غزل (راغب کلیم)

غزل (راغب کلیم)

کتنا حسین مجھ پہ ستم ڈھارہے ہیں آپ
غم دیکھ دیکھ کے مرا مسکا رہے ہیں آپ
غیروں کا راز ایک امانت کی چیز ہے
کیوں مجھ سے بات راز کی بتلا رہے ہیں آپ
کٹتی ہے یہ زبان تو کٹ جائے غم نہیں
کیوں حق بیان کرنے سے کترا رہے ہیں آپ
آۓ ہمارے پاس بڑی مدتوں کے بعد
تھوڑی ہی دیر میں یہ کہاں جارہے ہیں آپ
رب نے حقیر پانی سے بخشا وجود ہے
کس بات کا غرور ہے اترا رہے ہیں آپ
رب کا کرم ہے آپ پہ راغب بہت بڑا
حاسد کے شر سے بچتے چلے جارہے ہیں آپ

شاعر کا تعارف:
پورا نام۔ حافظ افتخار احمد محمد کلیم
تخلص۔ راغب
شعری نام۔ راغب کلیم
تاریخ پیدائش:

٢مئ ٢٠٠٢
آبائی مکان:
گاؤں کا نام پپرا
پوسٹ چاکر چوڑا
ضلع کپل وستو۔ نیپال
خاندان:
والد کا نام .. محمد کلیم
دادا کا نام۔ محمد یونس
والدہ کا نام..صالحہ خاتون
تعلیم:
ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب سے شروع ہوگئی.
والدہ کا تعلیم و تربیت میں بہت بڑا کردار رہا.
یہاں درجہ سوم کی تعلیم مکمل کرکے.
جامعہ التوحید بجوا کپل وستو نیپال میں درجہ پنجم تک تعلیم حاصل کی.
پھر ٢٢ بارے وہیں پر قرآن حفظ کیے.
اور بقیہ آٹھ پارے الحمدللہ ایک مہینے میں جامعہ اسلامیہ سنابل نئ دہلی کی شاخ معہد عثمان بن عفان میں مکمل کرکے
حفظ قرآن کی سند حاصل کی.
پھر اس کے بعد جامعہ اسلامیہ سنابل نئ دہلی میں اولی متوسطہ میں داخلہ لیا اور فی الحال پانچویں جماعت میں جامعہ اسلامیہ سنابل نئ میں ہی زیر تعلیم ہیں.
شعری مجموعہ:
زیر ترتیب ہے

مزید نمونہ کلام:
سانپ روز ڈستے ہیں سادگی کے پردے میں
آدمی ہی دشمن ہے آدمی کے پردے میں
ظلم کی حکومت ہے ہر طرف، کہیں کس سے؟
ظلم لوگ کرتے ہیں منصفی کے پردے میں
رہزنوں کی فطرت میں روپ ہی بدلنا ہے
قافلے کو لوٹا ہے رہبری کے پردے میں
میٹھی میٹھی باتوں سے کھیلتے رہے دل سے
کتنے بے وفا نکلے عاشقی کے پردے میں
دشمنوں کی چالیں تو کچھ سمجھ میں آتی ہیں
دوست آج دشمن ہے دوستی کے پردے میں
زندگی کی یہ الجھن چین کیا ہمیں دے گی
ہر طرف اندھیرا ہے روشنی کے پردے میں
آج کل عبادت میں بھی فریب ہے راغب
ہے بڑی ریاکاری بندگی کے پردے میں
…….
بیج نفرت کا سدا بویا کیا کچھ بھی نہیں
ان کو مفہوم محبت کا پتہ کچھ بھی نہیں
زخم خنجر کا تو بھر جاتا ہے رفتہ رفتہ
زخم تونے جو دیا اس کی دوا کچھ بھی نہیں
رحم مادر میں وہی ذات غذا دیتی ہے
حیف ہے اس پہ جو کہتا ہے خدا کچھ بھی نہیں
جو گنہگار ہے آزاد کھلا پھرتا ہے
"اس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں”
کس کی تقلید ہے اللہ رحم کر ان پر
تن پہ موجود تو کپڑا ہے ڈھکا کچھ بھی نہیں
کیسے ایمان سمیہ کا سمجھ پاؤگے
تم نے ایماں کی حلاوت کو چکھا کچھ بھی نہیں
نو مہینے تمہیں جس ماں نے شکم میں رکھا
دل دکھا کر یہی کہتے ہو کیا کچھ بھی نہیں
دوسروں تک بھی تو اس علم کو پہنچا راغب
پھول خوشبو نہ بکھیرے تو مزہ کچھ بھی نہیں
……
مے کدے سے ذرا نکال ہمیں
ساقیا،ہم گرے سنبھال ہمیں
ہم تو اللہ کے ہی بندے ہیں
مت سمجھ اپنا ہم خیال ہمیں
رب ہی دیتا ہے عزت و ذلت
تو حقارت سے مت اچھال ہمیں
یا الٰہی! ہم ایک ہوجائیں
کر عطا ایسا کچھ کمال ہمیں
گردشِ وقت نے بہت راغب
کردیا زخم سے نڈھال ہمیں

شیئر کیجیے

4 thoughts on “غزل (راغب کلیم)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے