی تحریری سرگرمیاں ” اسلامی ادب ” کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ ان کی اکثر کتابیں ملی درد سے لبریز ، قومی خیر خواہی پر مشتمل اور دینی اقدار کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور ان کی ہر ایک تحریر امت مسلمہ کو دین و مذہب کے رنگ میں رنگ جانے کی تعلیم دیتی ہے ۔ درد و سوز میں ڈوبا ہوا یہ لہجہ ملاحظہ کریں :

"میرے دوستو ! فقیر اپنی گذارش ختم کرتا ہے اور پھر تمہیں نہایت عاجزانہ و مخلصانہ یہی صلاح دیتا ہے کہ کسی غیر مذہب میں جذب ہونے سے اپنے کو محفوظ رکھو ۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة . تمہارے لیے بہترین نمونہ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات میں موجود ہے ۔ سوائے اس تاج دار دوعالم کے کسی کا مطیع اور متبع ہونا قوم مسلم کے سزاوار نہیں ۔ عیسائیوں کی غلامی سے جو مدتوں بعد گردنوں کو خلاصی ملی ہے تو اب اس میں کفر و شرک کا پھندا نہ ڈالو ۔ فرّ من المطر ، قرّ تحت المیزاب . بارش سے بھاگنا اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہونا ، کون سی دانائی ہے ۔ تعصب و نفسانیت کو راہ نہ دو ۔ میں گمنام و بے نوا فقیر ہوں ، لیکن حق میرے ساتھ ہے ……….. مسلمانو ! تم دین و مذہب کو اپنی آرزو اور تمنا کا سپر نہ بناؤ ، بلکہ اپنی تمنا ، اپنی آرزو اور اپنی خواہش کو دین کے موافق اور شریعت کے مطابق بناؤ ۔ اسی میں سعادت ہے اور اسی میں فلاح ۔ واللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم ۔ ”
( الرشاد ، ص : ٣٢ )

خلاصۂ کلام یہ کہ ہم جس ادبی زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں علامہ سید سلیمان اشرف ایک باکمال ادیب اور مایۂ ناز نثر نگار کی حیثیت سے نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے نہایت خلوص کے ساتھ اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دی ہے ۔ تدوینِ متن ، تاریخ و لسانیات اور خالص علمی تحقیق اور فنی تنقید کے بیش بہا کارنامے انجام دیے ہیں ۔ لہٰذا ان کی تحریروں کی ادبی قدر و قیمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ادبی طبقہ ان کی ادبی و نثری خدمات کا فراخ دلی سے اظہار و اعتراف کرے اور ان کے نثری کارناموں کی ادبی قدر و قیمت متعین کرے.

مقالہ نگار کے بارے میں:
محمد طفیل احمد مصباحی ، ساکن سبحان پور کٹوریہ ، ضلع بانکا ، بہار
جامعہ اشرفیہ، مبارک پور سے فراغت کے فوراً بعد جون 2009ء سے "ماہنامہ اشرفیہ” کے سب ایڈیٹر( نو سال تک)

مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابیں:
(1) موبائل فون کے ضروری مسائل
(2) ملّا احمد جیون امیٹھوی : حیات و خدمات
(3) قربانی صرف تین دن
(4) تذکرہ سرکار شبلی باڑی
(5) تذکرہ حضرت مفتی ظل الرحمٰن بھاگل پوری
(6) ضعیف اور موضوع حدیث کا علمی و فنی جائزہ (ترجمہ)
(7) حیات انبیاء ۔۔۔۔۔(ترجمہ)
(8) نقشِ دوام ( ترجمہ فارسی رسالہ فیض عام )
(9) تذکرہ شعرائے بھاگلپور(صفحات : 500)
(10) بھاگل پور کے نعت گو شعراء ( صفحات : 275)
(10) چالیس احادیث قدسیہ
(11) حرفِ مدحت ( نعتیہ مجموعہ)
(12) منیر الایمان فی فضائل شعبان معروف بہ ” شبِ براءت کے فضائل و معمولات” حصہ اول و دوم ( تحقیق و تخریج و تحشیہ)
(13) منازلِ آخرت( ترتیب و تدوین )
(14) گلستانِ بھارت یعنی سونے کی چڑیا
( حضرت علامہ شرف الدین شرف بھاگلپوری علیہ الرحمہ کے مجموعہ کلام کی تدوین و اشاعت)
(15) نزھت المقال فی لحیت الرجال یعنی داڑھی کی شرعی حیثیت ( تحقیق و تخریج )
(16) الاجازہ بعد صلات الجنازہ :نماز جنازہ کے بعد دعا کا حکم ( تحقیق و تخریج)
(17) مسئلہ حاضر و ناظر( تحقیق و تخریج )
(18) علامہ سیّد سلیمان اشرف بہاری : تاثرات کے آئینے میں
(19) حافظِ ملّت: ارباب علم و دانش کی نظر میں
(20) مناقبِ حافظ ملت (ترتیب و تدوین )
(21) بقرعید کے فضائل و مسائل( تحقیق و تخریج)
(22) فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفینِ بہار

ان کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب و رسائل زیر ترتیب ہیں اور بہت جلد تکمیل و اشاعت کے مراحل سے گذر کر قارئین کے ہاتھوں پہنچنے والے ہیں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ

(1) تذکرہ محدّثینِ بِہار
(2) علامہ سیّد سلیمان اشرف بہاری : حیات و خدمات
( گذشتہ ساٹھ سال کے عرصے میں لکھے گئے مختلف اہل علم و قلم کے مضامین و مقالات کا گراں قدر مجموعہ جو تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے)
(3) علامہ محمد سلیمان اشرفی بھاگل پوری علیہ الرحمہ
(4) خانقاہ نوّابیہ عزیزیہ کی شعری وادبی خدمات
(5) رسائلِ سہیل
( خلیفہء مفتی اعظم ہند حضرت علامہ حافظ و قاری محمد سہیل احمد رضوی نعیمی بھاگل پوری علیہ الرحمہ کے آٹھ رسائل کا مجموعہ تحقیق و تخریج کے ساتھ )
(6) نگارشاتِ ادب (ادبی مضامین کا مجموعہ)
(8) کنز الایمان میں اردو محاورات کا استعمال
(9) حرفِ ثنا(مجموعہء مناقب)
(10) آبشارِ فکر ( مجموعہء غزلیات)
(11) مقالاتِ احمد ( مختلف دینی ، علمی ،سوانحی اور تحقیقی موضوعات پر ایک سو سے زائد مضامین و مقالات کا مجموعہ)

تین مجموعہ ہائے کلام: پہلا نعتیہ مجموعہ ” حرفِ مدحت "شائع شدہ.
” حرفِ ثنا” اور غزلیہ مجموعہ ” آبشارِ فکر” ترتیب و اشاعت کے مرحلے سے گذر رہے ہیں ۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے