شعیب سراج

شعیب سراج

صدیوں سے جن غموں کو کمائے ہوئے ہیں ہم
شعروں میں رکھ کے ان کو لٹائے ہوئے ہیں ہم

ٹھکرا دیا وہ جام جو مسکا کے نے ملا
یارو! خودی کو ایسے بچائے ہوئے ہیں ہم

وعدہ وفا کا کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں
وحشت کو اپنے گھر میں بسائے ہوئے ہیں ہم

"نادان ہے رفیق” یہ کہہ کر کے آج تک
خود کو ہی بے وقوف بنائے ہوئے ہیں ہم

آیا نہیں ہے ایسے سخن گوئی کا ہنر
استاد فن کے پاؤں دبائے ہوئے ہیں ہم

عہد وفا کا پاس نہیں ہے انہیں ذرا
اور شرم سے جبیں کو جھکائے ہوئے ہیں ہم

آئے ہیں وہ پڑوس میں اور باغ کی طرح
گھر کو سراج اپنے سجائے ہوئے ہیں ہم

 

شعیب سراج کی پچھلی غزل:

 غزل (محنت کا صلہ مجھ کو ملا اور ہی کچھ ہے )

شیئر کیجیے

2 thoughts on “شعیب سراج

  1. شعیب معراج کی شاعری میں کلاسیکی رکھ رکھاؤ کی جھلک نظر آتی ہے. امید ہے کہ نےء لب و لہجہ کی آمیزش بھی آئندہ برتنے کا اہتمام کرینگے. میری طرف سے نیک خواہشات.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے